طب و صحت کی اپنی ایک دنیا ہے۔ امراض کی تشخیص‘ ان کا علاج‘ مختلف ذہنی و جسمانی معذوروں سے تعامل اور ان کی بحالی‘ اور پھر اس سارے عمل کے دوران حاصل ہونے والی معلومات اور تجربے اور پھر ان کی روشنی میں بیماری سے بچائو کی تدبیریں___ ہر ہرچیز اپنی جگہ ایک موضوع ہے۔ اس شعبے کا براہ راست تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ اس کا ایک ذیلی شعبہ‘ جس کی اہمیت ہر معاشرے بالخصوص مسلم معاشرے میں بہت زیادہ ہے‘ وہ طبی اخلاقیات اور قانونِ طبی ہے۔
جیسے ہی کوئی بیمار ہو یا اسے کسی اور وجہ سے کسی طبی ادارے سے سابقہ پیش آجائے‘ اخلاقیات سے متعلق معاملات و مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی شکلیں ہیں۔ ہرشخص کو طب اور طبیب سے کچھ نہ کچھ واسطہ بھی رہتا ہے‘ مگر اس شعبے کا اخلاقی‘ قانونی یا فقہی رخ عموماً نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ گریجویشن کی سطح تک جو بنیادی طبی تعلیم دی جاتی ہے وہ سیکولر ہوتی ہے۔ پھر اس پر مستزاد غیرملکی زبان ہے‘ جو طلبہ کے قلب و روح میں راسخ مذہب‘ معاشرے اور ثقافت کے اثرات کو مسخ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی دنیا کی اُن چند قوموں میں سے ایک ہیں جن کے لیے اپنی زبان میں تعلیم ایک عار ہے۔
دین اسلام میں علاج معالجے اور اس کے اخلاقی و قانونی پہلو کی اہمیت‘ قرآن مجید کی ذیل کی آیات‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث اور کچھ فقہی آرا سے واضح ہوتی ہے:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ‘ امراض سے شفا بھی تھا۔
ہر مرض کی دوا موجود ہے ‘ جب مرض کا علاج ہوجائے تو اللہ کے اذن سے وہ مرض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ (مسلم)
اس حدیث میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ امراض کے لیے دوا موجود ہے۔ اسے استعمال کرو‘ مگر یقین یہی رکھو کہ شفا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
فقہا میں سے امام شافعی‘ طب کے بارے میں حسّاس معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چند فرمودات حسب ذیل ہیں:
علم کی جو شاخ‘ دین سے متعلق ہے وہ تو فقہ ہے ‘اور جسموں کا علم طب ہے۔
اس بارے میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ امراض سے واقفیت اور ان کے علاج میں مہارت حاصل کرنا‘ مسلمانوں کے تمام معاشروں کے لیے ضروری ہے۔ البتہ علما نے اسے فرضِ کفایہ قرار دیا ہے کہ اگر بقدرِ ضرورت چند افراد اس فن میں ماہر موجود ہوں تو بقیہ معاشرے پر سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ علاج معالجہ توزیادہ بڑی بات ہے‘ اسلام میں فقط مریض سے ملاقات کرنے کا بھی بڑا اجر ہے۔ فرمان رسولؐ ہے: صبح کے وقت ایک مسلمان سے صرف ملاقات و عیادت کرنا‘ شام تک کے لیے ہزاروں فرشتوں کی دعا کا مستحق بنا دیتا ہے‘ اور اسی طرح شام کے وقت کسی کو جا کے ملنا صبح تک کے لیے یہی انعام دلواتا ہے اور پھر اسی پر بس نہیں‘ بلکہ جنت میں مزید انعام کا وعدہ بھی ساتھ ہی ہے۔
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔(احمد)
