مولانا سیدجلال الدین عمری


ماضی قریب کی اسلامی تحریکات کے تناظر میں

اسلام کے ذریعے دنیا میں جو انقلاب برپا ہوا وہ اپنی نوعیت کا منفرد انقلاب تھا۔ اس طرح کا انقلاب پہلے کبھی چشمِ فلک نے نہیں دیکھا تھا۔ دنیا کا مشکل ترین کام یہ ہے کہ بھٹکے ہوئے انسان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیا جائے۔ اس انقلاب کے ذریعے یہی کارنامہ انجام پایا تھا۔

یہ ایک ہمہ جہت انقلاب تھا۔ یہ انقلاب فکرونظر کا تھا‘ تہذیب و معاشرت کا تھا‘ قانون و سیاست کا تھا۔ یہ انقلاب روحانی بھی تھا اور مادی بھی۔ یہ اتنا بھرپور انقلاب تھا کہ زندگی کے تمام شعبے اس کے تابع ہوگئے اور جس رنگ میں وہ رنگنا چاہتا تھا‘ رنگ گئے۔ یہ انقلاب نسل‘ قوم اور جغرافیائی حدود سے ناآشنا تھا۔ یہ ایک عالم گیر انقلاب تھا۔ اس انقلاب کی پشت پر ایک طرف عقیدہ و فکر کی زبردست قوت تھی جو دلوں کو مسخر کر رہی تھی‘ دوسری طرف اسے قوتِ نافذہ یا سیاسی قوت حاصل تھی جس کی وجہ سے اس کے اصول و نظریات معاشرے میں پوری طرح جاری و ساری رہے اور جہاں کہیں کوئی رخنہ یا شگاف نظر آتا‘ اسے آسانی سے پُر کرلیا جاتا۔ یہ صورت حال جب تک اللہ نے چاہا‘ جاری رہی۔ پھر آہستہ آہستہ عقیدے اور فکر پر اضمحلال طاری ہونا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے اور حکومت اور سیاست پر بھی اسلام کی گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی۔ اس وقت تجدید و احیاے دین کی ضرورت پیش آئی اور اس سلسلے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ مجددین اور مصلحین اُمت نے جس دور میں جس طرح کی کمی محسوس کی‘ اسے دُور کرنے کی کوشش کی۔

گذشتہ دو تین صدیوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس کارِتجدید و اصلاح کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں تحریکیں کام کرتی رہی ہیں اورانھوں نے فکروعمل پر غیرمعمولی اثرات چھوڑے ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں اٹھارھویں اور انیسویں صدی بڑی ہنگامہ خیز رہی ہیں۔ ان میں بہت ہی زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک طرف‘ نئے افکار‘ نئی سائنسی تحقیقات‘ جدید ٹکنالوجی اور نئے عزائم اور تازہ سیاسی قوت کے ساتھ اُبھر رہے تھے‘اور دوسری طرف مسلمان دینی اور اخلاقی زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ ان کی سیاسی قوت پارہ پارہ ہوتی جارہی تھی۔ وہ مغرب کے افکار و تہذیب سے مرعوب اور خوف زدہ تھے۔ سیاسی طور پر مغربی سامراج کا اقتدار اور بالادستی انھیں اپنے نرغے میں لے رہا تھا۔یہ سلسلہ جاری رہتا تو معلوم نہیں حالات کیا رُخ اختیار کرتے اور مسلمانوں کی محکومی اور پستی اور دین سے دُوری کس حد کو پہنچتی‘ لیکن اللہ کا کرم ہے کہ انھی صدیوں میں‘ مسلمانوں میں‘ آزادی و خودمختاری کا احساس بیدار ہوا۔ اسی قیمتی احساس کے زیراثر ایسی تحریکیں بھی اُٹھیں جو اُمت مسلمہ میں ایمانی جذبہ اور دینی روح پیدا کرنا چاہتی اور اس کی پوری زندگی کو دین کی بنیاد پر منظم کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں۔ یہ تحریکیں دنیا کے مختلف خطوں میں اٹھیں۔ ان سب کے حالات یکساں نہیں تھے۔ اس لیے ان کی کوششوں کا انداز بھی مختلف تھا۔ جن حالات و ظروف سے وہ دوچار تھیں‘ ان کے لحاظ سے انھوں نے اپنی پالیسی اور لائحہ عمل وضع کیا۔ ان میں سے بعض تحریکوں کا یہاں نہایت مختصر الفاظ میں ذکر کیا جا رہا ہے۔

