ڈاکٹر محمد وقاص


شکر وہ جذبۂ احسان شناسی ہے کہ جس سے مومن کا قلب ہر لمحہ معمور رہنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم ۱۴:۷)

اور یاد رکھو‘ تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

شکر کا مفھوم

شکر کیا ہے؟ اس کی کیفیات کیا ہیں؟ پروردگار کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟

شکر کے اصطلاحی معنی ہیں رب العالمین کی نعمتوں کا اعتراف اور ان کی قدر کرنا اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق اِن کا استعمال کرنا۔ اس لحاظ سے جذبۂ شکر کی تسکین کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ زبانی اقرار ہے‘ یعنی قولاً شکر گزار ہونا۔ دوسرا مرحلہ ہے عملاً شکرگزار بندہ بن جانا۔

قولی شکرگزاری کے دو پہلو نہایت نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ اپنے رب کی نعمت کا اعتراف کرے۔ چنانچہ فرمایا: وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحٰی ۹۳:۱۱) ’’اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اس تذکرے اور اعتراف سے‘ بندۂ مومن کی نظر تمام اسباب اور وسائل سے ہٹ کر اللہ رب العالمین پر جم جاتی ہے۔ اسی سے اُس کے قلب و ذہن سے شرک کے تمام آثار نکل جاتے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں توحید اپنا لیتا ہے۔ چنانچہ دیگر نعمتوں اور ضروریاتِ زندگی کے حصول اور مصائب و آلام سے بچنے کے لیے انسان کی نظر‘ لامحالہ بارگاہ ایزدی کی جانب ہی اُٹھتی ہے۔

قولی شکرگزاری کا دوسرا پہلو منعمِ حقیقی کی حمدوستایش ہے۔ جب بندے کا دل جذبۂ   تشکر و احسان شناسی سے لبریز ہو تو‘ زبان سے رب العالمین کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار  ادا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرمائی اور اُنھیں ہرنعمت سے مستفید ہونے کے بعد الحمدللہ کہنا سکھایا۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

کسی بندے نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: یَارَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلَالِ وَجْھِکَ وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ ، (اے اللہ تیرے لیے ایسی حمد ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور تیری عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو)۔ تو فرشتے اِس سے اتنے متحیر ہوئے اور فیصلہ نہ کرسکے کہ اس کا احاطہ کیسے کریں۔ چنانچہ وہ بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: بارِ الٰہ! تیرے فلاںبندے نے ایسی بات کہی جس کا احاطہ کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندے نے کیا کہا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا: میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ فرشتے عرض پرداز ہوئے‘ اُس نے کہا: ’’اے اللہ! تیرے لیے ایسی تعریف ہے جو تیرے چہرے کی بزرگی اور عظیم سلطنت کے شایانِ شان ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ایسا ہی لکھ دو جیسا اُس بندے نے کہا۔ کل قیامت کے دن جب وہ مجھ سے ملے گا میں خود اُسے اِس کا اجر دوں گا۔ (ابن ماجہ)

روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسٰی ؑکوہِ طور کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اُن کے دل میں اہل و عیال کا خیال آیا‘ اور اُن کے بارے میں قدرے متردّد ہوئے۔ اثناے راہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا: اے موسٰی ؑ! فلاں پتھر کو اپنی عصا سے توڑ ڈالو۔ اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس سے ایک اور پتھر برآمد ہوا جسے توڑنے کا حکم دیا گیا۔ غرض یکے بعد دیگرے سات پتھر برآمد ہوئے جنھیں توڑنے کا حکم دیا گیا۔ساتویں پتھر میں ایک کیڑا موجود تھا جس کے منہ میں تازہ پتا تھا۔ ابھی حضرت موسٰی ؑمحوحیرت ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑکی قوتِ سماعت کو اس قابل بنایا کہ وہ کیڑے کی آواز سن سکیںجو اپنی زبان میں رب کی حمد بیان کر رہا تھا:

پاک ہے وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے‘ جسے میرے ٹھکانے کا علم ہے‘ جو میری بات سن رہا ہے‘ جو مجھے یاد رکھتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔

یہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جب غیرعاقل مخلوق میں اِس قدر جذبہ احسان شناسی موجود ہے تو انسان جو کہ اشرف الخلائق ہے اُسے تو سب سے بڑھ کر رب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں تفسیر تدبر قرآن میںمولانا امین احسن اصلاحی نے دودھیل بکری کی مثال بیان کی ہے کہ جس طرح اُس کے تھن دودھ سے لبریز ہوں اور ذرا سے لمس سے دودھ نکلنا شروع ہوجائے‘ بالکل اسی طرح مومن کا دل شکروسپاس کے جذبات سے لبریز رہتا ہے اور جیسے ہی رب کی کسی نعمت کا اسے احساس ہوتا ہے یہ جام چھلکنا شروع ہوجاتا ہے اور اُس کی زبان سے اپنے رب کی حمدوستایش کے کلمات بے اختیار جاری ہوجاتے ہیں۔

