رسالہ الحج والعمرۃ نے اپنی شعبان ۱۴۲۷ھ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) کی اشاعت میں جنرل کونسل براے مسلمانان فرانس،کے صدر ڈاکٹر محمد البشاری کا انٹرویو شائع کیا ہے جو اس رسالے کے قاہرہ میں مقیم نمایندے نے ڈاکٹر البشاری سے ان کے قاہرہ کے دورے کے موقع پر لیا تھا۔اس انٹرویو سے فرانس کے مسلمانوں کے موجودہ حالات اور اسلام کی پیش رفت کے بارے میں ایک تصویر سامنے آتی ہے۔ اس کا ترجمہ پیش ہے۔ (ادارہ)
فرانس میں اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرانس کا اسلام سے تعارف براہ اندلس ہوا ہے۔ اسلامی فاتح افواج کا فرانس کی طرف رخ کرنے کا آ غاز۹۴ھ سے ہوا۔ ایک با ر تواسلامی فاتح افواج پیرس کے قریب تک پہنچ گئی تھیں۔ فرانس کے جنوب میں۳۲۱ھ میںاندلسی اسلامی مملکت قائم ہو ئی جو ۸۲ سال تک قائم رہی۔اسی طرح مسلمانوں نے۱۹۱ھ میں جزیرہ ’کورسیکا‘ فتح کر لیا۔ اس جزیرے پر اسلامی حکومت ۱۲۴ سال تک رہی۔۱؎
پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی مسلم ممالک سے مسلمانوں نے فرانس کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ان تارکین وطن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اس وقت سے لے کر اب تک فرانس میںمسلمانوں کی بہت سی ایسی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں جنھیں مغرب کی تہذیبی و فکری یلغار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
فرانس کی مسلم تنظیمیں اور جمعیتیں بھی اپنے فرض سے غافل نہیں رہیں۔ انھوں نے فرانس میں پیدا ہونے یا پروان چڑھنے والی نسل کی حمایت میں کافی مثبت اقدامات کیے ہیں۔ انھیں اسلام کی تعلیمات وہدایات سے با خبر رکھا ہے۔اب ہم یہ بات پورے اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ فرانس میں مسلمانوں کا اسلامی تشخص محفوظ ہے۔
فرانسیسی حکام نے بھی اسلامی انجمنوں کے نمایندوں اور فرنچ اسلامک کونسل کے ارکان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کو ہم اس بات سے تعبیر کر سکتے ہیں کہ یہ گویا حکومت فرانس کی طرف سے دعوت ا سلامی کو سرکاری طور پر تسلیم کرلینا ہے۔
ماضی قریب میں مسلمانوں کے بارے میں فرانسیسی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیر ملکی اوربدیشی ہیں۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ سکولوںکی کچھ مسلمان طالبات کو محض اسلامی لباس پہننے کی وجہ سے کس قدر مخالفت کا سامنا کرناپڑاتھا۔ اسی طرح فرانسیسی عوام کی طرف سے قربانی کے جانوروںکے ذبح کرنے پر مسلمانوں کی کس قدر شدید مخالفت کی گئی تھی‘ اور قربانی کو وحشت کا اسلوب قرار دیا گیا تھا۔ اس لیے کہ فرانسیسی قربانی کی حکمتوں سے ناآشنا تھے۔ مگر جب اسلامی انجمنوں نے قربانی اور ذبیحے کے موضوع پر مذاکرات کا اہتمام کیا تو یہ سب مخالفتیں کمزور پڑگئیں اور فرانسیسی قوم نے جانوروں کی قربانی کو حق بجانب سمجھ لیا۔ چنانچہ فرانسیسی حکام نے بھی ہمیں حلال گوشت وافر مقدار میں مہیا کرنے کے لیے کافی انتظامات کیے۔ ابتدا میں صرف پیرس کی جامع مسجدمیںحلال گوشت فراہم کرنے کا بندوبست تھا مگر بعد میں حکومت نے یہ پابندی ہٹالی‘ اور اب پورے فرانس میںحلال گوشت فراہم کرنے والی کمپنیاں اور مارکیٹیں پھیل چکی ہیں۔ غرضیکہ فرانسیسی معاشرے میں اب قابل لحاظ حد تک اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تصورات بہتر ہو چکے ہیں‘بلکہ اب تو فرانسیسی ذرائع ابلاغ بھی مسلم اقلیت کے مفاد میں پروگرام پیش کرنے لگے ہیں۔
