سید محمد علی ایازی


برعظیم کے عظیم مصلحین میں سے ایک علامہ ابوالاعلیٰ مودودی ؒہیں۔ آپ نے اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی‘ جو عمرانی اور تربیتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ خوش قسمتی سے آپ کی تفسیر اور دیگر تالیفات کا قابلِ ذکر حصہ دوسری زبانوں کے علاوہ عربی‘ فارسی‘ ترکی بنگالی‘ ہندی‘ پشتو‘ جرمنی اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

علامہ مودودیؒ محض پاکستان سے ہی تعلق نہیں رکھتے‘ بلکہ آپ کا تعلق پورے عالمِ اسلام سے ہے۔ آپ کے افکار و آثار ‘یعنی تصنیفات و تالیفات‘ دنیاے اسلام میں دستیاب ہیں۔ جونہی آپ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور استعمار اور ہوسِ اقتدار میں مبتلا طبقے پر کھل کر تنقید کی‘ تو آپ کی آواز پوری دنیا میں ہر جگہ پہنچی اور رفتہ رفتہ آپ کی کتابوں کامختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ایران اور فارسی جاننے والے ممالک میں آپ کی تالیفات فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں‘ جن سے شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر نے استفادہ کیا۔

سید ابوالحسن علی ندویؒ ایک بڑے عالم دین اور علامہ مودودی ؒکے ہم عصر ہیں۔ وہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں نے اسلامی تہذیب کے اس دور میں آپ جیسا کوئی اور شخص نہیں دیکھا جس نے فکر و خیال پر اتنے زیادہ اثرات چھوڑے ہوں‘‘۔

علامہ مودودیؒ کی شخصیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کے ایک اہم موڑ پر قرآن مجید کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔ آپ ان مصلحین میں سے تھے جنھوں نے برعظیم میں قرآن کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ آپ سے پہلے سید جمال الدینؒ اسد آبادی (۱۲۵۴ھ - ۱۳۱۴ھ) اور شیخ محمد عبدہؒ (۱۲۶۶ھ - ۱۳۲۴ھ) مشرقِ وسطیٰ میں دعوت دے چکے تھے۔ رجوع الی القرآن کا یہ نظریہ اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن مجید کئی برسوں سے‘ عوام کی زندگی سے بہت دور‘ الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ قرآن مسلمانوں کی نظر میں محض ایک مقدس کتاب تھی‘ وہ اس کا احترام کرتے تھے۔ اسے چومتے تھے‘ خوشی و غمی کے موقعے پر اس کی تلاوت کرلیتے تھے اور مُردوں کی روحوں کو خوش کرنے کے لیے قرآن پڑھا لیتے تھے۔ مگر زندگی کی سرگرمیوں میں اسے دستورالعمل بنالینے کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔

علامہ مودودیؒ نے قرآن کی طرف رجوع کرنے کی جو دعوت دی ہے‘ وہ دراصل قرآن کی عزت و احترام کی طرف حقیقی معنوں میں لوٹنے کی دعوت ہے۔ یہ مسلمانوں کی فکری پس ماندگی کے خاتمے اور تہذیبی زوال کی تلافی کی دعوت ہے۔ قرآن کی طرف پلٹنا ایک ایسی کتاب کی طرف پلٹنا ہے جو تنہا سند حجت ہے‘ قطعی اور متواتر ہے‘ تحریف سے پاک ہے اور تمام مسلمانوں میں یکساں مقبول و محترم ہے۔ اس کتاب سے جہاں بانی و جہاں بینی کے اصول و عقائد اور احکام و اقدار حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے غلو آمیز خرافاتی عقائد کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس پر سبھی مسلمانوں کا ایمان و اتفاق ہے۔ اس لیے یہ اتحاد اور مسلمانوں کی عمرانی او ر سیاسی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اس کتاب سے تعلیم میں انقلاب اور سماجی ترقی وجود میں آ سکتی ہے۔

علامہ مودودی ؒ نے قرآن کے اصل پیغام کو پہچان کر جو ذہنی رفعت حاصل کی ہے‘ آپ اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ… علم کی جڑ      اب ہاتھ آئی ہے… دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظرآتے ہیں… کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے… اور پھر بھی حل نہ کر سکے۔ ان کو اس کتاب ]قرآن کریم[ نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کر کے رکھ دیا ہے‘ حیوان سے انسان بنا دیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی‘ اور ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کنجی کو master key (شاہِ کلید) کہتے ہیں‘ جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو‘ میرے لیے یہ قرآن ’شاہِ کلید‘ ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔(تفہیم القرآن فارسی‘ ج۱‘ ص ۲‘ ترجمہ: کلیم اللہ )

