ارض فلسطین کے بارے میں جب بھی جہاد کا ذکر کیا جائے گا ، اخوان المسلمون کا نام سرفہرست ہوگا، بلکہ شاید یہ کہنازیادہ مناسب ہو کہ یہاں اب بھی حقیقی جہاد اخوان المسلمون ہی کررہی ہے۔
اخوان نے ارض مقدس کو اپنے خون سے سیراب کیا اور اس کے ہزاروں شہدا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ فلسطین کی موجودہ تحریک حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) بھی اخوان المسلمون کے لگائے ہوئے پودے ہی کی ایک شاخ ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد امام حسن البنا نے مارچ ۱۹۲۸ء میں رکھی تھی اور وہی اس کے پہلے مرشد عام تھے‘ جب کہ ان کی پیدایش ۱۴اکتوبر ۱۹۰۶ء کو ہوئی تھی۔ اس طرح اخوان المسلمون کے قیام کے وقت ان کی عمر صرف ۲۲برس تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب انھوں نے دارالعلوم قاہرہ سے سند فراغت حاصل کی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ وہ اپنی پوری تعلیمی زندگی میں اس طرح کی کوئی تنظیم بنانے کے بارے میں سوچتے رہے تھے، جو ان کے خیال میں دین اسلام کی تجدید اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کے احیا کے لیے ضروری تھی۔
دنیا کے گوشے گوشے میں جو تحریکیں اقامت دین کا کام کررہی ہیں، ان پر اخوان المسلمون کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اخوان المسلمون کے پہلے مرشدعام امام حسن البنا کی کوششیں تھیں، جنھوں نے اخوان المسلمون کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ یہاں پریہ ذکر بر محل ہوگا کہ امام ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)نے برعظیم پاک و ہند میں دین اسلام کی ترویج و تجدیدکے لیے بڑی عظیم کوششیں کیں۔ یہ بھی امام حسن البنا کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں نے اپنے دور میں تجدید و احیاے دین کا کارنامہ سرانجام دیا۔ان ہستیوں کے ذریعے عالمِ اسلام میں ایسی تحریکوں کی بنا پڑی جس کی نظیر ہمیں دُور دُور تک کہیں نظر نہیں آتی۔ انھی تحریکوں کے ذریعے پوری دنیا میں علم جہاد بلند ہوا اور مسلمان اس عظیم مقصد کے لیے اپنے تمام وسائل بروے کار لائے۔ ان حضرات‘ یعنی البنا اورمودودی کی فکر بڑی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔
مسئلہ فلسطین کے ساتھ دونوں رہنمائوں کی گہری وابستگی تھی اور فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں ان کی سیاسی پالیسیاں بھی بڑی واضح اور مخلصانہ تھیں۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے عظیم خدمات انجام دیں اور اہل فلسطین کی بھلائی اور ان کے منصفانہ موقف کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے بعد ان کے رفقا کی جدوجہد ہی ہے، جس نے مسئلہ فلسطین کو اس کے محدود دائرے (یعنی اسے صرف فلسطین یا عرب کا مسئلہ متصور کیے جانے کی سوچ) سے نکال کر اسے عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا۔ دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھنے لگے اور اس معرکے کو قابض صہیونیوں کے خلاف اپنی جنگ تصور کرنے لگے۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد امام البنا اسماعیلیہ میں استاد مقر رہوئے۔ یہ علاقہ نہر سویز کے کنارے واقع ہے جو اس وقت قابض انگریز فوج کی چھائونیوں میں گھرا ہوا تھا۔ امام نے اسماعیلیہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اور اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع کیا۔ وہ اسماعیلیہ کے محلوں اور قرب و جوار کی بستیوں میں اخوان المسلمون کے لیے ایک کے بعد ایک مراکز ، شاخیں ،مدرسے اور مسجدیں بناتے رہے۔ اس طرح ان کے حامیوں اور ساتھیوں میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔اس دوران امام کی حالت یہ ہوتی کہ دن رات میں چند گھنٹوں کے علاوہ نیند ان کے قریب بھی نہیں آسکتی تھی۔ وہ دن کا اکثر حصہ اخوانی عوام اور کثیر آبادی والے علاقوں میں بطور ایک داعی ، معلم اور واعظ کے دوروں میں گزارتے تھے۔
