ماریا ہولٹ


اخذ و ترجمہ:  توراکینہ قاضی

اس دور میں احیاے اسلامی کی جو تحریکیں مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کام کر رہی ہیں ‘ ان میں خواتین کا کردار مطالعے کا دل چسپ اور اہم موضوع ہے۔ ان تحریکات کے لیے خود بھی‘ اور بیرون سے ان کا جائزہ لینے والوں کے لیے بھی۔ اس پس منظر میں‘اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے کہ مغرب اور اسلام کی کش مکش جن موضوعات کے گرد ہے‘ ان میں عورت کا مقام خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔

اگر ہمارے ہاں پیش آمدہ مسائل پر تحقیقی مطالعوں کی روایت ہوتی تو اس موضوع پر کئی مطالعے کیے جا چکے ہوتے اور معروضی اور غیر معروضی آرا سامنے آئی ہوتیں۔ اس وقت تویہی نہیں معلوم کہ مختلف اسلامی ممالک میں جو تحریکیں چل رہی ہیں‘ عملاً ان میں خواتین کی دل چسپی ‘ سرگرمی اور کارکردگی کی کیا نوعیت ہے اور انھوں نے پیش آمدہ مسائل کو کس طرح حل کیا ہے؟ ہم ایک طرح کی تاریکی میں ہیں‘ جب کہ دور اطلاعات میں دھماکے کا ہے۔

ایک مغربی تحقیق کار ماریا ہولٹ نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے حوالے سے خواتین کے کردار کا جو مطالعہ کیا ہے‘ مناسب معلوم ہوا کہ اس کے اہم حصے قارئین کے لیے پیش کیے جائیں۔ (ادارہ)

فلسطینی‘ خودمختاری کی توقع میں عدم وجود سے جزوی خودمختاری تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نظریاتی اختلافِ رائے کے سبب ان کے عوام میں عدم اعتماد و نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال نے فلسطینی عورتوں میں اپنے کردار کی ادایگی کے لیے فکرواضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس حوالے سے بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اول یہ کہ اس بحث کو فلسطینی قوم کی تاریخی ترقی سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ دوم یہ کہ اسلام اور قومی تحریک دو الگ چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ سوم یہ کہ اسلام کو روایتی حیثیت سے اور جدید سیاسی تحریک کے طور پر الگ الگ حیثیتوں سے شناخت کیا جائے۔ آخراً یہ کہ عورتوں کے مساوی حقوق کے تعلق سے اشتراکِ عمل کے مروجہ و غیر مروجہ طریقوں کا سوال بڑی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔

اسلامی خاکے میں ایک ظاہری تناقض موجود ہے جسے مغربی اور شرقِ اوسط کے تنقید نگاروں کی زبان میں رجعت پسندانہ‘ روشن خیالی کا دشمن اور عورتوں کے حقوق کو معطل کرنے والا کہا جا سکتا ہے لیکن فلسطینی عورتیں اسے اسرائیلی قبضے اوراپنی ذاتی زندگیوں میں ہونے والی   بے انصافیوں دونوں سے چھٹکارے کے لیے ایک روشن امید سمجھتی ہیں۔ اس مقالے میں‘ میں یہ بتائوں گی کہ کس طرح اس اسلامی تحریک نے‘ جو اسرائیلی جبرواستبداد کے نتیجے میں بے بس و مجبور فلسطینیوں میں ابھری ہے غزہ کی پٹی اور غربی کنارے کی فلسطینی برادری کے مردوزن دونوں کو اپنی آزادی کے لیے ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے سیاسی اکھاڑے میں اترنے کی تحریک دلائی ہے۔

مسلم معاشروں میں عورتوں پر اسلامی تحریک کے مثبت اثرات کی صحیح قدروقیمت گھٹانے کا رجحان موجود ہے۔ فلسطینی معاشرہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اس کے باوجود اس تحریک کے جو قابل ذکر فوائد فلسطینی عورتوں کو حاصل ہو رہے ہیں ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلے تو یہ بات تسلیم کرنا چاہیے کہ اپنی روایات سے محبت عورتوں کے رویے کا     اہم ترین نکتہ ہے۔ دوسرے یہ کہ بے دین اور مغربی طرز کی سیاست کی بے مقصد ہنگامہ آرائی کے برخلاف اس بامقصد اسلامی تحریک میں شمولیت اور عملی مساعی قدامت پسند فلسطینی معاشرے کی عورتوں اور لڑکیوں کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول ہے۔ تیسرے یہ کہ فلسطینی عورتیں اسلامی تحریک کی پُراثر اور قبولیت پذیر خصوصیات کے سبب اس میں دل چسپی اور کشش محسوس کرتی ہیں۔ وہ دیکھتی ہیں کہ جہاں سیکولر قوم پرستی ناکام ہوئی ہے وہاں یہ تحریک کامیاب ہو رہی ہے۔ ان کے لیے سب سے زیادہ کشش انگیز جدید اسلامی تحریک کا پیش کردہ وہ مقام ہے جو انھیں ثانوی حیثیت دینے اور اس تک محدود رکھنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ انھیں جو حقوق اسلام نے عطا کیے ہیں ان کے حصول کے لیے وہ جدوجہد کریں۔

