پروفیسر لارنس ایچ سمرز


اخذ و تلخیص: سلیم منصور خالد

۱۴ جنوری ۲۰۰۵ء کو نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ (NBER)امریکا کے تحت ایک قومی کانفرنس میں مسئلہ زیربحث تھا: ’انجینیرنگ اور سائنس کے اعلیٰ اداروں میں اور اعلیٰ مناصب پر عورتوں کی نمایندگی‘۔ امریکا کی درجہ اول کی دانش گاہ‘ ہارورڈ یونی ورسٹی کے صدر اور ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر لارنس ایچ سمرز (Lawrence H. Summers) نے مسئلے کی نوعیت کو اپنے حسب ذیل خطبے میں واضح کرنا چاہا‘ جس پر امریکا کے طول و عرض میں حقوق نسواں کی لیڈر خواتین نے ان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے کہ ’اسے برطرف کیا جائے، یہ عورتوں کو باورچی خانے میں دھکیلنا چاہتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ___ عورتوں اور مردوں کے فطری میدانِ کار کے خلاف لڑنے والے مغربی معاشرے میں فطرت کا یہ اعتراف‘ پاکستان کے مغرب پرست فوجی حکمرانوں کی حکمت عملی کا بھی جواب ہے جس کے تحت‘ کسی فطری مناسبت سے نہیں بلکہ مغربی دنیا سے بھی زیادہ ’روشن خیال‘ بننے کے خبط میں وہ ہرجگہ خواتین کو آدھے یا تیسرے حصے پر فائز کرتے نظر آتے ہیں۔ حکمران تو اپنی پالیسیاں زیادہ تر‘ سیاسی مصلحتوں کے تحت مرتب کرتے ہیں___ لہٰذا اُن سے قطع نظر ‘ پروفیسر سمرز کی یہ تقریر‘ ہمارے ان دانش وروں کے لیے بھی لائق غوروفکر ہے‘ جو خواتین کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ان کے بہی خواہ کی حیثیت سے دلی طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے آرزومند ہیں۔ (س - م-خ)

زیربحث مسئلے کے ایسے بہت سے پہلو ہیں‘ جو قومی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم میں اپنی بحث کو صرف اس دائرے تک محدود رکھوں گا کہ ہمارے ہاں درجہ اول کی    یونی ورسٹیوں میں سائنس اور انجینیرنگ کے شعبہ ہاے تعلیم و تحقیق کی کلیدی اسامیوں پر عورتیں کیوں بڑی تعداد میں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اس موضوع کو میں اس لیے زیربحث نہیں لا رہا ہوں کہ یونی ورسٹی سطح کی تعلیم و تدریس میں یہ کوئی بڑا اہم مسئلہ ہے‘ یا پھر کوئی بڑا دل چسپ موضوع ہے‘ بلکہ گزارشات اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ جن اہم موضوعات پر میں خاصے عرصے سے سوچ بچار کرتا رہا ہوں‘ یہ ان میں سے ایک حسّاس موضوع ہے۔ طے شدہ نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے بجاے ہمیں زیربحث معاملات کو کھلے ذہن سے دیکھنا چاہیے‘ کیوں کہ اسی کے نتیجے میں ہم صنفی مساوات کے ناقابل تردید نظریے کی ایک منصفانہ اور موزوں تعبیر و تشریح کرسکتے ہیں۔

مسئلہ صرف سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم تر نمایندگی کا نہیں ہے۔ ہم دیگر بہت سے شعبہ جات میں مختلف گروپوں کی کم تر نمایندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر: کیتھولک عیسائی‘ بنک کاری سرمایہ کاری کے میدان میں محدود تر ہیں‘ حالانکہ ہمارے معاشرے میںیہ بہت زیادہ دولت پیدا کرنے والے شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری قومی باسکٹ بال ٹیم میں گوری نسل کے کھلاڑی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سیاہ فام نسل کے کھلاڑی چھائے ہوئے ہیں لیکن ان کی صلاحیتِ کار کی بنیاد پر کسی کو رنگ و نسل کے حوالے سے اعتراض کا جواز نہیں ملتا۔ پھر زراعت اور فارمنگ کے شعبوں میں یہودیوں کی نمایندگی یا ان کا کردار نمایاں طور پر بہت تھوڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اور ان جیسے دیگر شعبہ ہاے زندگی میں کم تر نمایندگی کے مظاہر یا مثالوں کے اسباب کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں ایک باقاعدہ نظامِ کار کے تحت طبّی اور نفسیاتی تحقیقات کو بھی بنیاد بناکر اصل حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

