تمدّن کا حسن دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک‘ اس کی خوش رنگی اور دوسرے ‘اس کی خوش اطواری۔ خوش رنگی دل کشی کا اور خوش اطواری سکون قلبی کا سامان ہوتی ہے۔ تمدّن میں یہ دونوں پہلو باہم دگر کامل ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست نہ ہوں تو کلچر میں حسن باقی نہیں رہتا۔ تہذیب کا حسن ہی اصل میں ترقی کا صحیح مترادف ہے۔
تمدّن کی ظاہری چمک دمک ہی کو ترقی قرار دے دینا پرلے درجے کی ناسمجھی ہے۔ پھول کو لیجیے‘ اس کی خوش رنگی چند لمحوں کے لیے بہار دکھاتی اور پھر مرجھانے کے بعد بظاہر اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لینے والے کے لیے تو اس کی اہمیت قطعی باقی نہیں رہتی لیکن دانش مند اہل فن اس کا عطر کشید کر کے مستقبل کو معطر رکھنے کا سامان کر لیتے ہیں۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتے‘خوشبوکو دائمی بنانے کی خاطر عطر کشید کرنے کی ٹکنالوجی آیندہ نسلوں کو منتقل کرجاتے ہیں۔
پھول کی خوشبو ‘پھول کی روح ہے جس سے اس کے ظاہری حسن اور خوش رنگی کی یاد تسلسل اختیار کر کے دوام کا انداز اپنا لیتی ہے۔ اس طرح گویا پھول کا ظاہر جو اس کے مادّی وجود اور خوش رنگی سے عبارت ہے‘ اپنی اصل کے اعتبار سے اس کے باطنی اور روحانی وجود ہی کا پرتو ہے۔ پھول کا مادّی وجود تو مٹ جاتا ہے لیکن خوشبوکے تحفظ کی صورت میں اس کا معنوی وجود دوام اختیار کر لیتا ہے۔ پھول کی حقیقی افادیت یہی ہے۔
بعینہٖ یہی مثال انسانی معاشرے کی ہے‘ تہذیبی رنگوں کا تنوع اورمادّی سہولیات کی فراوانی اس کا ظاہر ہے‘ جو خوب سے خوب تر کی متلاشی انسانی فطرت کے پیش نظر نئے سے نیا رنگ بدلتا اور نئے سے نیا چولا پہنتا ہے۔ اس کے ظاہری رنگوں کے بارے میں دوام کی سوچنا‘ اس پر جمود طاری کرنے اور اسے آگے بڑھانے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ رسل و رسائل میں وسائل سفر کا جو ماڈل کل تھا‘ وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔زندگی کا مزاج تحرک اور آگے بڑھنا ہے‘ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات اور ان کے پورا کرنے کے انداز میں بھی حسین تر کی جستجو انسان کو آگے بڑھاتی رہتی ہے اور یوں مظاہرتہذیب میں جدّت کی شدت ہی ترقی کا معنیٰ ہے۔ یہ ترقی کا مادّی پہلو ہے۔
پھول کی خوشبو کی طرح اس کا بھی ایک روحانی اور باطنی پہلو ہے جو اس کی افادیت کے دوام سے وابستہ ہے۔ انسانی فطرت محض خوب سے خوب تر کی تلاش ہی کا نام نہیں‘ اس کی کچھ کمزوریاں بھی اس کی فطرت اور مزاج کا حصہ ہیں۔ انسانی معاشرے کا تہذیبی مظہر جو مادّی وجود رکھتا ہے اور جو اس کی کسی نہ کسی قسم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے‘ خود انسان ہی کی تخلیق ہوتا ہے‘ ایک وقت میں‘ دو میں سے ایک حال سے‘ کبھی خالی نہیں ہوتا‘ یعنی یا یہ اس کو فائدہ پہنچاتا ہے یا نقصان۔ انسان فطری طور پر نقصان سے نفور اور فائدوں سے محبت کا رویّہ رکھتا ہے۔ اس کی یہ بھی فطری کمزوری ہے کہ وہ کثرت کا اس حد تک خواہش مند ہوتا ہے کہ سب کچھ خود لے اڑنا چاہتا ہے۔ اکثروبیشتر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی مادّی تخلیقات کے استعمال میں خود غرضانہ رویّہ اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے یہ خود غرضانہ رویے کیا نتائج مرتب کرتے ہیں‘ تاریخ نے بار بار انھیں عبرت ناک مناظر کی صورت میں پیش کیا ہے لیکن انسان ہے کہ غلط تصورات اور جھوٹے اِدعا سے باز نہیںآتا۔ کثرت کی خواہش اکثر اس کے لیے ہلاکت کا سامان بنتی ہے۔