امام رازیؒ کہتے ہیں کہ طبیب کو لوگوں کا رفیق ہونا چاہیے اور رازوں کا چھپانے والا بھی اگرچہ کہ انھی کی خدمت کی ہو۔ کیوں کہ طبیب کو لوگوں کے ان رازوں سے واقفیت ہوتی ہے جنھیں وہ اپنے قریب ترین اعزا سے بھی چھپاتے ہیں۔ امام صاحب مزید فرماتے ہیں کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی مریض کو شدید مرض سے شفا ہوجاتی ہے تو بعض اطبا میں تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور ان کی بات چیت کا انداز کرخت ہوجاتا ہے۔ جب حقیقتاً ایسا ہی ہو تو جان لو کہ وہ شخص بنیادی انسانی اخلاق سے محروم ہے۔ اس فن کے لوگوں کے لیے خوش اخلاقی ہی لازمی اور بنیادی خوبی ہے۔ مزید یہ کہ طبیب کو محنت سے تشخیص اور علاج کرنے کے باوجود شفا کے لیے بھروسا‘ اپنی مہارت پر نہیں بلکہ صرف اللہ کی ذات پر کرنا چاہیے۔ (البرازیؒ، اخلاق الطیب)
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور ۲۴:۳۰)
اور مومنین سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچائے رکھیں۔
یہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے علما نے علاج کے سلسلے میں بھی ترتیب یہی بتائی ہے کہ مسلمان خاتون کا علاج مسلمان طبیبہ کرے۔ اگر وہ میسر نہ ہو تو طبیبہ کتابیہ ورنہ پھر طبیبہ کافرہ۔ اگر کوئی خاتون طبیبہ موجود ہی نہ ہو تو پھر مسلمان طبیب اور اس کی عدم موجودگی میں کافر طبیب۔ مسلمان طبیب کے لیے اس سلسلے میں آداب یہ بتائے گئے ہیں کہ وہ فقط حسبِ ضرورت ہی معائنہ کرے اور وہ بھی عورت کے محرم کی موجودگی میں‘ اور مس کرنا ضروری نہ ہو تو مَس نہ کیا جائے‘ اور جب ضروری ہو تو دستانے وغیرہ پہن کر ہی ہو۔
طب کے اخلاقی پہلو کے ساتھ ساتھ‘ اس کا قانونی و فقہی پہلو بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک طبیب کو علاج معالجے کے ساتھ ساتھ عبادات اور دینی امور کے علاوہ‘ روز مرہ معاملات میں بھی اہم فقہی و قانونی مشورے دینا ہوتے ہیں اور یہ پہلو عام طور پر معالج سے اوجھل رہتا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل دی جارہی ہے تاکہ اطبا حضرات اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران اسے ملحوظ رکھیں۔
۱- اللہ کا تقویٰ ۲- اخلاص ۳- فقہی امور سے واقفیت ۴- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام ۵- امانت ۶- حسنِ اخلاق۔
ہر مسلمان طبیب کو یاد رکھنا چاہیے کہ کام تو صرف اللہ کی مرضی سے پورا ہوگا۔ شفا صرف اللہ ہی کے ہاتھ ہے‘ نہ طبیب کی حذاقت میں نہ دوا کے کمال میں۔ یہی تقویٰ اسے غیرضروری اور غیراخلاقی حرکات سے روک سکتا ہے اور یہی تقویٰ اور خدا خوفی‘ اسے دواساز اداروں کے اشتہارات کا حصہ بننے سے بچا سکتی اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے باز رکھ سکتی ہے۔
طبیب جس قدر اپنے علم و فن اور اپنے مریض سے مخلص ہوگا اتنا ہی اس کی کامیابی کا امکان اور آخرت میں اس کے لیے اجر کا موقع ہے۔ فقہ سے واقفیت اس شعبے کی خصوصی ضرورت اور اطبا سے مطلوب اہم صفت ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں حکم دیا تھا کہ لَابَیْعٌ فِیْ سُوْقِ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ لاَ یَفْقَہُ اَحْکَامَ الْبَیُوْعِ، مسلمانوں کے بازاروں میں وہ لوگ کاروبار نہ کریں جنھیں خرید و فروخت کے احکام معلوم نہ ہوں۔ اس قول سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے میں ایسے طبیب نہیں ہونا چاہییں جنھیں متعلقہ اصول و قواعد معلوم نہ ہوں۔