اسلامی تحریک کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ازمنۂ وسطیٰ تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔ ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بیسویں صدی کے آخری حصے میں بعض عوامل کے ردعمل کے نتیجے میں مقبولیت کی نئی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے۔ لادین قوم پرستی جو اسلامی اخلاقی نظام کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے‘ مغرب کا اثر و مداخلت‘ اسرائیل اور اس کے مغربی حمایتیوںکے ہاتھوں عرب قوم کی تذلیل اور نوآزاد عرب ریاستوں میں جدید یا مغربی طرز کی حکومتوں کی عوامی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی‘ ان شکایات میں مسئلہ فلسطین مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔

اسلامی تحریک کی طرف رجحان‘ جو آج کل عرب دنیا میں بالعموم دکھائی دے رہا ہے‘ قابلِ فہم ہے۔ ۱۹۹۰ء کے وسط میں فلسطینی علاقوں میں برپا ہونے والی اسلامی تحریک دراصل اپنی بے طاقتی و کمزوری‘ شکست اور ایمان کے اتلاف کے احساس کا عرب اور مسلم جواب ہے۔ یہ فلسطینیوں کی مزاحمت اور بقا کی جدوجہد کی ایک صورت ہے۔

یہ ضروری ہے کہ اسلام کی بہت سی صورتوں میں اور ان کے عورتوں پر مختلف اثرات میں امتیاز کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تحریک نے عورتوں کی روز مرہ کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کے مثبت و منفی اثرات کا جائزہ لیا جائے جو اس پر   مبنی ہوں کہ خود عورتیں کیا کہتی ہیں؟

فلسطینی علاقوں میں ’’جدید سیاسی اسلام‘‘ کے مظاہر پر بحث کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسے متوازن فریم ورک کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ اسلامیت ایک جدید مظہر کے لیے جدید اصطلاح ہے۔ سیاسی تحریکات جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں‘ بالعموم پیشوایانِ مذہب کی رہنمائی میں نہیں چلائی جاتیں۔ یہ تو پیشوائی نظام اور اس کے فرسودہ نظریات کو للکارتی ہیں۔ ان تحریکوں کو پبلسٹی کے جدید طریقہ ہاے کار سے اور عوام کی تحرک انگیزی سے دل چسپی ہے۔ یہ  سیاسی ایجنڈا رکھتی ہیں جو محض مذہبی منازل سے آگے جا کر ریاست اور معاشرے کی اصلاح چاہتا ہے۔ یہ تحریکات نچلے اور متوسط نچلے طبقے کے مفاد میں سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی تبدیلیوں کی حمایت کرتی ہیں۔

مسلم دنیا کے عوام میں ‘حکومتوں کی جانب سے اسلام کے احیا کے لیے آواز اٹھانے پر پابندیوں کے خلاف سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے مسلم شرقِ اوسط ایک ایسے بحران سے گزر رہا ہے جو اندرونی و بیرونی دونوں اسباب کا پیدا کردہ ہے۔ اس بحرانی حالت میں اسلام کے پاس پیش کرنے کے لیے بہترین پروگرام موجود ہے۔ سیاسی اسلام میں سیکولر نظریات سے زیادہ اپیل موجود ہے۔ اسلامی تحریک معاشرتی و اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ابھری ہے۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے‘ اسلامی تحریک انھیں ایک ایسا کردار عطا کرنا چاہتی ہے جس میں وہ مناسب اسلامی لباس پہنیں اور معاشرتی و خاندانی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوں۔