امام البنا نے اپنی کوششوں کو صرف مردوں اور نوجوانوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ بڑے پیمانے پر خواتین کو بھی اپنی دعوت کا مخاطب بنایا۔ صرف ان کی دعوت پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی موثر انتظام کیا۔ چنانچہ اسماعیلیہ میں ان کے لیے جدید طرز پر مدرسہ امہات المؤمنین کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے میں اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کا بھی انتظام تھا۔ یہ مدرسہ جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج تھا۔
جب اسماعیلیہ اور اس کے قرب و جوار میں اخوان المسلمون کو تقویت ملی تو امام کو دوسرے مقامات پر بھی کام کرنے کا حوصلہ ملا اور ان کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ اب اللہ تعالیٰ ان کی دعوت کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دے۔اس طرح انھوں نے مرکز دعوت کو قاہرہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیاکیونکہ امام کی ملازمت بھی ادھر منتقل ہوچکی تھی۔ دعوت کے اس نئے مرکز سے یہ دعوت دنیا بھر میں پہنچ گئی۔ اس دعوت کے علم بردار اپنے امام کے حکم سے ملک اور بیرون ملک، دنیاکے گوشے گوشے میں پھیل گئے اور اس دعوت کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
اخوان المسلمون کے مرکز میں امام کے ہفتہ وار دروس ہوتے تھے۔ دینی ، قومی اور تاریخی اہم مواقع پر ان کے لیکچروں کا انتظام ہوتا تھا۔ جریدۃ الاخوان میں ان کے روزانہ خطوط شائع ہوتے تھے اور مصر کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ان کے دورے ہوتے تھے۔ یہ تمام سرگرمیاں امت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بن رہی تھیں، اور اسے اپنے مقصد ِوجود سے آگاہ کررہی تھیں۔
امام البنا نے زیادہ کتابیں نہیں لکھیں لیکن انھوں نے ہزاروں مؤلفین اور مفکرین تیار کیے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے امام کی ہدایات اور ان کے رسائل سے‘جن کی تعداد ۲۰سے زیادہ نہیں ہوگی‘ فیض حاصل کیا۔ ان ہدایات و رسائل کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ سے متعلق مختلف میدانوں میں تصنیف و تالیف کا کام کریں۔ اسی حوالے سے امام حسن البنا کا شمار ۲۰ ویں صدی عیسوی کے مجددابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ ہوتا ہے۔
امام حسن البنا کا کارِ تجدید دین اسلام کے کسی ایک پہلو تک محدود یا مسلمانوں کے کسی ایک مسئلے پر اکتفا کرنے والا نہیں تھا، بلکہ یہ تجدید ان تمام پہلوئوں پر حاوی تھی جن کے حوالے سے امت کا پرچم سرنگوں ہوچکاتھا اور ان کے مقاصد پست ترین سطح پر اتر آئے تھے۔
یہ تجدید عقیدے کی تجدید تھی جو لوگوں کے دلوں میں ڈانواںڈول ہوچکاتھا۔ اسی طرح یہ اخوت کی تجدید تھی، جس کا کوئی نام و نشان تک مسلمانوں کی زندگی میں عملاً باقی نہیں رہاتھا۔ یہ اسلامی فکر کی تجدید تھی جسے غاصب استعماری قوتوں نے لوگوں کے ذہنوں میں مشتبہ کر ڈالاتھا۔ یہ فقہ کی تجدید تھی جو جامدذہن رکھنے والوں اور انتہا پسند وں کی وجہ سے جمود کا شکار ہوچکی تھی۔ یہ تعلیم و تربیت کی تجدید تھی جس کا دائرہ مقلدانہ نصاب تعلیم تک محدود ہوچکا تھا۔ یہ علوم و فنون کی تجدید تھی جس کے سرکردگان مغربی تہذیب کی چکا چوند سے متاثر تھے۔یہ معیشت کی تجدید تھی جو سود پر مبنی معیشت کی وجہ سے کھوکھلی ہوکر تباہ ہونے کے قریب تھی۔ یہ ذرائع ابلاغ کی تجدید تھی جن کا کام گانے بجانے تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ یہ ایک حرکی اور دعوتی تجدید تھی۔ یہ تجدیداس دعوت کا احیا تھی جو جمود کا شکار ہو کر دم توڑنے کے قریب تھی۔ یہ معاشرتی زندگی کی تجدید تھی جو خواب غفلت سے بیداری کی طرف دعوت دے رہی تھی۔ یہ سیاست کی تجدید تھی جو دھوکا، فریب دہی اور بد ترین غلامی کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ یہ جہاد کی تجدید تھی جس کا صیغہ مسلمانوں کی لغت اور یاد داشت سے محو ہوچکاتھا۔
