عنایت علی خان


چند قابلِ غور پہلو

محترم ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون ’’عالمی امن و انصاف: اسلامی تناظر میں‘‘ (مارچ ۲۰۰۵ئ) زیرمطالعہ آیا۔ اسلام کے خلاف مغرب کے گمراہ کن پروپیگنڈے کی تان ’’جہاد‘‘ کی مذمت پر ٹوٹتی ہے‘ اس کے ازالے کے لیے اس نوعیت کی تحریریں وقت کی ضرورت ہیں‘ اس سے قطع نظر کہ مغرب کی جارح قوتیں اپنے استحصالی نظام کے راستے میں خود اسلام کو ایک مزاحم عنصر سمجھتے ہوئے اس کے استیصال کی ہمہ جہت مہم چلائے ہوئے ہیں۔ دنیا اور بطور خاص مغرب کے انصاف پسند غیر متعصب عناصر کو اسلام اور جہاد کی حقیقت سے باخبر کرنا مسلمانوں ہی کے لیے نہیں خود مغرب کے لیے بھی سودمند کوشش ہے۔ البتہ اس کوشش میں بقول خود ڈاکٹر صاحب کے معذرت خواہانہ رویّے کا اظہار مناسب نہیں کہ اس سے خود اپنے موقف کی کمزوری اور پسپائی کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اسی حوالے سے خود ڈاکٹر صاحب موصوف کی بعض آرا وضاحت طلب ہیں۔

’’قرآن مجید میں لفظ جہاد تقریباً ۴۰ مرتبہ اور لفظ قتال تقریباً ۱۶۰ مرتبہ مختلف معنوں میں آیا ہے‘‘، اگلے ہی جملے میں انھوں نے دونوں لفظوں کی یہ تعریف بیان کی ہے: ’’جہاد کسی مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش‘ انتہائی جدوجہد اور پیہم عمل کا نام ہے‘ جب کہ قتال سے مراد لڑنا اور جنگ کرنا ہے‘‘۔ پھر ’’کسی مقصد‘‘ سے آگے بڑھ کر یا اس مقصد کی تشریح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’’جہاد کا مقصد لوگوں کو ظلم‘ ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے نجات دلانا اور حقوقِ انسانی کی بحالی ہے۔ اگرچہ زیادہ زور مسلمانوں کے حقوق پر دیا گیا ہے لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ جہاد صرف مسلمانوں کو اُن کے حقوق دلانے سے تعلق رکھتا ہے‘‘۔

ناچیز کی رائے میں موصوف نے اُس مقصد کی جامع تعریف نہیں کی جو وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ(البقرہ ۲:۱۹۳) کے الفاظ میں غلبۂ دین ہے اور جس کے نتیجے میں ظلم‘ ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے خلقِ خدا کو نجات ملتی ہے۔ سورئہ حدید میں بعثتِ انبیا کا مقصد نظامِ عدل کا قیام بتایا گیا ہے اور اس کے ساتھ فولاد کی اسلحی اور صنعتی قوت کا ذکر واضح اشارہ ہے کہ نظامِ عدل کے قیام کے سلسلے میں ایک مرحلہ اسلحی قوت کے استعمال‘ یعنی قتال کا لازماً آتا ہے کیونکہ باطل نظامِ ظلم اپنی پوری حربی قوت سے اپنا دفاع کرتا ہے جس کی مثال جنگِ بدر      اور  جنگِ خندق سے ملتی ہے۔ اس آیت میں تو اسلحے کے استعمال کی جانب اشارہ ہی ہے‘ جب کہ مندرجہ ذیل آیات میں لفظ جہاد کسی کوشش یا جدوجہد کے معنی میں نہیں۔ دوٹوک انداز میں قتال کے لیے استعمال ہوا ہے:

۱- ’’نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں‘‘ (التوبہ ۹:۴۱) (یہ حکم تبوک کے حوالے سے ہے)۔

۲-’’جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ کبھی تم سے یہ درخواست نہیں کریں گے کہ انھیں جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے‘‘ (التوبہ۹:۴۴)  (یہ بھی جنگ میں عدمِ شرکت کی درخواست کرنے والوں کے لیے ہے)۔

۳- ’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں‘ دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵)

۴- ’’اللہ نے بیٹھنے والوں کی نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے‘‘۔(النساء ۴:۹۵)۔

۵-’’مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے‘‘۔ (النساء ۴:۹۵)

۶- ’’جب کوئی سورہ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا جو لوگ ان میں صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انھیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انھوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں‘‘۔(التوبہ ۹:۸۶)

یہ صحیح ہے کہ قرآن میں لفظ جہاد کوشش اور جدوجہد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے لیکن اس کے معنوں سے قتال کو یکسر خارج کر دینا درست نہیں‘ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔

