اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ


جناب جگر مرادآبادی سے جب پہلی اور آخری بار مجھے شرف نیاز حاصل ہوا تو انھوں نے حیاتِ انسانی کے ایک بڑے ہی نازک اور پیچیدہ مسئلے کی گرہ کشائی کی تھی جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود میرے سینے میں ایک سربستہ راز کی طرح محفوظ ہے۔ اس اہم ملاقات میں جو میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے جناب جگر نے علامہ اقبال اور سید مودودی کے بارے میں جو اظہارِخیال کیا وہ بڑا ہی حیرت انگیز تھا جس سے ان کی پہلودار شخصیت مجھ پر منکشف ہوئی۔

سقوط حیدرآباد کے بعد ۱۹۴۸ء میں‘ کراچی پہنچنے کے بعد میں نے اُردو کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں باباے اُردو مولوی عبدالحق صاحب کے ایما پر اقبال کے اہم موضوع ’مقامات عقل وعشق‘ پر تحقیق شروع کی۔ اُن دنوں روزنامہ ڈان انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں نکلتا تھا۔ جناب الطاف حسین چیف ایڈیٹر تھے مگر دونوں اخبارات کی ادارت کی ذمہ داری عملاً ایم اے زبیری صاحب نے سنبھالی ہوئی تھی۔ آج کل بزنس ریکارڈرکے ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے اُردو اور انگریزی ڈان میں کچھ کام مجھے تفویض کردیا۔ ڈان کے مشہور مشاعرے ان کے اہتمام میں ہوتے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں انھوں نے ایک عظیم الشان پاک و ہند مشاعرہ منعقد کروایا۔ اس مشاعرے میں جناب جگرمرادآبادی بھی تشریف لائے۔

مشاعرے سے قبل ہی زبیری صاحب سے میں نے جناب جگر سے علیحدگی میں ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ انھوں نے دوسرے دن صبح ۹بجے اپنے گھرآنے کے لیے کہا۔ ان دنوں ان کی رہایش کیماڑی کے میولزمنشن میں تھی جہاں جناب جگر بطور مہمان ٹھیرے ہوئے تھے۔ چنانچہ میں دوسرے دن شوقِ فراواں لیے ہوئے زبیری صاحب کی رہایش گاہ پر پہنچ گیا۔ میری آمد کی اطلاع پر جگرصاحب ڈرائنگ روم میں تشریف لائے۔ میں نے تعظیماً اُٹھ کر استقبال کیا اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا کہ سب سے پہلے تو شرفِ ملاقات کی آرزو تھی سو پوری ہوئی۔ دوسرے‘ طلب علم کی پیاس بجھانے کے لیے حاضرخدمت ہوا ہوں۔ باباے اُردو کے ایما پر ’عقل و عشق‘ کے موضوع پر مقالہ تیار کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں موضوع سے متعلق انسانی جبلّت‘ شعور‘ لاشعور اور تحت الشعور کی جذباتی وارداتوں اور حسیّاتی تجربوں کی کیفیات کا جو علم و ادراک آپ کو حاصل ہے اس کا پرتو ہمیں آپ کی شاعری میں نظرآتا ہے۔ اس بارے میں براہِ راست رہنمائی حاصل کرنے کی شدید خواہش لے کر آپ تک پہنچا ہوں۔ کچھ پس و پیش کے ساتھ میں نے عرض کیا کہ علامہ اقبال کی شاعری میں یہ حقائق آپ سے ذرا کچھ مختلف رنگ میں نظرآتے ہیں۔ مبہم سا خوف تھا کہ اپنے عہد کے     امامِ غزل کے سامنے اسی دور کے بڑے شاعر کے متعلق تبصرے کی دعوت کہیں ناگوار نہ گزرے۔ مگر جگرصاحب کے چہرے پر میری اس بات سے ایک ہلکا سا تبسم آگیا۔ میری ساری باتوں کو وہ بڑے غور سے سنتے رہے۔ جب میں نے اپنی بات ختم کی تو فرمانے لگے کہ موضوع قدیم بھی ہے اور وسیع بھی‘ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں اور کائنات کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔

جنسی جبلّت اور عشق کی ماہیت کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ عشق کی نازک جڑیں جنسی جذبے کے اندر پیوست ہیں لیکن ان کے مظاہر مختلف ہیں۔ ان کے باہمی ربط و تعلق کے بارے میں انھوں نے چراغ کو زندہ مثال کی صورت میں پیش کیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چراغ کی بتی تیل‘ یعنی جنسی جذبے کی تہہ میں موجود ہے۔ جہاں سے وہ بتی کے اُوپر والے حصے کی خارجی دنیا میں پہنچ کر شعلے کی طرف لپکتا ہے۔ شعلے سے اتصال کے ساتھ ہی بتی روشن ہوجاتی ہے۔ یہ روشنی اسی تیل کی وجہ سے ہے جو بتی کے ذریعے اس کے سرے تک پہنچ رہا ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تیل بذات خود ایک اندھا سیال مادہ ہے جس میں کوئی روشنی نہیں لیکن ایک اعلیٰ اور برتر شے‘ یعنی شعلے تک پہنچ کر جو اُوپر کی طرف اُٹھتا ہے اس کی ماہیت بدل جاتی ہے اور وہ روشنی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ روشنی اگرچہ تیل ہی کے مواد سے چراغ کو روشن کیے ہوئے ہے لیکن اس میں تیل (جذبۂ جنسی) کے خواص اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو جذبۂ جنسی شدید قوی اور آلایشوں میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ محبت کے بجاے ہوس ناکی ہے۔ اس کا واسطہ ارضی علائق سے ہو تو اسے عشقِ مجازی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہی جذبہ آدمی کو انسانیت کے اعلیٰ نصب العین کی بلندیوں تک لے جائے تو یہ آفاقی ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی بلندتر مقام وجدان کے ذریعے الوہیت تک رسائی کا ہے جسے عشق حقیقی سے تعبیر کرتے ہیں۔

یہ سارے مدارجِ عشق ہیں۔ جب ان میں خیال کارفرما ہو تو وہ الفاظ میں منتقل ہوکر شعر یا ادبِ عالیہ کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ موجودہ نفسیات نے ’لاشعور‘ اور ’تحت الشعور‘ کی محرکات کو ناآسودہ جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے لگام چھوڑ دیا ہے جو مذہب کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے۔ اصل علمِ نفسیات اسلامی تعلیمات میں پہلے سے موجود ہے جو انسانی جبلت کو صحیح استعمال کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ صاحب ِطریقت ایک نظر میں قلب وذہن کی اندرونی کیفیات اور واردات کو دیکھ لیتا ہے اور ان پر اپنی توجہ مرکوز کردیتا ہے تاکہ وہ بہک نہ جائیں۔ محبت اور نفرت انسانی فطرت کے دو متضاد محرکات ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے ہیں۔ طریقت نفرت کے جذبے کو ختم نہیں کرتی۔ ختم کرنے کے بجاے اس کے ذریعے برائی کے خلاف نفرت کے جذبے کو بروے کار لاتی ہے۔ اس طرح محبت‘ نفرت پر غالب آجاتی ہے جو انسانی کیمیاگری کا کامیاب تجربہ ہے۔

علامہ اقبال کے متعلق میری بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کی شاعری میں عشق و زندگی اور کائناتی حقائق کی گیرائیاں جو مختلف نظر آتی ہیں اس کی وجہ اصل اندازِبیان کا فرق ہے ورنہ شاعرانہ صداقت ہمیشہ یکساں رہی ہے۔

وہ فرما رہے تھے: اقبال فلسفی‘ مفکر‘ حکیم اور بہت بڑے شاعر ہیں۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیاجب انھوں نے کہا: ’’میں انھیں شاعراعظم سمجھتا ہوں‘‘۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ایک بڑا شاعر ہی اپنے عہد کے شاعر کی بڑائی اور عظمت کا حقیقی اندازہ کرسکتا ہے۔ اور اقبال کو اپنے آپ سے جو خود خاص و عام کی نظروں میں بادشاہِ تغزل ہے برتر کہنا بڑی وسعتِ ظرفی ہے۔ فرمانے لگے اقبال نے ایسی قوم میں جو نزع کے عالم میں گرفتار تھی اپنے کلام کی تاثیر سے زندگی کی روح پھونک دی۔ آزادی اور تسخیرکائنات کے لیے اپنی درماندہ ملّت کو عشق و یقین کا عزم اور حوصلہ دیا۔ کیونکہ ایسی فاتحانہ مہم کے لیے عشق ہی کی جرأتِ رندانہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے زورِبازو سے موت کو بھی شکست دینے کی طاقت رکھتا ہے۔

میرے متعلق فرمایا کہ آپ جس موضوع پر کام کرنا چاہتے ہیں میں اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کے لیے اقبال کی ہمہ گیر شخصیت‘ مغرب کے فلسفے اور افکار کی یلغار کے خلاف ان کا جہادِ پیہم‘ اسلامی اقدار سے ان کا والہانہ عشق اور ان سے متعلقہ موضوعات کا مطالعہ ضروری ہے۔ آپ کے علمی پس منظر‘ سوالات کی اہمیت اور مولوی صاحب (باباے اُردو) کی رہنمائی سے توقع ہے کہ آپ اس بارِگراں کو اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ سے امید ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو عشق و محبت کی ان اقدار سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے جو انسان میں صفاتِ الٰہی کی تخلیق کا باعث ہیں اور یہی مقصود ہے اقبال کی شاعری کا۔

