رجائی قوطان


ترجمہ:  سید عبیدالرحمن ہمدانی

آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں عالم اسلام اور تمام ترقی پذیر ممالک شدید تکلیف دہ کیفیت سے دوچار ہیں۔ بعض مسلم ممالک پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور بعض کو قبضے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مسلم ممالک پر بم باری کی جا رہی ہے۔ شہروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ انسان‘ بچے‘ عورتیں‘ بوڑھے اور بیمار بغیر تفریق کے قتل کیے جا رہے ہیں‘ یا پھر قیدخانوں میں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں‘ الغرض دہشت گردی کے نام پر عوام کو بدترین ظلم و جبر‘ خوف اور قیدوبند کی صعوبتوں اور حکومتی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افغانستان پر قبضے کے دوران قیدیوںکے وحشیانہ قتل‘ گوانٹاناموبے میں کیے جانے والے بدترین سلوک‘ عراق پر تسلط کے دوران مخالفین کے قتل‘ خصوصاً ابوغریب جیل میں بدترین کشمیر وفلسطین میں نہ ختم ہونے والے ظلم و جبر پر‘ میں پوری شدت سے احتجاج کرتا ہوں۔

۱۹۸۹ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے اور ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحے کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ امریکا نے اس واقعے کو بہانہ بناکر پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنے کے لیے اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اہم مسلم ممالک پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ہم مسلمان ہونے کے ناطے کبھی بھی دہشت گردی کی طرف داری نہیں کرتے۔ مگر جب حکومتوں کو دہشت گرد تنظیم کی طرح استعمال کرتے ہوئے ممالک پر قبضہ کیا جاچکا ہو‘ جن لوگوں کے مکان گرا دیے گئے ہوں اور وہ اپنے خاندان کے افراد کے قتل کے خلاف سراپا احتجاج ہوں‘ اور جو اپنے ملک‘ اپنے گھر اور اپنے خاندان کا دفاع کر رہے ہوں‘ ان کو کبھی بھی دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ کیا کبھی مظلوم اور ظالم کو ایک جیسا کہا جا سکتا ہے‘ جب کہ یہ دفاعی کاوش صرف اسلامی نہیں ایک انسانی طرزعمل ہے۔

اس ساری مہم کے پیچھے اصل ایکٹر بظاہر امریکا ہی نظر آتا ہے۔ لیکن امریکا کو اس طرح کے فیصلے کرنے اور حملے کرنے کی تلقین کرنے والی پس پردہ لابیز (lobbies) موجود ہیں جن میں سب سے اہم یہودی لابی ہے۔ یہودی لابی یا عیسائی سیونیٹس (savants) باہم مل کر نئی دنیا کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔

ان لابیز کے مقاصد میں اہم تر مقصد‘ ارض موعود کو مکمل طور پر آباد کر کے عظیم تر اسرائیل کو تشکیل دینا ہے۔ ارض موعود وہ سرزمین جس کے بارے میں یہودیوں کا زعم ہے کہ ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ یہ نیل سے لے کر فرات تک پھیلی ہوئی ہے۔ عراق‘ شام‘ مصر اور سعودی عرب کا ایک حصہ‘ سوڈان اور ترکی بھی اسی سرزمین میں شامل ہیں اور ٹارگٹ پر ہیں۔

جی ہاں‘ امریکا کا پیش کیا جانے والا عظیم تر مشرق وسطیٰ امن منصوبہ درحقیقت عظیم تر اسرائیل کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے‘ آج امریکی صدر بش ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمانے کے لیے پرعزم دکھائی دے رہا ہے۔

عالمی حقوق اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ مقبوضہ ممالک میں کٹھ پتلی حکومتیں بنائی جا رہی ہیں۔ سب سے اہم اور خطرناک یہ کوشش ہے کہ مسلم ممالک کے تعلیمی نظام میں مداخلت کر کے اسلام کی بنیادی تعلیمات میں تحریف کی جائے۔

امریکا دہشت گردی کی روک تھام کا بہانہ بناتے ہوئے کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے خود دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ جن ممالک کا اقتدار پسند نہ ہو‘ ان کے عوام پر بم باری کر کے انھیں ہلاک کیا جارہا ہے‘ اور بے بس کر کے ان پر قبضہ کیا جا رہاہے جیسا کہ افغانستان اور عراق میں ہوا‘ اور اب سوڈان اور ایران کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔

مختلف ممالک پر قبضہ جمانے کے لیے حملے کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہے۔ یہ بالکل دوغلی پالیسی ہے۔ حالانکہ جب سے اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ اس کے خلاف اقوام متحدہ کو سو کے قریب قراردادیں پیش کی گئی ہیں۔ اس نے کسی پر بھی عمل نہیں کیا۔ اب خود امریکا نے بھی اقوام متحدہ کی کسی قراردادکے بغیر ہی عراق پر حملہ کر کے قبضہ جمالیا ہے۔

یہ بہانہ بھی بنایا جاتا ہے کہ مسلمان ممالک کے پاس تباہ کن ہتھیار موجود ہیں اور نیوکلیئر ٹکنالوجی اس مقصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ اسرائیل کے پاس بھی ہر قسم کے تباہ کن اور بے شمار نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں‘ لیکن کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ یہ امریکا کی دوغلی پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔

امریکا اور اسرائیل کی ان جارحانہ پالیسیوں کے پس پردہ ان کے بے شمار مالی وسائل اور ٹکنالوجی کی طاقت ہے۔ ان کی قوت کے عناصر کو یوں ترتیب دیا جاسکتا ہے: ۱- اقتصادی طاقت ۲- بہترین ٹکنالوجی ۳- فوجی طاقت ۴- ذرائع ابلاغ ۵-سیاسی طاقت۔

امریکا مندرجہ بالا وسائل کے استعمال اور دوسرے ممالک کے خفیہ اداروں اور خفیہ تنظیموں کے تعاون سے حکومتوں کو یا ان کی پالیسیوں کو بدلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

برادرانِ محترم! میں نے مختصراً دنیا اور ہمارے ارد گرد کے حالات و واقعات اور آنے والے خطرات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب واضح دکھائی دے رہا ہے کہ یہ حملہ آور دشمن قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے تمام پس ماندہ ممالک خصوصاً عالمِ اسلام کو گھیرے میں لے لینا چاہتا ہے۔ ان بڑھتے ہوئے اقدام کو بہرصورت روکنا ہوگا۔

لیکن کیسے اور کن کے ذریعے؟ کن کے ذریعے کا جواب بالکل واضح ہے۔ جن ممالک کے خلاف امریکا اور مغرب نے اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے‘ یا جن کو دھمکایا جا رہا ہے‘ ان تمام ممالک کے ذریعے۔ ان میںسرفہرست مسلم ممالک ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تمام پس ماندہ ممالک اور آگے چل کر روس اور چین جیسے ممالک کو بھی اس تحریکِ مزاحمت میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اتنے زیادہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا اور کوئی قدم اٹھانا آسان نہیں ہوتا‘ اس کے لیے ایک بیج بونے کی ضرورت ہے۔ محترم اربکان صاحب نے اسی لیے ڈی-۸ کی تنظیم قائم کی تھی۔

پاکستان‘ ایران‘ بنگلہ دیش‘ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ نائیجیریا اور ترکی کو شامل کرتے ہوئے ایک عظیم مسلم اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ بہت وسیع‘ قدرتی وسائل سے مالا مال اور ۸۰ کروڑ افراد پر پھیلی ہوئی آبادی کی طاقت۔ اگر یہ ممالک اکٹھے ہو کر اپنے وسائل مجتمع کرلیں تو یہ بلاشبہہ دنیا کی سب سے طاقت ور تنظیم بن سکتے ہیں۔

ڈی-۸ کے تنظیمی ڈھانچے میں عالمی مسائل کے حل اور دنیا میں امن پیدا کرنے کے لیے درج ذیل اصول وضع کیے گئے ہیں:

                اختلافات کے حل کے لیے جنگ کے بجاے صلح اور لڑائی کے بجاے مذاکرات کا طریقہ اپنائیں گے۔

                اقتصادی طور پر لوٹ کھسوٹ کے بجاے منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے۔

                بین الاقوامی تعلقات میں دوغلی پالیسی کے بجاے عدل و انصاف کو اپنایا جائے گا۔

                تکبر کے بجاے برابری اپنائی جاے گی۔

                دبائو یا اجارہ داری کے بجاے جمہوریت اور حقوق انسانی کو اپنائیں گے۔

                اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور اپنے درمیان اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کچھ عملی اقدام اٹھانے ہوں گے۔

محترم اربکان صاحب نے ۳۰ سال قبل درج ذیل اقدامات تجویز کیے تھے:

۱- مسلم ممالک کی الگ اقوام متحدہ ‘ ۲-مسلم ممالک کی خودمختار دفاعی تنظیم‘ ۳-مسلم ممالک کی مشترکہ منڈی‘ ۴-تمام مسلم ممالک کی مشترکہ کرنسی‘ یعنی اسلامی دینار‘ ۵-مسلم ممالک کی مشترکہ ثقافتی تنظیم۔

نیت میں خلوص اور فیصلے میں عزم ہو تو یہ خواب قلیل مدت میں مکمل طور پر حقیقت پذیر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی ادارے کا مسئلہ ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ابتدائی اور بنیادی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر ملک کو تین راستے اختیار کرنے ہوں گے:

۱- مذاکراتی انسٹی ٹیوٹ کی تشکیل ‘۲- ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کا قیام‘۳-اقتصادی تعاون اور ترقی کے لیے انسٹی ٹیوٹ کا قیام۔

اس عظیم الشان اجتماع میں‘ میں نے مستقبل کے انتہائی اہم مسائل کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہنے کے لیے بہت ساری باتیں ہیں لیکن اب باتوں کے بجاے عمل کا وقت ہے۔

دنیا میں موجودہ اور جاری و ساری اس ظلم کے نظام کو بدلنا ہوگا۔ ظالموں کو انسانیت کا خون بہانے اور مسلمانوں پر کھلے بندوں ڈھائے جانے والے ظلم و زیادتیوں کو روکنے کے لیے یقینی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

میری دعا ہے کہ ہم بار بار ملیں‘ بار بار مشاورت ہو‘ عمل ہو اور پوری انسانیت کو امن و اطمینان اور عدل و انصاف نصیب ہو۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)