سیدخالد فاروق مودودی


ہمارا گھر‘ عام گھروں سے مختلف تھا۔ جس طرح گھر میں والد صاحب آتے ہیں‘ اٹھتے بیٹھتے ہیں‘ اور گھریلو مسائل پر گفتگوئیں یا بحثیں ہوتی ہیں‘ اس طرح ہمارے گھر کا ماحول نہیں تھا۔ ہمارے والد صاحب کا سارا وقت یا تو جماعتی اور تنظیمی نشستوں میں صرف ہوتا یا پھر وہ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے۔ وہی جگہ ان کا دفتر تھا‘ ان کا ڈرائنگ روم تھا اور بیڈ روم بھی۔ دوسرے لفظوں میں تقریباً سارا وقت وہ وہیں گزارتے تھے۔ گھر میں وہ کھانا کھانے یا پھر کبھی دوپہر کو آرام کرنے کے لیے آتے تھے۔ جب بھی ہمیں ان سے کسی معاملے پر بات چیت کرنا ہوتی تو کھانے کے دوران کر لیتے یا ان کے دفتر میں جا کر کرتے۔ اس لیے ہمارے گھر کا ماحول عام گھروں سے یکسر مختلف تھا۔

وہ کبھی گھریلو مسائل کو اپنے تنظیمی مصروفیات میں حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ بعض اوقات تنظیمی دورے زیادہ لمبے بھی ہو جاتے تھے‘ کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان بھی ساتھ تھا۔

جب بھی وہ جیل جاتے تو ہمارے گھر میں کبھی افسوس یا سوگواری کا ماحول نہیں پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ ہم بہن بھائی‘ چھوٹے بچے ہونے کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ ان کا ایک اعلیٰ مقصد ہے اور وہ اسی مقصد کی خاطر جیل میں گئے ہیں۔ ہمارے والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے ہمیں ہوش سنبھالتے ہی یہ ذہن نشین کرا دیا تھا کہ ایسے مقاصد کی تکمیل کے لیے جیل بھی جانا پڑتا ہے۔

وہ انتہائی شفیق باپ تھے۔ میری والدہ انھیں کہتی تھیں : ’’ان بچوں کو آپ کچھ نہیں کہتے‘ انھیں ڈانٹا کریں‘‘۔ تو وہ کہتے تھے: ’’میرے والد نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا تھا‘‘۔ ہم نے ان کا رویہ کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ انھوں نے کبھی ہم میں سے کسی کو مارا یا ڈانٹا ہو‘ بلکہ کوئی بات سمجھانی بھی ہوتی تو وہ  انتہائی نرمی سے سمجھا دیتے تھے۔

رشتہ داروں کے ہاں خوشی یا غمی کے موقعے پر آتے جاتے تھے اور اگر ہمارے گھر میں رشتہ دار آتے تو ہم انھیں پیغام بھیج دیتے اور وہ آ کر مل لیتے تھے‘ اور ضروری گفتگو کے بعد واپس اپنے کمرے میں چلے جاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے :’’میں فارغ نہیں بیٹھ سکتا‘‘۔ اس لیے وہ ہر وقت مصروف رہتے تھے۔ صبح ناشتے کے بعد وہ لکھنے پڑھنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس دوران اگر کچھ لوگ ضروری کام سے ملنے آ جاتے تو مل لیتے تھے۔ اکثر اوقات لوگ محض زیارت کرنے آ جاتے تھے اور یوں ان کا وقت ضائع ہوتا تھا۔ انھوں نے عصری مجلس کا اہتمام اسی لیے کیا تھا‘ کہ ان کا جو شیڈول بناہوا ہے لوگ اس کو خراب نہ کریں۔ جس کو ملنا ہے‘ کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہے تو اس وقت    ]عصری مجلس[ میں آ جائیں۔ دوپہر کو وہ کھانا کھا کر کچھ آرام کرتے اور اکثر اوقات تو لیٹ کر بھی پڑھتے رہتے تھے۔ بہرحال عصر تک وہ آرام کرتے۔ نماز عصر کے بعد چائے پیتے اور پھر عصری مجلس کا وقت ہوجاتا تھا۔ مغرب تک یہ مجلس چلتی تھی۔ مغرب کے بعد پھر پڑھنا لکھنا شروع کر دیتے۔ عشاء کے بعد کھانا کھاتے اور سو جاتے تھے۔ یہ آخری زمانے میں معمول تھا‘ ورنہ پہلے زمانے میں تو وہ رات رات بھر پڑھتے‘ لکھتے رہتے تھے۔ نماز فجر کے بعد تین چار گھنٹے سو جاتے‘ اور پھر سارا سارا دن جماعتی اور علمی مصروفیت میں گزر جاتا۔

