مرتبہ: عبدالمجید ساجد


  • مولانا عبدالرحمن اشرفی

مولانا مودودیؒ کی تحریروں نے جدید تعلیمی اداروں میں ماحول کو پاکیزہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت تھا کہ تعلیمی اداروں میں لوگ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے‘ مگر مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھ کر لوگوں میں یہ جرأت پیدا ہوئی کہ وہ کھل کر تعلیمی اداروں میں نماز پڑھنے  لگ گئے اور نماز نہ پڑھنے والے شرمندہ ہونا شروع ہو گئے۔

رموز تصوف کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ آج کل کے صوفیا کے تو خلاف تھے۔ اس تصوف کے تو مولانا اشرف علی تھانویؒ بھی مخالف تھے‘ شاید مروجہ تصوف کے بریلوی بھی قائل نہیں ہیں۔ لیکن صحیح تصوف کے مولانا مودودیؒ قائل تھے۔ تصوف تو حدیث پر عمل کرنے کا  نام ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کبر‘ کینہ‘ غرور‘ بغض اور حسد نہیں ہونا چاہے۔ یہ سب دل کے امراض ہیں‘ ان چیزوں سے دل کو پاک ہونا چاہیے۔ اور دل کو امراض سے پاک کرنا ہی اصل تصوف ہے۔  یہ تصوف تو حدیث میں بھی آتا ہے‘ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے:  قَد اَفلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (یقینا فلاح پا گیا‘ وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا) نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے بارے میں کہا کہ تمھیں کتاب اﷲ کی دعوت بھی دیتا اور تمھارے دل کا تزکیہ بھی کرتا ہے۔ لہٰذا کفر بھی نہ ہو‘ حسد بھی نہ ہو‘ کدورتیں بھی نہ ہوں‘ کینے اور عداوتیں بھی نہ ہوں تو اس قسم کے تصوف سے وہ انکار نہیں کرتے  تھے۔ البتہ جو جدید تصوف ہے اسے وہ صحیح نہیں سمجھتے تھے‘ آج کل کے صوفیا بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں اور وزیروں مشیروں سے بھی زیادہ پُر تعیش زندگی گزار رہے ہیں تو ان صوفیا کو کوئی بھی    عالمِ دین قبول نہیں کر سکتا اور ایسے تصوف کے مولانا مووددیؒ بھی خلاف تھے۔

مولانا مودودیؒ بہت بڑے عالم دین تھے‘ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو بڑا عالم دین نہیں کہتے تھے۔ ایک معاملے میں‘ میں نے مولانا سے کہا : ’’میرا خیال ہے کہ تفہیم القرآن میں فلاں جگہ پر الفاظ درست استعمال نہیں کیے گئے‘ اگر انھیں تبدیل کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے‘‘۔ انھوں نے بعد میں وہ الفاظ میرے کہنے پر تبدیل کر دیے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت تھا۔

وہ اکثر جامعہ اشرفیہ میں آیا کرتے تھے‘ جمعۃ المبارک یہیں ادا کرتے‘ اس طرح میری ان سے بڑی ملاقاتیں ہوتیں‘ میں نے انھیں بہت حلیم‘ مدبّر اور مفکر پایا۔

  •  جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال

مولانا مودودی سے میری باقاعدہ ملاقات ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ہوئی‘ جب میں‘ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مقابلے میں لاہورسے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے مسلم لیگ کا امیدوار تھا۔ انتخابات کے سلسلے میں‘ مولانا مودودی سے ملنے گیا‘ تاکہ ان سے جماعت اسلامی کے حلقے کے ووٹوں کے لیے گزارش کروں۔ میرے ساتھ آغا شورش کاشمیری مرحوم بھی تھے۔ مولانا نے شفقت کرتے ہوئے ہم سے بڑا تعاون فرمایا۔ اسی حلقے سے نواب زادہ نصراللہ خان صاحب کی پاکستان جمہوری پارٹی کے جنرل سرفراز خان بھی کھڑے تھے۔ ہم نے مولانا سے کہا کہ وہ انھیں بٹھانے کے لیے نواب زادہ صاحب کو کہیں‘ اور مولانا نے انھیں فون کیا۔ لیکن نواب زادہ صاحب نے کہا کہ میرا کوئی اختیار نہیں۔ تاہم میں انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد مولانا جب بھی ملتے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے۔

