سیرت نبوی ؐ کا ایک اہم باب اور عنوان ’’ وفود عرب کی بارگاہ رسالتؐ میں آمد ہے‘‘۔ قدیم مآخذ سیرت میں عمومافتح مکہ کے بعد اشاعت اسلام کے ضمن میں و فود عرب کا تذکرہ ہوا ہے۔ ۹ھ اور ۱۰ھ میں یہ وفود اس کثرت سے آئے کہ مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس سنہ کو ’’ عام الوفود ‘‘ یعنی وفود کا سال قرار دیا۔ متعدد مورخوں اور سیرت نگاروں نے ان وفود کی تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ مختلف روایات کے مطابق وفود کی تعداد ۱۴۰ کے قریب تھی۔ اردو ادب سیرت میں صرف انھی وفود کا تذکرہ ملتا ہے جن سے سیرت نبویؐ کے کسی خاص پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔
ان وفود کے مطالعے سے جہاں سیرت طیبہؐ کے کئی نمایاں پہلو اجاگر ہوتے ہیں وہاں قبائل عرب کے جغرافیائی حالات ، ان کے معتقدات، میلانات و رجحانات اور بدوی مزاج کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہ وفود پورے جزیرہ نما عرب کے مختلف حصوں سے حاضر خدمت ہوئے تھے۔ جو قبائل اپنے نمایندے یاترجمان کی حیثیت سے بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے، ان کے ارکان کی تعداد بعض اوقات ۴۰۰ یا اس سے زائد ہوتی تھی۔ بعض وفود اسلام قبول کرنے کے لیے آتے اور بعض تعلیم وتربیت کے لیے حاضر خدمت ہوتے اور بعض امن و صلح کے لیے بھی آئے۔ رسولؐ اللہ ہر قبیلے کے سردار یا قائد کو عموماً ذمہ دار بناتے کہ وہ اپنے قبیلے میں دعوت کا فریضہ سرانجام دے۔ اس طرح یہ وفود بذات خود دعوت و تبلیغ کا اہم اور مؤثر ترین ذریعہ تھے۔ (مولانا جلال الدین عمری،’’عرب کے وفود دربارِ رسالت میں‘‘ سہ ماہی تحقیقات اسلامی (علی گڑھ)‘ جلد ۷‘ شمارہ ۱‘ ۱۹۸۸ء‘ ص ۵-۱۶)
قبائل عرب اپنے وفود کی روانگی کے لیے بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اس کے لیے شیوخ و سردار، اعیان و اشراف ، شعرا و خطبا اور باشعور افراد کا انتخاب ہوتا تھا۔ ان سب کے نام لکھے جاتے تھے اور ارکان وفد اپنے روایتی اور قبائلی لباس وہیئت میں سج دھج کر مدینہ منورہ میں حاضر ہوتے تھے۔ (تفصیل کے لیے: وفد وائل بن حجر‘ ابن کثیر‘ البدایۃ ۵/۲۹)
یہاں ان کی حیثیت کے مطابق قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا تھا۔ آپؐ ان کی نفسیات و رجحانات کے مطابق معاملہ فرماتے ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرتے اور ان کے مسائل کو حل فرماتے۔
ذیل میں ان وفود کے ساتھ آپؐ کے طریق دعوت و تربیت کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
رسولؐ اللہ کے پاس آنے والے ان وفود کا تعلق عرب کے مختلف قبائل سے تھا۔ان میں چند مشترکہ محاسن و معائب تھے۔بعض قبائل اپنی انفرادی شان وشوکت رکھتے تھے اور بعض کی وجہ شہرت بہادری اور بعض سخاوت و مہمان نوازی میں مشہور تھے۔ ہر قبیلہ عرب میں اپنا مخصوص مقام رکھتا تھا۔ ان دعوتی وفودمیںبعض عمدہ خصلت وسیرت کے مالک ہوتے اور بعض سخت مزاج۔ ان میں سردار اور قائد بھی تھے اور قبیلے کے عام افراد بھی‘ غرض یہ کہ ہر مزاج اور فکر کے افراد ہوتے تھے۔
رسولؐ اللہ نے دعوت قرآنی کے اصولوں کے مطابق دعوتِ حق کو پیش فرمایا۔ قبائلی اور علاقائی نفسیات کا لحاظ فرمایا۔ اسی کا اثر تھا کہ ان وفود میںسے اکثریت دولت ایمان سے مشر ف ہو ئی اور آپؐ کے حسن اخلاق اور حسن معاملہ کی بدولت جو وفود بظاہر صلح و امن کی غرض سے حاضر خدمت ہوئے وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
آپؐ وفد کے پہنچتے ہی دعوت دینی شروع نہیں کر دیتے تھے بلکہ دعوت کے لیے مناسب ماحول پیدا فرماتے تھے۔ دعوت سے قبل مدعو کی مہمان دار ی ، تکریم و تحریم کا مکمل اہتمام فرماتے تھے۔اس حوالے سے چند قابل ذکر پہلو یہ ہیں:
ان وفود کی رہایش کا اہتمام ایک صحابیہ رملہؓ بنت الحارث کے گھر کیا جاتا ، اس کے علاوہ کبھی کبھی یہ و فود کسی صحابی جو اسی قبیلے کا ہوتا اس کے ہاں ٹھہرتے، اور بعض کو آپؐ مسجدنبویؐ میں ٹھہرانے کا حکم دیتے۔
