یہ نومبر ۱۹۷۵ء کا واقعہ ہے۔ میرے ایک مہربان دوست پنجاب سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میں اُن سے ملاقات کے لیے اپنے ایک عزیز دوست کے گھر گیا۔ اثناے گفتگو میں مہمان دوست نے مخصوص رازدارانہ لہجے میں ہم دونوں سے کہا:’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ مولانا مودودی نے ابھی حال ہی میں اپنی بیٹی کی شادی میں دولہا کو ۸۰ ہزار روپے کا چیک دیا تھا‘‘۔ مجھے اس پر تردّد ہوا کہ ایک تو شادی کے موقع پر کسی تقریب میں اس طرح کوئی معقول آدمی چیک یا رقم نہیں دیا کرتا‘ دوسرے یہ کہ مولانا مودودیؒ کے ذوق سے تو یہ بہت ہی بعید بات ہے۔
میں نے اُن سے عرض کیا: ’’اول تو شادی کے موقع پر اس طرح چیک دینے کی کوئی رسم نہیں ہوتی اور وہ بھی ۸۰ ہزار روپے کا چیک‘ اور نہ مولانا مودودی کی مالی حالت ہی ایسی ہے کہ شادی کے اخراجات کے علاوہ اتنی بڑی رقم کا کوئی چیک دیں (واضح رہے کہ آج سے ۲۸ سال قبل یہ واقعی بہت بڑی رقم تھی) ‘‘۔اُن صاحبِ کشف و اسرار نے فرمایا :’’مولانا کی مالی حالت پہلے ضرور کمزور تھی لیکن اب بہت بہتر ہوگئی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا کہ کیا انھوں نے اس روایت کی تحقیق کرلی ہے؟ فرمانے لگے :’’راوی خود اس محفل میں شریک تھا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں‘ جو لوگ شادی کی محفل میں شریک تھے اُن سب کے علم میں ہے کیونکہ یہ چیک سب کے سامنے دیا گیا تھا‘‘۔
چند روز قبل ایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر ۸۰ ہزار روپے کا چیک پیش فرمایا تھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ کی مالی حالت ایسی نہیں کہ آپ شادی کے دوسرے اخراجات کے علاوہ اتنی بڑی رقم کا چیک بھی پیش فرمائیں‘ لیکن وہ صاحب اپنی بات پر مصر تھے‘ بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو حضرات شادی میں شریک تھے اُن سب کو اس بات کا پتا ہے کیونکہ چیک علی الاعلان پیش کیا گیا تھا۔ براہِ کرم آپ مجھے واپسی ڈاک مطلع فرمائیں کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوا اور ظاہر ہے کہ نہیں ہوا ہوگا (حالانکہ اس کا ہونا کوئی غیرشرعی بات نہیں) تو میں اُن صاحب کو بتا سکوں تاکہ ایک غلط بات وہ آگے دوسروں کو نہ کہہ سکیں۔
اس سلسلے میں ملک غلام علی صاحب یا کسی اور کے ذریعے نہیں‘ بلکہ آپ خود ہی دو سطریں تحریر فرما کر وضاحت فرمائیں تو ازحد ممنون ہوں گا۔ والسلام!
اچھرہ‘ لاہور
۴ دسمبر ۱۹۷۵ء
عنایت نامہ مورخہ ۲۹ نومبر ملا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ مجھ پر اتنے مہربان ہیں کہ میرے اوپر بہتان لگا لگا کر اپنے سارے نماز‘ روزے اور نیک اعمال آخرت میں میری طرف منتقل کرا دینا چاہتے ہیں۔
جن صاحب کا یہ قول ہے اُن سے پوچھیے کہ میری تین لڑکیوں کی شادیاں چند سال کے وقفوں سے ہوئی ہیں‘ اُن میں سے کس کو ۸۰ ہزار روپے کا چیک میں نے دیا تھا؟ ہر ایک شادی کے موقع پر جو لوگ مدعو تھے اُن کی فہرست میں آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ خود سب کو خطوط لکھ کر پوچھ لیجیے کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط۔ خطوط پر جو کچھ صَرف ہوگا وہ میں ادا کروں گا۔
۱- اُن صاحب کا نام کیا ہے جنھوں نے آپ سے یہ بات کہی؟
۲- اگر آپ راوی کا نام نہیں بتانا چاہتے تو اتنا تو بتا دیں کہ کیا آپ کے نزدیک راوی ثقہ ہے اور خود شادی میں شریک تھا؟
۳- مولانا مودودیؒ کی کون سی بیٹی کی شادی میں یہ چیک دیا گیا کیونکہ اُن کی تین بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ اگر اُن صاحب کو یہ یاد نہ ہو تو کم از کم اتنا تو معلوم کر کے بتا دیں کہ یہ شادی کس سنہ/ ماہ میں ہوئی تھی۔