فلسطین میں اسلامی تحریک

انتفاضہ سے قبل کے زمانے میں اخوان فلسطینی کمیونٹی اور نوجوانوں میں اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور اسلامی ریاست کے لیے عملی جدوجہد کی بجائے اسلامی اخلاقی کردار کی تخلیق و تعمیر کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اخوان المسلمون اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ ایک رائے کے مطابق غزہ اور غربی کنارے کے بڑے بڑے قصبات میں کرشماتی شخصیت کی مالک خاتون رہنمائوں کے زیراثر مہاجر کیمپوں کی اور مقامی عورتوں کی خاصی بڑی تعداد اپنے گھروں سے نکال کر مساجد میں لائی گئی۔ نوجوان عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے‘ حتیٰ کہ نوجوان لڑکیوں نے بھی ’’اسلامی تحریک کی وردی‘‘یعنی کھلا لبادہ اور سرپوش پہننے شروع کر دیے۔ اس قسم کے نظارے فلسطینی مسلمانوں کی غالب اکثریت کے مذہبی شعور سے یکسر مختلف مذہبی شعور و شناخت کی وضع قطع کے رائج کرنے میں اسلام پسندوں کی کامیابی کا مظہر ہیں۔

دسمبر ۱۹۸۷ء میں مقبوضہ علاقوں میں انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ اخوان المسلمون کی ایک نئی شاخ اسلامی تحریک مزاحمت‘ حماس‘ معرض وجود میں آئی۔ ابتدا میں اسرائیلی غاصب حکام نے حماس کے وجود کو قوم پرست گروپوں کی زیادہ جنگجویانہ سرگرمیوں کے جوابی دھڑلے کے طور پر برداشت کیا۔ مگر یہ صورت حال اس وقت بدل گئی جب حماس نے مسلح جدوجہد کا رخ  اختیار کیا۔ جب ۱۹۸۹ء میں اسرائیلیوں نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا تو اسلام پسندوں نے جنھوں نے اپنی قیادت کی مساعی کو ناکام ختم ہوتے دیکھ لیا تھافلسطینی عوام کی مایوسیوں اور    بے تابیوں کو اپنا اثاثہ بنالیا۔ وہ لوگ اب ان کی (حماس کی) اسرائیلی افواج کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بنظراستحسان دیکھنے لگے۔ مزیدبرآں ایسی صورت حال جس میں روایتی معاشرتی سہارے ٹوٹ گئے تھے‘ اس میں حماس ہی موزوں و مناسب مقام رکھتی تھی کہ وہ مقامی آبادی کو معاشرتی خدمات اور امداد بہم پہنچائے۔ حماس نے ۱۹۹۳ء کا عہدنامہ اوسلو مسترد کر دیا‘ اس لیے کہ اس میں فلسطینی قومی امنگوں سے غداری کی گئی تھی۔

فلسطینی خواتین اور اسلامی تحریک

اسلامی تحریک مسلم خواتین کے لیے بوجوہ باعث کشش ثابت ہوئی۔ ان کی غالب اکثریت مغرب کی آزادی نسواں سے تنگ تھی۔ یہ عورتیں چاہتی تھیں کہ انھیں اپنی روایات کے مطابق نعم البدل ملے۔ اسلامی لباس پہن کر وہ مردوں کی بری نظروں سے محفوظ ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ عوامی میدانِ عمل میں زیادہ آزادی سے نقل و حرکت کر سکتی ہیں۔ وہ فیشن کی ترنگ بازیوں اور جنسی تحریص سے احتراز کرتی ہیں۔ اس طرح وہ روز مرہ کی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتی ہیں۔ غزہ کی ایک نوعمر خاتون کے الفاظ ہیں--- ’’میں نے موزوں و مناسب اسلامی لباس کے متعلق پڑھا۔ پھر میں نے اپنے کپڑوں پر نگاہ ڈالی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں مکمل طور پر مستور نہیں ہوں… یہ (اسلامی لباس) مجھے ایسا لگا جیسے شرم و حیا کا لباس پہن لیا۔ یہ لباس مجھے اس معاشرتی کش مکش سے محفوظ رکھتا ہے جو مجھے وہ بے ہودہ لباس پہنتے ہوئے پیش آیا کرتی تھی‘‘۔

اسلامی تحریک سے وابستہ یہ خواتین یہ شعور بھی رکھتی ہیں کہ اسلام ’’انھیں تمام حقوق اور آزادیاں دیتا ہے جو ان کا حق ہیں۔ یہ اسلام تعلیمِ نسواں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور معاشرے میں عملی مقام اور خاندان کے اندر ان کے کردار کے لیے خصوصی قواعد طے کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسرِاقتدار مردوں نے قرآنِ حکیم کی کچھ ایسی ہدایات جو خواتین کے بارے میں ہیں صدیوں کی تاریخ اسلام کے دوران مسخ کر دی ہیں۔ مگر یہ معاملہ ثقافتی رویوں اور پس ماندہ روایات کا ہے نہ کہ مذہب کا۔ لہٰذا عورتوں کی سرگرمیوں کا ایک مرکزی نکتہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو بازیافت کیا جائے۔