قولی شکرگزاری کی طرح عملی شکرگزاری کے بھی دو ہی پہلو ہیں۔ ایک: نعمت کی قدروحفاظت‘ دوسرے: اُس کا جائز استعمال۔ ایک شخص جسے صحت جیسی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا گیا ہو‘ اُس پر لازم ہے کہ وہ اِس نعمتِ رب کا شکر ادا کرے۔ اس کا عملی شکر یہ ہے کہ وہ اس کی قدر کرے اور صحت کو تباہ کرنے والے عوامل سے اجتناب کرے۔ اُن غذائوں‘ مشروبات اور معمولات سے اپنے آپ کو بچائے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ پھر اس صحت اور توانائی سے بھرپور استفادہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں‘ اوقات کار اور وسائل کو اللہ کی بندگی‘ رسولؐ اللہ کی اطاعت اور رزقِ حلال کے حصول میں صرف کرے۔ معاملات میں اللہ کی قائم کردہ حدود کا احترام کرے۔

نعمت ھدایت

جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات کا اہتمام کیا۔ رزق‘ لباس اور راحت کے اسباب مہیا کیے۔ دن کو کام کاج اور رات کو آرام کے لیے بنایا‘ بالکل اسی طرح اس نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا بھی انتظام فرمایا۔ اُس نے انسان کو عقل وفکر‘ نیز سماعت و بصارت سے آراستہ کیا اور وحی و رسالت کے ذریعے اُس کے سامنے ایک صاف سیدھا اور کشادہ راستہ کھول دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا (الدھر ۷۶:۳)

ہم نے اسے راستہ دکھا دیا‘ خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

گویا جو بندہ نعمتِ ہدایت کو قبول کرتا ہے‘ صراط مستقیم کو اپنا لیتا ہے‘ وہی دراصل اس کا شکرادا کرتا ہے اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ کر شیطان کی راہوں پر بھٹکتا ہے وہی دراصل ناشکرگزار ہے‘ یعنی کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے بعد نعمت ہدایت کا شکر یہ بھی ہے کہ بندہ اسے اپنے تک محدود نہ رکھے‘ بلکہ مسلسل اس کی اشاعت کا فریضہ سرانجام دیتا رہے۔ بندہ جب خود روشنی میں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اُن بندوں کو روشنی کی طرف لے کر آئے جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔


اب آیئے یہ دیکھیں کہ شکر کے اس جذبے کو پروان کیوں کر چڑھایا جائے۔

معرفتِ نعمت

بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر ہر پل نگاہ رکھنی چاہیے۔ بہت ساری نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کو انسان سرے سے نعمت خیال ہی نہیں کرتا‘ یا اُن کی اتنی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہیے۔ یہی چیز بعدازاں ناشکری کو جنم دیتی ہے‘ مثلاً انسان کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسے اللہ کی کتنی نعمتیں حاصل ہیں۔ انسان ہر پل سانس لیتا ہے‘ لیکن اکثر اوقات اُسے احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ رب العالمین کی کتنی بڑی نعمت سے مفت میں فیض یاب ہو رہا ہے‘ وہ نعمت جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے! اس نعمت کی قدر اس تصور سے ہوسکتی ہے کہ آدمی ہر سانس لینے کے بعد یہ سوچے کہ شاید یہ زندگی کا آخری سانس ہو‘ اور اس کے بعد اگر سانس لینے کا موقع ملے گا بھی تو صرف اللہ کے حکم سے ملے گا۔ اسی طرح ایک بینا آدمی آنکھوں کی قدر نہیں کرتا لیکن نابینا کے پاس اِن کی قدر ضرور ہوتی ہے۔

ایک انگریز مصنفہ ہیلن کیلر جو کہ پیدایشی نابینا تھیں اپنے ایک مضمون Three Days to See (دیکھنے کے لیے تین دن) میں رقم طراز ہیں کہ ’’اکثر دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کا صحیح استعمال نہیں جانتے‘‘۔ وہ اس کی مثالیں دیتی ہیں کہ: یہ واقعہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی پارک‘جنگل یا بازار میں ڈیڑھ دو گھنٹے گھوم آئے۔ آپ جب اس سے وہاں کا احوال پوچھیں تو وہ دو چار جملوں سے زیادہ اپنے تاثرات بیان نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ بہت ساری چیزوں کو اُس نے دیکھا ہی نہیں ہوگا‘‘۔ وہ آگے ایک جگہ تجویز کرتی ہیں کہ ہر شخص کو اپنی آنکھیں اس طرح استعمال کرنی چاہییں گویا کہ وہ کل اندھا ہوجائے گا۔ صرف اسی طرح انسان آنکھوں کے بھرپور استعمال سے آشنا ہوسکے گا۔