عورتوں کی واضح طور پر کم تر نمایندگی کے اسباب کا جائزہ تین وسیع تر مفروضوں کی بنیاد پر لیا جا سکتا ہے۔ قومی ادارہ معاشی تحقیقات کی کانفرنس کی دعوتی دستاویز میں ان کا ذکر چھیڑا گیا ہے۔ اس دستاویز سے پہلا یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ: غالباً سائنس‘ انجینیرنگ اور ٹکنالوجی نہایت اعلیٰ تنخواہوں کے شعبے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کم تر نمایندگی میں غالباً خواتین کے رجحانِ طبع (aptitude)کو چیلنج کیا گیا ہے‘ اور تیسرا یہ کہ کم تر نمایندگی دے کر سماجی سطح پر ذہین اور اعلیٰ درجے کی خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انھیں صنفی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

میں نے مختلف مواقع پر اس نوعیت کے بڑے نازک اور حساس موضوعات پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے اعلیٰ منتظمین سے‘عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی بڑی وسیع کمپنیوں کے اعلیٰ شراکت داروں سے‘ مشہورِ زمانہ تدریسی ہسپتالوں کے ڈائرکٹروں سے‘ پیشہ ورانہ سروس فراہم کرنے والی بڑی بڑی تنظیموں کے قائدین سے اوراعلیٰ درجے میں تعلیم و تحقیق سے وابستہ اساتذہ‘ دانش وروں اور تحقیق کاروں سے مسلسل تبادلۂ خیال کیا ہے۔ ان تمام گروپوں سے مکالمے کے نتیجے میں بنیادی طور پر ایک ہی جیسی حیرت انگیز کہانی میرے سامنے آئی ہے۔

اب سے ۲۵ برس پہلے کی بات ہے سائنس اور انجینیرنگکے شعبہ ہاے تدریس و تحقیق میں ہم نے بڑے پرجوش انداز سے اور دانستہ طور پر عورتوں کی نمایندگی خاصی بڑھائی۔ جن خواتین نے ۲۵ سال پہلے ان شعبہ جات سے وابستگی اختیار کی تھی‘ وہ اس وقت ۴۵‘ ۵۰ سال کے لگ بھگ ہوں گی۔ مگر اب ان شعبہ جات میں جاکر دیکھیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ وہ فاضل خواتین جن کے بارے میں بڑی توقعات قائم کی گئی تھیں‘ ان میں سے آدھی نہیں بلکہ آدھی سے بھی زیادہ تدریس و تحقیق کا یہ شعبہ چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور جو موجود ہیں‘وہ ان شعبہ جات میں ’عورتوں کی کم تر نمایندگی یا استحصال‘ کی علامت قرار دی جارہی ہیں۔ پھر اس میدان میں رک جانے والی ان فاضل خواتین میں بھی صورت یہ ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں یا پھر بچوں کے بغیر___ یہ ہے حقیقتِ حال‘ اور یہی بات اعلیٰ درجوں کے دوسرے متعدد پیشہ ورانہ اداروں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے پیشے اور لاتعداد ایسی باوقار سرگرمیاں ہیں جن میں کم و بیش ۴۰ سال کی عمر میں فرد بھرپور انداز سے قیادت اور رہنمائی کی جانب گام زن نظر آتا ہے۔ ہر ادارہ‘ شعبہ یا خود کام‘ اس فردسے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے اوقاتِ کار کا بڑا حصہ اپنے دفتر کو دے گا‘ کام سے دل بستگی کے باعث ہنگامی صورت حال میں بھی دفتری اوقات کے تقاضوں کو قربان نہیں کرے گا۔ اس اُبھرتے پرجوش لیڈر سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ فارغ اوقات میں بھی اسی مقصد کے لیے اور اس راہ میں پیش آمدہ مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے ذہن‘ فکر اور توجہات کو مرکوز رکھے گا‘ بلکہ اگر کسی وجہ سے اس کی ملازمت نہ بھی رہے تب بھی اس کی فکر کا محور یہی کام ہوگا۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ تاریخی طور پر ہمارے معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے برعکس ایک شادی شدہ مرد اُوپر بیان کردہ پیشہ ورانہ وابستگی کے تقاضے کہیں زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان عورتوں کی تعداد کتنی ہے جو اپنی عمر کے ۲۰ سے ۳۰ سال کے حصے میں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ ہفتے میں ۸۰ گھنٹے کام کرنے والی ملازمت اختیار نہیں کریں گی‘ اس کے مقابلے میں اسی عمر کے مردوں میں کتنے ہوں گے جو ۸۰گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے والی ملازمت اختیار کرنے سے انکار کریں گے؟ ان دونوں کے اعداد و شمار کا تقابل کریں تو حقیقت خود واضح ہوکر سامنے آجائے گی۔ تاہم ایک اہم سوال یہ بھی اٹھائوں گا کہ کیا ہمارا معاشرہ یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ جو لوگ اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں وہ ۸۰‘ ۸۰ گھنٹے فی ہفتہ کام کریں۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف نوعیت کے غیرمتوازن رویے اپنانے اور نظریات گھڑ لینے کے بعد‘ اس طرز پر سوچنا اور پھر اس پر چلنا خاصا مشکل ہوگیا ہے جسے میں غیرمعمولی اہمیت دے رہا ہوں۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے جس کے باعث سائنس اور انجینیرنگکے شعبہ جات میں عورتیں دیگر شعبوں کی بہ نسبت کم تعداد میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی تخلیقی صلاحیتوں میںخاصا فرق پایا جاتا ہے‘ مثلاً: قد‘ وزن‘ مجرمانہ ذہنیت‘ مجموعی طور پر ذہانت (I.Q)‘ پھر ریاضیاتی اور سائنسی امور میں صلاحیتِ کار کا فرق ہمیں مردوں اور عورتوں میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ فرق کسی وقتی حادثے کے طور پر ظاہر نہیں ہوئے بلکہ تمدنی اور ثقافتی طور پر ہزاروں سال سے ثابت شدہ ہیں۔