حماس کے منشور کی دفعہ ۱۷ کے مطابق: جنگ آزادی میں مسلمان عورت کا کردار مردوں کے کردار سے کم تر نہیں۔ مرد بھی خواتین کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔اس کا کردار نسلوں کی رہنمائی اور ان کی تربیت کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا کردار ہے۔ دشمنوں نے اس کے کردار کی اہمیت کو بھانپ لیا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگروہ اس کو اپنی پسندیدہ راہ پر ڈال سکیں جو اسلام سے دور ہے تو وہ جنگ جیت گئے۔

دفعہ نمبر ۱۸ میں ہے: مجاہد اور جہاد کرنے والے خاندان کی خواتین کا‘ خوہ وہ ماں ہو یا بہن‘ گھر کی دیکھ بھال کے لیے کردار سب سے اہم ہے۔ بچوں کو نیک سیرت بنانے‘ اسلامی  سمجھ بوجھ کا مالک بنانے اور مذہبی فرائض کی ادایگی کے قابل بنانے کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں‘ انھیں بطریق احسن نبھانا ان کے اہم ترین فرائض میں داخل ہے تاکہ ان کے یہ بچے آگے چل کر اچھے مجاہد ثابت ہوں۔ اس پس منظر کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں اور نصابوں کا خیال رکھا جائے تاکہ لڑکیوں کو وہ تعلیم مل سکے جو انھیں نیک اور اچھی مائیں بنائے جنھیں جدوجہد آزادی میں اپنے کردار سے آگہی ہو۔ انھیں گھرداری کا ضروری علم و تجربہ ہونا چاہیے۔ کفایت شعاری اور حسن سلیقہ ان کی نمایاں صفات ہونی چاہییں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو نامساعد حالات میں جدوجہد جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔

غربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اسلام پسند تحریک کا عورتوں کی زندگیوں پر مخالفانہ اثر مرتب ہوا ہے۔ ایک طرف قدامت پسندانہ اور محدود کر دینے والے پروگرام نے ان کے رویے پر قدغن لگا دی اور ان پر اسلام کا وہ رنگ چڑھا دیا جو فلسطینی معاشرے کے دوسرے زیادہ آزادانہ رجحانات کے مخالف سمت رواں ہیں۔

اس وقت اس تحریک نے خواتین کو ایک حد تک آزادی مہیا کی ہے تاکہ وہ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد میں حصہ لے سکیں۔ اس نے ان میں اپنی روایات اور شناخت پر فخربحال کیا ہے اور ایک احساسِ مقصدیت دیا ہے کہ وہ اپنی مقدس سرزمینِ وطن کی بازیابی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ خواتین اپنی سرگرمیوں کو اپنے خاندانوں اور مرد جنگ آزمائوں ہر دو کے لیے مدد کی ذیل میں شمار کرتی ہیں۔ جہاں کچھ خواتین اسلامی مفاد کی متشدد حامی ہیں وہاں کچھ دوسری خواتین اس بات کو ترجیح دیتی ہیں کہ وہ باحیا اور نیک نمونے والی زندگی گزاریں۔  نہ وہ حماس کی زیادہ ہیجان خیز حکمت عملی کو سراہتی ہیں نہ وہ لامذہب ریاست کی آرزو رکھتی ہیں۔ دیگر فلسطینی عورتیں بلاشبہہ اسلام پسند تحریک اور اپنے معاشرے میں اس کے اثر سے کم دلی لگائو رکھتی ہیں۔ انھیں دو واضح کیمپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کیمپ سرگرم قوم پرست خواتین کا ہے جنھوں نے عرصہ سے الفتح کی یا زیادہ دائیں بازو کے گروہوں کی حمایت کی۔ یہ عورتیں ایک سیکولر فلسطینی ریاست کی پرجوش حامی ہیں۔ یہ عورتوں کی قانونی مساوات پر زور دیتی ہیں۔ ایک معمولی اقلیت مغربی طرز کی آزادی نسواں کی وکالت کرتی ہے۔ یہ عورتیں اس صورت حال سے خوف زدہ ہیں جس کو وہ مشرقی پس ماندگی اور رجعت پسند اسلامی رجحان سمجھتی ہیں۔

