ایودھیاتنازعے پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عام خیال یہ پھیلایا جارہا ہے کہ ’’عدالت نے ایک ایسے پیچیدہ تنازعے کا ہمیشہ کے لیے تصفیہ کردیا ہے، جس نے برسوں سے امن و سکون کو تہہ و بالا کر رکھا تھا ۔اور اب ملک میں مذہبی و نسلی منافرت کا خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس مقدمے کو جس انداز میں یک طرفہ طور پر فیصل کیا گیا ہے، اس نے مسلمانوں میں مایوسی اور نااُمیدی کے جذبات کو اُبھارا ہے اور انھیں شکست خوردگی کے احساس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری کہ ۲۰۱۹ء ہی میں تین طلاق پر یک طرفہ اور جابرانہ قانون سازی کرکے مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کی گئی۔ جموں و کشمیر کے لیے دستور ہند کی دفعہ ۳۷۰اور دفعہ ۳۵-اے کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا اور اب ایودھیا تنازعے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ اس کے بعد ’یکسا ں سول کوڈ‘ کا شوشہ بھی مسلمانوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے چھوڑا جارہا ہے ۔
اگر آپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت کا جائزہ لیں، تو صاف محسوس ہوگا کہ اس حکومت نے ہر وہ کام انجام دیا ہے، جس سے ملک میں ہندو نسل پرستی کو فروغ حاصل ہو اور مسلمانوں کے بنیادی، آئینی اور انسانی حقوق پر کاری ضرب لگے ۔ جو لوگ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو ایودھیا تنازعے اور مندر مسجد سیاست کا خاتمہ تصور کررہے ہیں، وہ دراصل غلط فہمی اور لا علمی کا شکار ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک جن مقاصد کے تحت شروع کی گئی تھی، اس کا دائرہ محض مسجد اور مندر کے جھگڑے تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس تحریک کے پیچھے ملک میں جارحانہ ہندو قوم پرستی کے فروغ کا مقصد پوشیدہ تھا۔یہ تحریک گہری منصوبہ بندی سے نہایت سوچ سمجھ کر شروع کی گئی تھی، جس میں ’سنگھ پریوار‘ [یعنی راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کی تنظیموں کا خاندان] کو۱۰۰ فی صد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔اس تحریک کے نتیجے میں ملک کے اندر ایک ایسی ہندو لہر پیدا ہوئی ہے جس کےنتیجے میں ہندوؤںنے بی جے پی کو اپنا نجات دہندہ تصور کرلیا ہے ۔
ذرا ماضی میں دیکھیں:۲۳؍اپریل ۱۹۸۵ء کو جب ’شاہ بانوکیس‘ میں سپریم کورٹ نے اسلامی شریعت کے خلاف فیصلہ صادر کیا تھا، تو ملک میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے مسلمانوں نے ایک بے مثال تحریک اُٹھائی تھی ۔اس تحریک کے نتیجے میں حکومت کو پارلیمنٹ سے ’مسلم مطلقہ قانون‘ پاس کرنا پڑا تھا۔ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی کامیابی کا فسطائی عناصر پر گہرا منفی اثر ہوا۔ انھوں نے بڑی قوت سے یہ جوابی پراپیگنڈا شروع کردیا کہ ’’حکومت نے مسلم بنیاد پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں‘‘۔
ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے اس پراپیگنڈا کا توڑ کرنے کے لیے اس وقت بھارتی وزیر اعظم [۸۹-۱۹۸۴ء] راجیو گاندھی [م:مئی ۱۹۹۱] کی کابینہ کے بعض وزرا نے یہ مشورہ دیا کہ ہندوؤں کی ناراضی دُور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایودھیا میں واقع بابری مسجد کا تالا کھول کر وہاں عام پوجا پاٹ کی اجازت دے دی جائے، جس کے لیے پہلے سے ہی ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ‘ کی سرپرستی میں ’رام جنم بھومی مکتی آندولن‘ چل رہا تھا ۔راجیو گاندھی کو اس پر راضی کرنے میں ان کے عزیز اور وزیر ارون نہرو کے علاوہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ نے اہم کردار ادا کیا۔ یکم فروری ۱۹۸۶کو فیض آباد کی ایک ذیلی عدالت کے حکم پر بابری مسجد کے دروازے عام پوجا پاٹ کے لیے کھول دیے گئے۔تالا کھلنے کے مناظر کی تشہیر سرکاری نشر یاتی اداروں اور سرکاری ٹیلی ویژن سے خوب کی گئی۔