l شیخ محمد بن عبدالوھابؒ (۱۶۹۴ئ-۱۷۶۵ئ) نے اپنی اصلاحی اور دعوتی کوششوںکا جب آغاز کیا تو وہ نجد و حجازجہاں سے دنیا کو توحید کا درس ملا تھا‘ بدقسمتی سے وہیں پر بے شمار بدعات و خرافات رواج پا چکی تھیں۔ شیخ کی توجہ دو باتوں کی طرف تھی: ایک تو یہ کہ بدعات و خرافات کو ختم کر کے توحید کے حقیقی تصور کو اُجاگر کیا جائے‘ اور دوسرے یہ کہ لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف رجوع کی دعوت دی جائے۔ انھوں نے اس کے لیے محمد بن سعود کی تائید حاصل کی اور ان کی مدد سے پورے حجاز سے بدعات وخرافات کو ختم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس کے اثرات بعد کی اصلاحی اور تجدیدی کوششوں میں صاف طور پر محسوس ہوتے ہیں۔

l شیخ محمد بن علی سنوسیؒ (۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) نے حجاز‘ لیبیا‘مصر‘سوڈان‘ الجزائر وغیرہ میں تربیت گاہوں کا، جنھیں’زاویے‘ کہا جاتا تھا‘نظم قائم کیا۔ انھیں وہ اسلامی زندگی کا نمونہ بنانا چاہتے تھے اور فکری اصلاح کے ساتھ عملی تربیت بھی دیتے تھے۔ اس میں فوجی تربیت بھی شامل تھی۔ وہ دنیا کی تعمیرنو کا عزم رکھتے تھے‘ اور اس کے لیے قدیم علوم کے ساتھ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کو بھی ضروری خیال کرتے تھے تاکہ جدید یورپ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس عزم و ارادے کے ساتھ وہ اٹھے تھے‘ اس کے مطابق وہ اقدامات نہیں کرسکے۔ انھوں نے اور ان کے جانشینوں نے بڑی بے جگری سے طویل عرصے تک مغربی استعمار کا مقابلہ کیا‘ لیکن ذہنی و فکری لحاظ سے عالمِ اسلام یا اس کے کسی حصے کو نہ تو مغرب کے اثرات سے بچاسکے اور نہ صنعتی لحاظ ہی سے اسے مغرب کے مقابلے کے قابل بناپائے۔

l حضرت سیداحمد شہیدؒ (ش: ۱۸۳۱ئ) کی برپا کردہ تحریک مجاہدین میں چند پہلوبہت نمایاں رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے توحید خالص کا تصور اور دوسرا اتباع سنت کا جذبہ۔ یہ تحریک جب اُٹھی تو ہندستان کے مسلمان عقیدئہ توحید سے منحرف ہوتے جا رہے تھے اور طرح طرح کی بدعات و خرافات میں گرفتار تھے۔ سیداحمدشہیدؒ اور ان کے ساتھیوں نے ان بدعات و خرافات پر براہِ راست تنقید کی اور توحید خالص کے تصور اور اس کے تقاضوں کو اجاگر کیا اور اتباعِ سنت پر زور دیا۔ اس کے نتیجے میں عملاً بہت سی بدعات اور غیراسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ ہوا۔ اس پہلو سے یہ تحریک شیخ محمد بن عبدالوہابؒ نجدی کی تحریک سے کوئی تعلق نہ رکھنے کے باوجود بہت قریب نظرآتی ہے۔

اس تحریک کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس نے اپنے رفقا اور متاثرین میں تقویٰ اور خداترسی کی ایسی روح پھونک دی کہ لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں‘ دین وایمان کی ایسی بہار آگئی کہ  صحابہؓ اور تابعینؒ کے دَور کی یاد تازہ ہونے لگی۔ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اعلاے کلمۃ اللہ کی تحریک تھی۔ یہ اسلام کو سربلند کرنے اور پورے نظامِ اسلامی کو زندہ کرنے کی تحریک تھی۔ یہ ایسی سیاسی قوت حاصل کرنا چاہتی تھی کہ اسلام کے احکام کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ افسوس کہ یہ تحریک اپنوں کی سازشوں کا شکار ہو گئی‘ ورنہ کم از کم شمال مغربی ہند کا رخ بدل گیا ہوتا۔ یہ تحریک بظاہر سیاسی طور پر ناکام ہوگئی‘ لیکن اس کے رفقا اور علم بردار ہندستان میں دُور دُور تک پھیل گئے۔ ان کی کوششوں کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

