احمد مختار الزباخ


ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

حج عبادات میں اس لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کئی عبادات کو جمع کرتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ واحد عبادت ہے جو انسان کے روحانی‘ مالی اور بدنی‘ تینوں پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ یہ خصوصیات نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ میں یکجا نہیں ملتی ہیں۔

حج میں آدمی بیت اللہ کا سفر کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی مکمل روحانی اصلاح ہوجائے۔ اس سفر کا آغاز وہ مکمل طور پر اپنے رب کی طرف لوٹ آنے کے اعلان سے کرتا ہے۔ اگر کسی نے اس پر ظلم کیا ہوتا ہے تو وہ انتقام کے بجاے اس معاملے کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ اپنے تمام حسابات کا تصفیہ کر کے اپنے اہل و عیال کے لیے نفقے کا اہتمام کرتا ہے‘ تاکہ اس کی واپسی تک اُن کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی خیال رکھتا ہے کہ اس کا مال حلال اور پاک ہو‘ نیز اس دوران وہ اپنے بارے میں یا فقرا و مساکین پر خرچ کرنے میں  بخل میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کے لیے میدان جنگ میں آجاتا ہے اور اس واقعے کی یاد تازہ کرتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل ؑنے شیطان کے وسوسوں اور اکساہٹوں کے باوجود اپنے رب سے وفا کرتے ہوئے قربانی کا نذرانہ پیش کیا۔

اس طرح حاجی اپنی اس عبادت کے دوران کئی پہلوئوں سے تربیت حاصل کرتا ہے‘ جن میں توبہ‘ انفاق‘ سخاوت‘ سچائی‘ بھلائی‘ احسان اور صبرنمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ نیز وہ حرص اور بخل جیسی بری عادتوں سے بھی چھٹکاراحاصل کرلیتا ہے۔

فریضۂ حج مسلمانوں پر فرض ہونے والی آخری عبادت ہے۔   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا -

لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔(اٰل عمرٰن۳:۹۷)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ۔پوچھا گیا: اور اس کے بعد؟فرمایا: حج مبرور‘ یعنی مقبول حج ۔

حج‘ ماہ رمضان کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی تربیت دیتا ہے۔ اس کے فوراً بعد حج کا حکم اس حکمت کے تحت دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاقی اور اجتماعی اقدارکے نظام کا تسلسل جاری و ساری رہے‘ اور ان کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کا جو سلسلہ رمضان کے روزوں اور قیام اللیل کے ذریعے شروع ہوا تھا‘ وہ مسلسل جاری رہے۔

قرآن کے پیش نظر مقصد

قرآن پاک کے تربیتی نظام کے مطابق جس طرح رمضان میں برے اعمال سے چھٹکارے اور روحانی پاکیزگی کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے‘ اسی طرح حج کے مہینوں میں عملی طور پر انسان کی ذات اور اس کے نفس کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کو خصوصی ہدف بنایا جاتا ہے‘ تاکہ اسے ظلم و زیادتی اور گناہ کے کاموں میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔ خصوصاً‘ جب کہ ان حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے بے گناہوں کی جان کی حفاظت کے پیش نظر قتل و غارت کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں انسانی جان کے تقدس و حرمت کا جذبہ بیدار کرتا ہے‘ اور یہ واضح کرتا ہے کہ برے اعمال سے اپنی حفاظت اور اچھے اعمال سے اپنے آپ کو مزین کرنے اور اپنی ذات کے تزکیہ و تربیت کے حوالے سے حج کا کیا مقام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍیَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۱۹۷)

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے‘ اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی‘ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے‘ وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِحج کے لیے زادِراہ ساتھ لے جائو‘ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ شوال‘ ذوالقعدہ اور ذوالحج کا پہلا عشرہ حج کے مہینے ہیں۔

کسی مقام یا زمانے کو محترم قرار دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون‘ چشم پوشی اور الفت و محبت جیسی اقدار کو اپنانے اور غیظ و غضب‘ لڑائی جھگڑے‘ بغض و حسد‘ مخالفت اور تفرقہ بازی جیسے رذائل سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی تربیت حاصل کریں۔ اس کے نتیجے میں اس مخصوص مدت میں اور مخصوص مقامات پر میسر امن و سکون کے لمحے ہمیں اپنی زندگی کی حقیقی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