شریعت کے احکام عموماً واجب‘ مستحب‘ مکروہ‘ حرام اور مباح کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ پھرحالتِ اضطرار کے احکام الگ تفصیل رکھتے ہیں۔ دوائوں اور علاج کے سلسلے میں بسااوقات ایسی صورت بھی درپیش ہوتی ہے کہ فوری فیصلہ درکار ہوتا ہے۔ یہاں وہ معاملات بھی سامنے آتے ہیں جنھیں براہِ راست قانونِ طبی (medical jurisprudence) سے واسطہ ہوتا ہے یعنی کس معاملے میں طبی بنیاد پر‘ کس قدر سہولت و رعایت یا سزا و جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ حالتِ مرض کا اکثر اوقات عبادات سے تعلق ہوتا ہے‘ اور اسی وجہ سے طبی مسائل دو قسم کے ہوسکتے ہیں: ۱- عبادات اور دینی امور سے متعلق ۲- معاملات سے متعلق۔
دورانِ حمل (fetal stage) سے موت تک مسلسل‘ ہر انسان کا طب کے شعبے سے واسطہ رہتا ہے۔ اس لیے زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جہاں طبیب کی رائے ضروری ہوجاتی ہے‘ مثلاً مختلف عبادات و ذمہ داریوں کی ادایگی میں سہولت اور تخفیف کے لیے۔ معاملہ چونکہ عبادات سے متعلق ہے اس لیے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ شرائط ذکر کر دی جائیں جن کا طبیب میں پایا جانا ضروری ہے۔ جس کے بعد ہی اس کی رائے قبول کی جا سکتی ہے۔
امام نوویؒ تیمم کی رخصت دینے کے لیے طبیب میں ان صفات کی موجودگی لازمی قرار دیتے ہیں: طبیب مسلم‘ ماہر‘ نیک و صالح ہو۔ اگر اس میں یہ صفات موجود نہ ہوں تو اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہوا کہ عبادات کے معاملے میں طبیب کی رائے اسی وقت قبول کی جائے گی‘ جب کہ وہ مسلم ہو اور مزید یہ کہ عادل ہونے کی شرط‘ جب اسلام کے ساتھ ملا کر دیکھی جائے تو خود بخود یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسے فقہ اسلامی سے ضروری واقفیت بھی ہونی چاہیے اور اس کا خود اُس پر عمل پیرا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوگا‘ ورنہ جسے اعمال کی بنیاد پر جزا و سزا کا یقین و ایمان حاصل ہو‘ پھر وہ عاقل و دُوراندیش بھی ہو تو پھر اُس کے لیے بے عمل ہونا محال ہی ہوتا ہے۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے: میرے بازو (کلائی سے اوپر) کی ہڈی ٹوٹ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’جبیرہ‘‘ پر مسیح کرلو۔ (ابن ماجہ)
احناف میں سے ابن ہمامؒ کہتے ہیں کہ اگر زخم پر مسح کرنے سے نقصان ہوتا ہو تو ’’جبیرہ‘‘ پر مسح جائز ہے‘ اور اگر مضر نہ ہو تو ناجائز۔ (شرح فتح القدیر)
یہاں وہ مسائل بھی سامنے آتے ہیں کہ بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی صورت میں سجدہ کیسے کرے اور لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت میں قبلہ رخ ہونے کی کیفیت کیا ہو؟ ان جیسے معاملات کا علم ایک مسلمان طبیب کو لازماً ہونا چاہیے۔
یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ جدید طبی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ مجرد حمل یا دودھ پلانے کا عمل‘ دونوں کسی عام خاتون میں روزہ رکھنے سے متاثر نہیں ہوتے۔