جہاں تک نفس دعوت و تبلیغ کا تعلق ہے تویہاں بھی آپ ؐنے مخاطب کی ذہنی نزاکتوں کا پورا پورا خیال رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ آدمی کی ذہنیت کو تبدیل کرنا اور اس کے نقطہء نظر یا نصب العین کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں۔اس کے لیے غیر معمولی ذہانت‘حکمت و تدبر اور سب سے بڑھ کر ایسے استدلال سے کام لینا پڑتا ہے جو مخاطب کو ذہنی طورپرہموار کر کے نئی بات قبول کرنے پر آمادہ کر سکے۔جس طرح ایک بیج کی نشوونما کے لیے فقط بیج کی صلاحیتوں پر ہی نظر نہیں رکھنی پڑتی بلکہ زمین کی آمادگی و مستعدی اور فصل وموسم کی سازگاری و موافقت کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے ،اسی طرح ایک داعی کو بھی لازماً تخم ایمان کی آبیاری کے لیے قلوب و اذہان کی آمادگی و موافقت کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اور یہ آمادگی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ استدلال مستحکم اور پایدار ہو۔
یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے عقائد اور تعلیمات دین کو دلوں میں اتارنے کے لیے ایک طرف توایسے دلائل وبراہین سے کام لیا جس کا ادراک ایک ادنیٰ سے ادنیٰ عقل رکھنے والا آدمی بھی کر سکتا ہے‘نیز ان دلائل و آثار میں تنوع کا خیال بھی رکھاتاکہ تفہیم و ابلاغ کا حق ادا ہو سکے ،اور دوسری طرف رسول اللہ ؐ نے اہل عرب کی تمام خوبیوں اور خرابیوں ‘ ان کی انفرادی و قومی روایات اور ان کے عادات وخصائل کی رعایت رکھتے ہوئے کشت ِایمان کی آبیاری کی۔آفاق کے قوانین و ضوابط ‘فطرت کے یقینیات ‘تاریخ کے مسلمات، اور بنیادی اخلاقیات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مشرق و مغرب اور عرب وعجم سب ایک ہی نقطہء نظر رکھتے ہیں ۔رسول ؐاللہ نے اپنے اور مخاطب کے درمیان اسی قدر ِمشترک کو تلاش کیااور اس کو بناے استدلال بنایا۔ وفود کے مطالعے سے اس کی چند ایک مثالیں سامنے آتی ہیں ۔
بعض افراد سلیم الفطرت ہوتے ہیں۔ان میں اعلیٰ اخلاقی صفات بااتم موجود ہوتی ہیںاور اگر کوئی ان کی تعریف وتحسین کر دے اور ان کے اس حسن سیرت و صورت کی نشان دہی کرے تو ان میں مزید بہتری کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے‘اور اس تحرک (motivation)کی بدولت ان میں استحکام نصیب ہوتاہے اور وہ ہر آن بداخلاقی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔رسول ؐاللہ کے پاس آنے والے وفود میں بعض افراد باجود جاہلی تعصبات و خرافات کے عمدہ اخلاق و سیرت کے مالک ہوتے ۔چنانچہ رسولؐ اللہ ایسے وفود کے اراکین سے ان کے اخلاقی اوصاف کو مدنظر رکھتے اور دعوت پیش کرتے وقت، وفد کے اراکین یا قائد کی ان صفات عالیہ کا تذکرہ ضرورفرماتے جس سے وہ متصف ہوتے تاکہ آغاز کلام میں ہی ان کے اندر اس پیغامِ حق کے لیے قبولیت کا جذبہ پیدا کر دیا جائے جس کی دعوت دی جا رہی ہے کہ یہ پیغام بھی اس خاصیت اور صفات کا داعی ہے جس سے وہ متصف ہیں ۔اس طرح ابتدا سے ہی مدعو سے بے تکلف تعارف او ر کلمات داد وتحسین سے مدعو پر نفسیاتی اثر ہوتا اور وہ دین حق کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا۔اس طرز فکر کی چند ایک مثالیں بھی وفود کے مطالعے سے ظاہر ہوتی ہیں۔
۱- وفد ازد کی وضع قطع او رخوش کلامی آپ ؐ کو بہت پسند آئی۔آپؐ نے دعوت پیش کرنے سے پہلے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟انھوں نے عرض کیا ہم مومن ہیں ۔آپؐ مسکرائے ۔آپؐ نے فرمایا: ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتاؤ تمھارے قول اور ایمان کی کیاحقیقت ہے؟انھوں نے عرض کیاکہ ہم میں ۱۵خصلتیں ہیں۔ان میں پانچ تو ایسی ہیں جن کے متعلق آپؐ کے قاصدوں یعنی(مبلغین یا داعیان اسلام)نے ہمیں دعوت دی ہے اور پانچ ایسی ہیں ‘جن کے متعلق ہدایت کی ہے کہ ان پر عمل کریں ‘اور پانچ وہ ہیں ‘ جن کا ہم زمانۂ جاہلیت سے پابند ہیںاور اب تک ان پر قائم ہیں۔