اس طرح امام حسن البنا کا شمار بجا طور پر ۲۰ویں صدی کے نمایاں ترین مجددین میں ہوتا ہے۔ یہ موقع اس تفصیل میں جانے کا نہیں ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس ہمہ پہلو تجدید نے مختلف معاشروں کو کس طرح متاثر کیا۔ ہم یہاں اس تجدید کے صرف جہادی پہلو کے متعلق گفتگو کریں گے جو مسلمانوں کے دلوں میں نشاتِ نو کا پیغام تھا، اور جس کے نتیجے میں اہل فلسطین کی حمایت کی ایک عظیم الشان تحریک برپا ہوئی۔
امام نے جہاد کے بارے میں انتہائی قیمتی ارشادات پیش کیے ہیں،جنھوں نے اخوان کے دلوں میں جہاد کی محبت کو زندہ کردیا۔ انھوں نے رسالۃ الجھاد کا اختتام بھی انتہائی بیش قیمت کلمات سے کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اخوان ہمیشہ سے اس دن کے انتظار میں رہتے ہیں جس دن اللہ کے دشمنوں سے ان کا آمنا سامنا ہو، اور وہ اللہ کے سامنے اپنی جان کی قربانی کا وہ مظاہرہ کریں جس کے ذریعے اللہ ان سے راضی ہوجائے۔
رسالۃ الجھاد کے مقدمے میں امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے جہاد کو ہرمسلمان پر فرض کردیا ہے۔ یہ ایک لازمی اور حتمی فریضہ ہے جس سے کسی کو چھٹکارا اور مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف بڑی ترغیب دی ہے اور شہدا و مجاہدین کے لیے عظیم اجر و ثواب کا وعدہ کررکھا ہے۔ ان کا مرتبہ اتنا بلند رکھا گیا ہے کہ جہاد کے علاوہ کسی عمل سے اس مقام تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اور شہدا کو دنیا و آخرت میں وہ روحانی اور عملی امتیازات عطا فرمائے ہیں، جو ان کے علاوہ کسی کو نہیں دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاکیزہ خون کو دنیا میں فتح ونصرت کی قیمت اور آخرت میں فوزو فلاح کا عنوان بتایا ہے۔ جہاد سے پیچھے رہ کر بیٹھ جانے والوں کو دردناک سزائوں کی وعید سنائی گئی ہے۔ انھیں بدترین صفات سے متصف کیا گیا ہے اور بزدلی اور بیٹھے رہنے پر سخت الفاظ میں سرزنش کی گئی ہے۔ کمزوری اور پستی کے اس رویے کے باعث دنیا میں ان پر وہ ذلت مسلط کی گئی ہے جس سے جہاد کے بغیر نجات ممکن نہیں، جب کہ آخرت میں ان کے لیے وہ عذاب تیار کیاگیا ہے جس سے چھوٹنے کے لیے اگر وہ احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کریں تب بھی اس سے بچ نہ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد سے منہ موڑنے اور اس سے راہ فرار اختیار کرنے کو گناہ کبیرہ کی سب سے بڑی قسم شمار کیا ہے۔ یہ ان سات اعمال میں سے ایک ہے جو انسان کے لیے مہلک اور تباہ کن ہیں۔
دنیا میں کوئی قدیم و جدیدنظام یا کوئی مذہبی یا تمدنی قانون نہیں ہے جس نے جہاد و دفاع کو اتنی اہمیت دی ہو اور اس کے لیے ساری امت کو ایک صف میں جمع کیا ہو‘تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ حق کا دفاع کرسکے۔ یہ صفت صرف دین اسلام اور اس کی تعلیمات میں پائی جاتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس بلند مرتبہ فکر کو وضاحت سے بیان کیاگیا ہے۔ قرآن کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بالکل واضح اسلوب اور فصیح ترین عبارت کے ساتھ جہاد و قتال کی دعوت دیتی ہیں‘ اور ہر قسم کے بری، بحری اور فضائی دفاعی و سائل کو مضبوط بنانے کی تاکید کرتی ہیں تاکہ مسلمان کسی بھی حالت میں دشمن کے مقابلے سے عاجز نہ ہوں۔ (رسائل الامام الشھید‘ ص۲۷۳)
