پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود ترمذی


ویت نام کا نام حالیہ تاریخ میں اس حوالے سے معروف ہے کہ امریکی جارحیت کے خلاف شدید مزاحمت کے بعد اسے ویت نام چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آج پھر عراق اور افغانستان پر امریکی جارحیت نے ویت نام کی یاد تازہ کردی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے۔ اسلام ویت نام کے مذاہب میں سے ایک اہم مذہب ہے‘ اور ویت نام کے مسلمانوں کے بارے میں عالمِ اسلام میں زیادہ معلومات نہیں پائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔

  •  حدود اربعہ اور آبادی: سوشلسٹ جمہوری ویت نام کا رقبہ ۳ لاکھ ۳۱ ہزار ۶ سو ۹۰ مربع کلومیٹر ہے جو ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس کے ایک طرف تھائی لینڈ کی خلیج ٹونکین‘ جب کہ دوسری طرف جنوبی چین کا سمندر ہے۔ یہ چین‘ لائوس اور کمبوڈیا سے گھرا ہواہے۔

دنیا کا تیرھواں سب سے زیادہ آبادی اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح ترقی کا حامل یہ ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ چاول‘ چینی‘ چائے‘ کافی اور ربر اس کی پیداوار ہیں۔ صنعتی پیداوار میں بجلی‘ کوئلہ‘ اسٹیل‘ سیمنٹ‘کپڑا‘ کاغذ اور مچھلی شامل ہے‘ جب کہ لوہا‘ ٹین‘ تانبا‘ سیسہ‘ جست و دیگر قیمتی دھاتیں معدنی پیداوار ہیں۔ ۲۰۰۰ء کی مردم شماری کے مطابق کُل آبادی ۸کروڑ ۵ لاکھ ۸۵ ہزار ہے جن میں ۸۷ فی صد ویت نامی ہیں اور ۱۳ فی صد دیگر نسلیں ہیں‘  مثلاً بہارچم‘ یا چام چینی وغیرہ، جب کہ مذاہب میں بدھ ازم‘ عیسائیت اور اسلام معروف ہیں۔  ویت نامی مسلمانوں کے تین واضح گروہ ہیں۔ زیادہ تر کئودائی چم ہیں‘ باقی ویت نامی ہیں    جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ تیسرے وہ مسلمان ہیں جو ویت نام میں آکر آباد ہوئے۔ ۱۹۹۹ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ۶۳ ہزار سے زائد ہے۔

  •  ملکی صورت حال: ویت نام زیادہ تر چین کے زیراثر رہا ہے لیکن ویت نام کے عوام اپنے ملک کی مکمل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں اسے   فرانسیسی سامراج کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے ویت نام پر قبضہ کرلیا لیکن بعد میں دوبارہ فرانس نے کنٹرول سنبھال لیا۔ ۱۹۵۴ء میں‘ جنیوا معاہدے کے تحت ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آزادی دے دی گئی‘ اس وعدے کے ساتھ کہ شفاف جمہوری انتخاب کے بعد    ملک کو دوبارہ متحد کردیا جائے گا مگر ملک کی تقسیم ’ویت نام جنگ‘پر منتج ہوئی۔ سرد جنگ کے زمانے میں  شمالی ویت نام کو روس اور چین کی حمایت حاصل رہی‘ جب کہ جنوبی حصے کو امریکا کی۔ لاکھوں ویت نامی باشندوں کی ہلاکت اور بڑے پیمانے پر تباہی اور امریکا کی ہزیمت کے بعد ۱۹۷۶ء میں متحدہ ویت نام سامنے آیا۔ ۱۹۸۶ء میں‘ کمیونسٹ پارٹی ویت نام اپنی قومی پالیسی میں تبدیلی لائی‘ ملک کو سوشلسٹ کمیونسٹ قرار دیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دیا گیا۔ آج ویت نام کی معیشت تیزی سے ترقی پذیر ہے‘ سیاسی پابندیوں میں بھی کچھ نرمی واقع ہوئی ہے‘ تاہم کرپشن جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔

ملک کا دستور رسمی مذہبی آزادی دیتا ہے۔ سات مذاہب بشمول اسلام کو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر شہری کو بظاہر ملکی قانون کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے اپنے مذہب کی پیروی کی آزادی ہے اور مذہبی بنیادوں پر کوئی امتیاز نہ برتنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘ تاہم کچھ     مذہبی پابندیاں بھی ہیں۔ مشنریوں کو ملک میں داخلے اور تبلیغ و دیگر سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ مبلغین اور مذہبی تنظیموں کو کمیونسٹ حکومت کے نظریات کے خلاف مذہب کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ حکومتی دبائو کی بنا پر بہت سے مذہب پسند ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت کو عالمی سطح پر مذہبی آزادی کے خلاف دبائو کا بھی سامنا ہے۔ حکومت نے عالمی سطح پر اپنے تاثر کو درست کرنے کے لیے مذہبی آزادی کے لیے مزید کچھ اقدام بھی اٹھائے ہیں لیکن سختی اور دبائو بھی موجود ہے۔ قانون شکنی کے الزام کے تحت مذہبی عناصر کو گرفتار کرنا اور ان کے گھر مسمار کر دینا جیسے اقدامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ویت نامی مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔

  •  اسلام کا آغاز: ویت نام میں اسلام عرب اور ایرانی تاجروں اور بعدازاں ملایائی مسلمانوں کی کوششوں سے پھیلا جن کے ساتھ ویت نام کے گہرے ثقافتی روابط تھے۔ جب ہندستان میں اسلام کی اشاعت ہوئی تو پھر ہندستانی مسلمانوں نے بھی چمپا (ویت نام) میں اسلام کی اشاعت میں حصہ لیا۔ان سے بہت پہلے اُن چینی تاجروں نے بھی جو ان عرب اور ایرانی تاجروں سے روابط کی وجہ سے مسلمان ہوگئے تھے‘ نہ صرف چینیوں میں بلکہ چمپا اور جاوا میں بھی اسلام پھیلایا۔ بعض کا خیال بلکہ اعتقاد ہے کہ ان نو مشہور اولیا (ولی سانگر) میں جنھوںنے انڈونیشیا میں اسلام پھیلایا کچھ چینی بھی تھے‘ لیکن تیرھویں صدی کے بعد تو یہ صرف ملایائی مسلمان تھے جنھوں نے چمپا کے عوام کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ ملایائی اور چم عوام میں صدیوں سے ثقافتی اور علاقائی رشتے قائم تھے کیونکہ یہ دونوں نسلیں ہندستانی تہذیب سے تعلق رکھتی تھیں۔ سلطنت چمپا‘ چین اور ملایشیا کے درمیان بفرزون کا کام دیتی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ۱۵۹۴ء میں چمپا کے بادشاہ نے ملاکا میں پرتگالیوں سے مقابلہ کرنے   کے لیے ایک فوج سلطان جوہور کی مدد کے لیے بھیجی۔ حکایات کیلنتن کے مطابق سلطنت چم کا  ایک شہزادہ جس کا نام نیک مصطفی تھا سترھویں صدی کے وسط میں کیلنتن آیا (کیلنتن بھی ایک سلطنت تھی جس کا بانی لونگ یونس تھا جس کے آباواجداد کیلنتن وقائع کے مطابق سلطنت چمپا سے تعلق رکھتے تھے) اور کئی سال تک یہاں رہا۔ پھر جب وہ واپس چمپا گیا تو اسے (بادشاہ کی وفات کے بعد) چمپا کا بادشاہ بنا دیا گیا اور اس نے سلطان عبدالحمید کے لقب سے حکومت کی۔ ایک اور مسلمان بادشاہ پوروم کا بیٹا پوسال تھا جس نے ۱۶۶۰ء سے ۱۶۹۲ء تک پدوکاسری سلطان کے لقب سے (جو ملایائی لقب ہے) حکومت کی۔ یہ چمپا کا آخری بادشاہ تھا۔ اس کی تائید الدمشقی (۱۳۲۵ء) کی کتاب سے بھی ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مملکتِ چمپا میں مسلمان عیسائی اور بت پرست بستے ہیں۔ اسلام وہاں حضرت عثمانؓ اور علویوں کے دور میں آیا۔

  •  آزادی کے بعد: ویت نامی فوج (نگوئن آرمی) کے ہاتھوں پے درپے شکستوں کی وجہ سے چم مسلمان چمپا سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اکثر چم کمپوچیا اور لائوس ہجرت کرگئے اور بہت سے ملایشیا‘ امریکا اور تھائی لینڈ چلے گئے۔ چم صرف نہاترانگ پھان رانگ اور پھان تھٹ‘ یعنی وسطی ویت نام میں رہ گئے ہیں۔ ہند چینی مسلمانوں کی اکثریت انھی چم مہاجرین کی نسل سے ہیں۔ ویت نامی حکومت نے مسلم چم پر بڑی سخت ناروا پالیسیاں نافذ کیں۔ انھیں زبردستی ویت نامی زبان‘ کلچر اور اقدار اپنانے پر مجبور کیا اور ان کے دیگر مسلمان ممالک خصوصاً ملایشیا سے رابطے بالکل محدود کر دیے تھے۔