مولانا مودودی کے علامہ اقبال سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ پاکستان کے وجود میں آنے سے پیشتر علامہ اقبال نے چند علما کو موجودہ پاکستان کے علاقے میں بلانے کی کوششیں کیں‘ اسی سلسلے میں انھوں نے مولانا مودودی سے بھی رابطہ کیا‘ جو ان دنوں حیدر آباد‘ دکن میں رہائش پذیر  تھے۔ علامہ نے مولانا کو خط لکھا کہ پنجاب میں ان کی ضرورت ہے اور اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا کہ یہاں کوئی ایسا تعلیمی‘ تربیتی اور تحقیقی مدرسہ قائم کیا جائے‘ جہاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم دی جائے۔ اقبال اس خط و کتابت کے دوران مولانا کو اس طرف ترغیب بھی دیتے تھے۔ بہرحال دونوں اصحاب نے ملاقات کر کے ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ چودھری نیاز علی خاں صاحب نے پٹھان کوٹ میں اس مقصد کے لیے زمین دے دی۔ پھر مولانا مودودی‘ اقبال سے ملنے کے لیے حیدر آباد سے لاہور آئے۔ اس سلسلے میں آخرکار یہ طے پایا کہ جامعۃالازہر (مصر) کے مصطفیٰ المراغی (ریکٹر) کو خط لکھا جائے‘ کہ ہمیں ایسے علما چاہییں‘ جو فقہ اور دیگر تمام اسلامی علوم جانتے ہوں‘ کم از کم ایک عربی کا ماہر استاد ضرور بھیجیں۔ لیکن المراغی نے کہا کہ اس قسم کی شخصیت نہیں ہے۔ یہ واقعات علامہ اقبال کی زندگی کے آخری ایام کے ہیں۔ بہرحال اقبال کی نظر مولانا مودودی پر جا پڑی۔ مولانا نے ۱۹۳۷ء کے آخری دنوں میں علامہ اقبال سے تین ملاقاتیں کیں اور ادارے کے بارے میں تفصیلات طے کیں۔ پھر مولانا حیدر آباد سے شفٹ ہو کر پٹھان کوٹ آ گئے۔ اس زمانے میں علامہ کے سیکرٹری سید نذیر نیازی نے مولانا کو خط لکھا کہ آپ علامہ اقبال سے جلد مل لیں‘ شاید ان کے جانے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ مگر دوسرے روز علامہ کا انتقال ہو گیا ]یہ ساری تفصیل اقبال کی سوانح عمری زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال میں درج ہے[۔ تاہم مولانا نے تن تنہا اپنا کام شروع کر دیا۔ علامہ اقبال کے مجوزہ ادارے کا نام دارالاسلام رکھا گیا۔

میرا خیال ہے کہ مولانا مودودی اگر صرف علمی رہبری کرتے رہتے تو معاشرے میں ان کی علمی رہبری کی زیادہ اہمیت اور وزن ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی ایسی خصوصیات عطا کی تھیں کہ وہ ہمارے لیے ایک بلند پایہ علمی دبستان قائم کر سکتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی دو ہی فکری شخصیات تھیں۔ مولانا مودودی نے بلاشبہہ فکری رہنمائی بھی کی ہے‘ مگر سیاست میں ان کا آنا میرے خیال میں کیچڑ میں ملوث ہونے کے مترادف تھا۔ علامہ اقبال نے بھی بڑی سیاست کی‘ جب قائداعظم یہاں نہیں تھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مولانا مودودی نے جتنا قیمتی وقت سیاست میں دیا‘ اگر اتنا ہی وقت وہ علم کو پروان چڑھانے اور قوم کو فکری رہنمائی دینے میں صرف کرتے تو آج پاکستان کے قومی معاشرے کی درست نہج پر یہ عمارت تعمیر ہو چکی ہوتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں علمیت کی کمی ہے تو وہ صرف مولانا مودودی کے جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کی وجہ سے ہے۔ اس طرح متنازعہ فیہ بننے سے ان کا علمی و فکری کام بھی متاثر ہوا ہے۔ جبکہ نئی نسل کی رہنمائی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ اور کام کرتے۔