امام فرماتے ہیں : میرے بھائیو! جو قوم مرنے کا سلیقہ جانتی ہے‘اس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں باعزت زندگی اور آخرت میں دائمی جنت نصیب فرمادیتا ہے۔ جس چیز نے ہمیں ذلیل کرکے رکھ دیا ہے وہ دنیاکی محبت اور موت کی کراہت کے سوا کچھ نہیں۔ تم لوگ اپنے آپ کو ایک بڑے کام کے لیے تیار کرو۔ شہادت کی تمنا کرو گے تو تمھیں زندگی ملے گی۔ جان لوکہ موت تو آنی ہی ہے اور وہ ایک ہی مرتبہ آنی ہے۔ اگر تم نے اس کو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے پالیا تو یہ دنیا کا نفع اور آخرت کا ثواب ہوگا۔ تمھیں وہی کچھ ملتا ہے جو تمھارے لیے مقر ر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر خوب غور و فکر کرو گے:
اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے۔ مگر ایک دوسرا گروہ جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنی ذات ہی کی تھی ، اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا، جو سراسر خلاف حق تھے۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ ’’ اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے ؟‘‘ان سے کہو :’’ (کسی کا کوئی حصہ نہیں ) اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ‘‘دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ ان کا اصل مطلب یہ ہے : ’’اگر (قیادت کے)اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے۔ ‘‘ان سے کہہ دو :’’ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔ ‘‘ اور یہ معاملہ جو پیش آیا ، یہ تو اس لیے تھا کہ جو کچھ تمھارے سینوں میں پوشیدہ ہے، اللہ اسے آزمالے اور جو کھوٹ تمھارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے ، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۴)
پس تم باعزت موت کے لیے کام کرو ، بھرپور سعادتوں کے حصول میں کامیاب ہوجائو گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمھیں اپنی راہ میں شہادت سے سرفراز فرمائے۔ (ایضاً، ص ۲۹۱)
امام حسن البنا اخوان المسلمون میں حُب جہاد کی تربیت کے لیے صرف رسالۃ الجھاد پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ انھیں جب بھی موقع ملتا، دلوں میں اس جذبے کو اُبھارنے کی تدبیر کرتے تھے۔ چنانچہ وہ نوجوانوں کے نام اپنے پیغا م میں فرماتے ہیں :’’اے نوجوانو!تم ان لوگوں سے کمزور نہیں ہو جن کے ہاتھوں اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس پروگرام کو عملی طور پرنافذ کردکھایا تھا، لہٰذا تم وہن اور ضعف کا شکار مت بنو۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو اپنا نصب العین بنائو کہ: اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلo (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳)’’جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’ تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ، ان سے ڈرو ‘‘ ، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘)۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایسا ایمان پروان چڑھایا ہے جو ڈگمگانے والا نہیں ہے اور ہم اس کے لیے مسلسل عمل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اللہ پر ایسا اعتماد حاصل ہے جس میں کوئی کمزوری نہیں آتی، اور ہم ایسی روحوں سے سرشار ہیں جن کے لیے سب سے زیادہ باسعادت دن وہ ہوگا جب وہ اپنے رب کے راستے میں شہادت دے کر اس سے ملاقات کریں گی‘‘۔ (ایضاً‘ ص۱۰۳)
اپنے ایک اور رسالے میں فرماتے ہیں :’’سب کچھ کرنے کے بعد ہم اللہ کی مدد کا پختہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر ہمارا ایمان ہے اور جس کے لیے ہم کوشاں ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر یقین رکھتے ہیں : وَ لَاتَھِنُوْا فِی ابْتِغَـآئِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ (النساء ۴:۱۰۴)’’اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھائو ، اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امید وار نہیں ہیں‘‘۔ ہمارے اسلاف میں سے جن لوگوں نے دنیا کو فتح کیا اور اللہ نے انھیں زمین میں سلطنت عطا فرمائی‘ وہ زیادہ تعداد یا بڑی تیاری نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ایمان اور جہاد کے اسلحے سے لیس تھے‘‘۔ (الاخوان تحت رایۃ القرآن‘ (اخوان قرآن کے پرچم تلے)،ص۱۱۸)
