استاذ علی طنطاویؒ


ترجمہ: محمد اجتبٰی ندوی

ہمارے بارے میں ملک شام اور اس کے چمن زاروں سے پوچھو‘ اور اس کے زرخیز و شاداب باغات و زمینوں سے دریافت کرو‘ اندلس اور اس کے گلستانوں و مرغزاروں‘ مصر اور اس کی وادیوں‘ جزیرئہ عرب اور اس کی وسعتوں‘ دنیا اور دنیا والوں سے معلوم کرلو‘ افریقہ اور اس کے میدانوں‘ عجم کی سرسبز مٹی‘ قفقاس کی بلند چوٹیوں‘ گنگا کے کناروں‘ لوار کے ساحلوں‘ ڈینیوب کی وادیوں سے پوچھ لو اور ’’زمین‘‘ کی ہر سرزمین‘ اور زیرآسمان بسنے والے ہر متنفس سے معلوم کرلو‘ ان سب کو ہماری   جاں بازیوں‘ جواں مردیوں‘ قربانیوں‘ لائق ستایش و قابلِ فخر علم و فن کے کارناموںکی  خبر ہے___ ہم مسلمان ہیں!

ہم مسلمان!

کیا شرافت و کامرانی کے باغیچوں کی ہمارے خون سے آبیاری نہیں ہوئی؟ کیا شجاعت و بہادری کے خیابانوں کو ہمارے شہیدوں نے آراستہ نہیں کیا؟ کیا دنیا نے ہم سے زیادہ فراخ دل‘ بردبار‘ کرم گستر‘ ہم سے زیادہ نرم مزاج‘ محبت و شفقت و رحم کرنے والا‘ اور ہم سے زیادہ اعلیٰ‘    برتر وعظیم ترقی یافتہ‘ علم دوست اور باخبر قوم کبھی کہیں‘ دیکھی ہے!

ہم ہی نے ہدایت نما‘ مشعل نور اور روشنی کا مینار ایستادہ کیا۔ جب انسانی بستی جہالت و ناخواندگی کی تاریکیوں اور گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی‘ ہم نے اس زمین کے باسیوں سے کہا: دیکھو‘ راستہ یہ ہے!

ہم ہی نے اس وقت عدل و انصاف قائم کیا‘ جب کہ ہر قوم نے ظلم وسرکشی کا علم بلند کیا۔ ہم ہی نے علم و دانش کدے تعمیر کیے‘ جب کہ لوگوں نے اِسے شہرپناہ سے باہر کر دیا۔ ہم ہی نے سماجی برابری اور مساوات کا اعلان کیا‘ جب کہ نوعِ انسانی اپنے بادشاہوں کے سامنے سجدہ ریز اور اپنے آقائوں کو دیوتا بنائے ہوئے تھی۔

ہم نے ایمان کی حرارت سے دلوں میں زندگی دوڑا دی‘ اور نورِ علم سے عقل کو روشن کیا‘ اور عالمِ انسانی کو آزادی و تہذیب‘ ترقی و کامرانی کی راہ دکھائی۔

ہم مسلمان!

ہم ہی نے کوفہ ‘ بصرہ‘ قاہرہ اور بغداد کی تعمیر کی۔ ہم ہی نے شام‘ عراق‘ مصر و اندلس کی تہذیب کو جنم دیا۔ ہم ہیں جنھوں نے بیت الحکمۃ‘ مدرسۂ نظامیہ‘ قرطبہ یونی ورسٹی اور جامعہ ازہر قائم کیے۔ ہم ہی نے مسجد اموی‘ گنبد صخرہ‘ سرمن رأی (سامرہ) زہرا‘ الحمرا‘ مسجد سلطان احمد اور تاج محل بنایا۔

ہم ہی نے دنیا کے باشندوں کو علم آشنا کیا ___ہم معلم تھے اور سارے لوگ طالب علم۔

ہم مسلمان!

ابوبکر‘ عمر‘ نورالدین‘ صلاح الدین اور اورنگ زیب ہماری ہی قوم کے افراد تھے۔ خالد‘ طارق‘ قتیبہ‘ ابن قاسم اور ملک ظاہر ہمارے تھے۔

بخاری‘ طبری‘ ابن تیمیہ‘ ابن قیم‘ ابن حزم اور ابن خلدون ہمیں میں سے تھے۔ غزالی‘ ابن رشد‘ ابن سینا اور رازی ہمارے ہی دانشور تھے۔ خلیل‘ جاحظ اور ابوحیان کا تعلق ہمیں سے تھا۔ ابوتمام‘ متنبی اور معری ہماری ہی اُمت کے ممتاز شاعر تھے۔ معبد‘ اسحاق و اریاب بھی ہمیں سے وابستہ تھے۔

ہمارا ہر سربراہ و خلیفہ اعلیٰ انسانی کردار کا مثالی نمونہ تھا۔ ہر سپہ سالار اللہ کی تلواروں میں سے ایک برہنہ تلوار تھا۔ ہر عالِم‘ دنیاے انسانیت کے لیے جسم میں عقل کے مانند تھا۔ ہم ہی میں لاکھوں عظیم و برتر انسان تھے۔

ہم مسلمان!

