محمد تابعی


مرشد عام استاذ حسن البنا کو دو سالوں میں دوبار دیکھا۔ پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا جب وہ میڈیکل کے طلبہ کے ایک گروپ سے مخاطب تھے اور د وسری دفعہ جب وہ چند پڑھے لکھے نوجوانوں سے تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ دونوں مرتبہ سامعین نے ہنسی مذاق اور شورو شغب میں ان کی بات کو غیرمؤثر کرنا چاہا، لیکن وہ اس طرح محو گفتگو رہے کہ سننے والوں کے دل موہ لیے، بلکہ دلوں پر قبضہ جمالیا، یوں دونوں مواقع پر اپنے مخالفین پر چھا گئے۔

میں نے انھیں خاموشی سے غوروفکر کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، اور گفتگو کرتے ہوئے بھی۔ دونوںحالتوں میں ان کے چہرے پر متانت و سنجیدگی کے گہرے نقوش‘ عیاں اور کشادہ و روشن پیشانی پر فہم و فراست کی کرنیں جیسے پھوٹ رہی ہوں، جس کے درمیان کثرت سجود سے بن جانے والا سیاہی مائل نشان نمایاں نظر آتا ہے۔

ان کی آنکھیں مُقَطَّمْ (مصر میں ایک پہاڑ)کے چشموں کی طرح تھیں جنھیں تم کم گہرا سمجھتے ہو، مگر جب ان میں کوئی پتھر پھینکتے ہو تو وہ لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ اس کے لڑھکنے کی آواز دیر تک آتی رہتی ہے، حتیٰ کہ آواز آنا بند ہوجاتی ہے مگر وہ پتھر لڑھکتا ہی رہتا ہے۔

ہمیشہ مسکراتے ہوئے ‘ چاق و چوبند ‘ کشادہ قد و قامت ‘ایسے مضبوط جیسے شاہ بلوط کا درخت۔ ان کی آواز میں گہرائی ‘ گیرائی اور زیر و بم ہے۔ ان کی زبان میں اثر پذیری کا جادوہے۔ جب بولتے تو اہل عقل و خرد مسحور ہوجاتے۔ عقلی دلائل اور شوکت اسلام کے تاریخی واقعات ان کی گفتگو میں ایسے برجستہ اور بر محل آتے چلے جاتے ہیں، جیسے کوئی ماہر توپچی پوری توجہ کے ساتھ دیکھ کر ٹھیک ٹھیک اپنے ہدف پر گولہ داغتا ہے۔ ان کے یہ گولے ان کے مخالفین پر بم بن کر پھٹتے ہیں۔

تمھارا کیا خیال ہے ان رنگوں اور لکیروں سے کسی قائد کی تصویر بن سکتی ہے؟

اس مرتبہ مصر کس آواز پر بیدا ر ہوگا؟

کس در سے صبح کی روشنی کی پو پھوٹے گی؟

مصری تاریخ کا نیا شان دار ورق کس کے خون سے لکھا جائے گا ؟

وہ وقت کب آئے گا جب مصر خامیوں و کمزوریوں سے نجات حاصل کرلے گا؟

لوگ کہتے ہیں اس کا علم اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہے اوراس کے بعد اخوان المسلمون کو ___  سوال یہ ہے کہ اخوان المسلمون کون ہیں ؟

مبصرین کے خیال میں یہ وہ لوگ ہیں ‘ جو ہر مظاہرے کے پیچھے اور ہر ہڑتال میں سرگرم ہیں۔ یہ وہ تحریک اور طاقت ہے جو اس بیداری کی سرخیل ہے جو آج کل ملی احساس کو زندہ کررہی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں ‘ جنھوںنے ایک ہی دن میں جلا وطنی کے ایک لاکھ بیج (badge) نہ صرف تقسیم کردیے بلکہ انھیں معزز مصریوں کے سینوں پر سجا بھی دیا۔

یہ الاخوان کون ہیں ؟

’الاخوان‘ سے وہ تنظیم و جمعیت مراد ہے،جن کا نشانِ امتیاز یہ مربوط تلواریں ہیں جن کے درمیان قرآن ہے جس کے نیچے اعدو (تیاری کرو) لکھا ہے۔

مرشد عام: مشرع شخصیت ‘ چمکتی آنکھیں ‘ فیصلہ کن اور توانا آواز۔ اس کے ایک حکم پر لاکھوں انسان اپنے خون کاآخری قطرہ تک بہادینے کے لیے تیار ہیں اوریہی وہ اصل طاقت ہے۔ میں نے الاستاذ حسن البنا سے دوتلواروں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا:

’یہ جہاد کی نشانیاں ہیں ‘

اوریہ قرآن ؟

’جہاد کا دستور ہے ،زندگی بھر جہاد کا‘

میں نے پوچھا:دوتلواروں کے درمیان جو کلمہ لکھا ہے ؟

فرمایا: یہ قرآن کی ایک آیت کریمہ کا پہلا کلمہ ہے:

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ (الانفال ۸:۶۰) اور تم لوگ ، جہاں تک تمھارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بند ھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھو۔

ابھی ہم گفتگو مکمل نہیں کرپائے تھے کہ ان کے ۵ہزار انصار جلا وطنی کے دن کے حادثے کے بعد ان سے ہدایات لینے پہنچ گئے۔اب اس شخص کی نمایاں خوبی ظاہرہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ لوگوں کو خطاب کس طرح کیا جائے اور ان کے احساسات کو کس طرح شعلہ بار کیا جائے۔ میں    سن رہاتھا جب وہ ان سے کہہ رہے تھے: سنو! اے بہترین انسانو، جنھیں اللہ نے انسانیت کی بھلائی کے لیے چن لیا ہے۔ سنو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہیو ‘اے لشکر نجات ‘ آزادی کے پیغامبرو ‘  اے راتوں کے تہجد گزارواور دن کے شہسوارو۔

میں نے یہ افتتاحیہ کلمات سنے اور پھر میں نے حاضرین کوبجلی کی سی گرج دار آواز میں لبیک کہتے سنا--- ’’اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ کامیابی ایمان والوں ہی کے لیے ہے ‘‘۔آدمی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کو اپنے عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت عطا ہوئی ہے۔ وہ عوام کے جذبات کو اُبھارنا اور ان کو رخ دینا جانتے ہیں۔

جو کچھ ہوا ،اس پر مرشد اپنے احساسات کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ انھیں پُرامن مظاہروں کا حکم دیتے ہیں‘ تاہم وہ یہ نہیں سمجھتے کہ صرف پُرامن مظاہروں سے مصر کو اس کے حقوق مل جائیں گے، لیکن ان کی یہ سوچی سمجھی راے ہے کہ فی الحال یہ خون دینے کا وقت نہیں ہے___  اس لیے اپنی طاقت کو محفوظ رکھا جائے۔

حاضرین میں سے پھر بجلی کی گرج سنائی دیتی ہے: اللّٰہ اکبر ‘ وللّٰہ الحمد۔ مرشد تھوڑی دیر سکوت اختیار کرکے پھر فرماتے ہیں:’’اے جوانو !اب اپنے کاموں کی طرف لوٹ جائو ‘ حسب معمول میری ہدایات تمھیں پہنچ جائیںگی ، اے میرے پیارے اور محترم بھائیو‘‘۔ چندلمحوں میں ۵ ہزار پُرجوش اور پر عزم نوجوان واپس لوٹ جاتے ہیں۔ استاذ حسن البنا ہمارے درمیان اپنی نشست پر اس طرح لوٹ آتے ہیں کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ چند لمحوں میں انھوں نے ۵ہزار نوجوانوں کے جذبات کو ابھارا ہی نہیں راستہ بھی دکھایا ہے--- جوکہ رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار ہیں۔

لوٹتے ہی وہ ہم سے گفتگو شروع کردیتے ہیں: ’’میں تحدید کے ساتھ نہیں بتا سکتا کہ یہ دعوت کب اور کیسے پروان چڑھی۔ کچھ افکار انسان کے ساتھ ہی نشوو نما پاتے رہتے ہیں۔ جب میں نے دارالعلوم سے گریجویشن کیا اس وقت یہ نمایاں تر ہوئے۔ پھر جب میں اسماعیلیہ میں قیام پذیر تھا اس وقت نشان ہاے منزل مزید واضح ہوگئے۔

میں نے پوچھا :’’اس وقت اخوان سے وابستہ کتنے حلقے ہیں ‘‘؟انھوں نے فرمایا :’’مصر میں ۱۵۰۰ حلقے ہیں، جن سے لاکھوں اخوان وابستہ ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ہمارے کئی حلقے ہیں جن سے ڈیڑھ لاکھ اخوانی کارکن وابستہ ہیں۔ الاخوان المناصرون (متفقین) ان کے علاوہ ہیں۔ وہ ہماری طرح یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا روحانی فلسفہ اسلام کی شان دار تعلیمات سے ماخوذ ہونا چاہیے لیکن وہ فی الحال باقاعدہ ہمارے ساتھ شریکِ عمل نہیں ہوئے‘‘۔

میں نے کہا :’’لیکن گذشتہ چند سالوں میں آپ سیاسی سرگرمیوں میں لگ گئے ہیں‘‘۔ انھوں نے فرمایا: آپ کی مراد قومی سرگرمیوں سے ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ مروجہ سیاسی پارٹیوں اور انجمنوں سے ہمارا میل ملاپ نہ رہے ، مگر جب جنگ چھڑ گئی تو وہ خود ہم سے رابطہ کرنے کے لیے کوشاں ہوئیں۔ اس رابطے کے نتیجے میں وہ شعلہ بھڑک اٹھا جسے دیکھ کر سب نگاہیں ہماری طرف دیکھنے لگیں ‘‘۔