اخوان المسلمون نے یہ سبق یاد کیاتھا اور ان کے دلوں میں اس نے یقین کا مقام حاصل کرلیاتھا۔ یہاں تک کہ جب فلسطین میں جنگ کا میدان گرم ہوا، اور غاصب یہودیوں نے فلسطین کے باشندوں کو اپنے گھروں سے دربدر کرکے جنگ کی آگ بھڑکائی تو اخوان المسلمون مرشد عام کا حکم سنتے ہی میدان میں کود پڑے۔ اس راستے میںوہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائے حالانکہ وہ عسکری تربیت اور اسلحے کے حوالے سے کمزور تھے۔ وہ اللہ کی اطاعت میں راتیں جاگ جاگ کر گزارتے تھے مگر ان کے دل جامِ شہادت نوش کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ اس مقصد کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ کرنے والے نہیں تھے۔ انھوں نے اس راستے کی ہر رکاوٹ اور ہر رخنے کو پاے حقارت سے ٹھکرادیا۔
اس تاریخ کو پروفیسر فتحی یکن نے اپنی کتاب القضیۃ الفلسطینیۃ من منظور اسلامی (مسئلہ فلسطین، اسلامی تناظر میں)میں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :۱۹۴۸ء میں امام حسن البنا نے حکومت مصر کو ایک درخواست پیش کی کہ وہ اخوان المسلمون کے ۱۰ ہزار رضا کاروں پر مشتمل ایک کمک فلسطین بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔ اس کے باوجود اخوان المسلمون نے مصر اور اُردن کی سرحدوں پر صف اول کے اکثر معرکوں میں دادِشجاعت دی اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، جن کی وجہ سے حکومت برطانیہ نے مصر ی وزیر اعظم اور مصری ایجنٹوں کے ساتھ مل کر ایک سازش کے تحت اخوان المسلمون پر پابندی لگوادی۔ اس کے سرکردہ رہنمائوں کو گرفتارکیا گیا اور مرشد عام کو ۱۹۴۹ء میں شہید کروادیا۔(ص۸۹-۹۰)
مسئلہ فلسطین کے ساتھ اخوان کا تعلق ۱۹۴۸ء کی جنگ سے نہیں ہوا بلکہ یہ اس وقت قائم ہواتھا جب استاذ کامل الشریف کے بقول امام البنا نے کہا تھا : ’’ہر وہ ملک جس میں کلمہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھا جاتا ہے وہ ہمارے ملک کا حصہ ہے ، وہ ہمارے لیے قابل عزت و احترام ہے۔ اس ملک کے ساتھ مخلص ہونا اور اس کی بھلائی کے لیے جہاد کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے ‘‘۔ (الاخوان المسلمون فی حرب فلسطین، (جنگ فلسطین میں الاخوان المسلمون)، ص ۴۵)
استاذ کامل الشریف نے جو جنگ فلسطین میں اخوانی دستے کے کمانڈر تھے ، اپنی کتاب میں وہ بات لکھی ہے جو امام حسن البنا اور ان کے ساتھیوں کے مسئلہ فلسطین کے ساتھ والہانہ وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ کہتے ہیں :اخوان المسلمون کی ترجیحات میں مسئلہ فلسطین کو نہایت بلند مقام حاصل تھا کیونکہ القدس مسلمانوں کے لیے قبلۂ اول اور حرم ثالث کا درجہ رکھتا ہے اور یہ عرب ممالک کا مرکزی مقام ہے۔ اس کے ضائع ہونے سے اسلامی ممالک ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں۔ اگر یہودی اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو یہ شرپسند عناصر کا ایک خطرناک مرکز اور آگ سے بھرا ہوا ایک آتش فشاں ہوگا، جس سے ہمیشہ کے لیے عرب ممالک کے امن و امان کو خطرات لاحق ہوں گے۔ اسی لیے فلسطین کے بارے میں جب برطانوی حکومت کے ارادے واضح ہوئے تو اخوان المسلمون نے پے درپے کئی عوامی کانفرنسیں منعقد کیں۔ انھوں نے عوام اور حکومت کو اس خطرے کی حقیقت سے آگاہ کیا، جو ان کے قومی ڈھانچے اور ان کے مستقبل کو چیلنج کررہاتھا۔ وہ اپنی مسلسل کوشش کے نتیجے میں پورے عالم اسلام کو اس مسئلے کا فریق بنانے میں کامیاب ہوئے‘ اور اب یہ مسئلہ صرف فلسطین یا صرف عربوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ بن گیا۔ (ایضاً،ص۴۵)
فلسطین کے حالات جب دگرگوں ہوئے تو انھیں مال ، اسلحہ اور جو کچھ بھی ملا، انھوں نے اسے لے کر مجاہدین کی مدد کو پہنچنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ۱۹۳۶ء میں اخوان المسلمون کے کچھ نوجوان فلسطین کی حدود میں گھس جانے میں کامیاب ہوئے اور حریت پسندوں کے ساتھ مل کر جہاد کا آغاز کیا۔ خاص طور پر شمالی علاقوں میں جہاں انھوں نے عظیم عرب مجاہد شیخ عزالدین القسام کی رفاقت میںجہاد جاری رکھا۔دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اخوان المسلمون نے اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی اور عوامی سطح پر کام شروع کیا۔ انھوں نے اپنے نوجوانوں کے وفود عربوں کے پاس بھیجے تاکہ انھیں متحد کرکے مقابلے کے لیے تیار کریں۔ بعض اخوان نے خفیہ طور پر فلسطینی نوجوانوں کو جہادی تربیت دینے کا ذمہ لیا اور اس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ یہاں تک کہ اب ان کی وادیاں اور خود ان کے گھر مراکز قیادت اور تربیتی مرکز بن گئے۔
امام حسن البنا اور ان کے اخوانی شاگردوں کا مسئلہ فلسطین کے ساتھ تعلق مفصل جائزے کا متقاضی ہے۔ اسی طرح فلسطین میں اخوان المسلمون کا بہہ جانے والا خون اور بے شمار اخوانیوں کی شہادت بھی بڑی تفصیل چاہتے ہیں۔ پھر اہل فلسطین کی مدد کی وجہ سے انھیں اپنے ممالک میں جن حالات سے دوچار ہونا پڑا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ مصر میں ان کی جماعت پر پابندی لگانے کی سازش ہوئی ، تحریک کے نمایاں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اس کے تمام مراکز کو سیل کردیا گیا۔ جماعت کی تمام دستاویزات ، مجلات اور مطبوعات کے علاوہ نقد سرمایے اور سارے املاک کو ضبط کرلیا گیا۔ اس سازش کی بنیاد وہ فوجی احکامات تھے جو ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو حکومت مصر کی طرف سے جاری کیے گئے۔(الامام الشھید ،ص۲۶۸)
ایک طرف یہ سازشیںتھیں اور دوسری طرف اخوان المسلمون کے مجاہد فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے مقابلے میں روشن تاریخ رقم کررہے تھے، جب کہ عرب ممالک کی باقاعدہ افواج شکست پر شکست کھا رہی تھیں۔ اس خیانت بھری فضا اور مصر میں جماعت کو ختم کرنے کے اقدامات کے درمیان امام حسن البنانے مجاہدین فلسطین کے نام اپنا تاریخی پیغام بھیجا۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا:میرے بھائیو!مصر کے حالات سے آپ ہر گز پریشان نہ ہوں۔ آپ لوگو ں کا کام فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانا ہے‘ اور جب تک فلسطین میں ایک بھی یہودی موجود ہے آپ کا یہ کام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا۔(ایضاً،ص۲۹۹)
جب اخوان المسلمون کو فلسطین میں غاصبوں کے مقابلے سے روک دیا گیا ، کیونکہ خائن حکمرانوں کو یہی بات بھلی معلوم ہوئی ، تو اخوان المسلمون کا شہرہ آفاق نعرہ پھر بھی وہاں باقی رہا‘ یعنی: اللّٰہ غایتنا ، الرسول زعیمنا ، القرآن دستورنا ، الجھاد سبیلنا ، الموت فی سبیل اللّٰہ اسمی امانینا، اللہ ہمارا مقصود ،رسول ؐہمارے قائد ، قرآن ہمارا دستور ، جہاد ہمارا راستہ اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری اعلیٰ ترین آرزو ہے۔ یہ نعرہ فرزندان فلسطین کے کانوں میں گونجتا رہا اور ان کے اجتماعات ، جلسوں جلوسوں اور ہر قسم کے پروگرامات میں دہرایا جاتا رہا ، یہاں تک کہ انھوں نے حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس ) کی بنیاد رکھی جس نے اخوان المسلمون کے مشن کو عملی جامہ پہنانے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ وہ مشن یہ تھا کہ اللہ کی طرف دعوت دی جائے ، خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کیا جائے ، فلسطین کی آزاد ی کے لیے جدوجہد کی جائے‘ اور بیت المقدس کو غاصبوں کے چنگل سے آزادی دلائی جائے۔