سائنس اور ریاضی میں دونوں اصناف (sexes) کے رجحانِ طبع‘ فطری مناسبت اور ذہانت کے معیار کو آپ جس بھی بہترین طریقے سے ناپیں گے‘ نتیجہ یہی نکلے گا کہ جہاں دو مرد ہوتے ہیں‘ وہاں ایک عورت پہنچتی ہے۔ کسی زیادہ بہتر طریقۂ پیمایش کے ذریعے آپ اس مفروضے کو ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر اگر کوئی دوسرا نتیجہ سامنے لاسکتے ہیں تو اس کا خیرمقدم کروں گا۔ جس چیز کو میں سائنس‘ انجینیرنگ اور اعلیٰ اختیاراتی ملازمتوں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کا باعث سمجھتا ہوں‘ کوئی آئے اور میرے اس نتیجۂ فکر کی خامی اور سامنے نظر آنے والے نتائج کی غلطی کو ثابت کرے۔

سب سے اہم اور متنازعہ مسئلہ‘ جنسی امتیاز کے موضوع اور سمت کے گرد گھومتا ہے۔ یہ امتیازی رویہ واقعی کس قدر وسعت پذیر ہے؟ بلاشبہہ بعض حوالوں سے جنسی امتیاز پایا جاتا ہے‘ جس میں اثرپذیری اور رواج پکڑنے کے روایتی گھسے پٹے رجحانات بھی ملتے ہیں۔ جس کے تحت لوگ‘ اپنی پسند کے لوگوں کو ذمہ داریوں پر بٹھاتے ہیں اور گوری نسل کے مرد‘ اپنی ہی نسل کے مردوں کو ترجیح دے کر‘ نامناسب انداز سے آگے لاتے ہیں اور بسااوقات ایسا اقدام شہ زوری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یونی ورسٹی سطح پر تدریس و تحقیق سے وابستہ لوگ اس مشاہدے کی تردید نہیں کرسکتے۔افسوس کہ یہ رجحان آج بھی وسعت پذیر اور غالب ہے۔

دوسرا نکتہ ہے نسلی امتیازکا‘ جسے ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا سبھی لوگ نسلی امتیاز کی بھینٹ چڑھ گئے یا کچھ لوگ اپنی خداداد قابلیت اور اعلیٰ درجے کی اضافی صلاحیتوں کے باعث اس بہت بڑی رکاوٹ کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یقینا اس سخت صورت حال کے باوجود جو مواقع ان اعلیٰ اداروں کی رنگارنگی (diversity) میں موجود تھے‘ جوہرِ خالص نے مضبوط قدموں سے اس میں اپنی جگہ بنالی اور علم‘ فن‘ تحقیق کے ذریعے انسانیت کو فائدہ پہنچایا۔ اگر واقعی علوم و فنون کی دنیا میں گہرائی تک سرایت کرنے والا تعصب و امتیاز پر مبنی نمونہ ہی موجود ہوتا تو کئی مؤثر رنگ دار امیدوار کبھی نہ آگے بڑھنے پاتے‘ اور  نہ وہ اپنی زبردست صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے۔ اعلیٰ مناصب پر خواتین کی بڑی تعداد کے ہونے یا   نہ ہونے کو جنسی امتیاز قرار دیتے وقت اس پہلو کو بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اور اس نوعیت کے سوالات کا کیا جواب ہو؟ہمیں جنسی یا نسلی امتیاز کی تقسیم سے بالاتر ہوکر یہ عمل کس طرح کرنا چاہیے۔ ہماری سوچ مثبت انداز سے ان پہلوئوں کو زیربحث لائے تو یہ زیادہ ثمربار ہوگا۔