حضورؐنے پوچھا کہ وہ پانچ باتیں کون سی ہیں جن پرتم کو ایمان رکھنے کاحکم دیاگیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: ۱- اللہ پر ایمان ۲- اس کے فرشتوں پر ایمان ۳- اس کی کتابوں پر ایمان ۴- اس کے رسولوں پر ایمان ۵- مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: وہ پانچ باتیں کیا ہیں جن پر تمھیںعمل کرنے کی ہدایت کی گئی ؟ انھوں نے عرض کیا: ۱- ہم اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۲- نماز کی پابندی کریں ۳- زکوٰۃ ادا کریں ۴- رمضان کے روزے رکھیں ۵- اگر استطاعت ہو بیت اللہ کا حج کریں ۔
آپؐ نے فرمایا:اچھا! اب وہ پانچ باتیں بتاؤ جن پر تم زمانۂ جاہلیت سے کار بند ہو؟ انھوں نے کہا: ۱- خوشحالی کے وقت شکر کرنا ۲- مصیبت پر صبر کرنا ۳- راضی برضاے الٰہی رہنا ۴- آزمایش کے وقت راست بازی پر قائم رہنا ۵- دشمنوں کی مصیبت پر ہنسی نہ اڑانا۔
جب آپؐنے ان کی حکمت اور دانائی کی باتیں سنیں تو تعریف فرمائی اور ان پر دوام کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم لوگ تو بڑے حکیم اور عالم نکلے ‘تمھاری حکمت ودانش گویا انبیا کی حکمت ودانش ہے‘‘۔
اس طرح ان کے اندر مزید بھلائی او رنیکی کی تحریک پیداہوئی اور جب دیکھا کہ اس طرح کے اقوال اور نصیحت کو یہ لوگ اختیار کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں،تو آپؐ نے ان کو مزید پانچ اور نصیحتیں فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:
۱۔ ضرورت سے زیادہ مکانات نہ بناؤ(یا وہ مکان نہ بناؤ جس میں تمھیں بسنا نہ ہو)
۲۔ ضرورت سے زیادہ اشیاے خوردونوش جمع (ذخیرہ )نہ کرو۔
۳۔ جس چیز کو چھوڑ کر کل تمھیں چلا جانا ہے ا س میں ایک دوسرے کی حرص نہ کرو۔
۴۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہو جس کی طرف پھر تمھیں لوٹنا ہے اور اس کے حضور جواب دہ ہوناہے۔
۵۔ ان چیزوں سے رغبت رکھو جو آخرت میں تمھارے کام آئیں گی جہاں تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔(زرقانی‘ المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، بیروت ۱۹۹۶ء‘ ج ۵، ص ۲۲۶)
اہل وفد نے رسولؐ اللہ کے ان ارشادت کو قبول کیا اور وطن واپس جا کر ہمیشہ ان پرعمل کیا۔اس طریقۂ دعوت میں آپؐ نے منطقی وتدریجی اسلوب اختیار کرتے ہوئے پہلے ان کے خیالات و افکار کو جانا اور ان کی عمدہ باتوں کی تعریف وتوثیق فرمائی اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مزید پانچ خصلتوں کی نصیحت فرمائی جن کا مضمو ن سابقہ باتوں سے مختلف تھا ۔جب آپؐ نے جان لیا کہ یہ افراد ایمان وعبادات پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیںاور اخلاق عالیہ سے بھی مزین ہیں تو آپ ؐ نے پانچ ایسی عادات و معمولات کا تذکرہ فرمایاجس سے ان کے سابقہ اعمال میں پختگی آئے اور عبادات میں اخلاص و محبت پیدا ہو۔چنانچہ آپؐ نے جن پانچ باتوں کی تلقین فرمائی ان میں آخرت کا مضمون بیان ہوا اور احتساب و ذمہ داری پر زیادہ زور دیا گیا۔شاید اسی کی کمی آپؐ نے ان کے اندر محسوس کی ہو‘اوراس کے مطابق ان معمولات کواختیار کرنے کی دعوت دی ہو۔
قبیلہ بنی حارث بن کعب ‘سارے عرب میں شجاعت اوربہادری میں مشہور تھا۔فتح مکہ کے بعد بھی یہ لوگ کفر وضلالت پر قائم رہے۔۱۰ہجری میں رسول اللہ ؐ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو دعوت اسلام کے لیے ان کی طرف بھیجا ۔حضرت خالدؓ کی دعوت پر سارا قبیلہ ایمان لے آیااور انھوں نے ایک وفد حضورؐ کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا۔وفد کے اراکین بارگاہ رسالتؐ میں پہنچتے ہیں تو رسولؐ اللہ ان سے پوچھتے ہیں کہ : ’’زمانۂ جاہلیت میں جو تم سے لڑا وہ ہمیشہ مغلوب رہا ۔اس کا کیا سبب ہے‘‘؟ انھوں نے عرض کیا کہ: یا رسولؐ اللہ اس کے تین سبب تھے: ۱- ہم اپنی طرف سے کسی پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتے تھے۔ ۲- ہم خود کسی پر چڑھ کر نہیں جاتے تھے اور نہ لڑائی میں پہل کرتے تھے۔ ۳-جب ہم پر کوئی لڑائی تھوپ دیتاتو میدان جنگ میں ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے اور کبھی منتشر نہ ہوتے تھے۔
