یہاں پر قادیانیت کے حوالے سے تین سوالوں کا جائزہ لینا پیش نظر ہے:
یہ سوال عام طور پر اُٹھایا جاتا ہے کہ’ ’قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں، بلکہ ہمارے روکنے کے باوجود پڑھتے ہیں، قرآن کریم بھی پڑھتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لیتے ہیں، بیت اللہ کی بات بھی کرتے ہیں، تو وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘‘ آج کی یونی ورسٹیوں، جدید تعلیمی اداروں اور عالمی ماحول میں یہ سوال اکثر پڑھے لکھے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ان حضرات سے جو دینی ماحول سے فاصلے پر ہیں، اور جن کا مسجد، مدرسے، کسی دینی جماعت یا دعوت و تبلیغ کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں ہے، ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’قادیانی کلمہ پڑھنے کے باوجود مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘
یہی سوال سب سے پہلے علامہ محمد اقبال مرحوم و مغفور سے پنڈت نہرو نے کیا تھا، جب علّامہ اقبال نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’قادیانیوں کو ہمارے کھاتے میں نہ لکھا جائے بلکہ ہم سے الگ غیر مسلموں میں لکھا جائے، یہ ہمارے مذہب و ملت کا حصہ نہیں ہیں‘‘۔ پنڈت نہرو نے علامہ اقبال سے سوال کیا کہ ’’جب قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں، محمد رسول اللہ کو مانتے ہیں، قرآن پاک کی بات کرتے ہیں، تو یہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘‘
مطلب یہ کہ یہ پرانی بات ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے سے قادیانی اسی سوال سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اس لیے تعلیم یافتہ طبقے، وکلا، تاجر برادری اور طلبہ سے گزارش یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اور پنڈت نہرو کی خط و کتابت پڑھیں۔ اصل انگریزی میں ہے، جب کہ اس کا اردو ترجمہ بھی کتابی شکل میں موجود ہے۔ اگر کتابی صورت میں حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو انٹرنیٹ پر بہ سہولت پڑھا اور پرنٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس مکالمے میں علامہ اقبال ؒنے اس سوال کی وضاحت کی تھی کہ قادیانی کلمہ پڑھنے کے باوجود، جناب نبی کریمؐ کو اللہ کا رسول کہنے کے باوجود اور قرآن پاک پڑھنے کے باوجود مسلمان کیوں نہیں ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے نہرو کو یہ جواب دیا کہ پیغمبر وہ ہوتا ہے جو خود اتھارٹی ہو، جس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، چاہے کوئی امام، خلیفہ، مجتہد یا فقیہ ہو، وہ قرآن یا حدیث کا حوالہ دینے کا پابند ہوتا ہے۔ پیغمبر وہ واحد شخصیت ہوتی ہے جس کو کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود اتھارٹی ہوتا ہے۔ اس لیے جب کسی امت میں پیغمبر بدل جاتا ہے تو مذہب بدل جاتا ہے، کیونکہ نبی کے بدلنے سے اتھارٹی تبدیل ہو جاتی ہے۔
دوسرے موقعے پر یہ مسئلہ سر ظفر اللہ خان نے اپنے عمل سے واضح کیا تھا جو کہ قادیانی جماعت کے بڑے قائدین میں سے تھے، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے۔ جب قائد اعظمؒ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ کراچی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھایا۔ جنازے میں ہزاروں لوگ موجود تھے۔ دوسرے ملکوں کے سفیر بھی آئے ہوئے تھے، اس وقت ان میں سے غیرمسلم سفیر جنازے میں شریک نہیں ہوئے بلکہ احتراماً ایک صف میں الگ قطار بنا کر کھڑے ہوئے۔ جب ظفر اللہ خان آئے تو وہ جنازے میں شامل ہونے کے بجائے غیر ملکی سفیروں کی صف میں جا کر کھڑے ہو گئے اور قائد اعظمؒ کا جنازہ نہیں پڑھا۔