یہ وہ چند اہم روز مرہ معاملات ہیں جن میں طبی رائے اثرانداز ہوتی ہے‘ اور جب تک رائے دینے والے کو خود ان کی اہمیت کا صحیح شعور نہیں ہوگا ظاہر ہے وہ ان سب باتوں سے لاپروائی برتے گا۔ اسی لیے مسلمان طبیب کے لیے‘ کم از کم فقہ کے متعلقہ امور سے واقفیت پر بار بار زور دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے عبادات اور امور دینی میں غیرمسلم طبیب کی رائے پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ (امام نوویؒ، المجموع)
اس بارے میں احناف اور شوافع کہتے ہیں کہ موت کے واقع ہونے کا گمان غالب ہوجائے۔ حنابلہ: وہ مرض جو موت سے متصل ہو اور جس سے موت کا واقع ہونا یقینی ہو۔ مالکیہ: وہ مرض جس کے بارے میں اہلِ طب کی رائے ہو کہ اس سے موت واقع ہوسکتی ہے اگرچہ غالب گمان یہ نہ ہو۔
یہاں مالکیہ کی تعبیر خصوصی دل چسپی کی حامل ہے کہ اس حالت میں طبیب کی رائے ہی اہم ہے‘ نہ کہ لوگوں کا غالب گمان۔
وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ (الفرقان ۲۵:۶۸)
اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے۔
فقہا کا اتفاق ہے کہ قرارِ حمل کے چار ماہ بعد بلاعذر اسقاط حرام ہے‘ یہ موجب غرہ یعنی پانچ فی صد دیت کا سبب ہے۔ البتہ اس مدت سے پہلے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اجازت دیتے ہیں‘ بعض کے نزدیک مکروہ اور بعض اسے حرام کہتے ہیں۔ اس معاملے میں امام غزالیؒ کا اصول قابلِ ترجیح ہے کہ اسقاط پہلے دن سے حرام ہے‘ جس طرح زندہ بچی کا دفن کرنا‘ جب کہ ماں کی زندگی کو یقینی خطرہ ہو اور بچے میں زندگی کے آثار ہوں‘ تب بھی اسقاط ہوسکتا ہے۔ (الکمال بن الھمام شرح فتح القدیر۔ ابومحمد‘ ابن حزمؒ، ابوحامد الغزالیؒ، احیاء العلوم)
امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ اگر حاملہ خاتون کا انتقال ہو جائے اور بچہ زندہ ہو تو میت کے پیٹ کو شق کرنا چاہیے‘ کیونکہ اس سے ایک زندگی کی بقا منسلک ہے (المجموع)۔ لیکن شرط یہ ہے کہ بچہ چھے مہینے یا زیادہ مدت کا ہو۔ یہاں یہ بھی رائے موجود ہے کہ اگر میت نے ہیرا نگل لیا ہو اور اس کا مالک طلب کرے تو بھی پیٹ سے ہیرا نکال کر اس کے مالک کو لوٹایا جائے گا۔
ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ اگر غالب گمان یہ ہو کہ پیٹ میں بچہ زندہ ہے تو مردہ ماں کے پیٹ کو شق کیا جائے گا کہ اس میں میت کے ایک جز کے اتلاف کے باوجود ایک زندگی کی بقا ہے۔ اسی طرح مال بھی پیٹ شق کر کے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ زندوں کے حقوق کو اولیت حاصل ہے (المغنی)۔
ابن حزمؒ الظاہری کہتے ہیں کہ حاملہ ماں کا انتقال ہوگیا ہو‘ جب کہ بچہ چھے ماہ سے زیادہ مدت کا زندہ اور متحرک ہو تو پیٹ شق کر کے بچہ نکال لیا جائے گا جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط (المائدہ ۵:۳۲) ’’اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔(المحلی)