  • حسن البنا شہیدؒ اور الاخوان المسلمون:اخوان المسلمون کے بانی شیخ   حسن البنا شہیدؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۴۹ئ) کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ اسلامی علوم پر وسیع نظررکھتے تھے اور دورِ جدید کے تقاضوں سے بھی بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے اسلام کو جامد مذہب کی جگہ ایک انقلابی فکر کی حیثیت سے پیش کیا اور واضح کیا کہ اسلام محض عقائد و عبادات ہی کا نام نہیں ہے‘ بلکہ اخلاق و سیاست‘ روحانیت و مادیت‘ تزکیۂ نفس‘ جدوجہداور جہاد کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے خودساختہ اور باطل نظام‘ انسان کے جن مادی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں‘ اسلام ان مسائل کو ان سے بہتر طریقے سے حل کرتاہے اور اس کی روح کی تسکین کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے افراد کی علمی اور عملی تربیت کی اور انھیں تیار کیا۔ اس تحریک کو شدید آزمایشوں سے گزرنا پڑا۔ افسوس کہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں اس تحریک کو سخت نقصان پہنچا۔ اب بھی یہ عالمِ اسلام کی ایک تسلیم شدہ طاقت ہے۔
  • سیدابوالاعلٰی مودودیؒ اور تحریک اسلامی: دورِ جدید کی اسلامی تحریکوں میں جماعت اسلامی نسبتاً کم عمر ہے۔ اس کی بنیاد سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) نے رکھی۔ وہی اس کے پہلے قائد تھے اور ایک طویل عرصے تک اس کی قیادت کرتے رہے۔ یہاں ہم مولانا مودودیؒ کی شخصیت‘ ذہنی و فکری رجحان‘ افکار و نظریات‘ ان کی عملی جدوجہد اور مساعی اور آج کے دور میں ان کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔٭

مولانا مودودیؒ اس دور کے نام ور مفکر اور صاحبِ قلم تھے۔ ان کی تحریر میں بڑی تازگی اور قوت و توانائی پائی جاتی تھی۔ دورِ جدید کے ذہن کو سمجھنے‘ اور اس کی علمی سطح سے بات کرنے کی ان میں غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل و کرم رہا کہ ان کی یہ صلاحیت شروع ہی سے دین کی خدمت اور اس کی سربلندی کے لیے وقف رہی۔ آغازِ شباب سے لے کر آخری لمحاتِ حیات تک کوئی اور ہدف ان کے سامنے نہیں رہا۔ دین پر ہونے والے علمی اور فکری حملوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ ان کے جان دار قلم نے بہت سی گتھیوں کو سلجھایا‘ نت نئے اعتراضات کو رفع کیا اور شکوک و شبہات کے گردوغبار کو صاف کر کے دین کے صحیح تصور کو نکھارا۔ انھوں نے اسلام کو دنیا کا برتر نظامِ فکروعمل اور آخرت کی نجات کا واحد ذریعہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی‘ جو مدعیانِ علم آج کے دور میں اسلام کوناقابلِ عمل اور ایک فرسودہ نظام قرار دے رہے تھے۔ ان کے دلائل کے بخیے ادھیڑ دیے‘ اور جو دانش ور اسے تضحیک کا نشانہ بنائے ہوئے تھے ان کی دانش وری کا بھرم کھول دیا۔ وہ اس دور میں اسلام کے نہایت متوازن عالم دین‘ انتہائی ذہین وکیل اور قابلِ اعتماد ترجمان تھے ۔ اپنے زورِبیان اور قوتِ استدلال سے اسلام کی بہت ہی عمدہ وکالت اور ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔

مولانا مودودیؒ کی زندگی کا ایک تابناک اور درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ محض مفکر اور مصنف نہ تھے‘ بلکہ انھوں نے اسلام کو معاشرے میں قائم اور نافذ کرنے کی منظم جدوجہد شروع کی اور بے شمار بندگانِ خدا کے دلوں کو اس یقین سے بھر دیا کہ اسلام غالب اور سربلند ہونے کے لیے آیا ہے۔ اگر صحیح نہج سے کوشش ہو اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں تو وہ ریگ زار عالم کو بہارستاں میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کی کامیابی و کامرانی کی راہ میں کوئی نظریہ اور کوئی فلسفہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ انھوں نے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کا جو جوش اور جذبہ بیدار کیا‘ اس نے بے شمار زندگیوں کا رخ بدل دیا اور آج بھی وہ کتنے ہی سینوں کو گرمائے ہوئے ہے۔ دین کی دعوت اور اس کے قیام کی جدوجہد کا رنگ اور جذبہ مولانا مودودیؒ کی شخصیت پر اس قدر رچا بسا ہے کہ دنیا انھیں اسلامی نظام کے علم بردار ہی کی حیثیت سے جانتی اور یاد کرتی ہے۔ ان کے ذکر کے ساتھ اس جدوجہد کا تصور ذہنوں میں خودبخود اُبھر آتا ہے۔

خدمات کا مختصر جائزہ

مولانا مودودیؒ نے جس وقت جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی (۲۶ اگست ۱۹۴۱ئ)‘ اُس وقت اگرچہ مشرق سے مغرب کا سیاسی اقتدار تو ختم ہو رہا تھا‘ لیکن فکری اور تہذیبی اقتدار جوں کا توں باقی تھا۔ ہر طرف سیاسی آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ لیکن جو لوگ یہ تحریکیں چلا رہے تھے وہ مغربی فکر سے متاثر ہی نہیں‘ بے حد مرعوب بھی تھے۔ وہ اس کی بنیادوں کو مزید مستحکم کر رہے تھے۔ آزادی کے بعد ان کے سامنے اپنے ملک اور وطن کی تعمیر کا کوئی نقشہ نہیں تھا‘ بلکہ وہ مغرب ہی کے نقشے کو اپنے ہاں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پیش نظر‘فکرونظر کی تبدیلی نہیں بلکہ صرف ہاتھوں کی تبدیلی تھی۔ اس پس منظر میں مولانا مودودیؒ کی خدمات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے:

۱-            مولانا مودودیؒ نے مغربی فکر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس کی خامیاں واضح کیں تاکہ ذہنوں میں اس سے جو مرعوبیت ہے‘ وہ ختم ہو۔ انھوں نے ثابت کیا کہ مغربی افکار اور اس کی تہذیبی اقدار کی اساس اس قدر کمزور ہے کہ اس پر کوئی اعلیٰ انسانی تہذیب نہیں کھڑی کی جاسکتی۔ جو لوگ اس کے پیچھے اپنے مسائل کے حل کی توقع لے کر دوڑ رہے ہیں‘ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں‘ ان کے ہاتھ سوائے ناکامی کے کچھ نہیں آئے گا۔

۲-            مغرب نے اسلام کے عقائد‘ خدا‘وحی و رسالت‘ آخرت‘ جنت اور جہنم اور تمام مابعدالطبیعیاتی امور کا مذاق اڑایا تاکہ اسلام کی اساسات ہی پر سے یقین متزلزل ہوجائے۔ مولانامودودی نے اپنے زورِ قلم سے ثابت کیا کہ اسلام کے ان عقائدسے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے ‘ جب کہ عقل سلیم اور انسان کی فطرت ان کی تائید کرتی ہے۔ مولانا کی کتابیں رسالۂ دینیات‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات میں شامل متعدد مقالات اسی مقصد کے تحت لکھے گئے ہیں۔

۳-            مغرب نے اپنے سیاسی مصالح کے تحت مذہب کو ایک انفرادی معاملہ قرار دے رکھا تھا‘ تاکہ وہ مذہب کو اور اس بہانے اپنے سب سے بڑے حریف اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے عبادت و ریاضت اور چند مذہبی رسوم تک محدود کر دے۔ مغرب کے اس نقطۂ نظر کو دنیا نے عملاً قبول بھی کرلیا۔ مولانا مودودیؒ نے پوری قوت کے ساتھ کہا کہ خدا اور بندے کے تعلق کو عبادات یا انسان کی نجی زندگی تک محدود کر دینا خلافِ عقل ہے۔ خدا ہے تو وہی ہماری پوری زندگی کا جائز حکمراںہے۔ کسی دوسرے کی فرماں روائی‘ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ناجائز ہے۔ اسلام صرف عبادات اور اخلاقیات ہی کا نام نہیں‘ بلکہ یہ ایک انقلابی فکر ہے جو پوری زندگی پر حکومت کرتی ہے۔ کسی دوسرے کے اقتدار کو وہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

