دُعائوں کی صورت میں، عربی زبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤثر نثری نمونے ہیں، جو سچے انسانی تاثرات، پاکیزہ و بلندپایہ قلبی احساسات اور بلیغ ترین اسلوب و طرز ادا پر مشتمل ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارک سراپا تقویٰ تھی اور سچے انسانی احساسات سے آراستہ تھی۔ آپؐ عربوں کے فصیح ترین قبیلے قریش میں پیدا ہوئے اور فصیح ترین ہی قبیلے بنوسعد میں آپؐ کی پرورش ہوئی۔ پھر آپؐ نے وحی الٰہی کے سایہ اور الہامِ سماوی کی آغوش میں تربیت پائی۔ پھر خوان قرآنی سے کسبِ فیض فرمایا۔ بھلا آپؐ سے زیادہ پاکیزہ گفتار، شیریں کلام، راست گو اور بلیغ و مؤثر تعبیرات والا کون ہوسکتا تھا؟ صلی اللہ علیہ وسلم__ اللہ کی طرف سے آپؐ پر بے شمار درود و سلام ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ادب پارے سب کے سب نثری ہیں، کیونکہ خود آپؐ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اس کی شہادت خود کتابِ الٰہی د ے رہی ہے:
وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۶۹ۙ (یٰس ۳۶:۶۹) ہم نے اس [نبیؐ] کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے، اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ۔
کلامِ نبویؐ بیک وقت سادہ بھی ہے اور پرکار بھی۔ اس میں بے تکلفی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گویا معانی کی ایک دُنیا آباد ہے۔ محل اگر اختصار کا متقاضی ہے تو کلام مختصر ہے اور اگر ضرورت دراز نفسی کی طالب ہے تو کلام طویل ہے۔ آپؐ کی گفتگو تکلف و تصنع سے پاک اور رواں دواں ہوتی تھی۔ آپؐ نامانوس اور اجنبی کلمات سے دُور اور سوقیانہ، عامی الفاظ سے نفور تھے۔ آپؐ کا کلام، ادب کی مختلف عمدہ اصناف پرمشتمل ہے، مثلاً: تمثیلاتِ فائقہ، اقوالِ حکیمانہ و عالیہ، امثالِ نفیسہ، وصایائے مفیدہ، رُشد و ہدایت، شریعت و تربیت اور مناجات و دُعا وغیرہ۔
پھر ان تمام اصناف میں سب سے زیادہ پُرتاثیر، اپنے ربّ کے حضور آپؐ کی دُعائیں ہیں۔ یہ دُعائیں اس قدر طاقت ور، جامع اور پُراثر ہیں کہ ان سے عربی ادب میں نہ صرف یہ کہ ایک نئی صنف کا آغاز ہوا بلکہ اس نے ادب کی طاقت ور ترین صنف کا درجہ حاصل کرلیا۔ اسلوب کے لحاظ سے یہ دُعائیں متین ہیں اور معنویت سے لبریز بھی۔نیز دُعا کرنے والے کے اندرونی احساسات، اس کے اُبلتے ہوئے جذبات اور اپنے ربّ کے حضور اس کی لجاجت و انکسار کی بلیغانہ تصویرکشی کرتی ہیں۔
اس کی ایک مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعا ہے، جو آپؐ نے طائف میں فرمائی تھی۔ جہاں آپؐ ایک اجنبی اور غریب الوطن کی حیثیت رکھتے تھے اور کسی حامی و مددگار کی تلاش میں تشریف لے گئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپؐ کے چچا ابوطالب وفات پاچکے تھے، جو قوم کی ایذائوں سے آپؐ کو بچاتے تھے اور آپؐ کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہؓ بھی وفات پاچکی تھیں، جو آپؐ کی معاون و غمگسار تھیں۔ لیکن طائف جو مکہ جیسا ہی شہر تھا، وہاں کے باشندوں کے درمیان آپؐ کو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں کے سرداروں نے آپؐ کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا اور وہاں کے شرارت پسند آپؐ کے پیچھے لگ گئے۔ پھر انھوں نے آپؐ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کے دونوں پائے مبارک لہولہان ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کا دل شدتِ الم سے چُور چُور تھا۔ ظالموں نے مکہ سے طائف تک کے طویل سفر کے بعد آپؐ کو دم لینے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔ اس لیے آپؐ طائف کی آبادی سے باہر نکل کر ایک کھلی جگہ میں بیٹھ گئے، جہاں شاید بجز آپؐ کے خادم و غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نہ کوئی مونس تھا، نہ غم گسار۔ آپؐ نے اس حال میں یہ دُعا فرمائی، جو آپؐ کی زخموں سے چُور لیکن حلیم شخصیت کی راست ادبی تصویر ہے:
اس دُعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار غالب و قادر و مہربان کے سامنے اپنی ناتوانی کا بیان فرما رہے ہیں، جو اس وقت عملاً سامنے آئی اور وہ یہ کہ رُؤسائے ثقیف کے سامنے آپؐ کی ایسی بےوقعتی ہوئی جو آپؐ جیسے قریشی کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ کیونکہ قبیلۂ ثقیف کے قریش کےساتھ قریبی برادرانہ روابط تھے۔ پھراپنے پروردگار سے مہربانیوں کی طلب کرتے ہوئے اور اس کی جناب میں الحاح و زاری کرتے ہوئےعرض کرتے ہیں: رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ ، (اے کمزور سمجھ لیے جانے والوں کے پالنہار)، پھر اللہ سے رحمت کی خواستگاری کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ إِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِی أَمْ إِلٰی قَرِیبٍ مَلَّکْتَہُ أَمْرِی؟ (آپ مجھے کس کے حوالے کررہے ہیں؟ کیا اس دُور دراز شخص کے جو مجھ سے برہمی کے ساتھ پیش آئے؟ یا آپ نے میری زمامِ کار کسی دشمن کو سونپ دی ہے؟)۔ پھر آپؐ کو تنبیہ ہوتی ہے اور آپؐ تاسف و اضطراب کی کیفیت پر قابو پالیتے ہیں۔ یہ حقیقت پیش نظر آجاتی ہے کہ آپؐ کا ربّ ان سب باتوں کو جانتا ہے۔ آپؐ کا کوئی معاملہ اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور نہ وہ آپؐ سے غافل ہے۔ اسی نے تو آپؐ کو منتخب فرمایا اور منصب ِ رسالتؐ پرفائز کیا ہے، نیز تبلیغ رسالت کی ذمہ داری عائد کی ہے، تو کیا وہ آپؐ کو یوں ہی بے یارومددگار چھوڑ دے گا؟ لیکن آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں کر؟ کیا آپؐ کا پروردگار آپؐ سے ناراض ہے؟ اس لیے عرض کرتے ہیں:
اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانَ عَلَیَّ فَلَا أُبَالِیْ غَیْرَ أَنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ، اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں تو یہ جو کچھ ہوا مجھے اس کی پروا نہیں ہے، مگر پھر بھی آپ کا سایۂ عافیت میرے لیے زیادہ گنجایش رکھتا ہے۔
پھر آپؐ اللہ تعالیٰ سے پناہ کی درخواست ، اس کی عظمت و رحمت کا تذکرہ اور ہمیشہ کی رضا کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ اس کی مدد کے بغیر نہ طاقت کا وجود ہے اور نہ قوت کا۔
دُعا و مناجات کلامِ انسانی کی جولاں گاہ ہے، جہاں صاحب ِ دُعا کے باطنی احساسات صاف نظر آتے ہیں۔ جہاں اس کے بے چین و غم زدہ دل کی تصویرسامنے آجاتی ہے، اور جہاں جذبات مجسم ہوجاتے ہیں اور الفاظ کا ایسا جامہ پہن لیتے ہیں کہ ان میں اثرانگیزی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے،اور وہ سننے والے کے دل میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ پھر اگر صاحب ِ دُعا کا یہ رُتبہ ہو کہ زبان و بیان پر اس کی اعلیٰ درجے میں گرفت ہو اوراس کا کلامِ بلاغت کا درجہ رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں قاری و سامع، صاحب ِ دُعا کے الفاظ میں اس کی روح کو چھو کر محسوس کرسکتا۔
چنانچہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کی یہی شان ہے۔ ان میں آپؐ کی معجزانہ بلاغت پوری طرح جلوہ گر ہے اور یہ ایسی خصوصیات و امتیازات سے مزین ہیں، جن کا سرچشمہ قرآنِ پاک کی مؤثر تعلیمات ہیں، کیونکہ اگلے انبیا و رُسل علیہم السلام کی دُعائوں کے مؤثر قرآنی نمونے آپؐ پر نازل ہوئے اور آپؐ نے انھی کی آغوشِ رحمت میںتربیت پائی۔ یہ دیکھنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آپؐ نے اپنے باطنی احساسات کی تصویرکشی اور ترجمانی کس طرح فرمائی ہے؟ اس کی ایک مثال تو وہ دُعا تھی جس کا ذکر طائف کے سلسلے میں گزر چکا۔