والد صاحب کا لائف سٹائل ایک عام آدمی سے بالکل مختلف تھا۔ مطلب یہ کہ جس طرح دوسرے گھروں میں لو گ دن کو کاروبار کر کے رات کو سارے خاندان کے ساتھ بیٹھتے ہیں‘ خاندان کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں‘ کسی کی برائی ہوتی ہے اور کسی کی اچھائی بیان کی جاتی ہے اور خاندان کے لڑائی جھگڑوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کے ساتھ نہ ایسا ہوتا تھا اور نہ وہ اس طرح زندگی کے لمحوں کو برباد کرنے کے قائل تھے۔ لیکن ان کے پاس اگر کسی گھریلو یا خانگی لڑائی جھگڑے کے تصفیے کے لیے کوئی آبھی جاتا تو وہ حتی الوسع کوشش کرتے کہ اس معاملے میں نہ پڑا جائے۔ اور جو لوگ ان معاملات سے واقفیت رکھتے ہیں‘ وہی انھیں حل کریں۔ انھیں روپے‘ پیسے یا مال و دولت کو اکٹھا کرنے کی فکر نہیں ہوتی تھی اور نہ وہ اس بارے میں سوچتے تھے۔

میں نے والد اور والدہ کے درمیان زندگی بھر تلخ کلامی نہیں سنی۔ کبھی انھیں بلند آواز سے کسی کو بلاتے یا ڈانٹتے نہیں دیکھا۔ ہمارے گھر میں کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا اور نہ خاندان کے کسی دوسرے فرد سے کوئی جھگڑا ہوا۔ اس لیے وہ پورے خاندان میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہر ایک ان کا احترام کرتا تھا۔ گھر کے نجی معاملات والدہ خود چلاتی تھیں۔ اچھرہ میں جماعت کا ’’نیا مدرسہ‘‘ اسکول ہوتا تھا۔ وہاں مجھے داخل کروانے وہ خود گئے تھے۔ اپنے تنظیمی یا جماعتی معاملات کبھی گھر میں زیر بحث نہیں لاتے تھے۔ وہ دورے بھی کرتے تھے لیکن گھر آ کر تنظیمی امور کی باتیں کبھی نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر تنظیمی کاموں یا لکھنے پڑھنے کے کاموں میں ہی مصروف رہتے تھے۔

کسی بڑے سے بڑے واقعے کے بعد بھی وہ پریشان نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ میں نے انھیں کبھی پریشان ہوتے دیکھا ہی نہیں۔ وہ بہت متحمل مزاج انسان تھے اور کبھی انڈر پریشر (under pressure) نہیں ہوتے تھے۔ اُن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا‘ اُن کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ اُن کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ اُن پر زندگی میں بے انتہا تنقید بلکہ شرمناک تنقید ہوئی‘ لیکن اُنھوں نے کبھی بُرا نہیں منایا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب کبھی اُن کا کوئی مخالف اُن سے ملنے آتاتو اُس سے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ خندہ پیشانی اور محبت سے ملتے۔

