۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البنا خون میں لت پت اپنے رب کریم سے جا ملے۔ آپ نے اقامت دین کے راستے میں حائل بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
آپ نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی صحیح تصویر جاگزیں کرنے ، ان کے دلوں میں اسے راسخ کرنے، عملی زندگی میںانھیں اسلام کے تابع فرمان بنانے، اور اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
حسن البنا نے جن بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے شہادت کا مرتبہ پایا ، ان میں سے سرفہرست عصر حاضر کے وہ بت ہیںکہ جنھیں لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ اور وہ اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دولت و اقتدار کے کروفر رسوم و رواج کے چنگل یا مذہبی فریب کاری سے متاثر ان بتوں کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں۔ یہی بت ہیں جن کی جانب ہر سمت سے لوگ بھاگے آتے ہیں ،اور ہر جگہ انھی بتوں کے گرد لوگ دیوانہ وار چکر کاٹتے ہیں۔ ان کی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح ان سے جا ملیں یا ان کا قرب حاصل کرلیں۔ ایسے کم ظرف لوگ اپنے ازلی و ابدی رب کی نافرمانی کرتے ہیں اور وقتی‘ عارضی اور بودے جھوٹے خدائوں کی رضا جوئی چاہتے ہیں۔
عصر حاضر کے یہ بت ،قدیم زمانے کے پتھرا ور لکڑی وغیرہ کے بت نہیں ہیں، جن کی آغوش میں انسان پناہ لیتے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے انھیں پوجتے تھے۔ یہ مجسم چلتے پھرتے انسانی بت ہیں، جن میں مریض روحیں سرایت کرچکی ہیں، جنھیں خواہشات نے غلام بنا رکھا ہے اور جنسی اور مالی ہوس ناکی نے انھیں توڑپھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسی روحیں جن پر بد ترین افکار اور حقیر خواہشات غالب ہیں۔ ایسی روحیں جو مال و جاہ پر فریفتہ ہیں اور خدا کے عطا کردہ جاہ و جلال سے بے پروا ہیں۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو فراموش کرچکے ہیں اور جنھوں نے اس کے نازل کردہ احکامات کا انکارکر رکھا ہے،یہ خود بھی بدبخت ہیں اور انھوں نے دوسروں کو بھی بد بخت بنارکھاہے۔ وہ نہ صرف خود گمراہی و ہلاکت میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ، اپنے پیروکاروں کو بھی لے ڈوبے ہیں۔
حسن البنا نے نہ تو کوئی جنگ چھیڑی تھی اور نہ وہ بغاوت کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ ایک نہتے انسان تھے۔ ان کے پاس حق کا ہتھیار ضرورتھا، لیکن یہ ان کی سرشت میں نہ تھا کہ وہ لوگوں پر چڑھ دوڑیں، وہ حکیمانہ اور بھلے انداز سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے ، اور لوگوں کو ایسے بھلائی کے کاموں کی طرف دعوت دیتے تھے جن میں سراسر ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی اور ان کے لیے خوش بختی کا سامان ہو۔
حسن البنا نے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ اسلام طاقت و قوت اور عزت و شوکت کا نام ہے، جب کہ لوگوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اسلام کمزوری ، غلامی اور خودسپردگی کا نام ہے۔ انھوں نے لوگوںپر واضح کر دیا کہ اسلام ،انصاف ، پاکیزگی ، آزادی ، مساوات اور برابری کا دین ہے۔ جس وقت مسلمان مظالم ، تکالیف اور ایذا رسانی کے سبب کراہ رہے تھے اور گناہوں میں ڈوب چکے تھے ، ان کی آزادی سلب اور حکومت ختم ہوچکی تھی اور انھوں نے آپس ہی میں ایک دوسرے پر چڑھائی کررکھی تھی۔ ان کے طاقت وروں نے کمزوروں کو ذلیل و رسوا کرکے چھوڑاتھا اور ان کے حاکموں نے رعایا کو دبا رکھاتھا....... امام حسن البنا نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ اسلام ہی ان کے درمیان وحدت اور ان کے ممالک کے لیے اتحاد کا سبب ہے، اسلام ہی مومنوں کے درمیان بھائی چارے کا باعث اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون و یک جہتی کا وسیلہ ہے۔اسلام نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرنے، اور یک جا ہو کر خیر کے پھیلانے اور شر و فساد کو ختم کرنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ حسن البنا ایک طویل جدوجہد اور اَن تھک محنت کے بعد کامیاب ہوں۔ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے ، ان کی دعوت کو قبول کیا اور ان کی یہ دعوت اطراف و اکناف میں پھیل گئی۔ مختلف علاقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے مردوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں نے اس دعوت کو قبول کیا۔ گویا وہ نئے جو ش و ولولے سے دائرۂ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور قرآن کے جھنڈے تلے صف آرا ہوگئے ہیں۔ وہ سب یک زبان تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی غرض و غایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کے لیڈر اور رہنما ہیں، قرآن کریم ہی ان کا دستورِ حیات ہے، جہاد ان کا راستہ ہے اور اللہ کی راہ میں موت ان کی منتہاے آرزو ہے۔
جب یہ دعوت مسلم دنیا میں پھیلی اور اس کی روشنیاں ہرسُو جگ مگانے لگیں تو ظالموں کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ ان کے مظالم کی طویل رات کے زوال کا وقت آگیا ہے۔ سامراجی قوتوں نے محسوس کیا کہ ان کے شکار ان کے ہاتھ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ظلمتوں کے پجاری چمگادڑوں نے جان لیا کہ اسلام کی روشنی میں ان کے لیے زندہ رہنا دشوار ہوگا، تو انھوں نے اپنے تئیں سمجھا کہ اس دعوت کے داعی کے قتل کے ساتھ ہی اس دعوت کابھی خاتمہ ہوجائے گا۔اسی لیے انھوں نے دھوکے اوربہانے سے امام حسن البنا کو قتل کردیا۔ آپ رحمہ اللہ توخوشی خوشی اپنے رب کریم سے جاملے، تاکہ اس کے ہاں انبیا و صدیقین کے ساتھ جگہ پالیں۔ جہاں تک تعلق ہے انھیں دھوکے سے شہید کرنے والوں کا تو انھوں نے یہ مکروہ اور قبیح حرکت کرکے اللہ تعالیٰ کا غضب مول لیا اور اس کی لعنت اور دنیا و آخرت کی رسوائی حاصل کی۔