حضورؐ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔جو فوج یا جماعت ان اصولوں کے مطابق لڑے گی ہمیشہ غالب رہے گی۔(ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ج۱‘ ص۳۳۹، وابن ہشام ج ۴، ص ۲۶۴)
رسولؐ اللہ وفد کے ایمان ویقین سے واقف تھے اور آپ ؐ کو یہ بھی معلوم تھا کہ قبیلہ بنی حارث بن کعب شجاعت و بہادری میں کمال رکھتا ہے اور یہی ان کی عظمت و فضیلت ہے۔چنانچہ آپ ؐ نے ان کی نفسیا ت و حالات کو جانتے ہوئے ان کے اس مخصوص شعبے میں مہارت کا ذکر فرمایاکہ جس کے سبب وہ ہمیشہ غالب رہے اور ظاہر ہے جب کسی کی خاص صفت یا بھلائی و عظمت اس کی وجہ شہرت ہو یا ا س کی پہچان کا سبب ہو‘اس کاتذکرہ کیا جائے تو یہ بات اس کو دنیا و مافیھا سے بہتر لگتی ہے۔ آپؐ نے اسی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ان سے دریافت فرمایا کہ کس سبب سے وہ ہمیشہ غالب رہے ۔جب انھوں نے تین اسباب کا ذکر کیا جو کہ تعلمیات محمدی ؐ کے بھی عین مطابق تھے تو آپ ؐ نے نہ صرف ان کی تعریف و توثیق فرمائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ یقینا جو کوئی ان اصولوں کے مطابق لڑے گا وہ ہمیشہ غالب رہے گا۔اس طرح وفد کے اراکین آپ ؐ کی تعلیمات سے مطمئن ہوئے اور آپ ؐ کی صحبت سے مزید اکتساب فیض کے لیے چند دن ٹھہرے۔
عبدالقیس کا وفد ،عبداللہ بن عوف الاشج کی قیادت میں بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا۔آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ عبدالقیس کا وفد ہے۔آپؐ نے ان کو مرحبا کہااور فرمایا: عبدالقیس بھی کیسی اچھی قوم ہے۔ان لوگوں نے آپؐ کو سلام کیا ۔ آپؐ نے ان کو دعوت اسلام دی اور وہ مشرف باسلام ہوئے۔ رسولؐ اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں عبداللہ الاشج کون ہے؟۔عبداللہ ؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ میں حاضر ہوں (وہ کریہ منظر بد شکل تھے)۔ رسولؐ اللہ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ انسان کی کھال کی مشک نہیں بنائی جاتی البتہ آدمی کی دو سب سے چھوٹی چیزوں کی حاجت ہوتی ہے ،ایک ا س کی زبان اور دوسرا اس کا دل۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے عبداللہؓ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ؓنے عرض کیاکہ وہ کون سی؟ حضورؐ نے فرمایا:حلم اور وقار ۔ انھوں نے عرض کیا کہ یہ چیز پیدا ہو گئی ہے یا میری خلقت اسی پر ہوئی ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری خلقت اسی پر ہوئی ہے۔
اس تبلیغی وفد کی آمد اور ان کے ساتھ آپؐ کے دعوتی اسلوب او رانسانی نفسیات کے لحاظ کی چند باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔
۱- سب سے پہلے قبیلہ عبدالقیس کے وفد کی آمد پر خوش آمدید کہا۔
۲- اس وفد اور اس کے رئیس کی مدح و توصیف فرمائی۔
۳- اس کے رئیس و قائد حضرت عبداللہؓ بن عوف الاشج ،جو بظاہر بدشکل ہیں ان کی ظاہری شکل و صورت کے برعکس ان کی داخلی صفات اور خوبیوں کا ان سب اراکین وفد کے سامنے ذکر فرمایا کہ حقیقت میں اصل خوب صورتی اور حسن ،رنگ ونسل کا نہیں بلکہ وہ اخلاق حمیدہ ہیں جن سے انسان متصف ہوتا ہے‘ اور حضرت عبداللہؓ الاشج میںجو دو خصلتیں اورخوبیاں(حلم اور وقار) ہیں یہی ان کی خوب صورتی اور حسن ہے۔اس طرح آپ ؐ نے ان کی صفات حمیدہ کا ذکر کر کے ان کے (inferiority complex)کو ختم کیا۔
۴- تمام اہل وفود کو انعامات و عطیات سے نوازا اور حضرت عبداللہؓ الاشج کو جو کہ وفد کے رئیس تھے سب سے زیادہ انعام دلایا۔(بخاری ‘ مسلم‘ طبقات ابن سعد۱/ ۳۱۵، رزقانی ، ۵/۱۳۳)