فلسطینی خواتین کا ایک حصہ اپنے آپ کو بے طاقت اور گویائی سے محروم محسوس کرتا ہے۔ یہ عورتیں اپنے آپ کو مردوں کے زیردست مجبور و بے بس محسوس کرتی ہیں۔ ان مردوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ موڑ کر اپنے حق میں نافع بنا رکھا ہے۔ مردوں کے اس دبائو اور جبر کے زیراثر وہ مجبور ہیں کہ اسلامی لباس پہنیں‘ اپنے گھروں تک محدود رہیں اور شادی اور بچوں کے بارے میں اپنے حقوق سے محروم رہیں۔ غربی کنارے کی ایک عورت بیان کرتی ہے: ’’اصل مذہب اور دیہاتی رسومات میں بہت سے اختلافات ہیں۔ ہمارا اسلام عورتوں کو بہت سے حقوق اور جائز آزادی دیتا ہے۔ مگر اکثر مرد قرآنِ پاک پڑھتے ہی نہیں اور نہیں مانتے کہ ہمیں یہ حقوق حاصل ہیں۔ مثلاً میرا بھائی مجھے یونی ورسٹی جانے اور کام (ملازمت) کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا ہے۔ وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو دیہاتوں کے لوگ ہمیشہ سے عورتوں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کو پنجرے میں اور جہالت میں قید رکھنے کی کوشش--- تاکہ وہ ہمیشہ ان پر غالب رہیں‘‘۔

اوسلو معاہدے کے بعد سے

۱۹۹۳ء میں اسرائیل اور پی ایل او کے مابین معاہدے کے مطابق جنوری ۱۹۹۶ء میں تمام علاقوں میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی (پی این اے) کی لیجسلیٹیو کونسل کے لیے انتخابات ہوئے جس میںمٹھی بھر خواتین ہی ممبر منتخب ہوسکیں۔

اس دور میں اسلام پسند گروپ خصوصاً حماس اور جہادِ اسلامی مخالف کیمپ میں رہے۔ انھوں نے نہ صرف امن کا معاہدہ ماننے سے انکار کر دیا ہے بلکہ وہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف مہمات میں مصروفِ کار ہوگئے ہیں۔ یہاں ہم قوم پرست عورتوں کے مقاصد اور اسلام پسندوں کے مقاصد میں بنیادی اختلافات کو دیکھ سکتے ہیں۔ آج تک پی این اے کی عورتوں کے حقوق میں اضافہ یا انھیں قانونی تحفظ دینے کی کوششیں نتیجہ خیزثابت نہیں ہو سکیں۔ تاہم ایک فلسطینی ماہرعمرانیات اصلاح جدّ کے الفاظ میں: حقوقِ نسواں کے لیے خطرہ حماس کے معاشرتی مطالبات پر زور نہیں بلکہ اس کی محتاط نرم روی میں ہے۔ حماس کے اس مطالبے کو کہ شریعت کو تمام شخصی قوانین کی بنیاد بنایا جائے‘ قوم پرستی کے دھارے میں بہنے والے مرد کم ہی قابلِ اعتراض پائیں گے بلکہ قدامت پسند مرد تو اس کی زور وشور سے تائید کریں گے۔ خواتین کارکنان کو پریشانی ہے کہ عورتوں کو بالعموم یا بطورِ سیاسی لیڈر جو کامیابیاں یا فوائد حاصل ہوئے ہیں انھیں پیشوایانہ کردار کی حامل اتھارٹی نظرانداز کر دے گی۔

اسلام پسند تحریک کا دوسرے نظریات کے مقابلے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے شعور میں جڑیں رکھتی ہے۔ مایوسی اور غربت کے ایام میں اسلامی گروپوں نے سالہا سال بہت سے قابلِ قدر کام کیے ہیں۔ مقبوضہ علاقے کے فلسطینیوں کے لیے انھوں نے جامع معاشرتی پروگراموں کے ذریعے مالی دیانت داری و معاشرتی فلاح و بہبود کے سلسلے میں    نیک نامی حاصل کی ہے۔ یہ پی ایل او کے اداروں سے یکسر مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ وہ ایک اسلامی روایت کی ’’ایجاد‘‘ میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم کڑمذہبیت کا خاص طور پر عائلی قوانین میں گہرا اثرہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا عنصر ہے۔ یہ مذہبی ضابطوں کے مطابق قانونی اور معاشرتی طور پر عورتوں کی حیثیت واضح کرتے ہوئے انھیں مردوں کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ عورتوں کی ذیلی حیثیت کو قانونی جواز‘ وحی الٰہی نے فراہم کر دیا ہے۔ اور اس طرح اس میدان میں کسی قسم کی اصلاح کرنے کو خاص طور پر مشکل بنا دیا۔