جمہوری جدوجہد‘ کالے قوانین کی منسوخی‘آئین کی پاسداری‘ فی الواقع اتحاد اُمت کے لیے کوششیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مولانا مودودی کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی طرح ہمارے روایت پرست اور جمود زدہ معاشرے میں عورت کے حقوق اور کردار پر مولانا مودودی کا   نقطۂ نظر بھی درست اور اسلامی منشا کے مطابق تھا‘ مگر حد یہ ہے کہ یہاں کسی کو کوئی حق ہی نہیں دیا جاتا۔ تفہیم القرآن کی علمی ثقاہت اور شاہکار حیثیت کے باوجود تفہیم القرآن میں‘ میں اور بھی بہت کچھ دیکھنے کی توقع رکھتا تھا‘ کہ جس میں جدید اور قدیم نظریاتی مباحث ہوتے‘ اجماع کی اہمیت واضح کی جاتی‘ قرآنی احکام کی تجدید اور توسیع کی جاتی۔

مولانا نے بلاشبہہ اپنے زمانے کے مطابق ایک لحاظ سے درست تفسیر بیان کی تھی‘ لیکن اب حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی تفسیر میں اس بات کو بیان کرتے کہ کیا اجماع کسی قرآنی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟ تو یہ ان کا بہت بڑا contribution ] کارنامہ[ ہوتا۔ لیکن مولانا اس سمت میں بہت زیادہ کام نہیں کر سکے۔ ہاں! اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اپنے نقطہ نظر میں ضرور گنجایش پیدا کرتے۔ مثال کے طور پر آج عملاً لونڈیوں‘ کنیزوں اور غلاموں کے پورے انسٹی ٹیوشن کے خلاف اجماع ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اُن سے معاملہ کرنے کی باقاعدہ تفصیلات موجود ہیں۔ لہٰذا‘ یا تو ہم سمجھیں کہ وقت جام ہو گیا ہے اور اگر وقت جام نہیں ہوا‘ بلکہ دریا کی طرح بہہ رہا ہے تو اس حوالے سے قرآن کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ ہمیں قرآن کو نہیں بلکہ قرآنی تعبیر کووقت کے لحاظ سے بدلنا    پڑے گا۔ ابتدائی عہد میں متن کی حفاظت کے باوجود تعبیر کرتے وقت ترجیحات میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔

میں مولانا مودودی کا بہت نیازمند تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں زندگی دیتا تو میں مولانا کو اپنا استاد مانتا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

  • ڈاکٹر مبشر حسن

مولانا مودودیؒ سے زندگی میں فقط ایک ہی ملاقات ہوئی تھی اور وہ بھی ایک تقریب میں۔ اس تقریب میں بھی ہمارے درمیان اختلاف ہو گیا تھا اور یہ اختلاف نظریاتی اختلاف تھا۔ بلکہ نظریاتی حوالے سے میں ان کا سب سے بڑا مخالف تھا‘ اس لیے میں ان کے بارے میں‘ آج جب کہ وہ دنیا میں موجود نہیں رہے‘ کچھ نہیں کہوں گا۔

البتہ یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب ]منور حسن مرحوم[ کے مولانا مودودیؒ سے مشفقانہ تعلقات تھے۔ مولانا مودودی ]حیدر آباد‘ دکن میں[ والد صاحب کے ادارے میں قرآن پاک کے ترجمے کی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ مجھے یہ بات تو معلوم نہیں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف تھا یانہیں‘ البتہ مجھے یہ بات ضرور یاد ہے کہ میرے والد صاحب نے اُن کے بارے میں یہ کہا تھا: ’’ایک دن یہ لڑکا بہت بڑا آدمی بنے گا‘‘۔