جب جنازہ ہو گیا تو صحافیوں نے ظفر اللہ خان سے سوال کیا کہ ’’قائد اعظمؒ آپ کے گورنر جنرل ہیں، آپ ان کے وزیر خارجہ ہیں، تو آپ ان کے جنازے میں کیوں شریک نہیں ہوئے اور غیر مسلم سفیروں کی قطار میں کیوں کھڑے رہے؟‘‘ تو ظفراللہ خان نے اس وقت دوٹوک بات کی جو تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے ایک مسلمان حکومت کا کافر، یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھ لیں‘‘___ یعنی یا قائد اعظمؒ مسلمان نہیں ہیں یا میں مسلمان نہیں ہوں۔ مسلمان کا جنازہ غیر مسلم نے نہیں پڑھا یا غیر مسلم کا جنازہ مسلمان نے نہیں پڑھا، یہ بات کہ قادیانی اور مسلمان ایک نہیں ہیں، تاریخ میں اس کی شہادت خود ظفراللہ خان نے بھی دی۔
۱۹۸۷ء میں مجھے امریکا جانے کا اتفاق ہوا، جہاں پر ایک یہودی جرنلسٹ سے نیویارک میں میری ملاقات ہوئی۔ انھیں کسی نے بتایا تھا کہ پاکستان سے ایک مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں، اور ختم نبوت کی تحریک سے ان کا تعلق ہے۔ وہ میرے پاس تشریف لائے، انٹرویو کے دوران انھوں نے سوال کیا کہ ’’جب قادیانی قرآن کو مانتے ہیں، اللہ کو، محمدؐ رسول اللہ کو اور بیت اللہ کو مانتے ہیں، تو آپ کے نزدیک وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘‘ میں نے کہا:’’ مسلمان ہونے کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ماننا ضروری تو ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اس کے بعد کسی اور کو نہ ماننا بھی ضروری ہے‘‘۔
پھر مثال کے طور پر بات کی کہ ’’آپ اس لیے یہودی ہیں کہ آپ حضرت موسٰی کو اور تورات کو مانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح میں بھی حضرت موسٰی اور تورات کو مانتا ہوں، تو کیا آپ مجھے یہودی تسلیم کریں گے؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ تو اس نے کہا ’’کیونکہ آپ اس کے بعد ایک اور نبی اور کتاب کو مانتے ہیں، اس لیے آپ کو یہودی تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ پھر میں نے سوال کیا کہ ’’مسیحی کیوں عیسائی کہلاتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو مانتے ہیں، اس لیے عیسائی ہیں‘‘۔ میں نے کہا’’میں بھی انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو مانتا ہوں بلکہ ہم مسلمان تو عیسائیوں سے بڑھ کر انھیں مانتے ہیں لیکن اگر خدانخواستہ دنیا کے کسی فورم پر میں دعویٰ کروں کہ مجھے عیسائی تسلیم کیا جائے، تو کیا آپ یا وہاں پر موجود پادری مجھے عیسائی تسلیم کرلیں گے؟‘‘ اس نے کہا:’’ نہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’کیوں؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’آپ حضرت عیسٰیؑ اور انجیل کو تو مانتے ہیں لیکن چونکہ ان کے بعد حضرت محمدؐ کو اور قرآن مجید کو بھی مانتے ہیں، اس لیے آپ عیسائی کہلانے کے حق دار نہیں ہیں‘‘۔
اُن سے یہ بھی کہا کہ ’’یقیناً ہمیں تورات اور حضرت موسٰی کو ماننے، انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو ماننے کے باوجود یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں، کیونکہ ہم اس کے بعد نیا نبی اور نئی وحی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر چونکہ قرآن مجید کے بعد اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قادیانی نئی وحی اور نیا نبی مانتے ہیں۔ اس لیے وہ بھی مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔ جس دلیل پر میں عیسائی نہیں ہوں، اسی دلیل پر قادیانی بھی مسلمان نہیں ہیں۔ جس دلیل پر میں یہودی کہلانے کا حق دار نہیں ہوں، اسی دلیل پر قادیانی بھی مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔ یہی بات علامہ اقبالؒ نے پنڈت نہرو سے اپنے انداز میں کہی تھی‘‘۔
اسی طرح امریکا کے شہر ہیوسٹن کے ریڈیو پر مذاکرے میں گفتگو کے دوران میں نے یہی بات کی تو ایک ٹیلی فون آیا کہ ’’میں مسیحی پادری ہوں، میرا انڈیا سے تعلق ہے، میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ ہم اس آدمی کو مسلمان سمجھتے ہیں جو قرآن پاک کو اور حضرت محمد کو مانتا ہو۔ قادیانی قرآن پاک اور حضرت محمد کو مانتے ہیں تو آپ ان کو کیوں مسلمان شمار نہیں کرتے؟‘‘ میں نے ان سے سوال کیا کہ ’’آپ مورمنز کو جانتے ہیں؟‘‘