وقت‘ وسائل اور توانائی‘ مظاہر زندگی کے تخلیق کار ہیں‘ بالقوہ بھی اور بالفعل بھی۔ اگر انسان خود غرضانہ فیصلوں کا عادی ہو اور وقت‘ وسائل اور توانائی سے مثبت فائدہ اٹھانے کا شعور نہ رکھتا ہو‘ تو کثرت کی خواہش کے سبب لوٹ مچانے کے لیے اپنی ہی نوع کے افراد و اقوام کو تاراج کرنے کے ارادے سے چڑھ دوڑتا ہے۔ کمزوروں کا خون بہانا اور ان کا مال ڈکار جانا اس کا وتیرہ بن جاتا ہے۔ نتیجتاً سفاک جنگیں‘ معاشرتی بے سکونی‘ عدم اطمینان اور مسلسل روحانی کرب اس کے محبوب مظاہر حیات کے ساتھ ساتھ‘ خود اس کے اپنے وجود کو بھی ہڑپ کر جاتے ہیں--- فکرونظر کا یہ ایک زاویہ ہے---دوسرے پہلو سے دیکھیے تو وقت‘وسائل اور توانائی‘ تینوں کے تینوں‘ خود انسانی محنت کے نتیجے میں ثمرآور ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو فرد یا قوم‘ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے زیادہ محنت کرے گی‘ زیادہ اور بہتر پھل پائے گی۔ مادّی پیمانہ ہی اگر ترقی کا حتمی پیمانہ (perfect criterion)ہو تو وہ فرد یا قوم جس کے پاس پیداوار کی فراوانی ہے‘ وہ ترقی یافتہ ٹھیرے گی اور جس کے پاس مال و دولت اور پیداوار میں کثرت کا فقدان ہوگا وہ غیر ترقی یافتہ شمار ہوگی‘ کیا یہ نقطۂ نظر صحیح ہے؟
وقت ‘ وسائل اور توانائی کے حوالے سے ایک اور زاویہ نظر سے بھی معاملے کو دیکھیے۔ ترقی کا پیمانہ اگر سراسر مادّی ہی تسلیم کر لیا جائے تو اس کا بہترین تقاضا یہ ٹھیرتا ہے کہ انھیں استعمال کرنے والا فرد اپنی انفرادی حیثیت میں اور انھیں کام میں لانے والی قوم بحیثیت مجموعی‘ ان تینوں ذرائع پیداوار کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ ہو تاکہ ان تینوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے اور ان کے شمہ بھر ضیاع سے بھی بچا جا سکے۔
اب دیکھیے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالخصوص‘ اور ملّت اسلامیہ کے دیگر اعضا میں بالعموم‘ عملاً کیا ہو رہا ہے۔ سیاسی سطح پر غلط فیصلوں کے نتیجے میں---انسان--- جو پیداوار کا سب سے بڑا عامل ہے اور خود پیداوار جس کے لیے مطلوب ہے‘ بری طرح بگاڑا اور ضائع کیا جا رہا ہے۔ آیندہ نسلیں‘ جنھیںمستحکم اور قوی افرادی قوت کی حیثیت سے پرورش کیا جانا چاہیے‘ بری طرح برباد کی جا رہی ہیں۔ وقت کے ضیاع کی تربیت‘ پوری قوت سے برسرِعمل ہے۔ وسائل کی اہمیت ان کی نگاہ میں پرکاہ کے برابر بھی نہیں رہنے دی گئی اور توانائی کے ضیاع کا یہ عالم ہے کہ اس کے پیداواری استعمال کا موقع ہی نہیں آنے دیا جا رہا۔ موجودہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی پیش منظر کے بارے میں یہ مایوسی بلاسبب نہیں۔
انسان جو پیداوار کا سب سے بڑا عامل ہے‘ کامل اور ہمہ جہت نشوونما کا طالب ہے۔ وہ حیوانی وجود رکھتا ہے جو سراسر زمینی مادّوں سے تعمیر ہوتا ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ انھیں پورا ہونا چاہیے اور کماحقہ پورا ہونا چاہیے۔ وہ ایک نفسیاتی وجود بھی ہے اور حق یہ ہے کہ یہی اصل انسان ہے‘ نظر نہ آنے والی عقل و اخلاق اس کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں۔ اس روحانی وجود کے اپنے تقاضے‘ اپنی خواہشات اور اپنی تمنائیں اور معیارات ہیں۔ انھیں بھی پورا ہونا چاہیے اور کماحقہ‘ پورا ہونا چاہیے۔ حیوانی یا نفسیاتی وجود میں سے کون برتر ہے اور کس کی اہمیت بنیادی اور کس کی ثانوی ہے‘اس کا بھی واضح شعور ہونا چاہیے۔ اصل انسان‘ اس کا نفسیاتی وجود ہے جو حیوانی وجودکو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے‘ حیوانی وجود محض آلہ ہے ‘ خادم ہے روحانی وجود کا۔ اس کی اہمیت بلاشبہ ثانوی ہے‘ جب کہ روحانی وجود کی اہمیت اصل انسان ہونے کی بنا پر اولین اور بنیادی ہے۔ نفس انسانی کے دونوں لاینفک اور باہم دگر پوری طرح ہم آہنگ اجزا کی اہمیت کی ترتیب بدل جائے تو ترقی کا تصور بھی بدل جاتا ہے۔ اس بدلے ہوئے تصور کے مطابق اقدار کا پیمانہ بھی معکوس ہو جاتا ہے‘ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح تصور کر لیا جاتا ہے۔ معروف‘ معروف نہیں رہتا‘ منکر سمجھ لیا جاتا ہے اور منکر کو معروف کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ نیکی اپنی اہمیت کھو بیٹھتی اور بدی ہی کو نیکی جان کر اپنا لیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ حقیقی فائدہ اور حقیقی نقصان کے مفاہیم و معیارات اُلٹ جاتے ہیں۔ اب جس قوم کے ہاں اچھائی اور برائی کا پیمانہ یوں معکوس ہو جائے تو اس کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ انفرادی گناہوں کے لیے تو بخشش اور معافی کی گنجایش نکل سکتی ہے لیکن
اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے اخلاقی قانون میں ایسی قوموں کو بے جا مُہلت نہیں ملا کرتی ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
وطن عزیز پاکستان کو یہی درد انگیز حادثہ جناب قائد ؒکی وفات کے ساتھ ہی پیش آنا شروع ہوا اور بدقسمتی سے پورے تسلسل اور پوری شدت کے ساتھ اب تک جاری ہے۔سیاسی سطح پر ترقی کا نام لے کر یہاں ہر وہ قدم اٹھایا گیا جو ترقی کے اصل عامل---انسان--- کو ضائع کر دے۔ انسان کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو فضائلِ اخلاق سے عاری کر دیا جائے اور رذائلِ اخلاق کی بنیاد پر اس کی سیرت کو نشوونما دی جائے۔ جب گاڑی کو اس طرح سے مسلسل اُلٹے رخ پر چلایا جاتا رہے گا تو امریکی سفیر کے برسرِعام انکشاف کے مطابق پاکستان کے پیسے کا وہ ۱۰۰ ارب ڈالر جسے اس ملک کی تعمیروتزئین --- تعمیروتزئین ہی حقیقی ترقی ہے--- میں صَرف ہونا چاہیے‘ مغربی دُنیا کے بنکوں کی پرورش میں لگا دیا گیا‘ گویا باڑ ہی فصل کو اُجاڑنے میں فعّال ہوگئی۔
جس طرح نفسِ انسانی ایک ہی مربوط اکائی ہے اور اس کے حیوانی اور نفسیاتی وجود کو ایک دوسرے سے کاٹ کر اور ایک دوسرے سے الگ کر کے نشوونما نہیں دی جا سکتی‘ بالکل اسی طرح انسان کے اجتماعی معاشرتی وجود کو بھی الگ الگ اور ایک دوسرے سے غیر مربوط خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی وجودِ انسانی ہی کی طرح ایک ہی مربوط کل‘ ایک ہی متحدہ یونٹ اور ایک ہی مربوط وحدہ ہے۔ اس کے سیاسی‘ مذہبی‘ معاشرتی‘ معاشی اور اخلاقی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر‘ ایک دوسرے سے الگ کر کے ترقی نہیں دی جا سکتی۔ زندگی کے تمام ہی شعبے متناسب‘ متوازن اور ہم آہنگ نشوونما پائیں تو صرف ایسی ہی نشوونما صحیح معنوں میں ترقی کہلائے گی‘ بصورتِ دیگر خود ترقی ہی کا راستہ کٹ جائے گا۔ محض مادّی سہولتوں کی فراوانی اور وہ بھی محض چند افراد یا گنے چنے چند مخصوص طبقات ہی کے ہاں سہولتوں کے توافر کو قومی ترقی نہیں مانا جا سکتا۔ عام شہری کی خوش حالی اور تسکین و اطمینان‘ اجتماعی ترقی کی شرط اوّل ہے۔ مگر بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ترقی کا غلط مفہوم غالب آ گیا ہے۔ سو نتیجتاً یہاں گمراہی کا نام سیاست ہے اور حرام کاری اور حرام خوری کا نام معیشت‘ بداخلاقی اور کرپشن یہاں کا اجتماعی چلن ہے جس نے ملّی تشخص اور قومی وقار کو قطعی گم کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارضی کائنات‘ مسخر کر کے اور خَلَقَ لَکُمْ مَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًا کہہ کر انسان کے حوالے کر دی ہے‘ یعنی یہ کہ زمین میں جوکچھ بھی ہے وہ سارے کا سارا تمھارے لیے ہے۔ اس سے فطرت کا تقاضا تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ زمین اور اس کی پیداوار کو متناسب اور متوازن انداز میں تمام انسانوں میں تقسیم کیا جائے‘ نہ یہ کہ چند افراد یا چند مخصوص طبقات اس کے اجارہ دار ہو جائیں اور اس طرح یہی مخصوص طبقات ہرچیز کے مالک ہوں اور باقی سب لوگ زمین کی مادّی پیداوار ہی کی مانند ان کے مملوک‘ یہ آقا ہوںاور باقی سب ان کے غلام۔ جن قوموں کے ہاں ایسے طبقات اور ایسے معیارات مستحکم ہو جائیں‘ ان کی تو زندگی ہی کا تسلسل قائم نہیں رہا کرتا چہ جائیکہ وہ ترقی کریں ؎
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂِ مومن کا بے زری سے نہیں
ترقی کے لیے تو امن و سکینت چاہیے‘ محبت کی فضا چاہیے‘ عدل و اعتدال چاہیے‘ لیکن طبقاتی کش مکش میں یہ چیزیں کبھی ممکن نہیں ہوتیں۔ ظالم اور مظلوم میں ہم آہنگی عنقا رہتی ہے تاآنکہ ظلم عدل کے لیے تخت ِ سلطانی کو خالی کر دے۔ عدل اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور وہ کائنات کا حکمران ہے۔ انسانی زندگی جب تک اس کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی‘ ترقی ممکن ہی نہیں۔
انسان کی کمزوری ہے کہ اسے پروپیگنڈے سے متاثر کیا جا سکتا ہے‘ چنانچہ پروپیگنڈے کے زور پر کچھ وقت کے لیے اس کی نگاہ میں زوال کو عین ترقی باور کرایا جا سکتا ہے لیکن یہ بڑے ہی گھاٹے کا سودا ہے۔ زوال سے محفوظ رہنے اور پروپیگنڈے کے دھوکے سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ ترقی کا صحیح مفہوم متعین نکات کی صورت میں ذہنوں میں مرتسم کر لیا جائے۔
ہماری نگاہ میں ترقی کا صحیح مفہوم ان معانی پر مشتمل ہوگا:
الف- انسان کے لیے من حیث الانسان‘ مادّی پیداوار کی کثرت اور مادّی سہولتوں کی انسانی ضروریات کے عین مطابق فراوانی‘ یہاں تک کہ معاشرے کا کوئی شخص بھی بھوکا ننگا اور بغیر چھت کے نہ رہے۔
ب- سہولتوں کی تقسیم میں بلند اخلاقی معیارات یعنی حق پسندی‘ عدل و توازن‘ کمزوروں اور ناداروں کے لیے رحمت و رافت‘ جود و سخا کا عمومی چلن اور انسانی وقار کو لازماً اور مستقلاً ملحوظ رکھنے کا شعور و اہتمام۔
ج- دلوں میں جواب دہی کے احساس کی ہر دم بیداری اور تازگی۔
د- سائنس اور ٹکنالوجی کو فی نفسہٖ مطلوب و مقصود ماننے کے بجائے انھیں انسانی معاشرے کا اجتماعی خادم سمجھنا اور معیاری اور مقداری حوالے سے انھیں مسلسل آگے بڑھاتے رہنا۔
۱- اپنے انفرادی اور اجتماعی تشخص کی دریافت (ہمارا تشخص بغیر کسی ادنیٰ شائبے کے‘ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ہم جب تک اپنی اس اصل حیثیت کو نہیں پہچانیں گے‘ دُنیا میں اعتبار و اعتماد قائم نہیں کرسکیں گے)۔