۱۳ دسمبر ۱۹۷۵ء کو ہمارے مہربان دوست کا جواب آیا جس میں انھوں نے تحریر فرمایا: ’’یہ روایت پروفیسر محمد یوسف سلیم چشتی کی ہے اور یہ اُن کے الفاظ تھے: ’’مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا ہے جو خود مجلس نکاح میں شریک تھا‘‘۔ مولانا کی ایک صاحبزادی کا نکاح ابھی غالباً ایک ماہ ہونے کو آیا ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے لڑکے سے ہوا ہے اور یہ معاملہ اُسی سے متعلق ہے۔ چشتی صاحب اب کراچی جاچکے ہیں لہٰذا تحقیق مزید فی الوقت میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہفتے عشرے بعد کراچی آنا ہوگا تو اُن سے دریافت حال کرلیں گے--- یا اس سے قبل اگر آپ چاہیں تو اُن کی ہمشیرہ کے پتے پر چشتی صاحب سے مل لیں‘‘۔
میں چشتی صاحب سے خود کیوں ملتا۔ محترم و مہربان دوست کا انتظار کیا۔ جب وہ کراچی تشریف لائے تو خاموشی سے اُن کے آگے مولانا مودودی صاحب کا جواب رکھ دیا۔ جس کو پڑھ کر اُن کے تو جیسے ہوش اُڑ گئے‘ پھر کہنے لگے: ’’چلو ابھی پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب سے جاکر ملتے ہیں‘‘۔ اُن کی ہمشیرہ کے گھر پہنچے تو پتا چلا کہ موصوف چند ہی روز قبل لاہور واپس جاچکے ہیں۔ پھر ہمارے محترم دوست بھی واپس لاہور چلے گئے۔ وہاں سے اس موضوع پر پھر کچھ نہ لکھا کہ چشتی صاحب سے کیا بات ہوئی۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب ‘جو اب مرحوم ہوچکے ہیں نہ جانے کتنی ہی روایتیں اُن کی طرف منقول ہیں۔ ’’مستند‘‘راوی مانے جاتے ہیں اور بہت سی تحریر شدہ ہیں۔ اب کوئی بتائے کہ ان کی روایتوں پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
مولانا محترم اپنا یہ خط ستمبر ۱۹۷۷ء میں تحریر فرماتے ہیں اور ٹھیک دو سال کے بعد‘ یعنی ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء میں دُنیاے فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف انتقال فرما جاتے ہیں۔ اب ملاحظہ فرمایئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا گرامی نامہ مرقومہ ۶ستمبر ۱۹۷۷ئ:
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میرے متعلق آپ جانتے ہیں کہ ۱۹۶۸ء سے مسلسل انحطاط نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ کوئی کام اپنی ذمہ داری پر ہاتھ میں لے کر چلا سکوں۔ آپریشن کے بعد مجھے ایک دن بھی آرام لینے کا موقع نہیں ملا۔ ۶۹ء اور ۷۰ء میں شدید محنت نے میری قوت کو گھن لگا دیا ہے۔ ۷۱ء میں وجع المفاصل اور ۷۲ء میں وجع الفواد کے سخت حملے ہوئے اور آخرکار مجھے وہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اب اس نظام اور تحریک کو چلانا میرے بس میں نہیں ہے۔ اس وقت سے صحت کا بگاڑ پیہم بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس حالت میں اصلاح احوال محض میرے کچھ لکھ دینے اور کہہ دینے سے نہیں ہو سکتی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ جو کام نیک نیتی کے ساتھ خدا کے دین کی برتری کے لیے شروع کیا گیا تھا‘ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو سیدھے راستے پر قائم کردے اور جو لوگ جماعت کوچلانے والے ہیں ان کی رہنمائی فرمائے۔ میری زندگی اب آخری مراحل میں ہے۔ بہت جیا تو سال دو سال اور جی لوں گا۔ آگے کام تو انھی لوگوں کو کرنا ہے…
میں نے اپنے بچپن میں کئی بار مولانا مودودیؒ کو دیکھا تھا۔ جب کبھی مولانا کراچی آتے تھے تو میرے والد شیخ محمد حسین صاحب کو طلب فرماکر انھیںہدایت فرماتے کہ محمدمیاں کو کل میرے پاس بھیج دیں۔ محمد میاں حلقہ گلبہار میں رہایش پذیر تھے اور مولانا جب بھی کراچی تشریف لاتے تو محمدمیاں ہی مولانا کے بال تراشنے اور خط بنانے کے لیے جاتے تھے۔
کراچی میں راقم کو کئی مرتبہ ان کے پانوں کی حفاظت کا شرف حاصل ہوا‘ جو حکیم محمد یوسف صاحب اپنے گھر سے کافی تعداد میں لگوا کر لاتے تھے۔