ہمارے خاندان میں میری ایک بہن اُن سے متاثر تھیں‘ اُنھوں نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر بھی پڑھ رکھا تھا اور وہ ان کے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتی تھیں۔ وہ بھی اﷲ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ میرے چونکہ ان سے نظریاتی اختلافات تھے اس لیے میں نے کبھی اُن کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں ہے۔

  • ڈاکٹر وحید قریشی

مولانا مودودیؒ کو زندگی میں ایک بار دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ لیکن کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ البتہ میں نے مولانا کو پڑھا ضرور ہے۔ وہ اس عہد کے بہت بڑے عالم تھے۔ کسی فرد کو ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بطور عالم دین ان کا مرتبہ بہت اونچا ہے۔

مولانا مودودی جہاں بہت بڑے عالم دین تھے‘ وہاں وہ بہت بڑے ادیب بھی تھے‘ صاحب طرز ادیب! انھوں نے دینی موضوعات کو ادبی زبان میں پیش کیا اور اپنا مخاطب جدید نسل کو بنایا۔ انھوں نے جدید نسل کے مسائل کو اپنے مقالات اور کتابوں میں نہایت احسن انداز میں بیان کیا ہے۔

مولانا مودودی کی نثر اپنا ایک خاص انفرادی رنگ رکھتی ہے۔ مشکل مسائل کو سیدھے سادے انداز میں پیش کرنے کا جو ڈھنگ انھیں آتا ہے‘ اس سے ان کی نثر ایک عام قاری کو بھی اپنی طرف اسی شدت سے کھینچتی ہے‘ جس شدت سے ایک عالم کو۔ انھوں نے ہماری اُردو نثر کی روایت میں یہ انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے کہ اسے دینی نثر کے عام اسلوب سے الگ کر کے عام پڑھنے والوں کے لیے ایک گونہ سہولت پیدا کر دی ہے۔ اُردو ادب میں دینی سرمائے کو بیان کرنے کے لیے جو عربی آمیز ڈھنگ اختیار کیا گیا‘ اس میں ایک خاص طرح کا مولویانہ رنگ نمایاں رہا ہے‘ لیکن اس کے برعکس مولانا مودودی کی نثر میں ایک ادبی شان پائی جاتی ہے۔ وہ بلاشبہہ اُردو کے ایک صاحب ِ طرز نثرنگار تھے۔

مولانا مودودی کے لٹریچر کے مطالعے کی وجہ سے پنجاب یونی ورسٹی میں میرے اوپر یہ الزام لگا کہ میں جماعت اسلامی کا آدمی ہوں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے‘ کہ کچھ لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ میں کمیونسٹ ہوں شاید اس لیے کہ میں نے کمیونزم کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر میں نے کمیونزم کے خلاف بہت کچھ لکھا بھی۔

فارسی اور اُردو ادب میں میری دل چسپی زیادہ رہی۔ اردو ادب کا خاصا وسیع مطالعہ کیا‘ بہت کچھ پڑھا‘ لیکن مولانا مودودیؒ کو بہت منفرد پایا۔ ان کا اسلوب انفرادیت رکھتا ہے۔ وہ نئی نسل کے مسائل کو سمجھ کر اور جدید علوم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لکھتے رہے۔ باقی علما کا اکنامکس اور پولٹیکل سائنس وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ لیکن مولانا مودودی نے قدیم و جدید علوم کو ملا کر معاشرے کو سمجھا اور پھر اس کے مطابق لکھا۔ یہ مولانا کی انفرادیت تھی۔ تفہیم القرآن مولانا کی سب سے اہم کتاب ہے۔

مولانا مودودی کی تحریروں میں اقبال کی فکر کے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ وہ فکرِ اقبال سے قریب تھے۔ اقبال اور مولانا کی فکر میں اس مناسبت کی وجہ سے مجھے مولانا کی تحریروں میں دلچسپی پیدا ہوئی‘ اور میرے لیے یہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئیں‘ کیونکہ کالج کے زمانے میں میرا جھکائو دہریت اور الحاد کی طرف ہو گیا تھا۔ پھر مولانا کی تحریروں کے باعث ہی مجھے ان سے چھٹکارا حاصل ہوا۔