مورمنز امریکا میں ایک کمیونٹی ہے جس کے بانی نے مرزائے قادیان کی طرح نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور نئی بائبل لکھی تھی۔ پادری صاحب نے جواب میں اُلٹا مجھ سے پوچھا کہ ’’کیا آپ مورمنز کو جانتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’آپ سے زیادہ جانتا ہوں‘‘۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’کیا کیتھولک، پروٹسٹنٹ یا آرتھوڈکس فرقہ کے لوگ مورمنز کو کسی مسیحی چرچ کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ (یاد رہے کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس عیسائیوں کے تین بڑے فرقے ہیں)۔ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ تو میں نے کہا: ’’کیوں؟‘‘ اس نے کہا: ’’اس لیے کہ مورمنز نیا نبی اور نئی کتاب مانتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’ تمھارے ہاں مورمنز نئی کتاب اور نئی وحی ماننے کی وجہ سے تم سے الگ ہو گئے ہیں اور ہمارے ہاں قادیانی نئی وحی اور نیا نبی ماننے کی وجہ سے ہم سے الگ کیوں نہیں ہوئے؟ اس لیے قادیانی جتنا مرضی دعوٰی کر لیں، جب تک وہ جعلی اور نئی نبوت سے دست بردار نہیں ہوں گے اور نئے ’وحی و الہام‘ سے براءت کا اعلان نہیں کریں گے، اس وقت تک انھیں قطعاً مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے تعلیم یافتہ طبقے سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’’قادیانی مسلمان نہ سہی، لیکن پاکستان کے شہری تو ہیں، ان کے شہری حقوق ہیں۔ آپ بطور شہری اور بطور ملکی باشندے کے ان کے جو حقوق ہیں وہ کیوں نہیں دیتے؟‘‘ اس پر میں دوباتیں عرض کروں گا:
میں نے نیویارک میں اُسی یہودی سے بھی یہی بات کی تھی کہ ’’بات حقوق کی نہیں بلکہ ٹائٹل کی ہے۔ قادیانی اپنا ٹائٹل تسلیم کریں، اس ٹائٹل کے تحت جو حق ان کا بنتا ہے وہ ہم مانیں گے اور دینے کے لیے تیار ہیں، مگر وہ ہمارے ٹائٹل کے ساتھ حق مانگنے والے کون ہوتے ہیں؟ وہ اپنا ٹائٹل اور اپنا اسٹیٹس تسلیم کریں اور اس کے تحت حقوق کا مطالبہ کریں‘‘۔ میں نے اس سلسلے میں ایک مثال دی کہ مثلاً سو سال سے ایک پرانی کمپنی چلی آ رہی ہے جس کی ساکھ اور مارکیٹ ہے، اس کا تعارف اور ایک بھرم ہے، اس کا مونوگرام اور سٹیمپ ہے۔ اس سو سال پرانی فرم میں سے چند آدمی نکل کر نئی فرم بنانا چاہیں تو بنا لیں، اس میں پرانی کمپنی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس نئی فرم کو پرانی فرم کا نام استعمال کرنے کا حق کوئی نہیں دے گا۔ اس کا ٹائٹل، مونوگرام، اسٹیمپ اور لیٹر ہیڈ استعمال کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اگر نئی فرم پرانی فرم کی شناخت استعمال کرے گی تو اس کو قانون کی زبان میں فراڈ کہتے ہیں۔ اس لیے قادیانی ہمارے نام پر حقوق کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ جب ان کی کمپنی نئی ہے تو اپنی کمپنی کو نیا نام دیں اور اس کے تحت حقوق کا مطالبہ کریں۔ مارکیٹ دیکھ لے گی کہ کس کا مال لینا ہے اور کس کا نہیں لینا۔ ہمارا سیدھا سادا مطالبہ ہے کہ اپنا سودا اپنے نام سے بیچو، ہمارے نام سے بیچنے کی تمھیں اجازت نہیں دی جا سکتی۔
’’دوسری بات یہ ہے کہ قادیانی پاکستان میں شہری حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ کسی قاعدے قانون کے مطابق حقوق مانگ رہے ہیں یا ویسے ہی مانگ رہے ہیں؟ حقوق مانگنے اور حقوق لینے کا کوئی قاعدہ، قانون اور طریقہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ تو نہیں کہ جس کا جو جی چاہے وہ اپنا حق سمجھ کر مانگنے لگ جائے۔ امریکا میں کسی نے اپنے حقوق لینے ہیں تو اس کا معیار وہاں کے دستور کو تسلیم کرنا ہے۔ اگر ایک آدمی امریکا کے دستور ہی کو نہیں مانتا، مگر شہری حقوق مانگتا ہے تو کیا امریکا اس کو وہ حق دے گا؟ یا ایک آدمی برطانیہ میں رہتا ہے اور وہاں کے دستور، قانون اور اس کے سسٹم کو تو نہیں مانتا لیکن حقوق مانگتا ہے، تو کیا برطانیہ اس کو وہ حقوق دے گا؟ یقینی بات ہے کہ دستور تسلیم نہ کرنے والوں کو غیر قانونی شہری کہا جاتا ہے۔ میرا قادیانیوں سے بالکل یہی سوال ہے کہ حقوق کا مطالبہ درست ہے لیکن کون سے دستور کے تحت حقوق مانگتے ہیں؟ پاکستان میں حقوق کے لیے تو پاکستان کا دستور چلے گا۔ اور تم نصف صدی سے پاکستان کے دستور کے ساتھ ساری دنیا میں جھگڑا لگائے بیٹھے ہو کہ ہم اس کو نہیں مانتے‘‘۔
