شعیب ادریس


زیرنظر مضمون ایک مسلم امریکی این جی او آزاد مسلم کولیشن (Free Muslim Coalition)کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ این جی او امریکی امداد سے چل رہی ہے اور اسلامی تعبیرات کی امریکی تشریح کرنے میں خاصی مستعد ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی غلط تعبیرات پھیلائی جارہی ہیں۔ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ میڈیا کے شعبے میں جو ترقی مغرب نے کی ہے‘ بدقسمتی سے وہ مسلم ممالک میں نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ آج کے عالمی گائوں میں اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ذیل میں اس مضمون سے ماخوز ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

آج کل پوری مسلم دنیا، خصوصاً عرب ممالک میں جمہوریت کے فروغ کے بارے میں بہت سی باتیں کی جارہی ہیں۔ امریکا اور مشرق وسطیٰ میں موجود بعض مقامی گروپ بھی اس کام میں شامل ہیں۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد اس مثبت تحریک کو مزیدتقویت ملی ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے حق میں جو بات سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عرب ممالک کے عوام کا حکومت میں مؤثر کردار ہی دہشت گردی کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

آزاد مسلم کولیشن‘ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے فروغ کی پُرزور حمایت کرتی ہے لیکن  اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی خبردار کرتی ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے فروغ سے پہلے سیکولرزم کو فروغ نہ دیا گیا اور دہشت گردی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ بنیاد پرست اسلامی ریاستوں کے قیام کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ یہ اسلامی ریاستیں بالآخر جمہوریت کی قاتل ثابت ہوں گی۔

اس ضمن میں الجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ الجیریا میں‘ جوکہ ایک سیکولر ملک ہے‘ ۱۹۹۲ء میں جمہوری پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ وہاں کے عوام نے اسلامی بنیاد پرستوں کو حکومت کے لیے منتخب کیا۔ باقاعدہ حکومت کے قیام سے قبل ہی چند نئے منتخب نمایندوں نے اعلان کردیا کہ یہ جمہوریت (جس کے بل بوتے پر وہ اسمبلی تک پہنچے تھے) اسلام سے متصادم ہے اور جوں ہی باقاعدہ حکومت کا قیام عمل میں آئے گا‘ وہ اس جمہوری نظام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ اس نئے واضح انتہا پسندانہ موقف کی وجہ سے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا گیا اور ملک مارشل لا کی نذر ہوکر مستقل خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔

مشرق وسطیٰ میں انتہاپسند اسلامی ایجنڈے کے ہاتھوں ایک سیکولر ملک کے یرغمال بنائے جانے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے عربوں نے اسلامی ریاستوں کے قیام پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس کی بنیاد بہت سے مسلمانوں میں پایا جانے والا یہ نظریہ ہے کہ ان کے ممالک کا استحکام‘ اسلامی ریاستوں کے قیام میں ہی پوشیدہ ہے۔ ان کی نظر میں صرف اسلام ہی انھیں شخصی حکومتوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس کی واضح مثال عراق ہے جہاں سیکولر اقتدار کے خاتمے کے بعد مذہبی جنونیوں کی طرف سے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا گیا تاکہ سیکولر جمہوریت کے بجاے مذہبی حکومت قائم کی جاسکے۔

بدقسمتی سے انتہاپسند مسلمان نہایت کامیابی سے سیکولرزم کی ناکامی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ درحقیقت انتہاپسند مسلمانوں کی طرف سے پھیلایا جانے والا یہ گمراہ کن نظریہ کہ مسلمان مکمل طور پر مذہبی نہیں ہیں اور یہ کہ مسلم دنیا کے تمام مسائل کا حل سخت ترین اسلامی قوانین کی طرف لوٹنے میں ہے‘ جداگانہ اسلامی ریاستوں کے قیام سے زیادہ خطرناک ہے۔

اسلامی ریاستوں کے قیام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ’’ہم سرمایہ دارانہ نظام کو دیکھ چکے‘ ہم نے کمیونزم اور سوشل ازم کو بھی آزما لیا اور یہ تمام نظام ہاے زندگی ناکام ہوگئے‘ اس لیے اب ہم اسلام کو آزمائیں گے‘‘۔

یہ نظریہ سرے سے غلط ہے۔ اسلام ایک ترقی یافتہ ریاست کا خاکہ نہیں ہے بلکہ صرف ایک مذہب ہے۔ قرآن میں ایک مکمل ریاست کے قیام کے باب میں مکمل رہنمائی موجود نہیں ہے۔ جتنی بھی موجود سلطنتیں اسلامی انتہا پسندوں کی قائم کردہ ہیں‘ وہ سب فاشسٹ نظریات کی حامل‘ قدامت پسند اور جمہوری خصوصیات کے فقدان کا شکار ہیں۔

جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ہے‘ یعنی ایک ایسا نظام جہاں حکمرانوں کو منتخب کیا جائے اور وہ منتخب جمہوری اداروں کے سامنے جواب دہ ہوں۔ اگر آج عرب ممالک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں تو عوام لازمی طور پر متعصب اسلامی انتہاپسندوں کو منتخب کریں گے۔ ان انتہا پسندوں کا اقتدار میں آنا جمہوریت اور سیکولرزم کی موت ہوگی۔ ہمیں عرب اور اسلامی معاشروں میں جمہوریت کی روح پھونکنے سے پہلے وہاں سے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

کولیشن اس بات کی حمایت تو کرتی ہے کہ عوام کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے‘ مگر ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ حکومت کے نظام کی مضبوطی کے لیے اسے سیکولر جمہوریت کے تحت ہونا چاہیے تاکہ عوام کو جنس‘ نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر تمام حقوق مہیا کیے جاسکیں۔ اسی سیکولر ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے کولیشن میڈیا کے ذریعے‘ تعلیمی اداروں کے اندر اور سیاسی ایوانوں میں اس حوالے سے نئی بحثیں چھیڑ رہی ہے‘ تاکہ حکومتی ایوانوں میں خصوصاً مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں‘سیکولرزم کی اہمیت کو واضح کیا جاسکے۔

یہ این جی او اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو سیکولرزم کے فوائد سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اگر ان کی حکومتیں انھیں امن اور خوش حالی دینے میں ناکام رہی ہیں تو اس کی وجہ ان حکومتوں کا سیکولر ہونا نہیں تھا۔ کولیشن اس بات پر بھی مکمل یقین رکھتی ہے کہ جب تک دہشت گردی کو شکست نہیں دی جاتی اور اسلامی انتہاپسندی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا‘ تب تک جمہوریت کا عمل بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