مولانا مودودی نے جماعت اسلامی میں کردار سازی پر زور دیا اور بلاشبہہ انھوں نے   اپنی جماعت میں بہت سے صاحب کردار لوگ پیدا کیے تھے۔ اسی طرح قرارداد مقاصد کی منظوری اور علما کے ۲۲ نکات کی ترتیب میں مولانا مودودی کا اہم اور بنیادی کردار تھا۔ ۲۲ نکات کی تدوین‘ پاکستانی تاریخ میں وہ پہلا مرحلہ تھا‘ جب مختلف مسلک کے علما پہلی دفعہ کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور یہ سب مولانا مودودی کی وسعت نظر‘ دُور اندیشی اور منطقی و عملی ذہن کے باعث ہی ممکن ہوا۔

۴۹ - ۱۹۴۸ء میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی مخالفت میں‘ حکومتی سرپرستی میں لٹریچر تیار کیا گیا۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی  جماعت اسلامی پر ایک نظر شیخ محمد اقبال کے نام سے شائع ہوئی تھی‘ لیکن یہ کتاب دراصل شیخ محمد اکرام ]مصنف:  رودِ کوثر[ نے لکھی تھی۔ البتہ شیخ محمداقبال ان کے چھوٹے بھائی تھے‘ جن کا تحقیق و ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ریاستی انتظام میں یہ کتاب پاکستان ٹائمز پریس نے شائع کی اور مفت تقسیم کی گئی۔ اسی مخالفانہ مہم کے تسلسل میں بعدازاں سرکاری سطح پر مولانا پر مختلف الزام لگائے گئے‘ لیکن وہ سب غلط تھے۔ مولانا بہت ہی زیرک انسان تھے‘ بہت بڑے مفکر اور بلند پایہ ادیب تھے۔ ایسے انسان تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

  • عبدالقادر حسن

زمانہ طالب علمی ہی میں مجھے مولانا مودودیؒ سے وابستگی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت تو اندازہ نہیں تھا کہ کتنی بڑی شخصیت سے ہمارا تعلق ہے‘ کیونکہ ان کے اٹھنے بیٹھنے‘ گفتگو‘ انداز اور رویہ میں کوئی تعلّی‘ فخر اور ایسا تصنع نہیں تھا‘ جس سے اندازہ ہو کہ کسی عالم فاضل کے پاس بیٹھے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ اس طرح بے تکلفانہ گفتگو فرماتے تھے کہ ہمارے اندر اُن کا احترام مزید بڑھ جاتا تھا عقیدت اور محبت میں فراوانی آتی تھی۔ مولانا اپنے ملنے والے کے دل میں خود بخود ایک طرح کی محبت پیدا کرتے تھے۔ کیونکہ اُن کے خیالات اور تصورات اتنے واضح اور صاف ہوتے تھے کہ اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کی شخصیت سے غیر مرئی قسم کی شعاعیں نکلتی تھیں‘ جو انسان کو کھینچ لیتی تھیں اور دل پر اثر کرتی تھیں۔ آخر تک میری اُن کے ساتھ عقیدت اور نیاز مندی رہی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مولانا کے بغیر زندگی کا تصور ہی مشکل ہو گیا۔ میں چونکہ صحافت کی دنیا کا مسافر تھا‘ اس لیے مولانا سے اس کے اسرار و رموز پر بات ہوتی رہتی تھی۔ مولانا خود کو ایک اخبار نویس کہتے تھے۔ایک دفعہ مولانا ایک فارم پُر کر رہے تھے‘ جس میں دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ پیشے کے خانے میں انھوں نے اپنا پیشہ صحافت لکھا تو فارم پُر کروانے والے نے کہا: ’’آپ مصنف یا ادیب لکھیں‘‘ تو مولانا نے کہا: ’’پیشہ وہ ہوتا ہے جس سے آدمی روزی کماتا ہے تو میرا پیشہ صحافت ہے۔ ترجمان القرآن سے میں اپنا پیٹ پالتا ہوں‘‘۔