ان میں اصولوں کی بنیاد پر بعض جدید ماہرین‘ تعلیمی اور قانونی ضرورتوں‘ مثلاً اسبابِ موت کے تعین کے لیے میت کی چیرپھاڑ(dissection of dead bodies) کی اجازت کے قائل ہیں۔ یہ موضوع خود بڑی طویل بحث کی گنجایش رکھتا ہے۔ بالخصوص‘ جب کہ مکمل اعضا والے مصنوعی انسانی جسم کم از کم تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہ آسانی دستیاب بھی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے (ہی) امراض اور دوا اتارے ہیں اور ہر مرض کی دوا ہے ‘ لہٰذا علاج کرو مگر حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔ (ابوداؤد)
احناف‘ مالکیہ اور شوافع میں سے بعض فقہا کا میلان اسی طرف ہے۔ جیسا کہ عبادات و امور دینی کے متعلق رائے قبول کرنے کے لیے‘ طبیب میں کچھ بنیادی خصوصیات ضروری قرار دی گئی تھیں اسی طرح معاملات ذیل میں کچھ خصوصیات کا طبیب میں ہونا ضروری ہے۔
جہاں جہاں امور دینی شامل ہو جائیں بالخصوص عبادات‘ تو وہاں غیر مسلم طبیب کی رائے قبول کرنا ناجائز ہے۔ (امام نوویؒ)
ائمہ احناف ہر ایسے مسلمان طبیب کی رائے کو قبول کرتے ہیں جو ظاہراً غیرفاسق ہو۔ (ابن عابدین‘ رد المحتار‘ علی الدر المختار)
مالکیہ ایسے غیر مسلم طبیب کی رائے پر بھی اعتماد کے قائل ہیں جو امور دین سے واقف ہو۔ اگرچہ کہ واحد خاتون طبیب ہی کیوں نہ ہو‘ کیونکہ یہاں معاملہ واقعے کا ہے نہ کہ گواہی کا (النووی، المجموع‘ ابن قدامہ‘ المغنی)۔ جہاں تک معاملہ امور دینی سے غیرمتعلقہ معاملات کا ہو تو وہاں جمہور فقہا غیرمسلم طبیب سے مدد و علاج کو جائز قرار دیتے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں: میں جب بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی‘ اپنا دستِ مبارک میرے سینے کی درمیانی ہڈی پر رکھا‘ یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی اور فرمایا: تمھیں سینے / دل کا مرض ہے۔ حارث بن کلدہ سے رجوع کرو کیونکہ وہ علاج معالجہ کرنے والا آدمی ہے (جب کہ حارث بن کلدہ کافر تھے)۔ (ابوداؤد)
ابن القیمؒکہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرہجرت میں‘ راستہ بتانے کے لیے ایک غیرمسلم عبداللہ بن اریقط کی خدمات مستعار لی تھیں۔ یہ ایک ثبوت ہے کہ کافر سے بھی طب‘ دوائوں‘ حساب کتاب وغیرہ کے سلسلے میں رجوع کیا جا سکتا ہے۔
یہ لازمی نہیں ہے کہ اعتقاداً جو شخص کافر ہو اس کی کسی بھی بات کا بھروسا ہی نہیں ہوسکتا‘ اگر ایسا ہوتا تو سفرِہجرت میں راستہ بتانے کے کام سے زیادہ حساس اور کیا معاملہ ہوسکتا ہے۔
امام احمدؒ کہتے ہیں کہ غیرمسلم اسپیشلسٹ طبیب سے علاج کروانا ٹھیک ہے کیونکہ طبی معاملات میں اس کی واقفیت اور تجربہ قابلِ اعتماد ہے اور یہ جائز ہے۔
انھی اصول و قواعد کی بنیاد پر نئے مسائل و معاملات کے لیے حسبِ ضرورت قانون سازی جاری رہتی ہے‘ مثلاً: ملازمتوں کے دوران ملازمین کے ہونے والے نقصانات کااندازہ اور طبی بنیادوں پر ان معاوضوں کی ادایگی کا مشورہ‘ مختلف حوادث میں ہونے والے نقصان کا اندازہ اور پھر دیت کی ادایگی‘ دورانِ کام ہونے والے صحت کے نقصانات‘ مثلاً کارخانوں کے شور‘ یا رنگروٹوں کی تربیت کے دوران مسلسل فائرنگ کے شور سے ضعفِ سماعت‘ کیمیائی کارخانوں وغیرہ میں کام سے سینے کے امراض‘ یا لیبارٹریوں کے ملازمین کا ایڈز اور اس جیسے امراض کے علاج معالجے کے نتیجے میں‘ ان امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا ازالہ اور واقعتا امراض میں مبتلا ہوجانے کی صورت میں معاوضے کا اندازہ‘ یہ سب صورتیں طبی قانون کے نظام (medical jurisprudence) کا ہی حصہ ہیں۔