بعض دفعہ اہل وفد یا وفد کے کسی خاص فرد میں کوئی عیب ،برائی یا جاہلیت کا مظاہرہ دیکھتے تو حکمت اور نفسیات انسانی کالحاظ رکھتے ہوئے اس کی طرف اشارہ فرمادیتے تاکہ اہل وفد عموماً اور وہ فرد خصوصاً اس سے اجتناب کرے۔
وفد بلہجیم میں ابو جری جابر بن سلیم جو کہ وفد کے قائد تھے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ ایک قطری تہبند باندھے ہوئے تھے ۔اس کے کنارے قدموں تک تھے جس سے تکبروغرور ظاہرہوتا ہے۔انھوں نے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیں جو مجھے نفع دے تو آپ ؐ نے فرمایا: تم کسی کو گالی نہ دینا۔کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھنا گو اسی قدر ہو کہ تم اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی ڈال دو یا اپنے بھائی سے شگفتہ روئی سے بات چیت کرو۔اپنا تہبند (یا ازار) پنڈلیوں تک اونچا رکھو اور تہبند کو زیادہ نیچا لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اوراللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس ، باب ما جاء فی اسبال الازار، رقم حدیث ۳۵۶۲)
یہاں بھی آپ ؐ نے براہ راست اور آغاز گفتگو ہی میں مدعو کے تکبرانہ لباس پر تنقید نہیں کی بلکہ جب خود ہی مدعو نے نصیحت کا مطالبہ کیا ،جو اس کے لیے نفع بخش ہو تو آپؐ نے دیگر مواعظ کے علاوہ تہبند لٹکانے سے پرہیز کی نصیحت کی جس سے مدعو پر نفسیاتی اثرہوا۔
وفد جعفی کے دوافراد حاضر خدمت ہوئے اور اسلام قبول کیا۔آپ ؐ نے ان سے فرمایاکہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم دل نہیں کھاتے۔انھوں نے عرض کیا آپ ؐکی اطلاع درست ہے۔واقعی ہم دل نہیں کھاتے۔آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا اسلام دل کھانے سے مکمل ہو گا۔‘‘ پھر آپ ؐنے ان دونوں کے لیے دل منگوایا اور اسے بھونا پھر آپ ؐنے ان کو کھانے کے لیے دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ ان کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کر لینا چاہیے۔ (طبقات ابن سعد ‘۱/۳۶۴)
اہل وفد میں سے کوئی رکن عقلی توجیہ وتوضیح کرتا تو آپؐ اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے او ر اس کی تعریف فرماتے۔
وفد بنی قشیر بن کعب کے سردار قرۃ بن ہبیرہ حاضر خدمت ہوئے ایمان لائے اور پھر کہنے لگے: یا رسولؐ اللہ ہم نے زمانۂ جاہلیت میں اللہ کے سوا کچھ اورخدابنا رکھے تھے۔ان میں سے کچھ مذکر (بت)تھے اور کچھ مؤنث(مورتیاں)۔ہم ان کو پکارا کرتے تھے مگر وہ جواب نہ دیتے تھے ۔ہم ان سے سوال کرتے تھے مگر وہ ہمارا سوال پورا نہ کرتے تھے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تو ہم ان کو چھوڑ کر آپؐ کے پاس آئے اور آپؐ کی دعوت قبول کر لی۔ رسول اللہ ؐ ان کی بات سنتے رہے اور اس کو پسند فرمایا ۔پھر حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اپنے قبیلے کے ساتھ آئے اور ایک پست اونٹنی پر سوار تھے۔حضورؐ نے ان کو دیکھ لیا اور ان کو پکارا۔جب وہ قریب آئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا ،جب تم وفد کے ساتھ میرے پاس آئے تھے تو تم نے کیا کہاتھا؟انھوں نے اپنی مذکورہ بالا باتیں دہرائیں ۔جب جانے لگے تو آپ ؐنے فرمایا: ’’جس کو عقل دی گئی وہ کامیاب ہو گیا‘‘۔(ابن الاثیر ، اسد الغابۃ ، ۴/۴۰۲ بذیل قُرہ بن ھبیرۃ)
گویا اب بھی تم ان بتوں کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہو ۔تم نے عقل و شعور سے ان معبودانِ باطل کی تردید کی جو نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان ہی پہنچا سکتے ہیں۔ عقل و شعور بہت بڑی نعمت ہے اور جس نے اس سے کام لیا یقینا و ہ کامیاب و کامران ہوا۔اس طرح رسولؐ اللہ نے ایک تو مجمع عام میں صحابی محترمؓ کے کلمات دہرانے سے توحید کی اہمیت واضح فرما دی‘ اور پھر یہ بھی بتایا کہ نہ صرف ان کی شخصیت کو آپ ؐ اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ان کلمات اور باتوں کو بھی آپ ؐ جانتے ہیں جو انھوں نے آپؐ کے سامنے کی تھیں۔