ایک بار نیلا گنبد مسجد میں جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میں مولانا مودودی کا خطاب تھا۔ میں بھی اس پروگرام میں شریک تھا‘ جب مولانا باہر تشریف لانے لگے تو میں ان کاجوتا اٹھا کر اُن کے سامنے رکھنے لگا‘ مگر انھوں نے فوراً میرے ہاتھ سے پکڑ کر نیچے رکھ دیا۔ وہ ایسی پیری مریدی کے قائل نہیں تھے جس میں تصنع اور بناوٹ کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ میں اُن کے اہل خانہ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تاہم اپنے علم اور مشاہدے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں‘ کہ سخت سے سخت تکلیف کے باوجود مولانا مودودی نے اپنے کسی رفیق‘ کسی کارکن اور کسی نیاز مند کو اس امر کی اجازت نہیںدی کہ وہ اُن کے پاؤں‘ کندھے‘ یا سر دبا سکے۔ احترام اور ہمدردی میں جب بھی کسی نے ہاتھ بڑھایا تو‘ انھوں نے ہمیشہ خوشگوار لہجے میں کہا: ’’بھائی‘ میں کسی سے نہیں دبتا‘‘ اور اس طرح شکریہ ادا کر کے اجازت دینے سے ہمیشہ انکار کر دیا۔ اُن کی شخصیت ایک متوازن آدمی کی شخصیت تھی۔ اُن کا علم و فضل اُن کی تحریروں میں تھا‘ لیکن نشست و برخاست میں اپنے آپ کو عام آدمی کی طرح سمجھتے۔

مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے ارکان کی اس نہج پر تربیت کی کہ ایک دفعہ عدالت میں کسی شہادت کا مسئلہ تھا‘ تو جج نے کہا کہ میں جماعت کے رکن کی شہادت (گواہی) پر فیصلہ سناتا ہوں‘ کیونکہ یہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ مولانا کی حیات کا دور تھا۔ جماعت کے افراد کی صداقت‘ دیانت اور امانت کی جو شہرت تھی‘ وہ اس ایک شخص ]مولانا مودودیؒ[ کے ایمان‘ اخلاص اور روحانیت کا پرتو تھی۔ میں گذشتہ ترجمان القرآن میں پڑھ رہا تھا‘ جس میں مولانا مودودیؒ نے نظم و ضبط کے متعلق کہا تھا: نظم و ضبط کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی فوجی طرز کا ڈسپلن پیدا کرنا ہے‘ بلکہ جو لوگ اس نظم میں موجود ہیں ان کی ذاتی اہمیت اس نظم سے زیادہ اہم ہے‘جیسے ہراینٹ کی دیوار میں۔

مولانا مودودیؒ نے پاکستانی سوسائٹی‘ جو حکمران طبقوں کی فطرت کے باعث سیکولرازم کی جانب چل رہی تھی‘ اس کا رخ موڑ دیا۔ آج جو اسلام پسند طبقہ دکھائی دیتا ہے وہ ان کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حکمران پوری شد و مد سے سیکولرازم کا پرچار کرتے رہے‘ لیکن وہ اپنے تمام تر وسائل کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ انھیں ناکام بنانے میں مولانا مودودیؒ وہ واحد شخص تھے جنھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔

قرارداد مقاصد پاس کروانا مولانا مودودی کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس دور میں جب جماعت آج کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس کے ارکان کی تعداد تین سو سے بھی کم تھی۔ لیکن اراکین جماعت اور دیگر متفقین کی اس مختصر مگر پرعزم ٹیم کے ساتھ سیدمودودی نے حالات کا رخ موڑ دیا۔ ان کے ایک کٹر مخالف نے مجھ سے کہا: اگر مودودیؒ نہ ہوتا تو لوگوں کی داڑھیوں کو قینچیوں اور پیشاب سے مونڈھ دیا جاتا -- آج داڑھی باعزت فرد کی علامت بن گئی ہے اور مسلمان ہونا کوئی عیب نہیں رہا۔ میرے خیال میں ان کا یہ کارنامہ سب سے اونچا کارنامہ ہے کہ انھوں نے پاکستانی معاشرے کا رخ قبلے کی طرف موڑ دیا اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے پیچھے زندہ لٹریچر چھوڑ گئے۔ میں مولانا مودودی کو اُمت کا مجدد سمجھتا ہوں‘لیکن ایک بار جب اُن کے سامنے اس کا ذکر کر دیا تو انھوں نے فرمایا: ’’میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا۔ اگر میرے بعد کوئی کہے تو میں اُس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا‘‘۔