اگر امریکا میں کوئی آدمی غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے ووٹ کا حق دو، تو کیا امریکا اس کو ووٹ کا حق دے گا؟ اگر برطانیہ میں کوئی غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے ووٹ کا حق دو، تو کیا برطانیہ اس کا ووٹ کا حق تسلیم کرے گا؟ قادیانی یہ بات یادرکھیں کہ ان کے لیے دو ہی راستے ہیں یا ’نئی نبوت‘ اور ’وحی‘ سے براءت کا اعلان کر کے پرانے کیمپ میں واپس آ جائیں تو ہم ان کو قبول کر لیں گے، یا اپنا ٹائٹل الگ کریں، یہ جعل سازی نہیں چلے گی۔
تیسرا سوال کسی اور کا نہیں خود میرا ہے۔ اس سوال کے جواب کا فیصلہ آپ کریں گے۔ کسی بھی ملک میں جو لوگ دستور کو مانے بغیر غیر قانونی طور پر رہتے ہیں، ایسے لوگ ’غیر قانونی‘ کہلاتے ہیں۔ ان کو ملک کا شہری بننے کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے اور شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے بغیر انھیں ملک کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ قادیانی شرائط پوری نہیں کر رہے، حتیٰ کہ پاکستان کے دستور کو بھی نہیں مان رہے، تو سوال یہ ہے کہ وہ ملک کے شہری کیسے کہلا سکتے ہیں؟ دستور کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ دستور کو چیلنج کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں دستور کے خلاف مورچہ بندی کیے ہوئے ہیں۔ ان سے نمٹنا کس کی ذمہ داری ہے؟یہ بڑا نازک سوال ہے کہ ایک آبادی ملک کا دستور نہیں مان رہی، تو ان پر دستور اور پارلیمنٹ کے فیصلے کی رٹ قائم کرنا اور ان سے عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ منوانا آخر کس کی ذمہ داری ہے؟
یہ ان اداروں کی ذمہ داری ہے جو ریاست اور قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے پر کریک ڈاؤن کرتے ہیں۔ جو اداروں کی بالادستی سے انکار کرنے والوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں۔ پاکستان میں کئی آپریشن ہو چکے ہیں جن کی ہم نے تائید کی ہے اور یہ سب آپریشن اسی بنیاد پر ہوئے ہیں کہ جو لوگ ریاست کی رٹ تسلیم نہیں کرتے، ان سے ریاست کی رٹ منوانے کے لیے آپریشنز اور کریک ڈاؤن ہوئے۔ کئی پارٹیاں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر خلافِ قانون قرار دی گئی ہیں۔ اگر بیسیوں جماعتیں قانون اور ریاست کی رٹ کو تسلیم نہ کرنے پر خلافِ قانون ہو سکتی ہیں، اگر بہت سے حلقوں کے خلاف ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر آپریشن ہو سکتے ہیں، تو قادیانی بھی دستور کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتے، ان کے خلاف آپریشن اور کریک ڈاؤن کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کام کس نے کرنا ہے اور کس کی ذمہ داری ہے؟
میرا یہ سوال اور مطالبہ ان سے ہے جو رٹ قائم کیا کرتے ہیں۔ سیدھی سیدھی بات ہے یا قادیانیوں سے رٹ تسلیم کرواؤ، ورنہ انھیں خلافِ قانون قرار دے کر کریک ڈاؤن کرو۔ ہمارے ساتھ یہ گول مول معاملہ نہ کرو کہ قومی اسمبلی میں کبھی کوئی بل لے آئے اور کبھی کوئی بل بڑی عجلت اور دھوکے سے منظور کروا لیا۔ ہم تو اپنے مقتدر حلقوں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے۔ ملک کے دفاع کے لیے، ریاست کی رٹ، قانون کی حکمرانی اور دستور کی بالادستی قائم کرنے کے لیے جہاں آواز دی، ہم ساتھ کھڑے ہوئے، لیکن خدا کے لیے یہ بھی ملک کے مفاد کا تقاضا ہے، قوم کے فیصلے اور دستور کی رٹ کا تقاضا ہے، اس لیے کچھ مہربانی آپ بھی فرما دیں!