آج مسلمان ان اخلاقی قدروں کے ذریعے تربیت حاصل کرنے کے بے حد محتاج ہیں کیونکہ اس وقت ہماری صفوں میں افتراق و انتشار اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ آج امت مسلمہ جس پستی و انحطاط سے دوچار ہے‘ اس سے نجات کے لیے دینی اقدار سے آراستہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں۔

تربیت کا سفر

حج کے موقع پر اس اہم ترین اجتماع کے دوران‘ جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے عازمینِ حج کلمہ توحید کے جھنڈے تلے ایک سالانہ کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں‘ سب اس بات پر خوشی سے سرشار ہوتے ہیں کہ اُن کا تعلق عقیدۂ توحید پر ایمان رکھنے والی ایک اُمت سے ہے اور اُن کا یہ اجتماع اُن کی مقدس سرزمین میں منعقد ہو رہا ہے۔ قرآن کے نظامِ تربیت کے تحت اس سالانہ اجتماع کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو عقیدئہ توحید سے وابستگی‘ اور اللہ کے لیے محبت کی بنا پر اپنے مقامی ماحول‘ مسائل اور سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں باہمی مشاورت‘ بحث و مباحثے ‘ تبادلۂ خیال اور باہمی تعارف و قربت کا موقع فراہم کیا جائے۔

  • بنیادی اخلاقی اقدار کی نشوونما: یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس سے بڑی بنیادی تربیتی اقدار کی نشوونما ہوتی ہے‘ مثلاً زادِراہ ساتھ لینے سے آخرت کی تیاری کی فکر بھی پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ملک کو چھوڑنے سے ہماری توجہ اس طرف مبذول ہوتی ہے کہ ایک دن دنیا کو بھی چھوڑنا ہے‘ اور احرام پہننا آدمی کو کفن کی یاد دلاتا ہے۔ الغرض تمام مناسکِ حج مومن کو کسی نہ کسی اخلاقی اور اجتماعی قدر کی تربیت دیتے ہیں۔ احرام کی سفید چادریں موت کی یاد کے ساتھ ساتھ اسے اس طرف بھی متوجہ کرتی ہیں کہ وہ ناجائز خواہشات سے بھی اس طرح الگ ہو جائے جس طرح اس نے روز مرہ استعمال کا لباس اتار دیا ہے۔ اس سے آدمی کو یہ تربیت بھی ملتی ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرے‘ اس کی طرف پختہ ارادے کے ساتھ رجوع کرے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں‘ نعمتوں اور کائنات پر غوروفکر کی طرف توجہ دے۔ لباس کو اتارنا اس بات کی بھی تعلیم دیتا ہے کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو دنیا کے ہر سازوسامان سے بے نیاز ہوجانے والی ہے‘ نیز لباس کی یکسانیت مومن کو اپنے بھائیوں کے ساتھ مساوات کا درس بھی دیتی ہے۔
  • خطاؤں کی بخشش: حج کے اجتماع سے مومن یہ تربیت بھی پاتا ہے کہ وہ برائیوںاور گناہوں سے پاک ہو۔ خصوصاً جب وہ ایک عظیم الشان مجلس میں انسانوں کے جمِ غفیر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتا ہے تو یہ اسے قیامت کی یاد دلاتا ہے جب وہ میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا ہوگا۔ حج کے دوران آدمی اپنے تمام دنیوی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایک راہب کی طرح پراگندہ بالوں‘ غبار آلود چہرے اور ایسے فقیرانہ انداز میں اللہ کے سامنے حاضر ہوتا ہے کہ اسے زیب و زینت کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کا اظہار کرتا ہے اور فرماتا ہے : ’’دیکھو میرے بندوں کو وہ پراگندا اور غبار آلود صورت میں دنیا کے کونے کونے سے میرے پاس آئے ہیں۔ تم گواہ رہو کہ میں نے انھیں بخش دیا ہے‘‘۔ اس طرح حاجی گناہوں سے پاک و صاف ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کر کے اپنے گھر کو لوٹتا ہے۔
  • امن و سلامتی کی تربیت: احرام میں ملبوس ہونے اور مقدس زمین کی زیارت سے حاجی کو وقار اور سکون کا احساس ہوتا ہے (وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا‘ جو اس میں داخل ہوا‘ مامون ہوگیا۔ اٰل عمرٰن ۳:۹۷)۔ اس سے آدمی کو یہ امید ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بھی اسی طرح مامون ہوگا۔ اسی طرح انسانوں سے جنگ بندی کا اعلان مومن کو امن و سلامتی کی تربیت دیتا ہے‘ اس لیے وہ دورانِ حج تمام انسانوں کے ساتھ پُرامن رہتا ہے (فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَلا وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ، حج کے دوران میں کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی اور کوئی لڑائی جھگڑے کی بات نہ ہو۔ البقرہ۲:۱۹۷)۔ یہاں تک کہ وہ پرندوں اور دوسرے حیوانات کے ساتھ بھی صلح کا اعلان کرتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ (المائدہ ۵:۹۵) ’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو‘‘، بلکہ حالتِ احرام میں حشرات اور درختوں اور پودوں کے ساتھ بھی مصالحت ہوجاتی ہے۔ اس طرح حاجی دو ماہ تک امن کی زندگی کا پابند ہوتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تربیت کے نتیجے میں حاجی کے اندر اخلاص‘ صبر‘ سچائی‘ پابندی‘ مساوات‘ تقویٰ‘ وفا‘ شکر‘ توبہ اور امن و سلامتی کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
  • قربِ الٰھی اور خشیتِ قلب:حاجی کا اُونچی آواز سیلَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہنا‘اس کو فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب کا احساس دلاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں تلبیہ کہا کرتے تھے: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ،’’حاضر ہوں‘ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘ میں حاضر ہوں۔ تعریفیں اور نعمتیں سب کی سب تیری ہیں ‘ اور بادشاہی بھی تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔ ہر مقام پر حاجی کا ان الفاظ کو اونچی آواز سے دہراتے چلے جانا‘ اس کو توحید‘ حق کے ببانگِ دہل اعلان‘ مساوات‘ اتحاد اور اسلام کی ’الجماعۃ‘ کے ساتھ جڑے رہنے کی تربیت دیتا ہے۔