علامہ مودودی ؒسے پہلے علامہ اقبال ؒنے برعظیم میں رجوع الی القرآن کی دعوت دی تھی۔ انھوں نے اپنی کتاب اسرارِ خودی اور دیگر کتابوں اور اپنے اشعار میں قرآن کی طرف رجوع کے لیے کہا تھا‘ کہ اس سے مسلمان اپنے آپ کو پالیں گے اور غیروں کی تہذیب اپنانے کی ذلت سے بچ جائیں گے۔ دنیا پر مغربی اقوام کے تسلط سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلم نوجوان تہذیب مغرب کی چکا چوند سے فریب کھا کر حوصلہ نہ ہار بیٹھیں اور اسلام کی برتری و حقانیت سے ان کا اعتماد نہ اٹھ جائے۔ اسی لیے علامہ اقبال ؒنے انھیں بروقت خبردار کیا اور قرآن کی طرف بلایا۔

علامہ مودودی ؒنے ویسے تو کئی مقالات شائع کیے‘ مگر قرآن کی طرف واپسی کے جلیل مقصد کے لیے آپ نے اپنے رسالے ترجمان القرآن میں تسلسل سے لکھا‘ تاکہ عہدِ حاضر کی زبان میں معاشرے کو قرآنی فکر سے متعارف کروائیں۔ آپ نے ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے ایک پارٹی قائم کی اور اس کے ارکان کی ذہنی و فکری پرورش و تربیت قرآنی فکر سے کی۔

آپ نے اپنی تفسیر میں اس نکتے کو انتہائی سادگی اور اختصار سے بیان کیا ہے کہ نزولِ قرآن کا مقصد کیا ہے؟ قرآن کا کیا دستورالعمل ہے؟ قرآن جس انسان کا تعارف کرواتا ہے‘ وہ کس قسم کا انسان ہے؟ اور قرآن ایک نظام اور معاشرے کی تشکیل کے لیے کس قسم کا منصوبہ پیش کرتا ہے؟ علامہ کی تفسیر تفہیم القرآنکے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ اگرچہ اس کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ اور باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری اور ازبس مفید ہے۔ بہرحال یہاں اختصار کے ساتھ اس تفسیر کی چند خصوصیات اور نکات بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:

۱-  تفہیم القرآن عوام کی رہنمائی و آگاہی کے لیے سادہ زبان میں لکھی گئی ہے۔ ترجمہ و تشریح سے اس کا مقصد‘ متخصصین اور اہلِ فن کے ذوق کا سامان فراہم کرنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تفسیر میں اکیڈمک طرز کی بحث و تحقیق‘ ادبی نکتہ آفرینیوں یا اعجاز بلاغت کے نکتے پیش کرنے سے احتراز کیا گیا ہے۔ علامہ مودودی چاہتے ہیں کہ قارئین تک قرآن کا پیغام پہنچائیں اور اس پیغام سے واقف ہونے کا اثر ان کی زندگی اور طرزِ عمل پر پڑے۔ ان کا مقصدِ زندگی اور حیاتِ عمرانی کا منشا بدل جائے۔

۲- اس تفسیر کی ایک خصوصیت اس کا ’عصری‘ ہونا ہے۔ ’تفسیر عصری‘ سے مراد یہ ہے کہ مفسر دینی و اعتقادی مباحث پیش کرتے وقت ایسا اسلوب اختیار کرے کہ عام ناظر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قرآن کا مفہوم و مدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلا جائے اور وہ اپنے دور کی زبان اور فکر میں قرآن کے پیغام کو پا سکے۔ اسی طرح دورانِ مطالعہ جہاں جہاں اسے الجھنیں پیش آ سکتی ہوں وہ صاف کر دی جائیں۔ پھر جہاں کچھ سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہوں‘ اس کا جواب اسے بروقت مل جائے۔ علامہ مودودیؒاپنی تفسیر کے مقدمے میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دیگر مفسرین کی کوششیں قابل قدر ہیں‘ مگر وہ آج کی ضروریات پورا کرنے اور تشنگی رفع کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ چاہیے یہ کہ موجودہ دور کے لحاظ سے تفسیر لکھی جائے‘ جس سے مناسب طور پر استفادہ کیا جا سکے۔

۳- اس تفسیر کی ایک ہم خصوصیت مفسر کا سماجی علوم و افکار سے واقف ہونا بھی ہے۔ اس صدی میں‘ علمِ تفسیر میں یہی بات قرآن کی طرف کشش و جاذبیت کا سبب بنی ہے۔ علامہ مودودیؒ ہرآیت کی تشریح میں یہ بتاتے ہیں کہ یہ آیت انسانی زندگی کے بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہے‘ نیز معاشرے کو درپیش حقیقی ضروریات و مشکلات کا کیا حل بتاتی ہے؟ یوں آپ قرآن کی معاشرہ ساز تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہا ں ایک آیت کی تشریح کا خلاصہ بطور نمونہ درج کرتا ہوں: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَط وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۳۱) ’’اے محمدؐ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمھارے لیے تمھارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے‘‘۔ یعنی ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے‘ لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو‘ اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دوچار ہونا ناگزیر ہے‘ ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے جائو۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور اُدھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کار اپنی اپنی غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے .....رہنمائی سے مراد صرف علمِ حق عطاکرنا ہی نہیں ہے‘ بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے‘ اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بروقت صحیح تدبیریں سجھانا بھی ہے۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے۔ حق اور باطل کی کش مکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ہر ایک پر اہلِ حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۴۷-۴۴۸)