دوسری مثال دُعائے بدر ہے۔ اس دن بھی آپؐ پر بے چینی اور اضطراب کی اثرانگیز کیفیت طاری تھی۔ اس دن مسلمان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں پہلی بار دشمنانِ کفّار کے مقابل صف آرا ہوئے تھے۔ یہ اسلام کے حق میں ایک فیصلہ کن دن تھا۔ وہ اسلام جس کی تبلیغ اور استحکام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں لگا دی تھیں۔ اس کے بچائو کی تدبیریں کی تھیں اور اس کی راہ میں آپؐ نے اور آپؐ کے نیکوکار صحابہ نے ہر طرح کی اذیتیں جھیلی تھیں۔ یقینا یہ ایک عظیم الشان فیصلہ کن دن تھا۔ اس دن کفّارِ مکّہ چاہتے تھے کہ اپنی تمام تر طاقت، قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کریں اور اسلام کے خلاف جو کچھ کرسکتے ہیں ، کرگزریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حریف کے مقابل اپنے لشکر کو صف آرا کیا، اور مقدور بھر تیاری اور سازوسامان کی فراہمی کی، اور پھر تنہائی میں ایک چھپر تلے اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دُعا و مناجات ہوگئے۔ وہاں بجز حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ رسول ؐ اللہ کی یہ کیفیت تھی کہ آپؐ اپنے ربّ سے اس مدد کی طلب فرما رہے تھے، جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ تھا۔ دُعا کے درمیان خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے:
پھر آپؐ کی مناجات اور الحاح و زاری اس قدر بڑھ گئی کہ آپؐ کے رفیق حضرت ابوبکرصدیقؓ بے چین ہوکر کہہ اُٹھے:’’اے اللہ کے نبیؐ! اب بس کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کیے ہوئے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا‘‘۔
دُعائے بدر کے سلسلے میں راویوں سے یہی چھوٹا سا جملہ منقول ہے، جسے آپؐ کے الحاح و اضطراب کی ایک علامت اور سُلگتے ہوئے احساسات کی ترجمانی کہہ سکتے ہیں ۔ اگر دُعا کی پوری عبارت منقول ہوتی،جس کا یہ جملہ ایک جزو ہے، تو وہ شدتِ تاثیر اور خوبی ٔ ادا کی ایک اور شان دار مثال سامنے آتی۔ اس کا کسی قدر اندازہ ہم آپؐ کی ایک دوسری دُعا، ’دُعائے عرفات‘ سے لگا سکتے ہیں۔ یہ دُعا بھی آپؐ کے احساساتِ قلب کی تصویر اور ربّ العالمین کے حضور عبودیت ِ خالصہ کی تعبیر ہے۔ اس دُعا کے الفاظ میں ایک خاص طرح کی متانت اوراسلوب میں نرمی و لطافت ہے۔ عرض کرتے ہیں:
اس کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جلیل و کریم ربّ کے حضور اپنی ناتوانی کا اعتراف فرما رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنے ربّ کے حضور، بندے کی حالت و کیفیت دوسرے تمام احوال و کیفیات سے غایت درجہ مختلف ہوتی ہے۔ اسے نہ کسی بادشاہ اور اس کی کسی رعایا کی وضع و کیفیت کے مشابہ کہہ سکتے ہیں، اور نہ کسی آقا اور اس کے کسی غلام کی صورتِ حال کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں اس کا ایک بندہ حاضر ہے، جسے اپنے ربّ کی کامل و ہمہ جہت ربوبیت پر پورا ایمان اور اس قدرتِ کاملہ پر کُلی اعتماد ہے۔ آپؐ نے اس دُعا میں ربِّ عظیم کے سامنے اپنی حالت ِ زار پیش کی ہے اور چنانچہ عرض کرتے ہیں:
أَنَـا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ، اَلْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ [المعجم الکبیر للطبرانی، مکتبۃ ابن تیمیۃ، ج۲، ۱۹۹۴ء، ج۱۱، ص ۱۷۴] میں ہوں بے چارہ، مصیبت زدہ، محتاج ، فریادی، پناہ جُو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے ، اس اشارئہ ربانی کی موافقت فرمائی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالضُّحٰى۱ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى۲ۙ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى۳ۭ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۴ۭ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۵ۭ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى۶۠ وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى۷۠ وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۸ۭ (الضحٰی۹۳: ۱-۸) قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی، جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے، (اے نبیؐ) تمھارے ربّ نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمھارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے۔ کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف ِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقت ِ چاشت اور وقت ِ صبح کو اس بات کا گواہ بنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا معاملہ خصوصی توجہ اور رحمت ِ خاص کا ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے لیے حالت ِ احتیاج و ناتوانی میں وسائل زندگی فراہم کیے۔ کیونکہ وراثت میں آپؐ کو نہ مال ملا، نہ دولت۔ پھر آپؐ کا کوئی کفیل بھی نہ تھاکیونکہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی والدماجد وفات پاچکے تھے اور ابھی عہدِ طفولیت ہی تھا کہ والدہ محترمہ بھی چل بسیں، پھر کم سنی ہی میں مکرم و معظم دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح جب آپؐ نے رواں دواں زندگی کے حدود میں قدم رکھا تو آپؐ بےسروسامانی میں تھے لیکن ربّ رؤوف نے آپؐ کی دست گیری فرمائی اور آپؐ کے لیے اسبابِ غنٰی فراہم کر دیئے۔ تلاوتِ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ہی، اس لیے آپؐ اپنی دُعا میں ان تمام اُمور کو ملحوظ رکھ کر عرض کرتے ہیں:
پھرجب آپؐ کی نگاہ تبلیغِ رسالت کی اس عظیم ذمہ داری کی جانب ملتفت ہوئی، جو آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی، اور جس کے بوجھ تلے پشت ِ مبارک گویا ٹوٹی جارہی تھی۔ جب آپؐ نے راہِ تبلیغ میں اپنی کوششوں کا جائزہ لیا اور انھیں درجۂ مطلوب سے کم سمجھا تو آپؐ پر خشیت طاری ہوگئی اور اعترافِ خطا کا اعلان فرماتے ہوئے مصروفِ دُعا ہوگئے:
اَلْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفْ بِذَنْبِہٖ [میں ہی ہوں اپنی خطائوں کا معترف اور مقر]۔
پھر آپؐ نے احساسِ ناتوانی کی اس فضا میں کامل درجہ الحاح و زاری کے ساتھ عرض فرمایا:
أَسْئَلُکَ مَسْألَۃَ الْمِسْکِینِ، وأَبْتَھِلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیلِ، وأدْعُوْکَ دُعاءَ الْخَائفِ الضَّرِیْرِ، مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہ، وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہ، وذَلَّ لَکَ جِسْمُہ، وَرَغِمَ لَکَ أَنْفُہ [معجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع:۱، ۱۹۸۵ء، ص:۲۱۳]میں ایک بڑے بے کس کی طرح آپ سے سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی طرح گڑگڑاتا اور آہ و زاری کرتا ہوں جو خطاکار بھی ہو اور بے عزّت بھی ہو، اور خوف زدہ و آفت رسیدہ شخص کی طرح آپ کو پکارتا ہوں، جس کی گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہو اور جس کا بدن احساسِ ذلّت سے دبا جارہا ہو اور جو کہ احساسِ ندامت سے ناک رگڑ رہا ہو۔
اس حالت سے بڑھ کر فروتنی اور لجاجت کی اور کون سی حالت ہوگی، جس میں ناتوانی ، بے کسی اور تحیر کی تمام کیفیات جمع ہوگئی ہیں۔ اور جس کی ترجمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِ قادر و جلیل کی ربوبیت کے سامنے عبدیت ِ کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ذریعے اپنے ربّ کو پکارا ہے۔ اس سے سرفرازی، رحمت، حفاظت اور مہربانی کی درخواست کی ہے۔
اب یہ دعا مکمل اور مسلسل صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی عبارت میں ایک خاص طرح کی ہم آہنگی اور مسحورکُن حُسن ہے۔ پھر ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی جانب منتقل ہونے کا عمل بھی فطری محسوس ہوتا ہے۔ آپؐ عرض کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کو ’مغز عبادت‘ بتلایا ہے۔ فی الواقع یہ دُعا کی بہت عمدہ تعریف ہے۔ اس لیے کہ دُعا ایک ایسا عمل ہے، جس کےتمام گوشے اور زاویے روحِ عبودیت سے معمور ہوتے ہیں۔ اسی طرح دُعا، صاحب ِ دُعا کے ذہن و دماغ کو اپنے خالق و پروردگار سے حددرجہ قریب کر دیتی ہے۔ چنانچہ، دُعا خواں جب اخلاص و طمانیت کے ساتھ اپنے ربّ سے محوِ مناجات ہوتا ہے، تو ایسا لگتا ہے گویا وہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکا ہوا ہے اور بار بار اسے دیکھے جارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کی تعبیر کلمۂ ’احسان‘ سے فرمائی ہے۔
چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: ’احسان‘ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو۔ یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکے تو یہ تو حقیقت ہی ہے کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی یہی کیفیت تھی۔ رہ گئیں آپؐ کی دُعائیں اور مناجاتیں، تو وہاں یہ کیفیت قوی ترین شکل میں ظاہر ہوتی تھی۔ چنانچہ آپؐ جب مصروفِ دُعا ہوتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا اس جانی پہچانی دُنیا سے نکل کر کسی اور دُنیا میں تشریف فرما ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعائیں جو اسلوب کے لحاظ سے اُن قرآنی دُعائوں سے بہت قریب ہیں، جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپؐ کی تعلیم کے لیے فرمایا ہے، یا انبیائے سابقینؑ کی دُعائوں کے سیا ق میں کیا ہے۔آپؐ کی دُعائوں کا جائزہ لیا جائے تو انسانی قلب ان کی قدروقیمت کے احسا س سے معمور اور ان کے زیراثر پیدا شدہ فضا کی بلند پائیگی سے مسحور ہوجاتا ہے۔ ان دُعائوں کا اسلوبِ بیان کمال درجے کا سادہ ہے: کبھی چشمۂ صافی کی طرح سبک خرام اور کبھی چٹانوں کے درمیان سے گزرنے والے پر شور دریا کی مانند تیزگام۔
اب ہم آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائوں کے چند مسلسل اور مربوط نمونے پیش کرتے ہیں، جو آپؐ نے مختلف اوقات میں اپنے ربّ کے حضور کی ہیں۔ یہ دُعائیں کسی شرح اور ترجمانی سے بے نیاز ہیں:
اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، وَإِلَیْکَ الْمُشْتَکَی، وَبِکَ الْمُسْتَغَاثُ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ [الدعوات الکبیر للبیہقی، غراس للنشر والتوزیع، کویت، طہ۱، ۲۰۰۹ء، ج۱، ص ۳۵۴] اے اللہ! حمد کا استحقاق آپ ہی کو ہے، تکلیف و مصیبت کا عرض معروض آپ ہی سے کیا جاتا ہے۔ فریاد رس آپ ہی کی ذات ہے۔ مدد آپ ہی سے طلب کی جاسکتی ہے۔ طاقت و قوت آپ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔
اللَّھُمَّ إِنَّـا نَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْھَلَ أَوْ یُجھَلَ عَلَیْنَا [سنن الترمذی، کتاب الذبائح، أبواب الدعوات عن رسولؐ ، حدیث: ۳۴۳۲] اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں، مچل جانے سے، یا کسی کو مچلانے سے، یا کسی کو گمراہ کرنے سے، یا کسی پر ظلم کرنے سے، یا خود نشانۂ ظلم بننے سے، یا جہالت کرنے سے، یا کسی کی جہالت کا شکار بننے سے یا گمراہ ہونے سے، یا گمراہ کیے جانے سے۔
اے اللہ! ہمارے دلوں میں باہم اُلفت پیدا کر دیجیے۔ ہمارے باہمی تعلقات درست فرما دیجیے، ہمیں سلامتی کی راہیں دکھلایئے، ہمیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف پہنچا دیجیے۔ ہمیں ظاہری و باطنی بے حیائیوں سے دُور رکھیے۔ برکت عطا فرمایئے، ہماری شنوائیوں میں، ہماری بینائیوں میں، ہمارے قلوب میں،ہماری ازواج میں اور ہماری اولاد میں۔ ہماری توبہ قبول فرمایئےکہ آپ ہی ہیں بار بار توبہ قبول فرمانے والے اور نہایت مہربان۔ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرگزار، ثناخواں اور ان کا اہل بنایئے اور ہم پر اپنی نعمتیں پوری پوری اُتاردیجیے۔
دُعا ہائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انھی چند شہ پاروں پر اکتفا کرتا ہوں، جو ہیں تو بہت زیادہ لیکن یہاں تھوڑی مقدار میں پیش کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ہمیں اپنی فرماں برداری اور اپنے رسولؐ کی اطاعت کی توفیق نصیب فرمایئے اور اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے کی، صحیح ایمان اور جذبے سے دُعا کرنے کی کوششوں میں کامیاب کیجیے،کیونکہ ارشاد باری ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۲۱ۭ (احزاب ۳۳:۲۱) [درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔]
گناہوں سے بچنے کی قوت، اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر تصور نہیں کی جاسکتی۔