۱۵ سالہ طویل ویت نامی جنگ کے دوران ویت نام کے دیگر لوگوں کی طرح مسلمانوں کو بھی بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ۱۹۷۶ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد دونوں ویت نام ایک ہی کمیونسٹ حکومت کے تحت پھر اکٹھے ہوگئے۔ویت نامی مسلم کانگریس کا دفتر ہنوئی میں بند کردیا گیا اور اس کے تاسیسی ارکان کو ویت نام سے ہجرت پر مجبور کردیا گیا جن میں محترمہ زینب بھی شامل تھیں جو امریکا ہجرت کرگئیں۔ مساجداور دینی مدارس کو صحت کے مراکز میں تبدیل کردیاگیا یا انتظامی ایجنسیوں کے دفاتر بنا دیے گئے یا پبلک جلسوں اور نجی میٹنگز کے مراکز کے طور پر استعمال کی جانے لگیں۔

اپریل ۱۹۷۵ء کے بعد ویت نامی مسلمانوں کی اچھی خاصی اکثریت دیگر ممالک‘ مثلاً امریکا‘ فرانس‘ کینیڈا‘ بھارت‘ ملایشیا ہجرت کرنے پر مجبور کر دی گئی اور کچھ آسٹریلیا ہجرت کر گئے۔ محمدعلی کیتانی کے بقول ۱۹۷۶ء میں ۱۷۵۰ مسلم چم چین میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے‘ جب کہ  ۱۹۷۶ء سے ۱۹۹۳ء تک ۵۵ ہزار چم کمپوچیا اور ویت نام سے ملایشیا میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے۔ ویت نام کی جامع مسجد کو بند کردیا گیا اورہنوئی کی مسجد کو فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ ہنوئی کی واحد مسجد تھی اور اسے ایک پاکستانی مخیر میاں بیوی نے تعمیر کرایاتھا۔ اگرچہ ان مساجد کو مسلم سیاست دانوں کی مساعی کی وجہ سے واگزار کروا لیا گیا لیکن وہاں مسلمانوں کے نماز پڑھنے میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ جمعہ کی نمازکے لیے انھیں مقامی پولیس کے سربراہ اور مسجد کے منتظم سے پیشگی تحریری اجازت لینا پڑتی تھی اور پھر جمعہ کی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کی تعداد‘ ان کے ناموں اور پتوں کی فہرست مہیا کرنا پڑتی تھی اور ہر جمعہ کو ایسا کرنا ضروری تھا۔

۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۸ء تک بہت سے مسلم رہنما حراست میں لیے گئے۔ ہنوئی میں دومسلم رہنما جو سگے بھائی عبدالحمید بن عیسیٰ (دوحمید) اور عبدالرحیم بن عیسیٰ (درہام) جو آلوچی منہ کی حکومت سے پہلی حکومت میں سول سروس کے ملازم تھے اور ان کے ساتھ عبدالکریم سابق رکن قومی اسمبلی کو بھی تفتیش کے لیے اٹھا لیا گیا اور پھر ان کی کوئی خبر ان کے بدنصیب خاندان کو نہیں ملی۔

  •  مسلمانوں کی موجودہ صورت حال : موجودہ کمیونسٹ حکومت میں مسلمانوں کی حالت بڑی ابتر ہے۔ اکثریت تو اچھے حالاتِ کار اور آزادی کی امید لیے ویت نام سے ہجرت کر گئی ہے۔ ۱۹۷۸ء سے حکومت نے یہ طے کیا کہ مسلمان ملک کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ لہٰذا کچھ پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔ البتہ ایک اہم پابندی باقی ہے کہ وہ بیرون ملک مسلمان تنظیموں سے رابطہ نہیں رکھ سکتے‘ تاہم اسلامی لٹریچر ویت نام بھیجا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ویت نامی زبان میں ہو۔ عربی یا ملایائی زبان کا لٹریچر درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔

ویت نام کی سول سروس میں یا سیکورٹی فورسز میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے‘ نہ انھیں سیاست میں ہی کوئی نمایندگی حاصل ہے۔ مسلمان کاشت کاری کرتے ہیں یا ماہی گیری یا شہروں میں بس ڈرائیوری۔ مسلم قوم کا پیشہ گلہ بانی‘ لکڑی کی ٹال پر لکڑیاں کاٹنا‘ پارچہ بافی یا قصاب کا کام کرنا ہے کیونکہ ویت نامی بدھ گوشت تو کھاتے ہیں لیکن جانور ذبح نہیں کرتے۔ ہوچی منہ سٹی (سیگون) میں مسلمانوں کی چند دکانیں اور ریستوران بھی ہیں۔ ان میں مشہور فورسینز ریسٹورنٹ ایک چم مسلم کی ملکیت ہے۔ بلیو روز ریسٹورٹ اور بمبئی ریسٹورنٹ بھی مسلمانوں کے ہیں۔ دیہات میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے حلال گوشت کی دکانیں بھی ہیں۔

  •  ویت نامی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر: حاجی حسن عبدالکریم نے ویت نامی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے۔ حاجی عبدالکریم اور محمد سمیع صدیق نے رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سیرتِ طیبہ بھی لکھی ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی دینیات بھی ویت نامی زبان میں ترجمہ کی گئی ہے۔ حاجی محمد طیب فہمی نے روح اسلام اور ارکانِ اسلام ویت نامی زبان میں لکھی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ویت نامی مسلمانوں کا کوئی اخبار یارسالہ نہیں ہے۔ قرآن مجید کی طباعت پر پابندی نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا کوئی اشاعتی ادارہ نہیں ہے‘ جب کہ ویت نام کے مسلمانوں میں اسلام کی صحیح تعلیمات کا شعور عام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
  •  تعلیمی پس ماندگی: اکثر مسلم نوجوان ہائی اسکول تک نہیں جا پاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پرائمری یا مڈل اسکول کے بعد ان کی مالی حالت انھیں اجازت نہیں دیتی کہ وہ آگے پڑھیں۔ اِکا دکا نوجوان بیرون ملک تعلیم کے لیے بھی جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انھیں  ویت نامی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کی مادری زبان نہیں ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مسلمان ویت نامی زبان اور کلچر اختیار کر کے ویت نامی معاشرے میں ضم ہوجائیں۔ اس کی خاطر اس نے ان کے ناموں کے ساتھ اونگ‘ ما‘ ترا اور چی کے حصے بھی لگائے ہیں۔
  •  مساجد اور مدارس کی صورت حال: ۱۹۸۲ء میں ویت نام میں ۳۷ مساجد اور ۲۷ مصلے تھے۔ ہوچی منہ سٹی (سیگون) میں چھے مساجد اور سات مصلے تھے اور چاڑڈاک (این گیانگ) صوبے میں نو مساجد اور ۱۷ مصلے تھے۔ اکثر مساجد پکی نہیں تھیں۔ ۲۰ویں صدی کے وسط تک بلکہ آج بھی اکثر مساجد گھاس پھوس اور بانسوں سے بنائی جاتی ہیں۔ محراب کے پاس ایک منبر ہوتا ہے جس پر خطیب جمعے کا خطبہ دیتا ہے۔ نمازیوں کے لیے چٹائیاں بچھائی جاتی ہیں۔ وضو کے لیے پانی سے بھرے کینٹینر مساجد میں رکھے ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ انقلاب میں یہ سب مساجد یا تو بند کر دی گئیں یا فیکٹریاں یا پبلک اجتماع گاہ بنا دی گئی تھیں۔ ۱۹۸۲ء تک ہوچی منہ سٹی میں ۱۳ مساجد تھیں۔

