جنابِ صدر! دہشت گردی کے بارے میں عوام سے سچ بولیے۔ اگر دہشت گردی کے بارے میں جھوٹی باتوں کو چیلنج نہ کیا گیا‘ تو خطرہ جوں کا توںرہے گا یہاں تک کہ یہ ہم کو تباہ کردے۔
سچ یہ ہے کہ ہمارے ہزاروں نیوکلیائی ہتھیاروں میں سے کوئی ہم کو ان خطرات سے تحفظ نہیں دے سکتا۔ کوئی اسٹاروار نظام تکنیکی طور پر کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو‘ کتنے ہی ٹریلین ڈالر اس کی نذر کیوں نہ کر دیے گئے ہوں‘ ہمیں کسی کشتی‘ کسی سیسناجہاز‘ کسی سوٹ کیس یا کسی ٹرک میں ارسال کردہ جوہری ہتھیار سے نہیں بچا سکتا ۔ہمارے وسیع اسلحہ خانے کا کوئی ہتھیار‘ اپنے دفاع پر خرچ کیے جانے والے ۲۷ ارب ڈالروں میں سے کوئی پائی‘ دہشت گرد بم سے دفاع مہیا نہیں کرتا۔ یہ ایک فوجی حقیقت ہے۔
ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل اور قومی سلامتی کے موضوع کے مقرر کی حیثیت سے میں اکثر بائیبل سے یہ اقتباس سناتا ہوں: بادشاہ کو اس کی طاقت ور فوج نہیں بچاتی۔ ایک لڑنے والے سپاہی کو اس کی طاقت نہیں بچاتی۔ فوراً ذہن میں یہ سوال آتا ہے: پھر ہم کیا کریں؟ کیا ہم اپنے عوام کو تحفظ و سلامتی فراہم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔
کرسکتے ہیں--- مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خطرے کے بارے میں سچائی اور حقیقت کو جانیں۔ جناب صدر! جب ہم نے سوڈان اور افغانستان پر بمباری کی وجہ بیان کی تو آپ نے امریکی عوام کو یہ سچ نہ بتایا کہ ہم دہشت گردی کا ہدف کیوں ہیں؟ آپ نے کہا کہ ہم اس لیے ہدف ہیں کہ ہم دنیا میں جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق کے علَم بردار ہیں! کتنی واہیات ہے یہ بات!
ہم دہشت گردوں کا ہدف ہیں کیوں کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں ہماری حکومت آمریت‘ غلامی اور انسانی استحصال کی علَم بردار ہے۔ ہم اس لیے ہدف ہیں کہ ہم سے نفرت کی جاتی ہے۔ اور ہم سے نفرت اس لیے کی جاتی ہے کہ ہماری حکومت نے قابلِ نفرت کام کیے ہیں۔کتنے ہی ملکوں میں ہماری حکومت کے ایجنٹوں نے عوام کے کتنے لیڈروں کو برطرف کیا اور ان کی جگہ فوجی آمر لا بٹھائے‘ جو اپنے عوام کو امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ہاتھ فروخت کرنے پر راضی ہیں۔
ہم نے یہ ایران میں اس وقت کیا جب امریکی میرین اور سی آئی اے نے مصّدق کو اس لیے برطرف کیا کہ وہ ایران کی تیل کی صنعت کو قومیانا چاہتا تھا۔ ہم نے اس کے بجاے شاہ ایران کو لابٹھایا اور اس کے قابلِ نفریں ساواک گارڈزکو مسلح کیا‘ تربیت دی اور رقوم دیں جس نے ایرانی عوام کو غلام بنایا‘ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا گیا کہ ہماری تیل کی کمپنیوں کے مالی مفادات محفوظ رہیں۔ اب اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ ایران میں ایسے لوگ ہیں جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔
ہم نے یہی چلّی میں کیا‘ یہی ہم نے ویت نام میں کیا‘ حال ہی میں ہم نے یہی کچھ عراق میں کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہہ نکاراگوا اور لاطینی امریکا کی دوسری ریاستوں میں ہم نے ایسا کئی بار کیا بار بار ہم نے ایسے مقبول لیڈروں کو برطرف کیا جو اپنے ملک کے وسائل اپنے ان عوام پر خرچ کرنا چاہتے تھے جو اس کے لیے کام کرتے تھے۔ ہم نے ان کی جگہ ایسے خونی قاتل اور ظالم حکمرانوں کو لائے جو اپنے ملک کے عوام کو فروخت کر دیں تاکہ ملک کی دولت امریکی کمپنیوں کو پہنچائی جا سکے۔
ملک کے بعد ملک میں ہماری حکومت نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی‘ آزادیوں پر پابندی لگائی اور انسانی حقوق کو پامال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں اس سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کا ہدف ہیں۔
کینیڈا کے عوام جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ اسی طرح ناروے اور سویڈن کے عوام۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ کینیڈا کے‘ ناروے کے یا ‘سویڈن کے سفارت خانوں پر حملے ہوئے؟
ہم سے اس لیے نفرت نہیں کی جاتی کہ ہم جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق پر عمل کرتے ہیں‘ بلکہ ہم سے اس لیے نفرت کی جاتی ہے کہ ہماری حکومت تیسری دنیا کے لوگوں کے لیے ان چیزوں کے دروازے بند کرتی ہے۔ تیسری دنیا‘ جس کے وسائل پر ہماری ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی نظر ہے۔نفرت کے جو بیج ہم نے بوئے ہیں ‘ وہ ہم کو ابھی دہشت گردی کی شکل میں برگ و بار لاکر اور مستقبل میں جوہری دہشت گردی کے اندیشوں سے پریشان کر رہے ہیں۔
ایک دفعہ یہ حقیقت جان لی جائے کہ خطرہ کیوں ہے تو حل واضح ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنے طریقے بدلنا چاہییں۔ ہم‘ ضروری ہو تویک طرفہ طور پر ہی سہی‘ اپنے جوہری ہتھیار تلف کر دیں تو ہماری سلامتی میں اضافہ ہو جائے گا۔ خارجہ پالیسی میں مکمل تبدیلی سے اسے یقینی بنایا جاسکے گا۔
اپنے بیٹوں بیٹیوں کو عربوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجنے کے بجاے‘ تاکہ ان کی ریت میں دفن تیل ہمیں ملے‘ ہمیں انھیں ان کی ترقی کے لیے ڈھانچاتعمیر کرنے کے لیے‘ صاف پانی مہیا کرنے کے لیے‘ اور فاقہ زدہ بچوں کو خوراک پہنچانے کے لیے بھیجنا چاہیے۔ پابندیوں کے ذریعے عراق کے ہزاروں بچوں کو روز قتل کرنے کے بجاے ہمیں عراقیوں کے بجلی اور پانی کے منصوبے اور ہسپتال تعمیر کرنے کے لیے مدد دینی چاہیے۔ یہ سب ہم نے ہی تباہ کیے اور پابندیوں کے ذریعے ان کی تعمیرنو ممکن نہ رہنے دی۔ ہمیں اپنا دہشت گرد اور ڈیتھ سکواڈ تیار کرنے کا اسکول ختم کردینا چاہیے۔ ساری دنیا میں بغاوت‘ عدمِ استحکام‘ قتل اور دہشت کی حمایت کے بجاے ہم کو سی آئی اے کو لپیٹ دینا چاہیے اور یہ رقم ریلیف ایجنسیوں کو دینا چاہیے۔
مختصراً یہ کہ ہم کو بدی کے بجاے نیکی کرنا چاہیے۔ پھر ہمیں کون روکے گا؟ پھر ہم سے کون نفرت کرے گا؟ کون ہم پر بم پھینکے گا؟ یہ سچ ہے جناب صدر! امریکی عوام کو بھی سچ بتانے کی ضرورت ہے۔ (دی ملّی گزٹ ‘دہلی‘ ۱-۱۵ جنوری ۲۰۰۴ئ‘ بحوالہ نیشنل کیتھولک رپورٹر)