مولانا بہت بڑے ادیب تھے۔ افسوس کہ اس موضوع پر کوئی کام ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنے بڑے انشاپرداز تھے۔ ادب میں ان کا بہت اونچا مقام تھا اور ان کی زبان بہت ہی مستند زبان ہے۔ مولانا کی اردو ایک معیار کی علامت ہے۔ وہ بہت آسان اور خوب صورت زبان استعمال کرتے تھے۔

مولانا مودودی کی تحریروں میں سب سے بڑی تحریر تفہیم القرآن ہے۔ تفسیری ادب میں تفہیم القرآن کا بہت اعلیٰ مقام ہے۔ مولانا نے اپنے عہد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی عام فہم انداز میں تفسیر لکھی۔ تفہیم القرآن زبان اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی تفسیر ہے اور آسان انداز کے لحاظ سے بھی انتہا درجے کی ہے کہ ان پڑھ کو بھی آپ پڑھ کر سنا سکتے ہیں اور وہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مقام کسی اور تفسیر کو حاصل نہیں۔ انھوں نے قرآن کو عوام تک پہنچایا ہے۔ مولانا کا مقصد تفسیر میں اپنی علمیت کا رعب جمانا نہیں تھا‘ بلکہ عوام تک قرآن کا پیغام پہنچانا مقصود تھا۔

  • احمد سعید کرمانی

میں نے مولانا مودودیؒ کو ۱۹۳۹ء میں پہلی بار دیکھا‘ جب وہ اسلامیہ کالج ]ریلوے روڈ[ لاہور میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ تب میں کالج کا طالب علم تھا۔ ایک سال تک ان کا درس سنتا رہا۔ آپ چوبرجی سے تانگے پر کالج آیا کرتے تھے۔ پھر محترمہ فاطمہ جناحؒ کی الیکشن مہم کے سلسلے میں ان سے ملتا رہا (یہ الگ بات ہے کہ بعد میں‘ میں ایوب خان کے ساتھ مل گیا تھا) اسی طرح اچھرہ میں ان کی عصری نشستوں میں بھی بیٹھتا رہا اور حکمت کی باتیں سنتا رہا۔ آپ بہت بڑے عالم دین تھے۔

۱۹۷۴ء کے دوران میں مصر میں سفیر تھا۔ وہاں ابوالکلام آزادؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام سے لوگ واقف تھے۔ مجھے سفارت کاری کے دوران خوش گوار حیرت ہوئی کہ مولانا مودودی کی فکر نے مصر کے علما کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی پذیرائی حاصل کی ہے۔

تحریک ختم نبوتؐ کے دوران میں مجھے چودہ سال قید ہوئی‘ جبکہ مولانا مودودیؒ اور مولانا عبدالستار خان نیازیؒ کو سزاے موت سنائی گئی۔ جیل ہی میں ان دونوں علما سے ملنے کے لیے گیا۔ مولانا نیازیؒ سے تو ملاقات ہو گئی‘ لیکن مولانا مودودیؒ کے بارے میں سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا: ’’انھیں پھانسی والے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں‘ لہٰذا ان سے ملاقات نہیں ہوسکتی‘‘۔ اتفاق سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل میرا دوست نکلا‘ اس نے مولانا مودودیؒ سے میری ملاقات کرا دی۔ اس ملاقات کا اہتمام رات کو کیا گیا تھا۔ میں مولانا سے ملنے جا رہا تھا تو میرا خیال تھا کہ مولانا بہت پریشان ہوں گے‘ جا کر انھیں حوصلہ دیتا ہوں۔ لیکن انھیں مل کر مجھے انتہا درجے کی حیرانی ہوئی کہ انھیں پھانسی کی سزا ہوئی ہے حتیٰ کہ پھانسی والے کپڑے بھی پہنا دیے گئے ہیں‘ لیکن ان کے چہرے پر کوئی پریشانی‘ کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ہے۔ مولانا مودودی اس حال میں بھی اتنے مطمئن تھے کہ کوئی فرد عام حالات میں بھی اتنا مطمئن نہیں دکھائی دیتا۔ مولانا کو اﷲ پر توکل تھا‘ اس لیے ذرہ بھر بھی پریشانی ظاہر نہیں کی۔ مولانا کی سزاے موت کے خلاف حکومت پر دنیا بھر سے دبائو ڈالا گیا۔ اس لیے حکومت کو اسے عمر قید میں تبدیل کرنا پڑا‘ بعد ازاں ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وہ رہا ہو گئے۔