اگرچہ ہمیں اقدام کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن قدم اٹھاتے وقت بڑے پیمانے پر احتیاط بھی کرنی چاہیے۔ یہ بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ میں نے اپنی حد تک وسیع مطالعۂ لٹریچر اور متعلقہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے تبادلۂ خیال کی روشنی میں‘ دیانت داری سے بہترین قیاس (guess) پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری سب باتیں غلط ہوں۔ تاہم میں اسی وقت اپنے آپ کو کامیاب سمجھوں گا جب میری یہ گزارشات لوگوں کو جھنجھوڑ کر غور کرنے کے لیے بیدار کریں گی۔ ہم لوگوں کو بڑی دقّتِ نظر سے ان معاملات پر غور کرنا چاہیے‘ اور مسائل کو   بے جا طور پر جذباتیت اور محض اشتعال کی کٹھالی میں ڈالنے کے بجاے بڑی سخت محنت اور احتیاط سے پرکھنا چاہیے۔ ایسے رویے سے ہماری اس جیسی کانفرنسیں کچھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں۔ (حوالہ: www.president-harvard.edu/speeches/2005)


حاشیہ: جب یہ بحث نقطۂ عروج کو پہنچی تو سٹیوسیلر (Steve Sailer)نے ۲۰ فروری ۲۰۰۵ء کو انٹرنیٹ پر بحث کرتے ہوئے لکھا: ہمارے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے لیے تحقیق و تعلیم کے مساوی مواقع ہیں‘ لیکن عملاً نتائج دیکھیں تو دونوں اصناف مختلف نوعیت کے مظاہر سامنے لاتی ہیں۔ سائنسی علوم میں ٹھوس تحقیقی کارہاے نمایاں کی پیمایش کے لیے نوبل پرائز کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہرچند کہ پہلی شخصیت جس نے دو مرتبہ نوبل پرائز حاصل کیا وہ ایک عورت مادام کیوری (Curie) تھی‘ جس نے ۱۹۰۳ء میں فزکس اور ۱۹۱۱ء میں کیمسٹری کا پرائز حاصل کیا‘ لیکن اس کے بعد ۱۹۶۴ء تک فزکس اور کیمسٹری کے میدان میں کل پانچ خواتین نے نوبل پرائز لیا۔ بعدازاں ان دونوں میدانوں میں ۱۶۰ سائنس دانوں نے نوبل پرائز حاصل کیے‘ جن میں عورتوں کا نمبر صفر ہے۔ میڈیکل سائنسز میں اگرچہ عورتوں کی کارکردگی تسلی بخش ہے لیکن‘ اس میدان میں خواتین عملاً ۳ئ۲ نوبل پرائز حاصل کرسکیں۔ فیلڈ پرائز (Fields Prize) ’نوبل پرائز‘ جیسے مقام و مرتبے کا اعزاز ہے‘ جو ریاضی (maths) میں اعلیٰ درجے کی صلاحیت کے حامل اسکالر کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے‘ مگر آج تک کوئی عورت یہ ایوارڈ حاصل نہیں کرسکی۔ ۱۹۶۹ء سے اب تک معاشیات میں ۴۴ نوبل ایوارڈ دیے گئے ہیں‘مگر ان میں سے ایک بھی عورت نہیں ہے۔ ہالی وڈ میں کہانی کار خواتین‘ نہایت قلیل ہیں۔ بہترین فلم ڈائریکٹروں کو ۸۴ اکیڈمی ایوارڈ دیے گئے‘ جن میںصرف تین خواتین ہیں۔ سینماٹوگرافی میں کسی عورت نے اکیڈمی ایوارڈ حاصل نہیں کیا‘ حالانکہ وہ بہت بڑی تعداد میں اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ کام‘ صلاحیت کار اور کمال کا باہم تعلق بھی ہے اور الگ سے وجود بھی۔ (ایک اور فرد نے لکھا دراصل تحریکِ آزادیِ نسواں کا ایجنڈا (فیمی نسٹ ایجنڈا) واضح ہے‘ اور وہ ہے حد سے بڑھا ہوا ’مرد مخالف‘ معاشرہ تشکیل دینا)۔