۴-            مغرب نے اسلام کی بعض تعلیمات کو اپنی تنقید کا خاص نشانہ بنایا‘ اور اس کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کی‘ تاکہ اسلام سے وابستگی آدمی کے لیے عزت اور فخر کا باعث نہ ہو بلکہ وہ اس سے ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے لگے۔ مولانا مودودیؒ نے الجہاد فی الاسلام‘ اسلام اور ضبط ولادت‘ پردہ‘ مرتد کی سزا جیسی بے نظیر کتابیں تصنیف کر کے اور اپنے مقالات میں غلامی‘ تعدد ازدواج اور قانونِ وراثت جیسے موضوعات پر مدلّل بحث کر کے ان کی حکمت و معنویت واضح کی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔ اسی طرح بہت سے مسائل میں خود مسلمانوں کا ذہن صاف نہیں تھا۔ مولانا نے تفہیمات اور تنقیحات کے ذریعے سے صاف کرنے کی کوشش کی۔

۵-            معاشیات کے میدان میں اشتراکی فکر چھائی ہوئی تھی۔ ترقی پذیر ممالک کسی اور فکر کے بارے میں سوچ بھی نہیں پا رہے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک سرمایہ داری کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک طرف تو ہیگل اور مارکس کے فلسفے پر تنقید کر کے بتایا کہ اشتراکیت کی فکری بنیاد کس قدر کمزور ہے‘ دوسری طرف سرمایہ داری کے نقصانات سے بھی باخبر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا نے یہ بتایا کہ اسلام‘ معاشیات کے ایسے متوازن اصول پیش کرتا ہے جو اشتراکیت اور سرمایہ داری کے نقصانات سے پاک ہیں۔ اس کی تفصیل ہمیں مولانا کی تصنیفات اسلام اور جدید معاشی نظریات‘ سود‘ معاشیات اسلام‘ مسئلۂ ملکیت زمین اور اس موضوع سے متعلق بعض مقالات میں ملتی ہے۔

۶-            سیاست کے میدان میں مغربی جمہوریت سے آگے کوئی شخص سوچنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مولانا نے سیکولرڈیموکریسی (لادینی جمہوریت) پر زبردست تنقید کی اور اسلام کے سیاسی نظریے کو بہت تفصیل سے اور پوری استدلالی قوت کے ساتھ پیش کیا۔ مولانا کی یہ تحریریں ہمیں ان کی کتاب اسلامی ریاست میں ملتی ہیں اور اسلامی ریاست پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں‘ اس کتاب میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔

مولانا مودودیؒ کی علمی خدمات میں تفہیم القرآن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔اس میںمولانا کی پوری فکر سمٹ آئی ہے۔ اس میں مغرب کے فلسفوں پر علمی اور سنجیدہ تنقید ہے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا بھرپور جواب ہے۔ اس طرح یہ اسلام کی ہمہ جہت‘ دل نشیں اور واضح تشریح پیش کرتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کی انفرادیت

مولانا مودودیؒ نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ ان میں سے بعض موضوعات بالکل نئے ہیں اور بعض وہ ہیں جن پر مولانا سے پہلے یا بعد میں کام ہوا ہے۔ لیکن مولانا کے قلم کی بعض خصوصیات انھیں دوسری تحریروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہاں ان کی طرف بھی اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

۱-            مولانا مودودیؒکے نزدیک دین ایک ’کُل‘ ہے۔ اس کا ہر جز منطقی طور پر اس ’کُل‘ سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اس کو الگ کرکے دیکھنے سے اس کی حقیقی تصویر اُبھر کر سامنے نہیں آتی بلکہ ایسا کرنے سے بعض اوقات شدید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ مولانا اس حقیقت کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ اسلام کے کسی بھی جز کے حقیقی ثمرات اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں‘ جب کہ اس’کُل‘کو اختیار کیا جائے۔