اس کے بعد انھوں نے جو بات مجھ سے کہی وہ میرے لیے انتہائی حیران کن تھی۔ اقبال ہی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے: اقبال نے خودی اور خودشعوری کا جو فکروفلسفہ شعر کی زبان میں قوم کے سامنے پیش کیا اور اس بارے میں انھوں نے لیکچر بھی دیے وہ ان کے خلوص اور مقاصدِ عالیہ کے مظہرہیں۔ لیکن ان کے ہم عصروں میں بھی کوئی ان بلندیوں تک پوری طرح پہنچ  نہ سکا۔ اس لیے وہ ان سے مایوس تھے۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اسلام کے پیغام کو عوام اور خواص کے لیے ایسے طرزِاستدلال سے عام فہم انداز میں پیش کیا جائے جسے پڑھ کر اس کی اثرپذیری سے وہ علمی جدوجہد کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں۔ کیونکہ غیرملکی حکمرانوں کے ملک چھوڑنے کے  باوجود ان کی لادینی تعلیم کے مُضراثرات نے مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی اکثریت کو ان کے اپنے دین و مذہب سے بے گانہ کردیا تھا۔ اس کے زیراثر وہ سمجھنے لگے کہ اسلام موجودہ زمانے کی ترقی کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے وہ تغیرپذیر زمانے کو اس کی خامیوں اور خرابیوں کے ساتھ قبول کرتے جا رہے تھے۔

ان حالات میں سید مودودی نے گمراہ کن نظریات اور خطرناک رویے کے خلاف    اعلانِ جنگ کردیا۔ مغربی علوم اور افکار ہی کے ہتھیاروں سے ہر محاذ پر ان کے مقابلے میں پیش قدمی کرکے یورپ کی مرعوبیت کو ان کے دل و دماغ سے نکال دیا۔ اس لیے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ مخلص کارکن ان کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ کالج اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے قلب و ذہن اس تحریک سے متاثر ہورہے ہیں۔ کیونکہ مودودی صاحب کی تحریریں نہ صرف عام فہم ہیں بلکہ ان میں سلاست‘ تجزیہ اور روانی کے ساتھ انقلاب کا داعیہ بھی موجود ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ سید مودودی کی اسلامی تحریک کے مقاصد کو سمجھنے کے بعد‘ پوری قوت سے اس کا ساتھ دیں جو حقیقت میں دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

اختتام پر میں نے خلوصِ دل سے عرض کیا کہ جناب آپ نے اپنے ایک عقیدت مند کو اپنے علم و تجربے سے اس طرح سیراب کیا ہے کہ میرے دل ودماغ کی یہ کھیتی ہمیشہ سرسبز وشاداب رہے گی ‘اور علم کی ایسی دولت سے سرفراز کیا ہے جو لازوال ہے۔فرمانے لگے کہ میں ناصح نہیں ہوں لیکن ایک مشورہ آپ کو دینا چاہتا ہوں کہ آپ اور آپ کے نوجوان ساتھی الحادی ادب اور شاعری سے احتراز کریں۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ خدا حافظ کہہ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور اندر چلے گئے۔

ایک عرصۂ دراز تک بوجوہ اس واقعے کا ذکر میں مولانا سے نہ کرسکا۔ جب یہ واقعہ میں نے انھیں سنایا اس وقت درویش مہر عاربی مرحوم اور ہمدمِ دیرینہ میاں شیرعالم سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار جو آج کل بطور سینیر سٹیزن کینیڈا میں مقیم ہیں‘ میرے ہمراہ تھے۔ یہ باتیں سن کر مولانا نے فرمایا: جگرصاحب کی رندی اور سرمستی کا زمانہ بھی میں نے دیکھا ہے اور بعد میں ان کی پاک بازی کا زمانہ بھی۔ لیکن توفیق الٰہی سے ان کا دل ہمیشہ نیکی کی طرف مائل رہا ہے۔ انھوں نے میرے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ پاکستان میں مشاعروں میں شرکت کے لیے وہ آتے رہے ہیں۔ اگر کبھی موقع ملتا تو آکر مل جاتے‘ بڑی خوشی ہوتی۔ ان کی گفتگو سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کی خدمت کرنے والوں سے انھیں محبت ہے۔ ان کی شاعری میں پاکیزگی کے علاوہ ان کی باتوں میں بھی اخلاص ہے۔ اس لیے وہ حق بات کے اظہار میں جہاں کہیں ہوں اور جس کسی کے بارے میں ہو‘ بے باک رہے ہیں۔

علامہ اقبال کے بارے میں انھوں نے جو اظہارخیال کیا ہے اس کی صداقت سے کون انکار کرسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اقبال ہی کا مشن تھا جس کی رہنمائی میں ہم اور ہمارے رفقا اور نوجوان ساتھی آگے بڑھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ اس کے اجروثواب میں ان سب نیک دل احباب کا بھی حصہ ہے جن کی دعائیں اور نیک تمنائیں ہمارے شاملِ حال رہی ہیں۔

آخر میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا کے جوش صاحب سے حیدرآباد اور دہلی سے دیرینہ تعلقات اور پاکستان میں ملاقاتوں کا سب کو علم ہے‘ لیکن مولانا کے بارے میں جگرصاحب کے خیالات اور ان سے ملاقات کا بہت کم حضرات کو علم ہے۔ اس کا ذکر میں نے ضروری سمجھا۔ یہ جگرصاحب کا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