غرض یہ کہ اس عمرانی تفسیر میں راہِ عمل کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ راستے پر چلنے کے لیے مسلسل ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیات کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ وہ معاشرے کو متحد‘ منظم اوریک جا رکھتی ہیں اور معاشرے کو تفرقے اور اتنشار سے بچاتی ہیں۔

۴-  تفہیم القرآنکی ایک اور اہم خصوصیت اسلامی مکاتب فکر اور فرقوں کے مابین قربت و ہم آہنگی کی روش اختیار کرنا ہے۔ یہ تفسیری منہج‘ فرقہ وارانہ مفاہمت پیدا کرنے‘ مسلمانوں کو متحد رکھنے اور اسلامی معاشرے میں فرقہ واریت اور تعصب کو ختم کرنے کی کوششوں کا ایک بڑا    جلیل القدر حصہ ہے۔ یہ جذبۂ اتحاد‘ عصرِ حاضر میں متعدد مسلم مصلحین و مفکرین میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مصنفین کا یقین ہے کہ تفرقہ بازی اور مذہبی اختلاف اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور امت اسلامی کے اتحاد کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ اسلامی معاشرے کے افراد مختلف سنی یا شیعہ اسلامی مکاتب فکر سے وابستہ ہوں‘ مگر چوں کہ مسلمان اسلام کی اصل بنیادوں جیسے: توحید‘ نبوت‘ معاد (آخرت) پر ایمان رکھتے ہیں‘ قرآن کو آسمانی اور الٰہی کتاب مانتے ہیں اور عملی لحاظ سے ارکانِ اسلام: نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد کے پابند ہیں‘ امربالمعروف و نہی عن المنکر پر کاربند ہیں‘ لہٰذا فقہی و اجتہادی اختلاف ان میں جدائی اور متحارب گروہ در گروہ بننے کا باعث نہ ہونا چاہیے۔

ہر فقہی مکتب فکر کی علمی کاوشیں اور مجتہدانہ تحقیقات جدائی‘ نزاع‘ لڑائی اور خون ریزی کا سبب نہ بننے پائیں‘ بلکہ ایک زندہ معاشرے میں اس قسم کے اجتہادات ایک فطری امر ہیں اور معاشرے میں کئی نقطہ ہاے نظر اور آرا کے ظہور کا باعث ہیں۔ لہٰذا ‘انھیں درجہ کمال اور ربط و اتحاد کا ذریعہ بننا چاہیے۔ خاص طور پر اگر یہ اجتہادات و آرا‘ سماجی فکر سے مربوط ہوں اور انسان کو زوال و پستی سے نجات دلانے والے ہوں۔ لہٰذا‘ اسلامی برادری میں ان اختلافات کو‘ دشمنانِ اسلام کے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ نہ بننے دینا چاہیے‘ تاکہ وہ اسلامی اخوت کی روح اور اتحاد ویک جہتی کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔

علامہ مودودیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جو زندگی بھر وحدتِ اُمت کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ وہ سورۂ آل عمران (آیت ۱۰۳) میں نکتۂ اتحاد کو یوں بیان فرماتے ہیں: مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت ’دین‘ کی ہو‘ اسی سے ان کو دل چسپی ہو‘ اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دل چسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں‘  پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا‘ جو اس سے پہلے  انبیا علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۲۷۶-۲۷۷)

علامہ مودودیؒ کا اسلامی مکاتب و مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کا منہج و طریق ان لوگوں کے طرزِ عمل کے بالکل برعکس ہے‘ جو اپنی تفسیر کو اختلاف و نزاع اور مذہبی مجادلہ و کش مکش کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور محبت و یکجہتی کو دگرگوں کرنے کا تہیّہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کسی بھی موقع و مناسبت سے اپنے مخالف فرقے یا جماعت پر حملہ کرنے اور اُن سے اختلاف کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اپنے مخالفین کو کافر فاسق اور گمراہ قرار دیتے ہیں اور دھڑے بندی سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ ان حضرات نے قرآنی تفسیر کے اوراق کو محض اختلافی مباحث سے آلودہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات آیاتِ قرآنی کی وضاحت میں صرف اپنا ہی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔

ان کے برعکس علامہ مودودیؒ نہ تو فرقہ وارانہ اختلافات میں حصہ لیتے ہیں اور نہ مخالف کی تردید کو اپنی تفسیر کی شرط قرار دیتے ہیں۔ وہ صرف قرآن مجید کے علمی‘ اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی احکام کی وضاحت کرتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انھی اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے‘ اور انھیں تہذیبی‘ سیاسی‘ معاشی‘ فکری اور جغرافیائی سطح پر غلام بناتا ہے۔

افسوس کہ اس مختصر مضمون میں‘ میں علامہ مودودیؒ کی تفسیر کی دیگر گوناگوں خصوصیات کو زیربحث نہیں لا سکا۔ ترجمے کے اسلوب اور تفسیر پیش کرنے کی کیفیت پر بھی روشنی نہیں ڈال سکا۔ مولانا کی تفسیر کے اہداف و مقاصد اور دیگر مرکزی نکات بھی بیان طلب رہ گئے ہیں۔