بیت اللہ کے طواف کے دوران محدود دائرے میں چکر لگاتے ہوئے حاجی نظم و ضبط کی تربیت بھی حاصل کرتا ہے اور ایمان کی سچائی پر اس کا یقین بھی بڑھتا جاتا ہے‘ اور اس جگہ کی عظمت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کعبے کا غلاف پکڑتا ہے تو اس دوران اسے اللہ کے لیے خشوع اور عاجزی اور اس کے سامنے گڑگڑانے کی تربیت حاصل ہوتی ہے اور اُسے اطمینانِ قلب کی بھرپور کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حجراسود کا بوسہ لیتا ہے تو اس کیفیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ عمل انسان کو اپنے رب کی طرف لوٹنے کا احساس دلاتا ہے اور اس سے انسان میں رب العالمین کے ساتھ قربت کا احساس مزید تقویت پاتا ہے۔ اسی طرح حاجیوں کا حجراسود تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوشش اُن کے اندر مشترکہ مقاصد کے لیے پختہ عزم اور بلند ارادوں میں مضبوطی اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود ایک گھر کی زیارت کرتے ہوئے ‘حرم مکی کے چاروں طرف محبت اور پاکیزگی کا دور دورہ ہوتا ہے جو حاجی کو اس گھر کے رب کی عظمت کے احساس سے سرشار رکھتا ہے۔