یہ بھی نعمت کی معرفت میں شامل ہے کہ انسان نعمت کے فوائد اور استعمالات پر برابر غور کرتا رہے۔ ارشاد باری ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (ابراھیم ۱۴:۳۴)‘ اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ حالانکہ یہاں لفظ نعمت بطور واحد استعمال ہوا ہے جس کی جمع اَنْعَمْ ہے۔ چنانچہ اس آیت کا زیادہ فصیح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ: ’’اگر تم اللہ کی نعمت (کے فوائد) کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے‘‘۔ مثال کے طور پر پانی ایک نعمت ہے لیکن اس کا صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔ اس پانی کو انسان پیتا ہے‘ اسی سے کھاناپکتا ہے‘ اسی سے فصلوں میں ہریالی ہے۔ پھلوں میں ذائقہ ہے‘ موسم کی گرمی و سردی ہے‘ یہی پانی آج توانائی کا منبع ہے۔ اسی طرح سورج ایک نعمت ہے لیکن اس کا بھی صرف ایک فائدہ نہیں ہے۔    نہ صرف یہ کہ یہ نعمتیں ہمہ جہتی اور کثیرالفوائد ہیں‘ بلکہ ان میں سے ہر ایک انسانی زندگی کے لیے لازمی اور ضروری (vital) ہے۔ ذرا سوچیں‘ اگر اس کرئہ ارض پر آکسیجن نہ رہے تو کیا روے زمین پر زندگی کے کوئی آثار رہیں گے؟ اگر پانی خشک ہوجائے تو کیا انسان اور دیگر کسی جان دار کا اس زمین پر زندہ رہنا ممکن ہوگا؟ یا سورج مستقل غروب ہوجائے تو زندگی کا پہیہ کیسے چلے گا؟ غرض‘ ہرنعمت اتنی اہم ہے کہ گویا اُسی پر زندگی کا دارومدار ہے۔ مزید یہ کہ یہ تمام نعمتیں ہمیں بالکل مفت ‘ بہت بڑے پیمانے پر اور بغیر طلب کے میسر ہیں۔

نعمت سے محروم لوگوں پہ نظر

دل کو شکر کا گہوارہ بنانے کے لیے بندئہ مومن کو چاہیے کہ دنیاوی نعمتوں کے سلسلے میں ہمیشہ اُن لوگوں پر نظر مرکوز رکھے جو اِن نعمتوں سے محروم ہیں۔ لیکن آج المیہ یہ ہے کہ انسان کی نظر نیچے کے بجاے اُوپر کو جاتی ہے ‘اور وہاں جاکر ٹھیرتی ہے جہاں انسان حسرت و یاس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ سعدی کا ایک واقعہ لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

ایک مرتبہ میں سفر پر تھا۔ دورانِ سفر جوتے ٹوٹ گئے۔ چنانچہ برہنہ پا سفر جاری رکھا اوراتنی رقم  پاس نہ تھی کہ نئے جوتے خرید سکوں۔ دل میں شکوہ پیدا ہوا کہ مجھ جیسا عالم جوتوں کے بغیر سفر کر رہا ہے۔ راستے میں ایک مسجد میں نماز کے لیے رکا تو دیکھا کہ ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے‘ جس کے دونوں پائوں کٹے ہوئے ہیں۔ میںنے فوراً سجدئہ شکر ادا کیا اور کہا: اے اللہ! تیرا شکر کہ میرے پائوں توسلامت ہیں۔ کیا ہوا جو مجھے جوتا میسر نہیں۔ یہی وہ اندازِ فکر ہے جو بندۂ مومن کا دل شکر سے معمور کر دیتا ہے۔

نعمت ایک آزمایش

نعمت کے حوالے سے ایک تیسرا پہلو بھی قابلِ غور ہے‘اور وہ یہ کہ یہ ایک آزمایش ہے‘ چنانچہ ارشاد باری ہے:

مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ (الفجر۸۹: ۱۵-۱۶)

اس کے مقابلے میں بندئہ مومن کا حال یہ ہے کہ وہ ظاہری حالت کے بجاے پوشیدہ آزمایش کی طرف خیال کرتا ہے۔ یہی احساس فاقہ کشی میں اُسے صابر اور خوش حالی میں اُسے شاکر رکھتا ہے۔ اسی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے:

ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ o (التکاثر ۱۰۲:۸)

پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔

اس آیت کی تفسیر میں سیرت کا یہ واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے ہمراہ ایک انصاری صحابیؓ کے باغ میں تشریف لے گئے۔ اُنھوں نے آپ حضرات کے سامنے کھجوروں کا ایک خوشہ لاکر رکھ دیا۔ آپؐنے فرمایا: تم خود کھجوریں توڑ لاتے۔ اُنھوں نے کہا: میں چاہتا تھا خوشہ حاضر کر دوں اور آپ اپنی پسند سے کھجوریں توڑ کر تناول فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ اور آپ ؐکے اصحاب نے کھجوریں تناول فرمائیں اورٹھنڈا پانی نوش کیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! یہ ان نعمتوں میں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن جواب دہی کرنا پڑے گی۔ یہ ٹھنڈا سایہ‘ یہ میٹھی کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔

یہ وہ طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے جو انسان کے دل کو شکر کا گہوارہ بناسکتا ہے۔ اسی طرزِعمل سے وہ اپنی زبان کو حمدالٰہی سے مزین کرسکتا ہے‘ اور اپنے عمل کو قانونِ الٰہی کا پابند بناسکتا ہے۔