امریکا جیسے ملک کو سجانے سنوارنے اور بامِ عروج پر فروزاں کرنے کا کریڈٹ کسی ایک مذہب‘ قوم یا نسل کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سب کی مشترکہ کاوش و کوشش تھی۔ امریکا کو ’یکساں مواقع کی سرزمین‘ (land of equal opportunities) کہا جاتا رہا ہے۔ جہاں انسانوں کی قدر ان کے مذہبی و لسانی پس منظر کے بجاے ان کی قابلیت‘ ہنر اور محنت سے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکا کے ہر حصے میں دنیا کے ہر حصے کا باشندہ اپنے حصے کا رزق سمیٹتا نظر آئے گا۔ تھامس جیفرسن کے دورِ صدارت میں جب امریکی کانگرس نے تارکینِ وطن کے لیے قوانین کو آسان اور نرم کرنے کی منظوری دی تو اس بل کے ناقدین نے بہت شوروغوغا کیا جس پر صدر ریاست ہاے متحدہ امریکا کے یہ الفاظ آج امریکا کے مقتدر حلقوں کے لیے سوالیہ نشان ہیں جہاں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے:
we are for their skills, not for their skins.
امریکا کی ایک معتبر مسلم آرگنائزیشن کے مرکزی ذمہ دار سے جب میں نے یہ سوال پوچھا کہ مسلمانوں کے ساتھ تفریق و امتیاز اور تعصب وعناد کی یہ لہر اگر قابو میں نہ آئی تو کیا یہ خود اس ریاست کے وجود کے لیے باعث خطرہ نہ ہوگا جس نے اپنی نَیوہی غیر جانب داری‘ انصاف‘ عدل اور سب کے یکساں مواقع پر ڈالی تھی؟
نئے عالمی نظام یا تہذیبوں کے تصادم کی پشت پر کارفرما ذہن اور امریکا کی اصل ہیئت مقتدرہ عشروں کے تقابل‘ تجزیے اور تحقیق کے بعد اس بات پر یکسو ہوگئی ہے کہ مسلمان وہ واحد قوم‘ اور اسلام وہ واحد نظریہ ہے جوہر طرح کے معاشروں‘ تہذیبوں اور نظام میں جذب ہونے سے اپنے آپ کو حتی الوسع بچائے رکھتا ہے جو کسی بھی رائج نظام کی بقا اور دوام کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔ اس لیے تاریخی‘ مذہبی‘ تہذیبی اور معاشی اختلافات کی وہ لَے جو ہمیشہ سے زیرزمین (under current)موجود رہی ہے‘ اب اسے ابھار کر سامنے لایا جا رہا ہے تاکہ منصوبے کے مطابق اس کش مکش کو تیز کیا جا سکے۔ ویسے بھی یہ ذہن اب اس رائے میں پختہ ہوچکا ہے کہ ادیان اور تہذیبوں کے درمیان عالمی سطح پر مذاکرے‘ مباحثے اور بالادست و زیردست کرنے کا جو عمل صدیوں سے علمی و تدریسی سطح پر جاری رہا ہے‘ اب دنیا اس کے خاتمے اور کھلی مزاحمت کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر فوج کشی‘ بے انصافی کی آخری حد تک جاکر اسرائیل کی پشت پناہی‘ اور دنیا میں ہونے والی ہر نوعیت کی تخریب اور زیادتی کو اسلام سے وابستہ کرنے کا امریکی طرزعمل‘ کیا اس چیز کی توثیق نہیں کرتا۔
چندسال قبل ہی کی بات ہے جب ویٹی کن (روم) نے یہودیوں کو حضرت عیسٰی ؑکے قتل سے ’باعزت‘ بری کر دیا۔ عیسائی اور یہودیوں کی قربت کے پس منظر میں کچھ حلقے یہ خیال آرائی بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ معروف عیسائی عقیدے اور قدیم کتب کے مطابق نزول مسیح سے قبل یہودی پوری دنیا پر غالب آئیں گے۔ گویا اس طرح اب یہودی ریاست کا قیام عیسائیوں کی بھی ایک تاریخی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کا ایوینجلیکل چرچ ۵۰ کے عشرے سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کے ساتھ مالی تعاون کر رہا ہے تاکہ تاریخ کے اس عمل کو تیز کیا جا سکے۔ یہودیوں کا امریکی اداروں‘ مالی کارپوریشنوں اور سیاست میں اثرونفوذ اب کسی تحقیق کا محتاج نہیں۔ گذشتہ دنوں میساچیوسٹس کی ایک معروف درس گاہ میں لیکچر دیتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے معروف کالم نگار تھامس ایل فرائڈمین نے اظہار خیال کیا کہ ’’میری دعا ہے کہ امریکا ہمیشہ تیل کا محتاج رہے ۔اس لیے کہ اس دولت نے عرب قوم کو جس طرح ناکارہ‘ آرام پسند اور کاہل بنایا ہے میں اس انجام سے ڈرتا ہوں‘‘۔ آپ لوگ عرب دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں عوام الناس اِدھر اُدھر (فارغ و بے کار) بیٹھے نظر آئیں گے۔ اس نے دنیا بھر سے علم کے لیے امریکی دانش گاہوں کا رخ کرنے والے طلبہ و اساتذہ کو گواہ بناتے ہوئے عربوں کو تنبیہہ کی کہ:
Keep the (oil) pumps open, keep the prices low and 'be nice to the jews'.