۷ جولائی ۱۹۷۴ء کی یہ ایک سہانی شام تھی جب میں مولانا کی رہایش گاہ پر عصری نشست میں موجود تھا۔ میں مولانا کی کرسی کے پائے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور مولانا کو سلام کیا۔ مولانا نے جواب دیا تو میں نے کہا: ’’حسین صاحب نے سلام کہا ہے‘‘ تو فوراً کہنے لگے: ’’گولیمار والے‘‘۔ میں نے کہا:’’جی ہاں‘ میں انھی کا فرزند ہوں‘‘۔ تو کہنے لگے: ’’بھئی جماعت میں ایک ہی توحسین ہے انھیں میرا سلام کہیے گا‘‘۔ یادداشت غضب کی تھی۔ میرے خیال میں مولانا‘ جماعت کے اکثر ارکان کو نام کے ساتھ پہچانتے تھے۔ اس کے بعد میں نے مولانا سے استفسار کیا:’’مولانا‘ خواب اور خواب کی تعبیر کی کیا حقیقت ہے؟ کیا خواب کی تعبیرمعلوم کرنا جائز ہے؟ اور معلوم کی جائے تو کس سے؟‘‘ مولانا نے جواب دیا:’’خواب کی تعبیر معلوم کرنا جائز ہے اور جو اس علم میں ماہر ہو اس سے تعبیر معلوم کرنا چاہیے‘‘۔ اس پر میں نے مولانا سے پوچھا :’’کیا آپ بھی یہ علم جانتے ہیں؟‘‘تو مولانا نے جواب دیا:’’نہیں‘ میں یہ علم نہیں جانتا‘‘۔ پھر میں نے مولانا سے کہا :’’ آپ اپنے خوابوں کے بارے میں بھی تو کچھ بتائیں‘‘ اس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ مولانا خود بھی مسکرا دیے اور فرمانے لگے:’’مجھے خواب نظر تو آتے ہیں مگر دھندلے ہوتے ہیں اور جو کچھ نظرآتا ہے صبح اٹھ کر بھول جاتا ہوں‘‘۔
اسی طرح کراچی میں جلسوں اور استقبالیوں کے مواقع پر مولانا سے کئی دفعہ ہاتھ ملانے کا موقع ملا۔ ان کا ہاتھ ملانے کا انداز اتنا مشفقانہ اور گرم جوش ہوتا تھا کہ میںآج تک اس گرم جوشی کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ ہاتھ ملاتے وقت نہ تو بیزاری کا اظہار کہ صرف مَس کرکے چھوڑ دیا اور نہ سختی کا اظہار کہ تکلیف پہنچے۔
مولانا سے ملنے کے بعد ایک فرحت کا احساس ہوتا ہے‘ جیسے آپ کسی خوشنما و معطر باغ میں داخل ہوگئے ہوں‘ جیسے ٹھنڈی ہوا کا معطر جھونکا! اللہ کا کتنا بڑاانعام ہے ان کی شخصیت! کوئی متعصب اور حاسد خواہ اس کو تسلیم نہ کرے‘ مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ نے مولانا کی شکل میں اُمت کو ایسا بطل جلیل عطا کیا کہ جس نے واقعی افکار کی دنیا میں انقلاب بپا کردیا۔
مولانا کا یہی عزم و ارادہ ہے جو ان کی تحریروں سے جماعت کی تشکیل اور اس کے پروگرام سے ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے مشن کے لیے چومکھی نہیں بلکہ شش پہلو جنگ لڑی۔ ایک طرف صاحب ِ اقتدار گروہ تھا تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام‘ تیسری طرف انھیں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ چوتھی طرف مذہبی پیشوائوں کا ایک طبقہ تھا جس کو مولانا کی تحریک کے نتیجے میں اپنا مذہبی اقتدار اور اجارہ داری ڈانواں ڈول ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ پانچویں طرف مستشرقین کا طبقہ تھا کہ جس نے اسلام‘ قرآن اور صاحب ِ قرآن کے بارے میں بڑی دشنام طرازیاں کی تھیں اور جن کا ابطال ضروری تھا۔ مولانا نے اس طبقے سے متاثرہ افراد کے افکار میں بھی زلزلہ پیدا کیا۔ چھٹا محاذ ایک جماعت کا قیام‘ صالح افراد کی تلاش اور ان کو اپنا ہم نوا بنانا‘ ان کی اصلاح کی انفرادی خواہشوں اور کوششوں کو مربوط و منظم کرنا اور ان بکھرے دانوں کو ایک تسبیح میں پرونا‘ تاکہ دنیا کے سامنے ایک صالح گروہ اور متبادل قیادت کو پیش کیا جاسکے۔ یوں مولانا مودودیؒ نے ایک شش پہلو معرکہ سر کیا۔ یقینا مولانا نے جو کام تن تنہا انجام دیا وہ کئی اداروں کے کرنے کا کام تھا۔