’پبلک فیڈریشن‘ کی سربراہی متعدد فرانسیسی مسلمانوں نے کی ہے۔ اس کے پہلے صدر یعقوب روتینیہ تھے، جو فرانسیسی مسلم تھے۔ اس کے دوسرے صدر ایوب لوسیسیہ تھے، یہ بھی فرانسیسی مسلمان تھے۔ تیسرے صدربھی ایک فرانسیسی مسلمان دانیال یوسف دی کلیر تھے۔ اس کے چوتھے سربراہ مصطفی دوجون ترکی الاصل فرانسیسی مسلمان تھے۔ میں اس تنظیم کا پانچواں صدر ہوں اور میں مغربی الاصل(مراکش نژاد) فرانسیسی ہوں۔
ہم نے فرانسیسی عوام اور فرانس میں مسلمانوں کی نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مسلمان صرف مغربی ممالک اور دیگر مسلم ممالک سے آنے والے تارکین وطن ہی نہیں‘ بلکہ یہ فرانسیسی شہری ہیں جو ان تمام آزادیوں اور حقوق سے بہرہ ور ہوتے ہیں جن سے فرانسیسی قوم متمتع ہوتی ہے۔ الحمد للہ‘ اب ہم فرانس میں دوسری بڑی نظریاتی طاقت ہیں ۔
ہم نے متعدد مسجدیں تعمیر کی ہیں ، نماز کے لیے ہال بنوائے ہیں ، اسلامی مدارس قائم کیے ہیں جو پروان چڑھنے والی مسلم نسل کے تشخص کو سلامتی و تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ اور اسے اکثریت کے معاشرے میں ضم ہو جانے سے بچاتے ہیں۔
ہم سب سے بڑی مثبت تبدیلی یہ لائے ہیں کہ ہم نے فرانس کے سب مسلمانوں کو متحد کردیا ہے۔ مختلف لسانی یا مختلف ممالک سے منسوب نسلی امتیازختم کردیے ہیں۔ اب اسلام ہی فرانس میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی قومیت اور شناخت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام فرانس میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فرانسیسی قوم پوری دل جمعی کے ساتھ اسلام قبول کررہی ہے۔ ہماری اسلامی فیڈریشن نو مسلم خواتین و حضرات کا خیر مقدم کرتی ہے۔ انھیں مفید اسلامی لٹریچر فراہم کرتی ہے تاکہ ان کے قلوب و اذہان میں اسلام کے درست تصورات و مفاہیم ثبت ہوں۔
پیرس کے اس عجائب گھر میں اسلامی آرٹ کے کئی ہال ہیں جہاں عالم اسلام کے اہم تعمیراتی شاہکاروں‘ مساجد‘مدارس اور محلات وغیرہ کے تعمیراتی نمونے دستیاب ہیں۔مسلم عمارات کے یہ نمونے دیواروں پر نقش و نگار ،لکڑی اور شیشے کے کام کی وجہ سے انتہائی دل کش ہیں۔اس عجائب گھر میں قالینوں کا ایک نادر مجموعہ بھی ہے جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان میں ایک ایرانی قالین ہے جو شاہ ایران عباس نے پولینڈ کے بادشاہ کو تحفتاً دیا تھا ۔اس قالین کاطول ۱۲میٹر اور عرض ۸ میٹر ہے۔یہ قالین اون سے بنایا گیاہے،جس میں قدرتی ریشم کو سونے اور چاندی کی تاروںسے اون کے ساتھ ملایاگیا ہے۔اس نادر قالین کی قیمت۵۰ ملین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے ۔ اس کی بناوٹ اوراس کے نقش ونگار کا جمال انتہائی دل کش ہے۔ جب اس قالین پر روشنی پڑتی ہے تو اس سے حسین رنگوں کی رنگین روشنیاں پھوٹتی ہیں۔
پیرس کے مذکورہ عجائب گھر میں۱۸۸۱ء میں مشرقی آثار قدیمہ کے لیے الگ سے شعبے کا قیام عمل میںآیا۔جس میں متعدد عربی اسلامی لوحیں اور آثار شامل ہیں۔فرانسیسی ویورپی عوام نے اس میں گہری دل چسپی کا اظہار کیا۔چنانچہ عجائب گھر کی انتظامیہ نے۱۹۴۵ء میں اسلامی آثار قدیمہ کی حفاظت کی خاطر اور ان کی نمایش کے لیے ایک نئی شاخ قائم کی ۔اس عجائب گھر میں اسلامی آرٹ کے سات ہال ہیں جن میں اسلامی ممالک کے نادر آثار قدیمہ رکھے ہوئے ہیں‘جیسے تلواریں ،خنجر اور مختلف قسم کا اسلحہ جو اُمت اسلامیہ کی تاریخ کے ایک اہم دور کی عکاسی کرتا ہے۔