علی غایاتی


کسی نے بالکل درست کہا تھا کہ:’’ اخوان المسلمون موجودہ دور میں قرآن مجید کا ایک معجزہ ہے‘‘۔ تو پھر اسے تسلیم کرنے میں کون سا امر مانع ہوگا کہ اخوان المسلمون کے بانی مرشد عام استاذ حسن البنامرحوم و مغفور ہی اس کرشمے کے خالق ہیں۔ انھوں نے اپنے علم و عمل ، ہدایت و راہ نمائی، فعالیت و روحانیت ، مضبوط و غیر متزلزل ایمان اور کامل اطاعت سے اس جماعت کو بے پناہ   قوت و توانائی پہنچائی، اور اس جماعت کے افراد نے ایسے عظیم الشان و ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیے جن سے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی۔

حسن البنا اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی شخصیت کے کئی روشن اور قابل تقلید پہلو ہیں۔ شہید کی دعوت و فکر کی خوشبو دنیاے اسلام کے کونے کونے بالخصوص مصر میں اسلامی زندگی کے ہر شعبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ شہید کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے معاملات سے گہری دل چسپی تھی اور مسلمانوں کے حالات ان کی نگاہ میں تھے ، خواہ وہ دنیا کے کسی خطے سے بھی وابستہ ہوں۔

شہادت سے چند سال قبل جب حسن البنا کو یہ معلوم ہوا کہ میں دعوت و اشاعت دین  کے لیے امریکا کے سفر کا ارادہ رکھتا ہوں ، تو وہ محترم صالح عشماوی کے ہمراہ دفتر منبرالشرق تشریف لائے، اور مجھے بتانے لگے کہ جنوبی امریکا میں مقیم مسلمان اپنے بچوں کی درست اسلامی و عربی تعلیم وتربیت کے لیے بہت زیادہ پریشان و سرگردا ں ہیں۔ اگر تعلیم یافتہ مربی اساتذہ کے ذریعے ان بچوں کی تربیت کا اہتمام نہ کیاگیا تو ان بچوں کا مستقبل انتہائی بھیانک اور خطرناک ہوگا۔ انھوں نے میری توجہ اس انتہائی اہمیت کے حامل مسئلے کی طرف دلائی اور اس سلسلے میں مالی تعاون اور افراد کار کے ذریعے عملی امداد کا وعدہ بھی فرمایا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں امریکا نہ جاسکا، اور میرا قیام مصر ہی میں رہا۔ اس دوران حسن البنا شہید سے پرخلوص محبت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا۔

ایک دن میں نے انھیں تجویز پیش کی کہ منبرالشرق کو دارالاخوان المسلمون پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے ، جیسا کہ بعض دیگر اخبارات نے سیاست و تصوف کے میدان میں کارہاے نمایاں سرانجام دینے والوں پر خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے۔ استاد محترم نے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ جب مطلوبہ وسائل اور استعداد فراہم ہوجائے گی تو اس تجویز پر لازماً عمل کیا جائے گا۔ صدافسوس کہ ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو اخوان المسلمون کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ، ان کی دعوتی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی ، او ر ان کے اخبارات بند کردیے گئے۔  اللہ کی قدرت دیکھیے کہ منبر الشرق مستقل بنیادوں پر جاری رہا تاکہ پرچم حق کو سربلند رکھے۔ وہ ان سخت ترین حالات میں بھی اخوان کا ہمیشہ دفاع کرتا رہا‘ جب کہ ان کے حق میں لکھنے والے قلم خاموش اور بولنے والی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔

بعد ازاں اخوان کے لیے دعوت کا راستہ ہموار ہونا شروع ہوگیا تو انھوں نے المباحث کا اجرا کیا۔ پھر اسے بھی ترک کردیا اور الدعوۃ جیسے مؤقر اور اہم مجلے کا آغاز کردیا۔ مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی اور اس مجلے کی اشاعت کا ایک سال پورا ہونے پر میں نے اخوان کو مبارک باد پیش کی۔

آج اخوان کی صورت میں جس مبارک تحریک کو ہم پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں ، یہ پودا  حسن البنا نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ آج مصر اور غیر مصر کے بے شمار نوجوانوں میں جو پاکیزہ دینی اورروحانی رجحانات و افکار پروان چڑھے ہیں تو یہ شہید کی دی ہوئی اسلامی تعلیم وتربیت ہی کا نتیجہ ہے۔ شہید کی اس تربیت کے روشن نتائج فلسطین کے میدان جہاد میں اخوان کی شجاعت وبہادری اور ان کے جذبۂ قربانی و ایثار کی صورت میں ہمارے لیے مینارہ نور او ربہترین مثال ہیں۔ اگر اخوان کے راستے میں اپنوں اور غیروں کی طرف سے خفیہ سازشیں ، دسیسہ کاریاں اور رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں تو فتح و نصرت خداوندی کی تکمیل اور مجاہدین کی کامیابی کی صورت میں آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔

میں یقین واثق سے کہتاہوں کہ جس پاکیزہ اور عظیم انقلاب کی بنیاد شہید حسن البنا نے رکھی اور خونِ جگر ہی سے نہیں اپنی شہ رگ کے خون سے اسے سیراب کیا، وہ کبھی زوال کا شکار  نہیں ہوسکتا۔ دوام و بقا اس کا مقدر ہے___ مہ و سال کے گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اس  کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں اور یہ تحریک، اسلام کی نشأت ثانیہ اور نوجوانان اسلام کے لیے باعث صدعزت و افتخار ثابت ہوگی۔