  • نسلی تفاخر کا خاتمہ: لاکھوں لوگ گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ امیروغریب اور شاہ و گدا‘ سب ایک خدا کے سامنے‘ ایک لباس میں‘ بغیر کسی امتیاز کے آہ و زاری کرتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر مساوات اور وحدت کا احساس اجاگر ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی طرح کے مشترک اعمال ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن کا عمل ایک ہوتا ہے اور یہ سب اس عمل کو ایک ہی مقصد‘ یعنی رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ادا کرتے ہیں۔ ایک طرح کے الفاظ کو بار بار دہرا رہے ہوتے ہیں‘ ایک گھر کا طواف کرتے ہیں‘ اور ایک ہی رب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس طرح اُن کے درمیان رنگ و نسل اور ملک و قوم کے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔ فرقہ واریت اور قوم پرستی دم توڑدیتی ہے اور انسانوں کے درمیان مکمل مساوات قائم ہوجاتی ہے۔
  • صبرواستقامت: اس دوران صفا اور مروہ پر سعی کا مرحلہ آتا ہے۔ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہوئے بندئہ مومن میں نصیحت و تزکیہ‘ تعلیم و تربیت‘ صبرورضا‘ قناعت اور بیداری کی صفات تازہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ اُس وقت اُسے حضرت ہاجرہ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب وہ سخت گرمی کے عالم میں اپنے پیاسے بچے کے لیے پانی کی تلاش میں پیاس کی شدت سے نڈھال بے قراری سے دوڑی بھاگی پھر رہی تھیں۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زم زم کا چشمہ جاری و ساری کر دیا۔ انھوں نے اِس پانی سے اپنی اور اپنے بچے کی پیاس بجھائی۔ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پیاسے مومن کے دل میں ‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی عبادت کی قبولیت اور اس کی رضا اور مغفرت کی نوید الہام کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی حرکت میں تیزی آتی ہے اور پھر وہ دوڑنے لگتا ہے‘ دعا کرتا ہے‘ اللہ کو پکارتا ہے اور اپنے رب کے در پر‘ جب اس کی رحمت اس کو ڈھانپے ہوتی ہے‘ اور مسلسل اس کو تلاش کر رہی ہوتی ہے‘ وہ قیامت کی ہولناکی کو یاد کرتا ہے۔ اس سے آدمی کے اندر زیادہ سے زیادہ صالح اعمال کے لیے مستقل مزاجی‘ تسلسل اور دائمی مشق کی صفات پروان چڑھتی ہیں۔

وقوفِ عرفات : تربیت کا پھلو

عرفات کے میدان میں وقوف کے لیے موجود جمِ غفیر سے یومِ حشر کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہاں مخلوقِ خدا بڑی تعداد میں جمع ہوتی ہے‘ اگرچہ ان کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے دعائیں مانگتا ہے اور سفید چادروں میں ملبوس سراپا عجز و انکسارہوتا ہے۔ انسانوں کے ہجوم بے کراں میں اور سورج کی تیز شعاعوں کی زد میں ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ پسینہ بہہ رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے آگے تسلیم و رضا کی تصویر بن کر دن بھر اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔

مسجد نمرہ کے مقام پر پہنچتے ہیں تو یہ خیالی منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہیں اور خطبۂ حجۃ الوداع پیش فرما رہے ہیں‘ جس میں وہ مسلمانوں کو خبر دے رہے ہیں کہ ان کا دین مکمل ہوگیا ہے۔ یہ آواز دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔ اس سے سفرِحیات کے اختتام کا یقین پختہ ہوجاتا ہے۔ ہر حاجی کی دل کی امنگ ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بخیر اور حالت ِایمان میں ہو۔

جیسے ہی غروبِ آفتاب کا وقت قریب ہوتا ہے تو حاجی کوچ کی تیاری شروع کر دیتا ہے‘ گویا کہ وہ دنیا کو خیرباد کہہ رہا ہے۔ لوگوں کی دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی ہے۔ ہر ایک کو کسی سواری کی تلاش ہوتی ہے تاکہ بَرُّ الأمان میں پہنچ سکے۔ مشعر الحرام سے کنکریاں اٹھا کر آدمی اپنے دل میں یہ عزمِ مصمم لے کر نکلتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے ساتھ وفاداری کرے گا اور اس غلط رسم کو توڑ کر رکھ دے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (البقرہ ۲:۱۹۸-۱۹۹) ’’پھر جب عرفات سے چلو تو مشعرِحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں کی ہے‘ ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو۔ یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