تیل کے چشمے جاری رکھو‘ قیمت کم رکھو اور یہودیوں سے اچھا سلوک کرو۔ (اس جملے کا آخری حصہ موصوف نے فنکارانہ سرگوشی کے انداز میں ادا کیا)
امریکا کے طول و عرض میں مسلم تنظیمیں اپنی بساط بھرسیاسی و معاشرتی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں سیکڑوں مساجد اور اسلامک سنٹروں کی ایک معتدبہ تعداد تہذیبی احیا اور تحفظِ اقدار کے جذبے کے ساتھ مصروفِ عمل ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کے ان مظاہر کا اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں‘ اس کے باوجود امریکی ادارے اور نت نئے قانون ان اداروں کے منتظمین اور معاونین کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ امریکی میڈیا اور اس کے رخ کو متعین کرنے والا ذہن کس قدر مؤثر اور ہدف آشنا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ راے عامہ کے ایک سروے کے مطابق ہر چوتھا امریکی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی اکثریت (ذاتی مشاہدے اور رابطے کی حد تک) واپسی کے دروازے کو کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلمان ملکوں کے معاشی‘ سیاسی اور انتظامی حالات انھیں اپنے اس فیصلے پر قائم نہیں رہنے دیتے۔
کیا امریکا وہی خطہ ہے جس نے ہر مذہب‘ ملک اور رنگ کے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے‘ تو اس کا جواب ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد نفی میں نظر آیا ہے۔سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے حال ہی میں منظور ہونے والے قوانین نے مسلمانوں کی بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پبلک اسکول اور آزاد معاشرے میں پلتی بڑھتی نوجوان نسل کی اپنی دیرینہ روایتی اقدار سے بے نیازی یا بیزاری اس پر مستزاد ہے جس نے ۷۰‘ ۸۰‘ ۹۰ کے عشروں میں امریکا میں آکر بس جانے والوں کو مزید اضطراب اور تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بہرحال محض معاش کی خاطر امریکا میں وارد ہونے والے ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی سوچ کے گرداب میں ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو صلابت فکر‘اجتماعی جدوجہد اور خوداعتمادی کے خوگر ہیں۔
ایک صاحبِ علم کی رائے کے مطابق یہودی سازش‘ ریاستی حکمت عملی اور اُمت مسلمہ میں قیادت کا قحط الرجال اپنی جگہ‘ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال ان کے دعوتی کردار سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ مسلمان امریکا کے طول و عرض میں آباد ہونے کے باوجود اپنی اپنی قومی و ریاستی وحدتوں کے اسیر رہے۔ ان کے سماجی تعلقات‘ رشتہ داریاں‘ تبادلۂ خیالات سبھی ایک مخصوص دائرے سے باہر نہ نکل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج سیاسی و سماجی تنہائی (political and social alienation)کا شکار ہیں۔ مسلم تنظیمیں توبہت دیر سے معرضِ وجود میں آئیں ہیں پھر وہ بھی ان حدود سے بالاتر نہ ہوسکیں‘ جب کہ اس دوران چینی‘ انڈین اورہسپانوی اقوام کے لوگ اس خلا کو پُرکرتے چلے گئے جو معیشت‘ سیاست اور ذرائع ابلاغ کے دائروں میں کبھی مسلمانوں کا منتظرتھا۔
سمندر کی وسعت رکھنے والی جھیل مشی گن کے اُوپر پرواز کرنے والے طیارے سے شکاگو شہر کا دلفریب فضائی منظر دیکھتے ہوئے میں نے تسلیم کیا کہ امریکی زندگی کا ظاہری حسن انتظام اور نظم نسق جاننے کے لیے برسرِزمین ہونا ضروری نہیں‘ فضا سے ہی اس کا اندازہ ہوجاتاہے۔ کیا انسانوں کی سہولت‘ آسایش اور آرام کے لیے حیرت زدہ کرشمے برپا کرنے والی مادی تہذیب اور معاشرے کے مقدر میں وہی بڑی ہلاکت اور تباہی ہے جو مغرور قوموں اور سرکش انسانوں کے لیے لکھ دی گئی ہے‘ یا ابھی وہ وقت آنا ابھی باقی ہے جب بندگانِ سیم و زر کو مسخر کر کے ایک نئی تہذیب کی بنا استوار کی جانے والی ہے۔ یہ سوال اسلامی تحریکوں‘ اس کے ذمہ داران اور دین کے غلبے کی تڑپ رکھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے اور کر گزرنے پر متوجہ کرتا ہے!