۲-            مولانا کا انداز خالص علمی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا جرأت مندانہ ہے۔ وہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو اس طرح بے نقاب کرتے ہیں کہ انسان اس کی عظمت کا قصیدہ پڑھنے کے بجاے اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔مولانا کے ہاں جدید فکر پر جتنی بے لاگ تنقید ہے‘ اتنی کسی دوسری جگہ مشکل ہی سے ملے گی۔

۳-            مولانا مودودیؒ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے آفاقی پہلو کو بہت نمایاں کیا ہے۔ دنیا بین الاقوامیت کے ہزار دعوئوں کے باوجود آج بھی نسل پرستی‘ قوم پرستی اور وطن پرستی کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوسکی ہے۔ وہ انھی دائروں میں رہ کر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتی ہے۔ مولانا‘اسلام کو اس حیثیت سے پیش کرنے میں کامیاب ہیں کہ وہ کسی گروہ یا فرقے کا نہیں‘ بلکہ ساری نوعِ انسانی کا دین ہے۔ دنیا کے ہر فرد اور ہر گروہ کی نجات اسی سے وابستہ ہے۔ بلاشبہہ انھوں نے برعظیم کے مخصوص حالات میں اپنے کام کا آغاز کیا اور اس کے لیے ایک نقشۂ کار بھی پیش کیا‘ لیکن اسلام کی یہ آفاقیت ہمیشہ ان کے سامنے رہی اور وہ پوری دنیا کے لیے اسلام کے داعی بن کر اُبھرے۔

مولانا مودودیؒ کا دائرہ بحث ونظر بڑا وسیع ہے۔ اس میںقرآن مجید کی تفسیر‘اس کے اصول و مبادی‘ حدیث‘ شرحِ حدیث‘ اصولِ حدیث‘ فقہ‘ اصولِ فقہ‘ عقائد‘ علمِ کلام‘ تصوف‘ تاریخ و سیرت جیسے بیش تر اسلامی علوم آتے ہیں۔ ان کے ہاں قدیم مباحث بھی ملتے ہیں اور جدید افکار و نظریات پر بھی گفتگو ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر مولانا مودودیؒ نے دلائل کی جس قوت اور جس عمدہ اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو پیش کیا ہے‘ ایک غیر جانب دار آدمی اس کے اعتراف پر مجبور ہوتا ہے۔ مولانا نے بیش تر مسائل میں جمہورِ اُمت کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔ کہیں اختلاف کیا ہے تو دلائل کے ساتھ کیا ہے۔ بہت سے مسائل میں مولانا کے یہاں اجتہادی شان اور ان کی رائے میں انفرادیت نظرآتی ہے‘ لیکن اسے ان کے تفردات کا نام نہیں دیا جا سکتا‘ اس لیے کہ ان آراکو سلف میں سے کسی نہ کسی کی تائید ضرور حاصل ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے جو زبردست علمی کارنامہ انجام دیا ہے‘ اس کا غیر جانب دارانہ اور معروضی مطالعہ کیا جائے‘ اور دیکھا جائے :

مولانا کے علمی ماخذ کیا ہیں؟ انھوں نے کس موضوع پر کس شخصیت سے کس حد تک استفادہ کیا ہے؟ مولانا کا اس میں اپنا حصہ (contribution) کیا ہے؟ وہ کون سے پہلو ہیں جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں؟ دعوت و تحریک کے کس مرحلے میں مولانا کی کیا ترجیحات رہی ہیں اور ان کا کیا پس منظر رہا ہے؟ انھوں نے مسلمان ملکوں اور غیرمسلم ملکوں کے مسائل کو کس نظر سے دیکھا اور ان کا کیا حل پیش کیا ہے؟ اسلام کی دعوت اور اس کی سربلندی کا مولانا کے یہاں کیا تصور ہے اور دورِحاضر میںاس کے لیے انھوں نے کیا راہِ عمل تجویز کی ہے؟ وہ اپنے دور کے رجحانات سے کس حد تک متاثر ہیں اور آج کے افکار ونظریات پر وہ کس حد تک اثرانداز ہوئے ہیں؟

