محمود رحمٰن


 

حاکم اور محکوم کے تعلق کو سیاسی فلسفے کی اصطلاح میں ’معاہدۂ عمرانی‘ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسی ریاست، جو کسی معاہدے پر اتفاق کے نتیجے میں قائم ہو ، اس کا تصور تو قدیم یونانی دور میں بھی موجود تھا۔ تاہم، ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں یورپی فلسفیوں تھامس ہوبز [م:۴دسمبر ۱۶۷۹ء] ، جان لاک[م:۲۸؍اکتوبر ۱۷۰۴ء] اور فرانسیسی فلسفی ژین ژاک روسو [م:۲جولائی ۱۷۷۸ء] نے اس تصور کی بجاطور پر وضاحت کی۔ان کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ سب انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں، سب برابر اور مساوی ہیں، مگر وہ اپنی فطری آزادی کو زندگی گزارنے اور مال و جائیداد کی ملکیت کے حقوق کے بدلے، شفاف قوانین کے تحت، ریاست کے حوالے کر دیتے ہیں۔

جان لاک نے اس بات پر زور دیاہے کہ ’ریاست کی تابع داری شہریوں کے بنیادی فطری حقوق کی حفاظت سے مشروط ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے حکمران کو اقتدار سے بجاطور پر نکالا جا سکتا ہے۔ جدید جمہوری ریاست میں من مانے اختیارات کی کوئی گنجایش نہیں‘۔

اگر ان بنیادی اقدار کا اطلاق حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت میں بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال پر کیا جائے، تو ہر سمجھ دار شخص اس نتیجے پر پہنچے گا کہ بنگلہ دیش اپنے حکمرانوں کی طرف سے عمرانی معاہدے کی یک طرفہ اور صریح خلاف ورزیوں کی وجہ سے ریاست ہی نہیں رہا۔

۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۶ء تک ملک کی مختلف جیلوں (ڈھاکہ کی قدیم مرکزی جیل، قاسم پور اور راج شاہی کی جیل) میں قید و بند کے تقریباً پانچ برسوں کے دوران، مَیں درجنوں ایسے نوجوانوں سے ملا ہوں، جن کی ٹانگیں پولیس کے تشدد کی وجہ سے ضائع ہو چکی تھیں۔ کئی نوجوانوںکو (جن میں سے کئی بالکل نو عمر تھے) بلاوجہ گرفتار کیا گیا تھا اور تھانوں کے اندر ظلم کے دوران ان کے گھٹنوں کے خول بندوق کے بٹ مارمار کر توڑ دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے بعدازاں ایسے مجروحین کی ٹانگوں کو کاٹنا پڑا تھا۔ میں نے جیل میں قید کے دوران، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کی ہولناک داستانیں بھی سنیں۔ پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح پولیس تھانوں میں نوجوانوں پر تشدد کے بعد ان کو نیم مردنی کے عالم میں ان کی کال کوٹھڑیوں میں واپس لایا جاتا تھا۔ متعلقہ اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق تو ان لوگوں کاکوئی وجود ہی نہ تھا ۔ ذہنی اذیت دینے اور دھمکانے کے لیے ایک طریقے کے طور پر مجھے جسمانی تشدد کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات دکھائے گئے۔کچھ پولیس اہلکاروں نے مجھے فخریہ انداز سے یہ بتایا کہ ’’ہم نے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے فن اور سائنس کی تربیت امریکا سے حاصل کی تھی‘‘۔

روسوکے مطابق ریاست ایک اخلاقی وجود ہے، جو عوام کی مرضی کے مطابق قوانین بناتی ہے، تاکہ سب شہریوں کو آزادی اور مساوات میسر ہو۔ اگر کوئی فرد یا کچھ افراد کا گروہ، عوام کا اختیار سلب کرتا ہے، تو معاہدۂ عمرانی کے نظریہ سازوں کے مطابق، شہریوں پر ریاست کی فرماں برداری کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی اور بغاوت کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ان کےلیے جائز ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھاکا کی موجودہ صورت حال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی اور بنگلہ دیش کے عوام غیرقانونی، فسطائی اور آمرانہ حکومت کے خلاف ضرور اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

جہاں تک خود مختاری کا مسئلہ ہے تو اقوام متحدہ کا اعلامیہ واضح طور پر کہتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی رکن ملک یا خود اقوام متحدہ بھی کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ بد قسمتی سے بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے اپنی خود مختاری کو غلامانہ رضامندی، ڈھٹائی اور بڑی بے شرمی سےبھارت کے سامنے گروی رکھ دیا ہے۔

