ترجمان القرآن ایک عظیم روایت کا نام ہے۔ اسلامی انقلاب کا یہ سب سے بڑا نقیب ہے۔ اس نے ایک نئی سوچ اور ایک نئے جذبے کو جنم دیا۔ ایک نئے عزم اور ایک نئے نصب العین سے ملّت ِاسلامیہ‘ ہند کو آشنا کرنے کی مہم اپنے ذمے لی۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ملّت کی چارہ گری کے لیے سب سے پہلے مرض کی صحیح تشخیص کا کام کیا اور پھر اس کے معالجے کے لیے اصل نسخے کی تجویز میں اپنی دانائی کا مظاہرہ کیا۔ قرآن سے پھری ہوئی ملّت کو قرآن کی صحت بخش فضائوں میں لوٹنے کی دعوت دی۔ ترجمان القرآن جس دانش و فکر کا پرچار کر رہا تھا اس کی جڑیں قرآن و سنت میں تھیں۔ اس میںنہ تو معذرت خواہانہ انداز تھا اور نہ نرا تعقّل کارفرما تھا۔ عقل کا پورا استعمال تھا لیکن یہ قرآنی دلائل و براہین سے صیقل تھی۔
ترجمان القرآن میں مولانا مودودی ؒنے ’’رسائل و مسائل‘‘ کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ ہر سوچ اور ہر نقطۂ نظر رکھنے والے لوگوں کے ذہنوںمیں اٹھنے والے ہر طرح کے سوالوں کے جوابات پر مشتمل پانچ جلدوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وقت اور حالات نے انسانی ذہن پر کئی رخ سے اثرات ڈالے ہیں۔ نوجوان نسل میں ایک طرح کی بے چینی اور اضطراب آج کا عالمی مسئلہ ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کے باعث نوجوانوں میں باغیانہ رجحانات نے جنم لیا ہے۔ پھرغیرمسلم معاشروں ہی میں نہیں بلکہ خود مسلم معاشروں کے اندر بھی خاندانی نظام کی چولیں کہیں ڈھیلی پڑرہی ہیں اور کہیں بالکل ہی اکھڑچکی ہیں۔ والدین کی اولاد پر گرفت کچھ مصروفیات کی وجہ سے اور کچھ آزادی کے تصور کے تحت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے میڈیا پُر کررہا ہے۔ درس گاہیں عجیب حرکات‘ انوکھے رویوں‘ بدیسی کلچر کی نقالی اور آوارہ فکری کے ابلاغ کے مراکز بنی ہوئی ہیں۔ دین سے لگائو رکھنے والے گھرانوں کی لڑکیاں لڑکے بھی اپنے اندر خیر کے جذبات رکھنے کے باوجود غیرمحسوس طور پر مغرب کے تہذیبی رنگ کے کچھ چھینٹے اپنے اُوپر لے ہی لیتے ہیں۔
ہمیں احساس ہے کہ گذشتہ دس بارہ برسوں میں تشکیل پانے والی اس منفی نفسیات نے اس عرصے میں سوالات کے جواب دینے والے فاضل اصحاب ِ علم کے لیے فضا زیادہ پیچیدہ بنا دی ہے۔ اب معاشرے میں انتشار زیادہ ہے۔ دوسری طرف تربیت کے معیار میں کمی آگئی ہے۔ معلومات میں شاید کچھ اضافہ ہوا ہو لیکن دینی شعور اور مزاج میں ضعف کے آثار زیادہ ہیں۔ ایسی فضا میں دینی بنیادوں پر رہنمائی کے کام کی نزاکت بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں ازدواجی اور عائلی رشتے نہ تو فقہی موشگافیوں کے متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ روحِ دین سے منفک عقلیت ہی ان کو سمجھنے اور جانچنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ حسنِ معاشرت ان رشتوں کی بنیاد ہے۔ اس رشتے میں کارفرما جذبوں--- مودت اور رحمت--- کو بھی دلوں کو اعلیٰ جذبات سے سرشار کرنے والی ذات نے خود بیان فرما دیا جو حسنِ معاشرت کے ساتھ ازدواجی رشتے کی دوسری بڑی بنیاد ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سورۃ النحل کی آیت ۹۰ کے تحت لفظ ’’احسان‘‘ کی جو تعریف کی ہے اسے ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھیںکہ زوجین ناپ ناپ اور تول تول کر اور حساب کم و بیش کے پیمانے سامنے رکھ کر جب ایک دوسرے کے حقوق دینے لینے لگیں تو رشتۂ ازدواج اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے بجائے ایک کمرشل ادارہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عورت کے اندر ایک بیوی کی حیثیت سے جو سب سے اہم چیزمطلوب ہے وہ محبت ‘ وفا‘ اطاعت اور خدمت کے جذبات ہیں۔ اسی طرح محبت‘ وفا اور کفالت و حمایت مرد کے وہ اوصاف ہیں جن کے ملنے سے لذتِ ازدواج پیدا ہوتی ہے۔ گھر اور خاندان کسی پارلیمنٹ ہائوس کی طرز پر کبھی نہیں چلائے جاسکتے۔ جہاں ’’ہائوس‘‘ ایک حزبِ اقتدار اور ایک حزبِ اختلاف میں بٹا ہوتا ہے۔ گھر وہ ’’ہائوس‘‘ ہے جہاں بیوی کو شوہر کی بصیرت اور دانش مندی کا یقین ہوتاہے اور شوہر بیوی کی سلیقہ مندی اور سگھڑاپے پر بھروسا کرتا ہے۔ اہم معاملات میں باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے کی رائے کا پتا چلا لیا جاتا ہے۔ بیوی مرد کو اپنی اطاعت اورخدمت ہی سے رام کرتی ہے اور مرد اپنی رفیقۂ حیات کو نرمی اور مٹھاس ہی سے پیچھے چلاتا ہے۔
والدین اور اولاد کے معاملے میں بھی مساوات اور برابری کا اصول شریعت نے قائم نہیں کیا ہے۔ والدین خالق کی معصیت پر مجبور کرنے والا حکم دیں تو اس کو نہیں ماننا چاہیے ورنہ عام حالات میں ان کی خدمت اور اطاعت واجبات میں سے ہے۔ ان کی خدمت اور اطاعت سے منہ موڑنا اسی طرح کبیرہ گناہ ہے جس طرح بیوی کامعروف میں خاوند کی اطاعت سے منہ موڑنا کبیرہ گناہ ہے۔ ادب و احترام بیوی پر شوہر کا لازم ہے اور اولاد پر والدین کا۔ ماں باپ کی خدمات اور احسانات کا احساس نہ کرنا سعادت کے منافی ہے۔ اسی طرح بیوی کی ناشکرگزاری ایسا گناہ ہے جس کے باعث سب سے زیادہ عورتیں دوزخ میں پڑیں گی۔
ہماری ان گزارشات کا مقصد صرف یہ ہے کہ خاص طور پر خاندانی اور ازدواجی معاملات میں قران و سنت کے واضح احکامات کی بنیاد پر سوال کرنے والوں کی رہنمائی کی جائے اور دینی اساسات کو بنیاد بنایا جائے تو دراڑوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور درزیں بھری جاسکتی ہیں۔ گھرانوں کو کش مکش‘ آویزش اور کشیدگی سے بچانے کی احسن تدبیر یہی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں نصوص پر اطمینان پیدا کیا جائے۔ اخلاقی اقدار کی طرف لوٹایا جائے۔ برداشت اور تحمل کا سبق دیا جائے۔ حق ادا کرنے میں ایثار پر ابھارا جائے اور حق وصول کرنے میں رعایت کی تلقین کی جائے۔