ممتاز حسن (سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان) ایک مرتبہ کراچی میں ایک تقریب میں میرے ساتھ تھے‘ اس تقریب کی صدارت میں کر رہا تھا۔ ممتاز حسن بہت بڑے ادیب بھی تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ: ’’مولانا ابوالکلام آزاد کا مقام اونچا ہے یا مولانا مودودیؒ کا؟‘‘ تو انھوں نے جواباً کہا :’’مولانا آزادؒ کی تحریروں میں ادبیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے جبکہ مولانا مودودیؒ کو عقلیات پر دسترس حاصل ہے۔ اس پہلو سے انھوں نے عوام کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ جو انھیں پڑھ لیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں لہٰذا مولانا مودودیؒ کا اونچا مقام ہے‘‘۔

میں ووٹ دینے میں پہلی ترجیح مسلم لیگ کو ‘لیکن دوسری ترجیح جماعت اسلامی کو دیتا ہوں‘ صرف مولانا کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے آدمی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ مسلم لیگ کی قیادت پر تنقید کرتے تھے‘ حتیٰ کہ انھوں نے پاکستان بنتے وقت بھی یہ کہا تھا کہ مسلم لیگ کی قیادت اس قابل نہیں کہ پاکستان کو چلا سکے۔ یہ تنقید شاید کسی حد تک درست بھی تھی‘ بہرحال وہ وقت اس تنقید کے لیے موزوں نہیں تھا۔ ہم جسٹس دین محمدسے گوجرانوالہ ملنے گئے تو دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہمیں یہ بھی کہا کہ آپ لوگ مولانا مودودیؒ سے ملاقات کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ مسلم لیگ کا عملی ساتھ دیں‘ یا اس کی پالیسیوں پر تنقید نہ کریں۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا: ’’وہ لکھتا بڑا اچھا ہے‘ بہت بڑا مقام پائے گا۔ اس کی تحریروں میں جادو ہے‘‘۔

مولانا مودودی بہت دلیر آدمی تھے۔ ایک جلسے میں آپ پر حملہ ہوا تو لوگوں کے کہنے کے باوجود کھڑے رہے۔ اس حملے میں جماعت کا ایک آدمی مارا گیا تھا۔ یہ حملہ صدر ایوب خان کے دور میں ہوا تھا اور حبیب اﷲ خان اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ اس قتل کی سازش کا الزام اس پر لگایا گیا تھا۔

مولانا مودودی میں صبر اور تحمل بھی بہت زیادہ تھا۔ ایک بار تحریک ختم نبوت صلی اﷲ علیہ و سلم کے سلسلے میں گورنمنٹ ہاؤس میں انھیں بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انھوں نے جہاں بہت زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا‘ وہاں جواب میں یہ بھی کہا: ’’یہ فہم کی بات ہے آپ کو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کے احترام اور مقام کا صحیح اندازہ نہیں‘‘۔

مولانا کی آنکھیں مجھے بہت خوب صورت لگتی تھیں۔ بڑے باوقار دکھائی دیتے تھے۔ ان کا مقام بہت اعلیٰ ہے۔  "So, I respect him from the core of my heart"