دوسرے تمام لوگوں کی طرح‘ اطبا بھی اپنے کام اور ذمہ داری کے سلسلے میں جواب دہ ہیں۔ یہ ذمہ داری دو قسم کی ہوتی ہے: ۱- معاہداتی ۲- قانونی یا فوجداری
۱- طبیب تعلیمی ادارے سے باقاعدہ تربیت یافتہ اور اپنے فن سے واقف و ماہر ہو۔
۲- اس کی نیت مریض کو شفا پہنچانا ہو‘ نقصان پہنچانے کی نہ ہو۔
۳- اپنے پیشے کے اصول کار کے مطابق کام کرے۔
۴- مریض یا اس کے ولی کی اجازت حاصل ہو۔ (ابن عابدین رد المختار۲ الدرزیر‘ شرح الکبیر مع حاشیہ الدسوقی‘ ابن قدامہ‘ المغنی)
اگریہ شرائط پوری ہو گئی ہوں‘ ضروری طریقے اور اسباب بھی اختیار کر لیے گئے ہوں‘ کام پیشہ ورانہ اصول و قواعد کے مطابق اور پوری ذمہ داری سے کیا گیا ہو تو پھر اگر نتائج بالکل مختلف ہی کیوں نہ نکلیں‘ طبیب پر نہ کوئی گناہ ہے نہ کوئی سزا۔
اجازت کا معاملہ دو مختلف پہلو رکھتا ہے۔ سب سے پہلے یہ اجازت متعلقہ ادارے اور محکمے سے لینی چاہیے جو اس جدید دور میں ’’اولی الامر‘‘ کی اجازت کے قائم مقام ہے‘ اور دوسری جانب ہرمریض یا اس کے ولی سے انفرادی سطح پر بھی ضروری ہے۔ البتہ اس دوسری قسم کی اجازت کے بارے میں حسب ضرورت استثنا ہو سکتا ہے۔
ابن القیمؒ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ایمرجنسی میں مریض یا اس کے ولی کی رضامندی سے اس لیے استثنا ہے کہ مریض کے ہوش و حواس معطل اور اس کا ولی غیرموجود ہوسکتا ہے‘ جب کہ جان بچانے کے لیے فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں رضامندی یا اجازت سے استثنا مصلحت کا تقاضا ہے۔ (زاد المعاد)
اگر کسی طبیب سے ایسی غلطی سرزد ہوجائے‘ جو لاپروائی یا دانستہ طور پر نہ ہوئی ہو اور ایسی ہی غلطی کسی بھی دوسرے ہم پیشہ سے ہوئی ہو یا ہوتی ہو‘ تو ایسی صورت میں اسے جواب دہ اور ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ البتہ شدید اور بڑی غلطیوں کے لیے طبیب کو ضامن وجواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔ پھر بھی یہ خیال رہے کہ شفا نہ ہونے پر طبیب کا مؤاخذہ نہیں کیا جا سکتا۔
مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ یُعْلَمْ مِنْہٗ طِبٌّ فَھُوَ ضَامِنٌ (ابوداؤد)
جو آدمی تجربے کے بغیر طبیب بن بیٹھا وہ (نقصان کی صورت میں) جواب دہ ہوگا۔
لہٰذا طب سے ناواقف شخص کے لیے لوگوں کا علاج معالجہ کرنا ناجائز ہے اور ہر ایسا شخص جو متعلقہ اداروں سے باقاعدہ سند یا اجازت یافتہ نہ ہو اور پھر بھی خود کو طبیب کہے اور (لوگوں کا علاج/ جراحت کرے) تو نقصان کی صورت میں وہ جواب دہ ہے‘ اور اس کے علاج کے نتیجے میں اگر موت واقع ہوجائے یا کوئی عضو ضائع ہوجائے تو وہ دیت کی ادایگی یا معاوضے کی ادایگی کا پابند ہوگا اور اسے طب کی پریکٹس سے قانوناً روک دیا جائے گا۔ (ابن الاخوہ‘ معالم القربہ فی احکام الحسبہ)
شریعتِ اسلامی کی روشنی میں طبی اخلاق و قوانین کے بارے میں یہ چند تمہیدی باتیں ہیں‘ امید ہے کہ علما اور ماہرین طب اس موضوع پر کماحقہ توجہ دیں گے۔(ماخوذ : ارشادات للطبیب المسلم‘ مستشفٰی قنفذہ‘ سعودیہ)