ہماری توانائی‘ ہمارا ایمان تھا۔ ہماری عزت‘ ہمارا دین تھا۔ ہمارا اصل سہارا‘ ہمارا پروردگار تھا۔ ہمارا قانون‘ ہمارا قرآن تھا۔ ہمارے امام‘ ہمارے رسول عربیؐ تھے۔ ہمارا سربراہ‘ خدمت گزار تھا۔ ہم ہی سے کمزور حق دار طاقت ور تھا‘ اور ہمارا زور آور‘ ہمارے کمزور کا مددگار تھا۔ ہم سب باہم راہِ خدا میں بھائی ہیں‘ اور دین کی نظر میں مساوی۔

ہم مسلمان!

کیا ہماری ہی اُمت میں اعلیٰ مثالی انسان کی تصویر جلوہ گر نہیں ہوئی؟ کیا چشمِ تاریخ اور نگاہِ کائنات نے ہمارے معاشرے کے سوا کسی اور معاشرے کو دیکھا جس نے پاکیزہ اخلاق‘ سچائی اور ایثار کی مثال پیش کی ہو؟

کیا صدر اسلام کے علاوہ بھی کہیں اور کبھی زندگی کی حقیقت‘اصلاح پسندوں کی آرزو اور فلسفیوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہوئے؟

زخمی مسلمان آخری سانسیں لیتے ہوئے پانی کا ایک گھونٹ چاہتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا پیالہ دیا جاتا ہے۔ اسی وقت اس کے کان میں ایک دوسرے زخمی کی آواز ٹکراتی ہے۔ وہ اسے ترجیح دیتے ہوئے پانی اس کی طرف بڑھا دیتا ہے‘ اور خود پیاسا ہی موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔

وہ بھی ایک دن تھا جب مسلمان عورت کو اس کے شوہر‘ اس کے بھائی اور اس کے باپ کے شہید ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کی زبان گویا ہوتی ہے: اللہ کے رسول کیسے ہیں؟ جواب ملتا ہے کہ وہ زندہ ہیں‘ تو کہتی ہے: اس خبر کے بعد تو ہر مصیبت کافور ہوگئی!

وہ دن بھی یاد رکھنے کا ہے جب ایک بوڑھی عورت‘ عمرؓ کو سرکاری‘ حیثیت میں منبر پر ٹوک دیتی ہے‘ جب کہ عمرؓ اس وقت آج کے ممالک میں سے گیارہ ملکوں کے حکمراں تھے۔

وہ دن بھی یاد کیجیے جب ہمارا ہر متنفس وہی پسند کرتا تھا جو اپنے بھائی کے لیے چاہتا تھا‘ اور اسے اپنے آپ پر ترجیح دیتا تھا خواہ اس کے پاس حقیر سی چیز ہو۔ ہمارے جسم و روح مادی و معنوی شکلوں میں پاکیزہ و ستھرے تھے۔ ہم جو کچھ کرتے یا ترک کرتے‘ یا اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے تو    اللہ اور اس کے حکم کو پیشِ نظر رکھتے۔ ہم نے اپنے نفس سے خواہشات کو اس طرح دُور کر دیا کہ ہمارا ہر کام قرآن کے مطابق ہوگیا تھا۔ ہم نوع بشری کے چنیدہ اور انسانیت کے منتخب تھے۔ ہم نے ان تمام آرزوئوں اور تمنائوں کو حقیقت کا روپ دے دیا تھا جنھیں فلسفیوں‘ دانش وروں اور اصلاح پسندوں نے خواب و سراب قرار دے دیا تھا۔

ہم مسلمان!

ہمارے فخر وستایش کے لیے سیکڑوں شاہنامے اور الیاذہ نظم کیے جاسکتے ہیں‘ مگر پھر بھی وہ ہمارے کارناموں کے لیے ناکافی ہوں گے‘ کیونکہ نہ وہ گنے جا سکتے ہیں نہ شمار۔ ہماری فتوحات و کامرانیوں کو کون شمار کر سکتا ہے! علم و ادب‘ فن و ثقافت کی راہ میں ہماری خدمات کا احاطہ کون کرسکتا ہے___کیا کوئی ہمارے دانش وروں‘ صف شکن سالاروں‘ جوانمردوں‘ عبقری و نابغہ شخصیتوں کو شمار کر سکے گا؟

صرف وہی ہمت کر سکتا ہے جو آسمان کے ستاروں کو گن چکا ہو‘ اور بطحا کے میدان کی کنکریوں کو شمار کر چکا ہو! (سیرت کے حواشی پر) ہزاروں کتابیں لکھ لو‘ (تاریخ کے اوراق پر) اسی قدر تصنیفات کا ڈھیر لگا دو‘ اور ہر عظیم شخصیت سے متعلق سیکڑوں کتابیں یا قصیدے تیار کر ڈالو‘ سیرت و تاریخ باقی و تشنہ رہ جائے گی‘ اسی طرح جیسے کوئی زمین اور محفوظ معدن و کان!