میں نے پوچھا :’’ عنقریب انتخابات ہوئے تو کیاآپ ان میں شریک ہوں گے؟‘‘ انھوں نے فرمایا :’جی ہاں‘۔پوچھا :’’کیا کامیابی کی کوئی ضمانت ہے ؟‘‘جواب دیا :’’اگر آزادانہ انتخابات ہوں‘ اور اگر ہم چاہیں تو واضح اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔ فی الواقع میں یہ نہیں چاہتا، کیونکہ ہمارا قوم کی صفوں میں رہنا حکمرانوں کی صفوں میں شامل ہونے سے بہتر ہے۔ اس لیے فی الحال ہم چند ہی حلقوں میںانتخاب میں حصہ لیں گے‘‘۔

میں نے پوچھا:کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو حکومت دی گئی تو آپ اسے قبول نہیں کریں گے ؟ انھوں نے فرمایا :’’میں حکومت کو قبول کرلوں گا۔ کیونکہ حکومت عیش و عشرت کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک گراں بار ذمہ داری ہے جو جہاد جیسی قربانی کا متقاضی ہے۔ اگر میں نے حکومت قبول کرلی تو انگریزوں سے کہوں گا کہ وہ فوراً اور مکمل طور پر مصر سے نکل جائیں--- یا--- مصر یوں سے کہوں گا ، اے میری قوم کے لوگو!جہاد کرو، صرف جہاد ہی سے آزادی مل سکتی ہے۔ میں نے ایک دن نقراشی پاشا سے کہاتھا کہ وہ صراحت کے ساتھ انگریزوں سے مصر سے نکل جانے کا مطالبہ کریں، کیونکہ انگریز ٹال مٹول کا ماہر ہے ایسے نہیں جائے گا۔ اس لیے وہ تلوار تھام کر میدان جہاد میں قوم کی قیادت کریں‘‘۔

میں نے کہا:’’کیا آپ اُس سے تعاون کرتے ؟‘‘انھوں نے فرمایا :’’میں ہر اس وزیراعظم کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوں جو جہاد کی دعوت دے‘‘۔

میں نے پوچھا :’’کیا آپ کے پاس طاقت ہے ؟‘‘ انھوں نے فرمایا :’’میرے پاس ۱۰لاکھ ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’اسلحہ؟ ‘‘ انھوں نے فرمایا:’’ہمارا اسلحہ ایمان ہے۔ اخوان میں سے ہر ایک اس پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے خریدلیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے‘ قربانی دیں گے اورسامراج سے آزادی چھینیں گے--- جہاد کے موقع پر تم ہمیں دیکھو گے کہ ہم گولیوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے ڈٹ جائیں گے : اے جنت کی ہوائوں، آئو ہماری طرف، آؤہماری طرف‘‘۔

میں نے پوچھا :’’کیا آپ کی جماعت کے پاس مال و دولت ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’ہماری جماعت سب سے زیادہ غریب ہے اور سب سے زیادہ دولت مند بھی۔ ہمارا باقاعدہ سرمایہ تو اخوان کے چندے اور اعانتیں ہیں‘ البتہ فی الواقع اخوان سے وابستہ کارکنوں کی ساری دولت ہماری دولت ہے۔ جب ہم نے یہ مرکز خریدنے کا فیصلہ کیا، اس وقت اخوان کے بیت المال میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اخوان نے ایک ہی دن میں ۱۶ ہزار پائونڈ ادا کردیے۔ ہم نے یکم فروری کو اعلان کیا کہ ہمیں ایک اخبار اور پریس کی ضرورت ہے جس کی لاگت تقریباً ڈھائی لاکھ پائونڈ ہے، کیونکہ ہم مشرق وسطیٰ میں اسی قسم کا سب سے بڑا ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اخوان نے دو ہفتوں میں ۲لاکھ اور ۲۰ہزار پائونڈ پیش کردیے‘‘۔

میں نے کہا :’’آپ کی کچھ چیزیں مجھے اچھی نہیں لگتی ہیں ‘‘۔ انھوں نے کہا :’’وہ کیا ہیں؟‘‘ میں نے کہا : ’’دین کی تبلیغ ،کیونکہ اس سے مصری قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی‘‘۔ انھوں نے (قرآن کی آیت تلاوت کرتے ہوئے )کہا: ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان   لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (الممتحنۃ ۶۰:۸)

میں نے کہا :’’آپ اپنے اراکین سے یہ تقاضا کیوں کرتے ہیں کہ وہ زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں؟‘‘ انھوں نے کہا :’’مناظرہ بازی اور فضول بحث سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوتی‘‘۔ میں نے کہا :’’آپ ان سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زیادہ ہنسی مذاق نہ کیا کریں‘‘۔ انھوں نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے ملا ہوا دل پُرسکون اور سنجیدہ ہوتا ہے اور سنجیدگی ہی جہاد کا طرۂ امتیاز ہے‘‘۔ (انور الجندی، حسن البنا ، ص ۱۱۷-۱۲۲)