مولانا کا طرزِ تحریر سہل اور عام فہم ہے۔ وہ اپنی تحریروں اور کتابوں میں زندہ ہیں۔ زندگی میں جس طرح محبت اور گرم جوشی سے مصافحہ کر کے وہ کسی کو اپنا بنالیاکرتے تھے‘ بالکل اسی طرح آج بھی وہ اپنی تحریروں کے ذریعے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں‘ اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قاری چہار جانب سے ان کے دائرہ دعوت میں کھنچا چلاآتا ہے۔ دورانِ مطالعہ قاری نکل بھاگنے کے لیے اگر کوئی دلیل لاتا ہے تو اگلے ہی پیراگراف یا اگلے ہی صفحے میں اس کا جواب دے کر قاری کو پھر اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور پھر ذہن اس اُمتی کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا جاتا ہے : ’’دیکھو‘ اس شخص سے نہ ملنا‘ اس کی کوئی بات نہ سننا‘ کانوں میں روئی ٹھونس لینا کیونکہ اس کے پاس جو جاتا ہے یہ اس کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے فکر و عمل سے نہ صرف معاشرے‘ میں موجود جمود کو توڑا‘ بلکہ اسے ایک مثبت حرکت پذیری کے عمل میں تبدیل کر دیا۔ آج علم و ادب کا ہر شیدائی نہ صرف ان کی اصطلاحات سے واقف ہے‘ بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے تسلیم بھی کرتا ہے‘ جو صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں بلکہ انسانیت کے دین کے طور پر سامنے آئے‘ یہ مولانا مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ انھوں نے دین کو ایک تحریک میں بدل دیا۔
لیکن اُن کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے نوجوانوں میں اجتماعیت کااحساس پیدا کیا‘ جو آخر کار اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام پر منتج ہوا۔ اس تنظیم نے اپنی دعوت‘ اپنی تنظیم اور اپنی تربیت کے حوالے سے ایک ہمہ جہت پروگرام ترتیب دیا۔ اس کام کے اثرات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برابر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بلامبالغہ آج جہاں جہاں بھی دین کے حوالے سے کوئی منظم کام ہو رہا ہے‘ اس کی پشت پر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کا جذبہ اور وژن کام کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ علم‘ دلیل اور حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے‘ لیکن اس سے کام لینے کا درس مولانا مودودی نے ہی اس دور میں دیا اور نوجوانوں نے اسے وظیفہ زندگی بنا لیا۔ یہ نوجوان عملی زندگی میں داخل ہوئے تو ان میں سے کئی ایک نمک کی کان میں نمک بن گئے‘ لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں ‘جنھوں نے اپنی شناخت اور پہچان کو گم نہ ہونے دیا۔ جنھوں نے مقصد زندگی سے تعلق کو قائم رکھا۔ یہ علم کے حصول میں ایک سے دوسری جگہ پہنچے یا تلاش معاش نے انھیں آمادہ سفر کیا‘ ہر حال میں انھوں نے اپنا رنگ برقرار رکھا اور اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔
آج کوئی چاہے تو اپنے تعصب کے باعث اسلام کو کوئی بھی برا نام دے ڈالے‘ لیکن مولانا مودودیؒ کی طرف سے دی جانے والی علم‘ دلیل اور حکمت کی روشنی اپنا راستہ خود بنا رہی ہے۔ مجھے کچھ عرصہ امریکہ اورکینیا میں رہنے کا اتفاق ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں دین کی دعوت پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒ سے اختلاف رکھنے والوں نے بھی دینیات کو دعوت کے ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ سمجھا اور اسے اپنایا۔ میں ایک مرتبہ مشی گن کے ایک نواحی علاقے میں گیا‘ جو اپنے جرائم کے حوالے سے کبھی بہت مشہو رتھا‘ لیکن اب وہاں کے کالوں کی اکثریت مسلمان ہو چکی ہے۔ وہ جگہ جہاں دن کے اجالے میں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا‘ اب وہاں رات کو بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہاں کی مسجد میں ایک نیگرو نوجوان نے جو امام تھا‘ مولانا مرحوم کی کتاب Towards Understanding Islam (دینیات) کو ہاتھ میں لہراتے ہوئے کہا : ’’اس کتاب نے یہاں کے مکینوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا ہے‘‘۔
یوں مولانا مودودیؒ کو نوجوان سفارت کار ملے‘ جنھوں نے دنیا کے کونے کونے تک اسے پہنچایا اور یہ وہی نوجوان تھے جن کی تربیت خود مولانامرحوم کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