پھر جب حاجی منیٰ میں ٹھیرتا ہے تو اپنے ساتھ جو کنکریاں لے کر آیا ہوتا ہے اُن کے ذریعے شیطان کو مارتاہے۔ گویا ان چھوٹے چھوٹے پتھروں سے وہ اُسے سنگ سار کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن تمام رذائل سے بچنے کی کوشش کرے گا جو شیطان نے انسان کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے حاجی کو سچائی‘ اخلاص‘ نصیحت افروزی اور پختہ ارادے کا درس ملتا ہے۔ وہ اس دوران نفسانی خواہشات اور اس کی شرارتوں کو پاے حقارت سے ٹھکراتا ہے‘ کیونکہ یہی چیزیں افراد اور معاشروں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔

ایک بدلا ھـوا انسان

حاجی کو نفس کی آگ سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔ دورانِ حج اس کا نفس اطمینان و سکون اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت انفاق و عطا کے ایک بہتے دریا کی سی ہوتی ہے۔ مسلمان جب اللہ کی راہ میں کوئی تحفہ پیش کرتا ہے تو اس سے قربانی‘ وفاداری‘ ایثار‘ اخلاص اور تسلیم و رضا کی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ وہ جب اللہ کی راہ میں کسی جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو جانور کے خون کے گرتے ہی اس کے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ اس طرح یہ قربانی طہارت وپاکیزگی کے ساتھ قوتِ ارادی کے لیے بھی حجت کا کام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائراللہ میں شامل کیا ہے‘ تمھارے لیے اُن میں بکثرت فوائد ہیں‘ پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو‘ اورجب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں‘ اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمھارے لیے مسخر کیا ہے‘ تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں‘ نہ خون‘ مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے اُن کو تمھارے لیے اس طرح مسخرکیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ! بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو‘‘۔(الحج ۲۲:۳۶-۳۷)

قربانی کا یہ جذبہ حاجی کو غلط اقدار اور شیطانی وسوسوں اور اقدامات کی بیخ کنی کے لیے قوت اور ہمت عطا کرتا ہے۔ خصوصاً اس وقت‘ جب انسان کا اپنے رب سے قرب و محبت‘ خشوع وخضوع اور اخلاص کا جذبہ اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ اس وقت شر کے مقابلے کے لیے اس کا عزم مزید پختہ ہو جاتا ہے اور وہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روکنے کے لیے اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے۔ گویا حج ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کے ذریعے اس مقدس سرزمین میں قیام کے دوران حاجی کے احساسات میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ وہ یہ عزم صمیم لے کر گھر لوٹتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی‘ گناہوں اور تمام رذائل کو اس طرح چھوڑ دے گا جس طرح اُس نے ارض مقدس میں اپنے رب کے حضور اپنے روز مرہ کے لباس کواتار کر اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیا تھا۔ اس سے اُسے یہ یاد دہانی بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کرے گا‘ نیز انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حاجی کو اسلامی جماعت کی قوت کا احساس بھی دلاتا ہے اور اس کے دل میں اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

حج کے بعد آدمی برائیوں کے میل سے پاک ہو جاتا ہے۔ اس کا دل صدف سے نکلے ہوئے سچے موتی کی مانند شفاف ہوجاتا ہے اور نتیجتاً اس کے کردار میں پاکیزگی و پختگی آجاتی ہے۔ اس کا ارادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس کی روح فتح و کامرانی کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہے جو اس کے حوصلوں اور عزائم کی بلندی کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ جب اس سفر سے واپس لوٹتا ہے تو وہ ایک نیا اور بدلا ہوا انسان ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْـہٗ اُمُّہٗ، جس نے حج کیا اور اس میں نہ کوئی شہوانی باتیں کیں اور نہ کوئی نافرمانی کا کام کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نے اُسے جنا ہو! (ماخوذ: ماہنامہ الحج والعمرہ‘سعودی عرب‘ جلد۵۸‘ عدد۸‘ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)