آگے چل کر جہاد کے ’’حقوقِ انسانی کی بحالی‘‘ کی کوشش کے ثبوت کے طور پر جو آیت پیش کی گئی ہے‘ وہ یہ ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں‘ اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے‘‘۔

اس سے ماقبل آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ  فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا (النساء ۴:۷۴)‘جس میں خالصۃً جنگ کی ترغیب اور قتل ہونے یا غلبہ حاصل کرنے دونوں صورتوں میں اجرِعظیم کی بشارت دی ہے اور یہ ترغیب شانِ نزول کے حوالے سے کچھ غیرمسلم گروہ کے حقوق کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ بقول مولانا مودودیؒ، اُن مظلوم بچوں اور عورتوں اور مردوں کی نجات کے لیے ہے جو مکے اور عرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کر چکے تھے مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے تھے۔ یہ غریب طرح طرح سے تختۂ مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انھیں اس ظلم سے بچائے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: اسی طرح انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے ایک دوسری جگہ قرآن میں تین مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے: ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت خانے‘ گرجے اور معبد اور مسجدیں بھی ڈھا دیے جاچکے ہوتے جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے‘‘۔ (الحج ۲۲:۴۰)

یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے اسلام کی وسیع الظرفی ایک غلط دلیل سے ثابت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جہاد محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے نہیں ہے بلکہ یہود و عیسائی وغیرہ کو بھی اگر اپنے عبادت خانوں میں عبادت کرنے سے محروم کر دیا جائے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کا یہ مذہبی حق ان کو دلوائیں۔ اس طرح جہاد محض اُمت مسلمہ کے حقوقِ انسانی کے تحفظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی طور پر مذہبی حقوق کے احیا و بحالی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے‘‘۔

یہاں عبادت گاہوں کے تحفظ کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے نہ کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ یہی بات سورۂ بقرہ میں ان الفاظ میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ: ’’اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا‘‘۔ (۲: ۲۵۱)

محترم ڈاکٹر صاحب نے مستضعفین کی مدد کے حوالے سے لکھا ہے: یہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ جن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو محض اس بنا پر کہ وہ اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتے ہیں‘ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو (جیسے آج مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بعض مسلم اکثریتی ممالک میں اہلِ حق کے ساتھ کیا جا رہا ہے) تو اہلِ ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائی اور نجات کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کریں۔ اس تشریح میں بھی میری ناچیز رائے میں مسلم اکثریتی علاقوں کی شمولیت اور ’’قتال‘‘ کو مادی اور اخلاقی امداد سے تعبیر کرنا درست نہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اسلام کے اصول ’’امن و صلح‘‘ کو جن سات اصولوں کی شکل میں پیش کیا ہے اُن میں پہلا نکتہ ’’توحید‘‘ ہے لیکن توحید کی تعبیر میں بھی اُنھوں نے جس طرح توحید کے منکرین کو ’’بباطن‘‘ موحد ہونے کی سند عطا کی ہے وہ بھی اسلام کے اسلامی وسیع الظرفی سے تجاوز کی مثال ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’توحید یا ایک بالاتر اصول کی آفاق و انفس میں فرماں روائی ان لوگوں کے لیے بھی زندگی میں یک رنگی پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعویدار نہیں‘‘۔

مذکورہ مضمون کے جو مقامات دل میں کھٹکے تھے اُن کی نشان دہی کے بعد اپنی جانب سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ دین اسلام اور اس کے نظریۂ جہاد کی تشریح کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم، لیکن اس کی تاویل میں جہاد کے عقیدے کو مغرب کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے کتربیونت سے پرہیز بہتر ہے۔ نیز یہ کہ ایک محاذ پر اگر مغرب کا ذہن صاف کرنے کی ضرورت ہے تو دوسرے محاذ پر صدربش کی کھلی اسلام دشمنی کے مقابلے میں عالمِ اسلام میں جذبۂ مدافعت و مقادمت بیدار کرنے کی اس سے زیادہ ضرورت ہے۔

استدراک: ڈاکٹر انیس احمد

محترم عنایت علی خاں صاحب نے اپنے مفصل خط میں جو تین نکات اٹھائے ہیں ان پر اختصار سے میری گزارشات یہ ہیں:

ہم جہاد اور قتال کو اُردو زبان میں بالعموم متبادل کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں‘ جب کہ قتال ایک مخصوص عمل ہے اور جہاد وسیع تر اصطلاح۔ جہاد میں قتال بھی شامل ہے جس کی دلیل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ جُھْدٌ کے معنی وسعت و طاقت اور تکلیف و مشقت کے ہیں۔ انسان جو مشقت و جدوجہد کرتا ہے اس کی طرف قرآن کریم میں سورۂ توبہ (۹:۷۹) میں اشارہ کیا گیا ہے‘ جب کہ قسمیں کھا کر پوری کوشش کرنے کا مفہوم سورۂ نحل (۱۶:۳۸) میں ملتا ہے۔ جِہَادٌ کے معنی کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی طاقت اور وسعت کو پورا پورا صرف کردینے کے آتے ہیں۔ قرآن کریم میں مجاہدین بمقابلہ قاعدین (النساء ۴:۹۵) آیا ہے۔ قاعدین کے معنی بیٹھے رہنے والوں کے ہیں‘ جب کہ مجاہدین جدوجہد کرنے والوں کو کہا گیا ہے‘ یعنی وہ جو جان کی بازی لگانے والے ہوں۔ اسی طرح اپنی رائے قائم کرنے میں انتہائی کوشش و مشقت کرنے کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہے جھدتُ رائی وَاجَھَدتُہٗ، یعنی میں نے غوروفکر سے اپنی رائے کو مشقت میں ڈالا۔

گویا دشمن کے مقابلے میں اپنی تمام قوت اور تمام ممکنہ وسائل کے استعمال کو ہی جہاد کہا گیا ہے۔ اس تعریف میں قتال بھی شامل ہے۔ چنانچہ سورئہ حج (۲۲:۷۸) میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیتے وقت کہہ دیا گیا کہ ایسا جہاد جیساکہ اس کا حق ہے۔ اس وسیع تر مفہوم میں مجموعی طور پر ظاہری دشمنی کے خلاف جدوجہد کرنا‘ نفس کے فتنوں کے خلاف جدوجہد کرنا‘ اور قوت سے جنگ کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

لیکن جہاں تک قتال کا تعلق ہے‘ یہ بالعموم جنگ (war) ہی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے‘ جیسے سورئہ بقرہ (۲:۱۹۳) میں قتال کا حکم ہے کہ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ راغب الاصفہانی نے اس حوالے سے جو دیگر مفہوم درج کیے ہیں ان میں ذلیل و کمزور کر دینے کا عمل‘ کسی آلے کے استعمال سے جان ضائع کر دینے کا معاملہ‘ المُقَاتَلَہٗ ،یعنی جنگ‘ سب کو شامل کیا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو نکتہ چینی سے قطع نظر مندرجہ بالا مفاہیم ہی کی بنیاد پر متذکرہ مضمون میں چند گزارشات پیش کی گئی ہیں۔

دوسرے نکتے کا تعلق غیر مسلموں کے مقامات عبادت کے تحفظ سے ہے۔ اگر مکتوب نگار کی بات کو جوں کا توں مان لیا جائے تو کیا اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ خود زمین پرآکر ان مقامات کا تحفظ کریں گے‘ یا اسلامی ریاست اور مسلمان یہ کام کریں گے۔ یہی بات مضمون میں کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے فرائض میں مذہبی مقامات کا تحفظ بھی شامل ہے۔

تیسری گزارش یہ کہ ظلم‘ فتنہ‘ ناانصافی‘ حقوقِ انسانی کی پامالی دنیا میں کہیں بھی ہورہی ہو‘ اس کے خلاف آواز بلند کرنا‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ مادی‘ ہر حیثیت سے ظلم کے خلاف جہاد کرنا اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہے۔ قرآن و سنت کے نصوص اس پر واضح ہیں۔ سورئہ نساء (۴:۷۵-۷۶) میں اس سلسلے میں واضح ہدایات اور حکم پایا جاتا ہے۔

ممکن ہے کہ مضمون کے انگریزی سے اُردو میں ترجمہ ہونے سے بعض نکات واضح طور پر سامنے نہ آسکے ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جہاں توحید اسلام کی بنیاد اور سب سے اہم اصول ہے وہیں اس اصول کی relevance اور تعلق ایک غیر مسلم کے لیے بھی ہے۔ وہ اسلام کو شعوری طور پر قبول کرنے سے قبل اس کی عمومی تطبیق کرکے اپنی شخصیت سے تضادات کو یکے بعد دیگرے دُور کرکے اپنے آپ کو دین فطرت سے قریب تر لاسکتا ہے۔ اسی معنی میں حدیث میں‘ ہر پیدا ہونے والے بچے کو مسلم قرار دیا گیا ہے۔ اگر وہ اضافے اور تضادات جو اس کے غیرمسلم ماحول و تربیت کی بناپر شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں یکے بعد دیگرے دُور کر دیے جائیں‘ تو اس کی شخصیت میں یکجائی (unization) پیدا ہوسکتی ہے جو میری ناقص رائے میں اسلام کے شعوری طور پر ماننے کا درمیانی مرحلہ بن سکتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!