جنرل ضیاء الحق صاحب نے جب بھٹو صاحب کاتختہ الٹا تو اس کے دو تین ہفتوں بعد وہ ہمارے گھر آئے‘ جس کی ہمیں پہلے کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اچانک ہی وہ آ گئے‘ کسی پروٹوکول کے بغیر عام گاڑی اور عام لباس میں۔ان کے ہمراہ کور کمانڈر لاہور جنرل اقبال اور ایک اُن کے ADC کیپٹن صاحب بھی تھے۔ وہ بھی عام لباس میں تھے۔ بہرحال وہ دونوں اندر والد صاحب کے پاس چلے گئے اور ہم باہر کیپٹن صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس وقت بجلی چلی گئی تھی۔ معلوم نہیں جا ن بوجھ کر بند کروائی گئی یا اتفاق سے گئی تھی۔ بہرحال وہ اندھیرے ہی میں بات چیت کرتے رہے ۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جانے کے لیے باہر آئے تو والد صاحب انھیں باہر برآمدے تک چھوڑنے آئے اور میں اتفاق سے ابھی باہر کھڑا تھا۔ ضیاء الحق گاڑی میں بیٹھنے کے بعد دوبارہ باہر نکلے اور مجھ سے ہاتھ ملا کر کہا کہ: ’’آپ مولانا کے بیٹے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’جی ہاں‘‘۔ تو انھوں نے کہا کہ: ’’میرے لائق کوئی خدمت ہے تو بتائیں‘‘۔ تو میں نے کہا : ’’بہت بہت شکریہ‘‘۔ والد صاحب برآمدے میں یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے رات عشاء کے بعد کھانے کے دوران پوچھا: ’’ضیاء الحق کیا کہہ رہے تھے؟‘‘میں نے بتا دیا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے اور جواب میں‘ میں نے یہ کہا۔ اس پر ابّا بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے: ’’یہ لوگ اسی طرح دوسروں کو ٹٹولتے ہیں‘‘۔

جب والد صاحب کا انتقال ہوا تو والدہ صاحبہ نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ ان کے لیے یہ بڑا سانحہ تھا‘ لیکن انھوں نے ہمیں بھی حوصلے سے نوازا اور بڑے صبر سے ان کی جدائی برداشت کی۔ اور جب تک صحت نے اجازت دی وہ سارے گھر کے معاملات کو بڑے احسن انداز سے چلاتی رہیں۔

والد صاحب تمام بیٹوں اور بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے‘  اس کے علاوہ بھی اگر کوئی ان سے غصہ سے پیش آتا تو وہ انتہائی ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ بچوں کو دیکھ کر اُن کی تھکن اتر جاتی۔ ہماری بہنوں کے ساتھ نہایت محبت‘ شفقت بلکہ احترام کا برتاؤ کرتے۔ میں نے زندگی بھر والد صاحب کو مصروف ہی پایا۔ کبھی انھیں خالی بیٹھے یا وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ جماعتی مصروفیات سے فارغ ہوتے تو اپنا لکھنے پڑھنے کا کام شروع کر دیتے اور آج اگر دنیا میں اُن کا نام ہے تو اس کے پیچھے ان کی ایمانی حرارت اور مسلسل جدوجہد اور محنت ہی کار فرما ہے۔

وہ ایک بے مقصد زندگی گزارنے کے قائل نہیں تھے۔ اُن کی زندگی کا ایک مقصد تھا اور اُسی کے لیے اُنھوں نے اپنی ساری زندگی لگا دی۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی لالچ‘ نقصان اور رکاوٹ کو وہ خاطر میں نہیں لائے اور وہ مقصد تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کیا جائے اور وہ لوگ جو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور وہ لوگ جو مشنری اداروں میں پڑھ رہے ہیں اُن کو دین کی طرف راغب کیا جائے۔ اسی لیے اُن کی تمام کتابیں اور تفہیم القرآن اتنی آسان زبان میں ہیں کہ ہرآدمی اُسے پڑھ کر آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تمام کتابیں نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئی ہیں اور مختلف زبانوں میں مسلسل اُن کے ترجمے ہو رہے ہیں۔