ہم مسلمان!

ہم ان قوموں جیسے نہیں ہیں جنھیں صرف زبان جوڑے رکھتی ہے۔ ہم وہ اُمت بھی نہیں ہیں جن میں صرف خون کا رشتہ ہوتا ہے۔ ہر اُمت کے افراد اچھے اور برے ہوتے ہیں‘ ہم تو ایک عظیم الشان رفاہی انجمن ہیں‘ جس کے ارکان ہر قوم کے صالح‘ مہذب‘ پاکیزہ اور پرہیزگار افراد ہیں۔ اگر خون کا رشتہ ٹوٹ جائے تو ہمیں احتیاط و تقویٰ جوڑے رکھتا ہے۔ اگر زبانیں مختلف ہوئیں تو ہمیں عقیدہ متحد رکھتا ہے۔ ہماری آبادیوں کے فاصلے کو کعبہ شریف کم کر کے قریب کر دیتا ہے۔

ہر روز کعبہ شریف کی جانب رخ کرنا‘ ہر سال عرفات میں ہمارا وقوف‘ اس کا واضح اشارہ ہے کہ اسلام ایک متحدہ قومیت ہے جس کا مرکز حجاز عربی ہے اور اس کے امام و قائد نبی عربیؐ ہیں‘ اور اس کی کتاب عربی قرآن ہے۔

ہم مسلمان!

ہمارا دین بھرپور فضیلت و بھلائی اور کھلا ہوا حق و انصاف ہے‘ نہ کوئی پردہ ہے نہ رکاوٹ‘ اور نہ کوئی راز ہے نہ بھید۔ یہ مینار کی طرح روشن و بلند ہے۔ کیا اس میں یہ معنی و حقیقت پائی نہیں جاتی؟ کیا دنیا میں کوئی جماعت یا مذہب ہے جس کے اصول روزانہ ۱۰ بار نشر کیے جاتے ہوں جس طرح کہ ہم مسلمانوں کے اصولِ مذہب دہرائے جاتے ہیں‘ اور موذن بلند آواز سے پکارتے ہیں:

أشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أن محمدا رسول اللّٰہ ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔

ہم مسلمان!

ہم نہ تو ناتواں ہیں اور نہ غم زدہ‘ اس لیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم ہر دن ۳۰ بار اس بابرکت و بلند تر صدا اور طاقت ور ترانے کو سنتے ہیں: اللہ اکبر!

بہادری اور اولوا العزمی ہماری فطرت ہے‘ ایثار و قربانی ہماری رگوں میں رواں دواں ہے۔ گردش زمانہ اسے کمزور نہیں کر سکتی‘ لیل و نہار کی تبدیلی ہمارے دلوں سے اسے مٹا نہیں سکتی۔

ہمارا جزیرہ (جزیرئہ عرب) ہے جس کے ریت پر ہر طاغوت کا قدم پڑتے ہی جل کر ‘رہ جائے گا‘ مگر اس کے باشندے اس کی شدت و تپش میں بھی فردوس بریں کا سا مزا محسوس کرتے ہیں۔

ہمارے لیے ملک شام اور اس کے باغ جناں ہیں جنھیں ہم نے خون سے سینچا ہے۔ اس کا بلند و بالا پہاڑ ہمارا محبوب و پسندیدہ ہے۔ عراق ہمارا ہے‘ (رمیثہ) ہماری آبادی ہے‘ دریاے فرات کی وادیاں ہم سے آباد ہیں۔

فلسطین میں (جبل نار) ہے‘ اس سے بھی ہمارا ہی رشتہ ہے‘ مصر جو علم و فن کا گہوارہ اور اسلام کا قلعہ ہے‘ ہمارا ہے۔ پورا مغرب (شمالی افریقہ) ہمارا ہے‘ الریف بھی ہمیں سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ جاں بازوں اور جواں مردوں کی آماہ جگاہ ہے!

میناروں اور گنبدوں کا شہر قسطنطنیہ (استنبول) بھی ہمارا ہے۔ فارس و افغانستان‘ ہندستان و جاوا (انڈونیشیا) بھی ہمیں سے آباد ہیں۔ ہر وہ زمین ہماری ہے جس میں قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے اور اس کے مینارے اذانوں سے گونج اٹھتے ہیں۔

آنے والی صبح ہماری ہے ___!

مستقبل ہمارا ہے___ اگر ہم اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں!!

(بہ شکریہ: تعمیرحیات‘ لکھنؤ‘ ۱۰ فروری ۲۰۰۵ئ)