بعض وفود میں سے کوئی رکن یا فرد حاضر خدمت ہوتا تو آپ ؐ سے سوال کرتا اور آپ ؐ فوراً اس کا جواب نہ دیتے بلکہ اسی سے اس کے سوال کا جواب طلب فرماتے تاکہ وہ اس کی خود ساختہ وضاحت کر دے جو اس کے ذہن میں ہے۔اس طرح اگر وہ جواب مزاج شریعت کے مطابق ہوتا تو آپؐ اس کی تصدیق فرما دیتے اور اس کی مزید تائید فرماتے۔اس طرح کے ناصحانہ طریقے سے دی جانے والی دعوت اتنی موثر ہوتی کہ اس کی نظیر نہیں۔مدعو جب اپنی فکر وآرا کی تصدیق پا لیتا ہے‘ یا اس کے اپنے ذہن و فکر کے زاویے کی توثیق ہوجاتی ہے تو اس کا دل خوشی و مسرت سے جھومنے لگتا ہے اور وہ مزید اشتیاق و استقامت سے راہ مستقیم پرچلنا شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ ان دعوتی وفود کی آمد اور آپؐ سے ان کے مکالمات کا اس نقطہء نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپؐنے اس نفسیاتی اسلوب کے مطابق دعوت دی ۔اس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔
بنی طے کے رئیس‘زیدا لخیل حاضر خدمت ہوئے ،اسلام قبول کیا اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! نودن کی دشوار گذار مسافت طے کر کے آیا ہوں ۔صرف دو باتیں دریافت کرنا ہیں۔آپؐ نے فرمایا:جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو؟
انھوںنے عرض کیا،جو شخص اللہ تعالیٰ کو چاہتا ہے اس کی کیا علامت ہے او ر جو اللہ کو نہیں چاہتا اس کی کیا علامت ہے(بروایت دیگر جسے اللہ چاہتا ہے او رجسے نہیں چاہتا اس کی کیا علامت ہے؟)حضورؐ نے فرمایا: ’’تم زندگی کے شب وروز کیسے گزارتے تھے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’میں نیکی اور نیکی کرنے والوں اور اس پرعمل کرنے والوں کو پسند کرتا تھا۔اگر میں اس پر عمل کرتا تھا تو اس سے طمانیت ہوتی تھی اور جب یہ عمل چھوٹ جاتا تھا تو غمگین ہو جاتاتھا۔‘‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کو چاہتا ہے اور جو نہیںچاہتا اس کی یہی علامت ہے‘‘۔(سبل الھدیٰ والرشاد ،۶/۳۵۸ وابو نعیم ، الحلیۃ الاولیاء، ۴/۱۰۹، الھیثمی ، مجمع الزوائد ، ۷/۱۹۷)
جب وہ اس بات سے مطمئن ہوئے تو آپؐ سے رخصت لی۔آپؐ نے ان کو بارہ اوقیہ چاندی اور عمدہ خوشبو عنایت فرمائی اور ان کے بارے میں فرمایا: ’’عرب کے جس شخص کی بھی فضیلت بیان کی گئی پھر و ہ میرے پاس آیا تو جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا تھا، میں نے اسے اس سے کم تر پایا سوائے زید کے۔(ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ۔ ۱/۳۲۱)
رسولؐ اللہ کی ساری سیرت اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ نے د عوت و تبلیغ میں بھی ہمیشہ مدارج کا لحاظ رکھاہے۔مخلص اور منافق،متقی اور غیر متقی کے ساتھ آپ ؐ ایک طرح کا سلوک نہیں کرتے تھے‘نہ ا س کو پسند کرتے تھے۔یہ وفود قبائل کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے لیے آتے تھے مگر ان کے ساتھ سلوک ان کے مدارج اور خلوص کے اعتبار سے ہوتا تھا۔
حضر موت سے حضرت وائلؓ بن حجر کی قیادت میں ایک وفد بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا۔ حضرت وائل ؓبن حجر اپنے علاقے کے سر برآوردہ رئیسوں میں شمار ہوتے تھے۔ان کے وُرودِمدینہ سے پہلے ہی حضورؐ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’وائل بن حجر نے‘ جو ملوک حضر موت کی یاد گار ہیں ‘ اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لی ہے اور وہ دور دراز کی مسافت طے کر کے مدینہ آرہے ہیں۔
جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو حضورؐ نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا او ر اپنی رداے مبارک ان کے لیے بچھا دی ۔جب وہ ذوق وشوق سے اسلام قبول کر چکے تو اس موقع پر آپؐ نے اپنا دست ِاقدس ان کے چہرے پر پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔الٰہی وائل ،ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد پر برکت نازل فرما اور ان کو حضرموت کے سرداروں کا حاکم بنا۔ (تفصیل کے لیے: سبل الھدیٰ والرشاد ۶/۴۳۱)