اسلامی درس گاہیں کوئی خاص نہیں ہیں لیکن مساجد کے ساتھ ایک حصہ بچوں کی بنیادی اسلامی تعلیمات کے لیے مخصوص کیاگیا ہے۔ ان میں تن چائو ضلع کی مسجد نیک ماں ہے جہاں لڑکوں کے لیے سات اور لڑکیوں کے لیے ایک کلاس ہے۔ صوبہ این گیانگ کی مسجدالامان میں مدرسہ اصلاح قائم ہے جس میں ۱۵۰ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ ضلع آن پھوکی مسجدالاحسان کے مدرسہ میں ۱۲۰ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ ضلع پھونہاں کی جامع مسجد المسلمین میں بھی ایک مدرسہ ہے۔ ویت نام میں اب کُل ۴۰ مساجد اور ۲۲ مصلے ہیں۔ ویت نام کی قدیم ترین مسجد جامع الازہر جو صوبہ آن گیانگ کے ضلع پھوتان میں واقع ہے ۱۴۲۵ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ دوسری قدیم ترین مسجدالرحیم ہے جو ہوچی منہ سٹی (سیگون) میں ہے۔ اسے ۱۸۸۵ء میں ملایشیا اور انڈونیشیا کے مسلمانوں نے مل کر تعمیر کیا تھا۔ چوتھی قدیم ترین مسجد ہنوئی کے ضلع ہوان کیم میں ہے جو مسجدالنور کے نام سے مشہور ہے۔ اسے ہندی تاجروں نے ۱۸۹۰ء میں تعمیر کیا تھا۔ صوبہ آن گیانگ کے ضلع آن پھو میں واقع پانچویں قدیم ترین مسجد کھان بنہ (ماکورہما) ہے جو ۱۰۰ سال پرانی ہے۔

جدید ترین مساجد میں صوبہ بن پھوک کی مسجد حیات الاسلام ہے جو ۱۹۹۰ء میں تعمیر ہوئی اور صوبہ بنہ دوانگ کی مسجدالمتقین ہے جو ۱۹۹۲ء میں تعمیر ہوئی۔ مسجد جامع الاسلامیہ ہوچی منہ سٹی کو ۲۰۰۴ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اسے عربی طرزِتعمیر میں ایک ویت نامی آرکیٹیکٹ نے تعمیر کیا۔ ہوچی منہ سٹی کے ضلع پھونہان کی مسجد جامع المسلمین ایک اور مشہور مسجد ہے۔ اس کی تعمیر ۱۹۶۹ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۷۱ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی پہلی منزل پر ہوچی منہ سٹی کی اسلامک کمیونٹی کا دفتر ہے۔ دوسری منزل نمازیوں کے لیے ہے جہاں خواتین کے لیے بھی علیحدہ انتظام ہے۔

  •  مسلم تنظیمیں:شمالی ویت نام اور جنوبی ویت نام کے اتحاد سے پہلے شمالی ویت نام میں کوئی قابلِ ذکر مسلم تنظیم نہیں تھی کیونکہ وہاں مسلمان براے نام تھے۔ البتہ جنوبی ویت نام میں  کئی مسلمان تنظیمیں تھیں جن میںچم ویت نام ایسوسی ایشن (CAMA) اور ویت نام گریٹ  اسلامی کونسل اور سیخون السلام وغیرہ نے مل کر ایک تنظیم کی صورت اختیار کرلی جس کا نام     کونسل براے ویت نام مساجد ہے۔یہ ڈاکٹر صدیق طوطی (توتی) کی مساعی کا نتیجہ ہے جو    اسلامی ترقیاتی بنک کے نمایندہ ہیں ان کے ساتھ رابطہ العالم الاسلامی کے ابراہیم عادل جی بھی شامل تھے جنھوں نے ۱۹۸۲ء میں ویت نام کا دورہ کیا تھا۔ ایک اور معاصر اور فعال مسلم تنظیم ہوچی منہ سٹی کی اسلامک کمیونٹی ہے جو ۱۹۹۲ء میں قائم ہوئی۔ یہ شہر کے ۷ہزار مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم ہے۔ جمعیۃ السعادۃ ایک اور تنظیم ہے۔ ویت نامی چم مسلم تنظیم نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ ویت نام   چم مسلم ایسوسی ایشن اور ویت نام مسلم آرگنائزیشن بھی ہیں لیکن ان کی کارکردگی براے نام ہی ہے۔

ویت نام کے مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ بڑے مصائب اور مسائل سے پُر رہی ہے۔ اس میں سب سے کٹھن دور کمیونسٹوں کا دور رہا ہے جنھوں نے انھیں جیسا کہ ان کا دستور ہے باقی دنیا سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھ دیا‘ اور نہ وہاں کسی بیرونی میڈیا کے نمایندوں کو جانے کی اجازت تھی کہ وہ ان پر بیتنے والے مظالم دنیا کو بتا سکتے۔ ان پر بڑی ناروا پابندیاں لگائی گئیں۔  اب بھی انھیں بہت سے مسائل کاسامنا ہے‘ مگر ویت نام کے مسلمان ایک عزم اور جذبے کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (ماخوذ: ہمدرد اسلامکس ’ جلد ۲۹‘ شمارہ ۲‘ ۲۰۰۷ء‘ وکی پیڈیا انسائیکلوپیڈیا، www.wikipedia.org)