عورتوں کے وہ حقوق بھی‘ جن کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ ان کو اسلام کا تحفظ حاصل ہے‘ انھیں پوری طرح عطا نہیں کیے جاتے‘ بعض اوقات تو یہ بالکل نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کر دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ان سے اسکول کی تعلیم اس لیے چھڑوا دی جاتی ہے کہ ان کی شادی کر دی جائے۔ ایک بار ان کی شادی ہو جائے تو وہ گھریلو تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن ایک زیر مرد ماحول میں انھیں قانون کی مدد کم ہی ملتی ہے۔ ایک فلسطینی خاتون وکیل کی رپورٹ کے مطابق بہت سی فلسطینی عورتیں یا تو اپنے قانونی حقوق سے بے خبر ہیں یا ان پر اصرار کرتے ہوئے ڈرتی ہیں۔ اس عورت کی نظر میں جدوجہد کا مرکزی نکتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آیا  شریعت کو قانون کی بنیاد بنا لینے کو رد یا قبول کیا جائے۔ اس کے بجائے (چاہیے کہ) عورتیں قانونِ اسلام کی ترقی یافتہ ترجمانی کریں۔

جب ۱۹۸۷ء میں انتفاضہ کا آغاز ہوا تو لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ مل کر اسرائیلی سپاہیوں پر پتھر پھینکنے گلیوں میں نکل آئیں۔ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر عمر کی عورتوں نے مظاہروں میں شرکت کی اور بڑے غضب ناک تیوروں سے حکام کا سامنا کیا۔ اس جولانی کے دور میں یہ خوش فہمی عام تھی کہ عورتیں بڑے خاطرخواہ فوائد حاصل کر رہی ہیں جو آیندہ بھی حاصل ہوتے رہیں گے۔ لیکن کئی وجوہات کی بنا پر یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ انتفاضہ کے دوران سب کا اتفاق اس نکتے پر تھا کہ غاصبانہ اسرائیلی قبضہ ختم کیا جائے۔ اسی ذہنی ہم آہنگی کے سبب اندرونی اختلافات دب گئے تھے۔ اب‘ جب کہ حکومت اپنی ہے‘ مخالف سیاسی طاقتیں اقتدار کے لیے باہم دست بہ گریبان ہو رہی ہیں‘ عورتوں نے انتفاضہ کے دوران جو سیاسی پیش قدمی کی‘ اس کے باوجود معاشرتی ترقی نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ فلسطینی معاشرہ اپنی گہرائی میں قبائلی ہی رہا۔

نتیجہ

ہمیں چاہیے کہ ہم فلسطینی معاشرے میں مختلف نظریاتی رجحانات کو الگ الگ نہ دیکھیں۔ اسلام جمہوریت کے لیے اتنا مانع نہیں جتنی ایک اسلامی قانون پر مبنی ریاست حقوقِ نسواں کے لیے مانع ہوتی ہے۔ ہمیں امید کرنا چاہیے کہ فلسطین میں ایک ہم آہنگ ریاست کا ظہور ممکن ہو جائے گا۔

اسلام پسند تحریکوں میں لوگوں کو سہانے خواب دکھانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ وہ اکثر عملی مدد بھی کرتی ہیںجیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ غربی کنارے اور غزہ کی ضرورت مند آبادی کے لیے ان کے سماجی بہبود کے پروگرام انتہائی سودمند ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد نے ان میں ایک قومی شعور کو پھر بیدار کر دیا ہے اور ان کے سیاسی ایجنڈے مرد اور عورت دونوں کو ثبات و استقلال عطا کرتے ہیں۔

اگر اسلام پسندوں کی سخت گیری اور پاکیزگی ٔ نگاہ کو قومی سیاست پر اثرانداز ہونے کی اجازت دی گئی تو ہو سکتا ہے کہ ایک آمیزہ نمودار ہو اور مختلف النوع رجحانات یکجا ہو سکیں اور یوں فلسطینی عورتوں کے لیے بھی موقع مہیا ہو جائے۔ (Palestinian Women And The Contemporary Islamist Movement  از  Maria Holt)