آپؐ کی خدمت میں قبیلہ تجیب کے ۱۳ آدمی حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ اپنے مویشی اور اموال میں سے صدقات جو ان پر فرض تھے وہ خود لے کر آئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! ہمارے اموال میں جو اللہ کا حق تھا وہ ہم آپ ؐ کے پاس لے آئے ہیں۔حضورؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایاکہ اس کو واپس لے جاؤ او راپنے ہی یہاں کے فقرا پر تقسیم کرو۔انھوں نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم آپؐ کے پاس وہی مال لائے ہیں جو وہاں کے فقراء پر تقسیم کرنے کے بعد بچا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے جب ان کا یہ جواب سنا تو فرمایا کہ یا رسولؐ اللہ! عرب کا کوئی وفد ایسا نہیں آیا جیسا اس قبیلہ تجیب کا وفد۔ حضورؐ نے فر مایا: ہدایت خدا کے اختیا ر میں ہے جس کے لیے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے قلب میں ایمان کے لیے انشراح پیدا کر دیتا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے رسولؐ اللہ سے کچھ باتیں پوچھیں جو حضورؐ نے ان کے لیے لکھ دیں۔ اس کے بعد پھر انھوں نے قرآن اور سنت کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اس سے اور بھی ان کے ساتھ رسولؐ اللہ کو رغبت پیدا ہوئی اور آپؐ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ ان کی ضیافت بہت اچھی طرح کریں۔ حضرت بلال ؓ نے رسولؐ اللہ کے حکم سے ان کو بدلہ اور زاد ِراہ اس سے زیادہ دیا جتنا عموماً وفود کو دیا کرتے تھے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد، ۴/۲۱۵ ، ابن سعد ۱/۳۲۳)
اخلاق ایک طاقت ہے بلکہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ اچھا سلوک دشمن کو دوست بنا سکتا ہے۔ایک میٹھا بول ایک سرکش آدمی سے اس کی سرکشی چھین سکتا ہے۔ایک ہمدردانہ برتاؤ ایک ایسے جھگڑے کو ختم کر سکتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے لاٹھی او رگولی کی طاقت ناکام ہو چکی ہو۔یہی وہ بات ہے جس کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴)
اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
وفود کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز نے ان کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آپؐ کا حسن سلوک اور اخلاق حسنہ تھا ۔جو بھی آپؐ کے قریب رہتا آپؐ سے محبت کرنے لگتا ۔حلم ووقار ،رافت و رحمت‘ برداشت وسچائی،حسنِ سلوک آپ ؐ کے اندر کا مل درجے میں پایا جاتا تھا ۔آپؐ انسانی بلندی کی اعلیٰ ترین مثال تھے جسے نفسیات کی اصطلاح میں متوازن شخصیت (balanced personality)کہا جاتا ہے۔
۱- بعض وفود خصوصاً آپؐ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایمان لے آئے۔حالانکہ وہ صلح وامن امان کے لیے آپؐ کے پاس حاضر ہوئے تھے ۔انھی میں سے ایک وفد قبیلۂ اشجع کا تھا جو ۵ھ میں بارگاہِ رسالتؐ میںآیا۔
ایک سو یا اس سے زیادہ آدمیوں پر مشتمل یہ وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپؐ کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے اس بات کا انتظار نہ فرمایا کہ وہ خود بارگارہ نبویؐ میں حاضرہوں بلکہ آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے۔ خیرو عافیت پوچھی اور بڑی دیر تک کمال اخلاق اور محبت کے ساتھ ان سے گفتگو فرماتے رہے ،پھر صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ اپنے مہمانوں کی کھجوروں سے تواضع کر و ۔وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے انہیں بڑی نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے جواب دیا ۔محمدؐ! ہم اسلام قبول کرنے کے لیے نہیں آئے ۔ہماری آمد کی غرض و غایت یہ ہے کہ آپؐ سے امن اور صلح کا معاہدہ کریں کیونکہ آپؐ کی اور آپؐ کی قوم کی آئے دن کی لڑائیوں نے ہمیں سخت پریشان کر رکھا ہے۔