حسن البنا، شہید اسلام ہیں، جنھوں نے اذہان میں اسلام کی تجدید کی، قلوب میں اسے زندہ کیا، مسلمانوں کے مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکی، انھیں خواب غفلت سے بیدار کیا اور انھیں اپنی آزادی اور ناموس دین و ملت کی حفاظت کے لیے ابھارا۔
امام حسن البنا کوجن ظالموں نے قتل کیا وہ سراسر خسارے میں رہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی ذات کو ختم کرکے شاید انھوں نے ان کی دعوت کو بھی ختم کردیا، حالانکہ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ وہ کوئی چند اشخاص کی دعوت نہیں ہے بلکہ اللہ کی پکار ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سمجھادیاہے کہ دعوت کا تعلق اس ذات وحدہٗ لاشریک سے ہے ، دعوت دینے والوں کی ذات سے نہیں ہے۔ اشخاص کا اس سلسلے میں بس اتنا ہی حصہ ہے کہ جس کسی نے اس دعوت کے لیے کوشش کی اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کے سبب اسے عزت دی، اور جس نے اس دعوت کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھلائی سے دور کردیا،پھر وہ کسی حال میں دعوت کی اس نعمت تک نہیں پہنچتا۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے ان کی دعوت کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا ، تو پھر حسن البنا کے دنیا سے چلے جانے سے اس دعوت کو کیسے نقصان ٖپہنچ سکتا ہے۔ لیکن ظالموں کو اس کی سمجھ کیوںکر آئے گی۔
میں جس چیز کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل میں دعوت اسلام ، کسی شخص کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دعوت ہے۔ گویا بھلائی ، سعادت مندی اور انسانی اصلاح کے لیے تو یہ ایک روشنی ہے۔ ایسی روشنی جسے اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف اتارا ہے، تاکہ جہالت اور ظلم کے اندھیروں کو پاش پاش کردے اور کرۂ ارضی کو ظلم و فساد سے پاک کردے۔ دوسری طرف زمین میں پھیلے طاغوت اور اس کے آلہ کار ہر جگہ ، ہر زمانے میں اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اس دعوت کو نیچا دکھائیں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی پھیلائی ہوئی روشنی کو بجھا دیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بہرصورت روشنی کو مکمل کرکے رہے گا ، اور اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرے گا۔ چاہے ظالم طاغوت ،اوراستعماری سامراج ہرگز نہ چاہیں اور چاہے وہ سب مل کر ایک د وسرے کی پشت پناہی کرتے رہیں: ’’اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیںتو کیا وہ اگر انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پائوں پھر جائو گے، اور جو الٹے پائوں پھرے گا اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو صلہ دے گا‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۴)
بے شک اخوان المسلمون کے محترم اور محبوب قائد حسن البنا کو قتل کردیا گیا، ان کے ساتھیوں میں سے بھی کئی قتل ہوئے،بہت سے ستائے گئے، آزمائے گئے اور انھیں ان کے گھروالوں کو مال اور مستقبل کے حوالے سے آزمایش میں ڈالا گیا، لیکن یہ سب کچھ انھیں اللہ تعالیٰ کی دعوت سے نہ پھیر سکا بلکہ ان کے ایمان اور ثابت قدمی میں اضافے کا سبب ہوا۔
الحمدللہ ،وہ تمام آزمایشوں سے زیادہ سخت جان، زیادہ پختہ ارادے والے اور برائی کی قوتوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنے والے بن کرصراط مستقیم پر گام زن ہوئے۔ وہ اپنے شہید راہ نما کے طریقے پر چلتے رہے ، جو اپنے قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور اللہ جل شانہ کی کتاب کو تھام کر چلنے کے لیے کوشاں رہے۔ ہرلمحہ اللہ تعالیٰ سے دعاگو رہے کہ وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملاقات کریںکہ جس میں ملنا مطلوب ہے۔
ایمان والوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں ، جنھوں نے سچ کردکھایا وہ وعدہ جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیاتھا ، پس ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی نذر پوری کردی اور کچھ منتظر ہیں اور وہ ہرگز نہیں بدلے۔ (الاحزاب ۳۳: ۲۳)
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو حق کی مخالفت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو بوجھ بلکہ ناخوش گوار سمجھتے ہیں۔ اگر وہ عبرت حاصل کریں اور سمجھ جائیں تو اس میں ان کے لیے اور لوگوں کے لیے بھلائی ہے۔ کامیابی حق کے لیے ہے۔ یہ باطل خواہ کتنا بلند اور کامیاب ہو بالآخر اسے زوال پذیر ہونا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے روز اول سے طے کردیاہے کہ اس کا حکم ہی غالب رہے گا اور اس کے رسولؐ کا بھی۔ جوکوئی بھی اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنے کی حماقت کرتا ہے، وہ خود مغلوب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لازم کرلیا ہے اپنے لیے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو زمین کا وارث بنائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے تم میںسے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا گیا جو تم سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کا وہ دین جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے ، غالب کردے گا۔ (النور ۲۴:۲۵)