۲- غیر کی ذہنی مرعوبیت سے نجات اور تقلیدِ جامد کو کلیتاً مسترد کر دینا۔
۳- اپنا اور خالصتاً اپنا‘ علمی و فنی ماحول تشکیل دینا اور خالصتاً اپنی ہی اخلاقی فضا تعمیر کرنا۔
۴- زندگی کے ہر شعبے میں اداے فرض کے حوالے سے اخلاصِ نیت‘ کام کی سچّی لگن‘ دیانت و محنت اور جفاکشی کے ذریعے دُنیا اور اہل دُنیا کے لیے اعتماد کی فضا تعمیر کرنا۔
۵- معروف (فضائلِ اخلاق اور نیکیوں) کو اس درجہ اپنانا اور منکرات (رذائلِ اخلاق اور برائیوں)سے اس درجہ بچنا کہ نصرتِ الٰہی ازخود ملّت اور افرادِ ملّت کی پشتیبانی کے لیے آکھڑی ہو۔
۶- ’’بہترین کا انتخاب‘‘ انسان کی فطرت ہے۔ سو مادّی تخلیقات میں سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے بہترین پیداوار پیش کرنا تاکہ عالمی منڈیوں میں مسلمان کا مال چھا جائے۔
۷- مادّی پیداوار کی فراوانی اور بہترین تخلیقات کے حصول کے لیے بے لوث‘ بے عیب‘ موثر‘ جامع اور مخلصانہ منصوبہ بندی جس میں صرف ضروری کی اہمیت ہو اور غیر ضروری کو کلیتاً مسترد کر دیا جائے۔ مسلمان کی حیثیت سے یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور اللہ کے منصوبوں میں کہیں کوئی رخنہ ‘ کوئی کمی‘ کوئی خامی اور کوئی کجی نہیں ہوتی۔ ہم اللہ کا رنگ جتنا زیادہ اور جتنا گہرا اختیار کرتے جائیں گے اتنا ہی دُنیا پر غالب ہوتے جائیں گے۔
۸- اپنے ماہرین کی تخلیق و تعمیر اور غیر ملکی مشیروں سے نجات۔ کمیشن مافیا لاکھ پردہ ڈالے‘ یہ غیر ملکی مشیر اپنے معاشروں کے عام قسم کے افراد ہوتے ہیں اور قرض دہندہ قومیں‘ مقروض قوموں کو مزید نالائق بنانے کے لیے ایسے ہی افراد کو ماہرین کی حیثیت سے ان پر مسلط کردیتی ہیں۔
۹- ملکی اور غیر ملکی قرضوں سے مکمل نجات۔ کیونکہ قرضوں کی معیشت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پیداوار کے اصل عامل--- انسان---کو محنت اور دیانت‘ دونوں سے دُور پھینک دیتی ہے۔ یہ وہ اخلاقی عوامل ہیں جو کارکن کو اندر سے متحرک کرتے اور متحرک رکھتے ہیں۔ پیداوار کا اصل عامل درحقیقت یہی تحرک ہے۔ قرضوںکی معیشت اس تحریک ہی کی تو قاتل ہے۔ خودانحصاری کی اہمیت کو تو ذہنوں میں یہ اُبھرنے ہی نہیں دیتی۔ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ قرضے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس تک مٹا دیتے ہیں۔
۱۰- پیداوار کے معیار کا اصل عامل‘ انسان ہے۔ پیداوار کے اس سب سے بڑے عامل میں جہاں دیانت و امانت اور اخلاصِ عمل کے بلند اوصاف کی ضرورت ہے وہاں اس کی جسمانی قوت و صحت کا صالح ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جسمانی قوت و صحت کو قائم نہیں رکھا جا سکتا‘ اگراسے محنت کا پورا اور پروقار صلہ نہیں دیا جاتا اور بروقت نہیں دیا جاتا۔
۱۱- ملکی اور قومی ترقی کے لیے دیانت و امانت کی ضرورت اجیر (کارکن) ہی کو نہیں‘ آجر (کاروبار کے مالک اور صنعت کار)کو بھی ہے بلکہ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو آجر کے لیے اس کی ضرورت اجیر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اسلامی اخلاقیات کے تابع ہو کر‘ جب تک ہم مستحکم سیاسی نظام کی طرف نہیں لوٹیں گے ‘ مخلصانہ اور طویل المیعاد جامع منصوبہ بندی کو مستقل وتیرہ نہیں بنائیں گے اور نظری اور فنی علوم تک عام شہری کی رسائی آسانی سے ممکن نہیں بنائیں گے‘ اس وقت تک ترقی کا خواب‘ خواب ہی رہے گا ‘ تعبیر عمل میں نہ آسکے گی۔