رحمت عالمؐ نے خندہ پیشانی سے فرمایا:’’جو تم کہتے ہو وہ ہمیں منظور ہے ‘‘ چنانچہ امن کا ایک معاہد ہ لکھا گیا ۔ جس کو فریقین نے منظور کر لیا ۔اس دوران میں اہل وفد حضورؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ معاہدہ صلح معرض ِتحریرمیں آنے کے معاًبعدوہ سب پکار اٹھے:
اے محمد ؐ!’’آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپؐ کا دین برحق ہے‘‘ ۔(ابن سعد۱/۳۰۶، بلاذری، انساب الاشراف ۱/۵۳۱، سبل الھدیٰ والرشاد ۶/۲۷۳)
آپ کے حسن معاملہ اور اخلاق عالیہ نے انھیں تسخیر کر لیااور سب کے سب دولتِ اسلام سے بہرہ یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹے اور پیغام بر ہو گئے۔
بنی سعد بن بکر کی طرف سے حضرت ضمامؓ بن ثعلبہ آپؐکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔وہ اپنے قبیلے کے سربراہ اور نہایت دانا آدمیوں میں شمارہوتے تھے ۔اس لیے دربار رسالت میں اہل قبیلہ نے اپنی وکالت کے لیے صرف انھیں ہی بھیجنا کافی سمجھا۔وہ بدوی سادگی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور اپنی ناقہ کی مہار تھامے بلا تکلف مسجد بنویؐ میں داخل ہوگئے۔حضورؐ اس وقت صحابہ کرام ؓ کے حلقے میں تشریف فرماتھے۔حضرت ضمامؓ نے اونٹنی کو ایک کونے میں بٹھایا اور مجلس کے سامنے کھڑے ہوکر سلام کلا م کے بغیر یوں گویا ہوئے: تم میں سے کون ابن عبدالمطلب ہے (ایکم ابن عبدالمطلب )آپؐ نے فرمایا: میں ابن عبدالمطلب ہوں ۔حضرت ضمام ؓنے کہا: اے ابن عبدالمطلب آپؐ کا داعی ہمارے پاس آیا تھا۔اس نے چند باتیں آپؐ کی طرف سے ہمیں بتائی ہیں۔میں ان کی آپؐ سے تصدیق کرنا چاہتا ہوں ۔میرا لہجہ سخت اور درشت ہے۔میں سختی سے بات کروں گا۔آپؐمیرے لہجے کی درشتی سے دل میں غبار نہ لائیے گا۔ حضور ؐ نے فرمایا: تم جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو بلا تکلف پوچھو۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں اور حضورؐ نہایت ہی اطمینان سے ان کے ہر سوال کا جواب مرحمت فرماتے ہیں حالانکہ پورے مکالمے میں سائل کا لہجہ درشت رہتا ہے۔تعلیم وتحمل کا یہ طریقہ اس طرح کاریگر ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:
اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو صادق نبی بنایا،میں آپؐ کی بتائی ہوئی باتوں میں کمی بیشی نہ کروں گا۔ میں آپؐ کا دین قبول کر چکا ہوں ،میں اپنی قوم کا قاصد ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔(بخاری)
آپ کے حسن اخلاق‘ حسن معاملہ اور قبائل عرب کے ساتھ حکمت بھری دعوت کا فوری اثر یہ ہوا کہ اسلام کی دعوت پورے جزیرہ نماے عرب کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ جب یہ وفود تعلیم نبویؐ اور تربیت نبویؐ سے مزین ہو کر اپنے اپنے علاقے اورقبیلے میں واپس جاتے تو اسوئہ نبویؐ کے مطابق ہی دعوت دیتے۔ اپنے اہل خانہ ‘ بچوں اور پھر پورے قبیلے کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے۔
ان دعوتی و تبلیغی وفود کے مطالعے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کا تعلق صورت حال سے بھی گہرا ہوتا ہے۔ وقت‘ حالات اور مخاطب کے رجحانات و میلانات کو بھی مدنظر رکھنا کس قدر ضروری ہے تاکہ اس اصل فریضہ کی ادایگی موثر طریقے سے کی جا سکے؟ اور مخاطب کے احوال و حالات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ہمدردی و تعاون‘ اور اُس کی ضروریات کا لحاظ رکھنا بھی کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ بلاشبہہ وفود عرب کے ساتھ آپؐ کا طریقۂ دعوت جہاں ہمارے لیے دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں اسوہ حسنہ ہے وہاں اس سے تنظیم دعوت ‘ حکمت دعوت کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے۔
a