اس طرح کے جائزے کے بعد ہی مولانا کے پورے کام کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ ہوگا اور اس سے ٹھیک ٹھیک فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔

خوشی کی بات ہے کہ مولانا کی نگارشات اور تحریریں مدوّن اور مرتب ہورہی ہیں اور ان پر تحقیق کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کے تراجم کا کام بھی بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ جن علمی اور فکری پہلوئوں کی طرف مولانا کی توجہ نہیں ہو سکی تھی‘ ان کی طرف توجہ کی جا رہی ہے۔ جن موضوعات پر مولانا کے ہاں صرف اشارات ملتے ہیں۔ ان کی تفسیر اور وضاحت ہو رہی ہے۔

مولانا مودودیؒ نے دین کا جو ہمہ گیر اور انقلابی تصور پیش کیا‘ اس میں اب اجنبیت نہیں رہی‘ بلکہ وہ عام ہو رہا ہے۔ اس نہج پر غوروفکر اور بحث و تحقیق کا عمل دنیا کے مختلف خطوںمیں جاری ہے۔ حالات کے لحاظ سے نئے نئے موضوعات زیربحث آرہے ہیں‘ یہ کام افراد کے ذریعے انجام پا رہا ہے اور مختلف ادارے بھی اس میں شریک ہیں۔ اس وسیع پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو تحریک اسلامی اپنے علمی سرمایے کے لحاظ سے کافی آگے نظرآتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کا کام صرف علمی نوعیت کا نہیں ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ انھوں نے اسلام کو قائم اور غالب کرنے کے لیے عملاً جدوجہد شروع کی اور اس کے لیے ایک منظم تحریک برپا کی۔ مولانا نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اسلام کوئی قومی مذہب نہیں ہے‘ بلکہ وہ خدا کا دین ہے اور اس کے ماننے والے ایک اُمت ہیں۔ یہ اُمت دین ہی کی اساس پر وجود میں آئی ہے۔ جو شخص اس دین کے عقائد و نظریات پر ایمان لے آئے وہ اس کا جز اور اس کا فرد بن جاتا ہے۔ اس اُمت کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹے بڑے اختلافات کو فراموش کر کے دین کی سربلندی کے لیے متحد ہوجائے اور اپنے فکروعمل سے اس کی شہادت دے۔

مولانا مودودیؒ کے اس پورے علمی اور عملی کام پر اعتراضات بھی ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ اس وقت ان اعتراضات کا جواب یا مولانا مودودیؒ کا دفاع پیشِ نظر نہیں ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس دنیا میں پیغمبروں کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں۔ ہر ایک سے کمزوریوں اور خامیوں کا صدور ہواہے اور ہوتا رہے گا۔ اس سے بڑی سے بڑی شخصیت مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن یہ سخت ناانصافی بلکہ کم ظرفی ہوگی کہ کسی خادمِ دین کی دو ایک یا چند فروگزاشتوں کی وجہ سے اس کے تمام مفید کارناموں پر پانی پھیر دیا جائے۔ مولانا مودودیؒ بھی انسان تھے۔ دینی مسائل کی جو تفہیم و تشریح انھوں نے کی ہے اور جو وسیع علمی ذخیرہ چھوڑا ہے‘ اس کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہر خامی سے پاک ہے۔ اس میں فروگزاشت کا امکان ہے۔ اسی طرح اسلامی نظام کے قیام کے لیے انھوں نے جو کوششیں کیں اور جو اقدامات کیے ان میں سے بھی بعض سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ان کی دینی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی نظام کے قیام کی جب بھی اور جہاں بھی کوشش ہوگی‘ انھی کے علم وفکر سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

مولانا مودودیؒ کی گوناگوں اور متنوع دینی خدمات کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ قبول عطا فرمایا اور بے شمار بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دی۔ وہ ان سے قربت و تعلق ہی نہیں محسوس کرتے بلکہ ان کے شیفتہ اور گرویدہ ہیں۔ یہ تعلق اور محبت توقع ہے کہ مولانا مودودیؒ کے لیے ذخیرۂ آخرت ثابت ہوگا۔ اس لیے کہ اس سے کوئی مادی غرض یا دنیوی منفعت وابستہ نہیں ہے۔ یہ محض اللہ کے لیے اور اس کے دین کے لیے ہے۔