بابری مسجد میں ۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ءکو دیوار پھاند کر زبردستی رکھی گئی مورتیوں کی پوجا شروع ہوگئی، اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اپنی انتہا تک پہنچ گئی ۔کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد کا تالا کھولنا راجیو گاندھی کی ایک ایسی ہمالیا ئی غلطی تھی، جس کا خمیازہ کانگریس پارٹی آج تک بھگت رہی ہے۔ کانگریس کی اس غلطی کا بی جے پی کو غیر معمولی سیاسی فائدہ حاصل ہوا۔ اس طرح جس پارٹی کی پارلیمنٹ میں محض دو سیٹیں ہوا کرتی تھیں، وہ اچانک بڑھ کر ۸۰تک پہنچ گئیں ۔کانگریس پارٹی اقتدار سے محروم ہوگئی اور بی جے پی نے وزیر اعظم [۹۰-۱۹۸۹ء] وی پی سنگھ کو مدد دے کر ان کی حکومت بنوائی ۔ وی پی سنگھ نے ’منڈل کمیشن‘[۱۹۸۳ء] کی سفارشات نافذ کرکے ہندوؤں میں ذات پات کی جو خلیج پیدا کی تھی، اسے ختم کرنے کے لیے مذہبی جنون کا سہارا لیا۔ دوسری طرف بی جے پی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کردی، جس کا واضح مقصد رام مندر کے لیے راے عامہ ہموار کرکے ’منڈ ل کمیشن‘ کے اثرات کوزائل کرنا تھا ۔ اڈوانی کی رتھ یاترا نے پورے بھارت میں فرقہ واریت کا جو آتش فشاں تیار کیا تھا، اس کی تپش آج تک برقرار ہے۔
اس رتھ یاترامیں جو نعرے بلند کیے گئے تھے، انھوں نے مسلمانوں میں زبردست سراسیمگی پیدا کردی تھی اور ایسا خوف بٹھا دیا تھا، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کی نشستوں میں مزید اضافہ ہوا اور اترپردیش سمیت کئی صوبوں میں اس کی حکومت تشکیل پائی ۔ ۶دسمبر ۱۹۹۲ءکو جب ایودھیا میں بابری مسجد پر چڑھائی کی گئی تو مرکز میں کانگریس کے نرسمہا رائو اور اترپردیش میں کلیان سنگھ کی حکومت تھی ۔کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ [۹۶-۱۹۹۱ء]نے بی جے پی کی تمام تر بدنیتی کے باوجود کلیان سنگھ کی یقین دہانی پر بھروسا کیا اور بابری مسجد دن کے اُجالے میں زمیں بوس کردی گئی ۔کلیان سنگھ نے وزیر اعلیٰ کے طور پر سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے تحفظ کا جو حلف نامہ داخل کیا تھا، اس کی دھجیاں اڑا دیں اور بابری مسجد کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
بابری مسجد: قانون، دستور اور عدلیہ کی موجودگی کے باوجود منہدم کردی گئی ۔یہ مسلمانوں کے لیے اتنا بڑا صدمہ تھا، جسے وہ آج تک بھول نہیں پائے ہیں ۔اس جرم کی پاداش میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی ،کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار سمیت ’سنگھ پریوار‘ کے ۳۲ لوگوں پر مجرمانہ سازش کا مقدمہ آج بھی لکھنؤکی ایک عدالت میں چل رہا ہے ۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے قوم کے نام اپنے خطاب میں یہ وعدہ کیا تھا: ’’ہم مسجد کو دوبارہ اسی جگہ تعمیر کرائیں گے‘‘۔لیکن اس وعدے کو وفا کرنے کے بجاے کانگریس پارٹی نے ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کو بی جے پی کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے تحت ۹ نومبر ۱۹۸۹ءکو ایودھیا میں بابری مسجد کے رُوبرو رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھوا دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس کے ٹھیک ۳۰سال بعد ۹نومبر۲۰۱۹ءکو سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ رام مندر کے حق میں کیا ہے۔
سنگ ِ بنیاد رکھنے کی تقریب کے موقعے پر راقم نے رپورٹنگ کی غرض سے ایودھیا کا سفر کیا تھا ۔ وہاں ’سنگھ پریوار‘ کے لیڈروں نے دُنیا بھر کے سامنے بلند آواز میں یہ کہا تھا: ’’ہم نے محض رام مندر کی بنیاد نہیں رکھی ہے بلکہ ہندو راشٹر کی بنیاد ڈال دی ہے‘‘۔سنگھ پریوار کے لیڈروں کے تیور دیکھ کر اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اس تحریک کے پیچھے کیا مقاصدکا رفرماتھے ۔اب،جب کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعے پر اپنا فیصلہ صادر کرتے وقت رام مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی ہے۔ آج اقتدار اسی پارٹی کے ہاتھوں میں ہے، جس نے اس مسئلے کا سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا ہے اور جس کا واحد مقصد ملک میں ’ہندو نسل پرستی‘ کا فروغ ہے ۔
حیر ت انگیز بات یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک ہزار سے زائد صفحات کے فیصلے میں بابری مسجد میں نماز کی ادایگی کے حقوق تسلیم کرنے اور وہاں ۱۹۴۹ء میں رکھی گئی مورتیوں کو غیرقانونی قرار دینے اور بابری مسجد کے انہدام کی مذمت کرنے کے باوجود رام للا وراجمان کی وہ درخواست تسلیم کرلی ہے، جس میں پوری متنازعہ اراضی پر حق ملکیت کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حق میں پیش کی جانے والی شہادتوں کو نہ جانے کیوںنظر اندازکردیا ہے؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایودھیا میں زیادہ عالی شان مندر بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ حکمران جماعت سمجھتی ہے کہ عالی شان مندر کی تعمیر کے بعد ’ہندو نسل پرستی‘ کو جو توانائی حاصل ہوگی، اس کے نتیجے میں کوئی طاقت بی جے پی کو مدتوں تک اقتدار سے بے دخل نہیں کرسکے گی۔