بھارت کے سابق صدر [۱۷-۲۰۱۲ء] پرناب مکھر جی نے اپنی سوانح اتحاد کے سال ( The Coalition Years: 1996-2012) میں لکھا ہے کہ ’’بھارت کی حکومت نے [عوامی لیگ] حسینہ کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ۲۰۰۸ء میں بنگلہ دیش کےانتخابات کے نتائج کا فیصلہ انتخابات کے انعقاد سے تقریباً دس ماہ پہلے ہی کر لیا تھا‘‘۔ پرناب مکھر جی نے بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ جنرل معین کو یقین دلایا کہ ’’شیخ حسینہ کی حکومت میں وہ اپنے عہدے پر برقرار رہے گا‘‘۔ نئی دہلی کی براہِ راست اور صریح مداخلت کی وجہ ہی سے حسینہ واجد ۲۰۰۸ء سے اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے ہے۔

 ۲۰۱۴ء میں اس وقت، اُمورِ خارجہ کے بھارتی سیکرٹری سجاتا سنگھ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور حسینہ کی حکومت کو جواز دینے کی خاطر محض دکھاوے کے، اور اصلاً یک جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) حسین محمد ارشاد پر دباؤ ڈالا۔ امریکی انتظامیہ کو مطمئن کرنے کے لیے حسینہ واجد نے واشنگٹن کا بھی ایک چکر لگایا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں امریکی سفیر ڈان موزینا نے فوری طور پر دہلی کا رخ کیا اور بنگلہ دیش میں آزاد اور منصفانہ ، اور سب کی شمولیت کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کی درخواست کی، جو بے کار گئی، کیونکہ امریکی سفیر کی بات بھارت کے دارالحکومت میں جھٹک دی گئی اور اس کو خالی ہاتھ واپس آنا پڑا۔ اس طرح واشنگٹن انتظامیہ کو جنوبی ایشیا میں اپنے اسٹرے ٹیجک اتحادی کے ایما پربنگلہ دیشی آمرانہ حکومت کو اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم جاری رکھنے کی اجازت دینا پڑی۔

۲۰۱۸ میں حسینہ واجد نےاپنی ایک پریس کانفرنس میں فخریہ کہا تھا: ’’میں نے بھارت کے لیے جو کچھ کیا ہے اسے ’پڑوسی‘ ہمیشہ یاد رکھے گا‘‘۔بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی ترجمان نوپورشرما کی طرف سے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پرعالم اسلام میں سفارتی سطح پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، مگر اس معاملے میں بھی بنگلہ دیش حکومت نے بھارت کی مذمت سے نہ صرف اجتناب کیا بلکہ ہندو نسل پرست حکومت کی تعریف کی۔ ایک سابق جنرل، حسن سہروردی کا دعویٰ ہے کہ ’’بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ کے تعین کا اختیار، دہلی کےپاس ہے‘‘۔

 ۱۷ کروڑ کی آبادی، جس میں ۹۰ فی صد مسلمان ہیں، اس ملک بنگلہ دیش پربھارتی تسلط کے ہر طرف بکھرے ثبوت بڑی آسانی سے پیش کر سکتا ہوں، مگر میرے خیال میں حسینہ واجد کی بدعنوان، غیرجمہوری، غیراصولی اور فسطائی ۱۴ سالہ حکومت کے چلن کو دیکھنے کے بعد ایسے کسی مزید ثبوت کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بین الاقوامی برادری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں بنگلہ دیش غیرعلانیہ طور پر بھارت کی طفیلی ریاست بن چکا ہے۔

راقم نے حال ہی میں اس خطے کی سیاسی و زمینی صورت حال پر ایک تحقیقی کام مکمل کیا۔ اس ہوش ربا تحقیق کے مطابق سارک ( SAARC) ممالک میں سے بنگلہ دیش اور بھوٹان کے حکمرانوں نے بھارتی جارحیت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بھارت ۱۹۴۷ سے ہی جنوبی ایشیا میں استعماری عزائم اور بڑی طاقت بننے کے خبط میں مبتلا چلا آرہا ہے۔ تاہم، بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت اور فوجی قوت کے باوجود،علاقائی او ر عالمی حیثیت حاصل کرنے کے لیے اس کا خواب متزلزل اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا میں نئی دہلی کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اتحادی حسینہ واجد نے، نہ صرف جمہوری انتخابی نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے بلکہ بنگلہ دیشی عوام کی آزادی تک کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں اب وہاں مکمل فاشسٹ آمریت برقرارہے۔ مسلم دشمن بھارتی سرکار کی مسلسل آشیرباد کی وجہ سے موجودہ بنگلہ دیشی حکومت بلاجھجک، ظالمانہ ہتھکنڈے اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم اس مختصر تجزیے کا اختتام ان الفاظ پر کریں گے کہ بنگلہ دیش کے غیور  عوام کے بھارتی تسلط کے خلاف شدید جذبات رکھنے کے باوجود بھارت، بنگلہ دیش میں اپنے سیاسی و نظریاتی اتحادیوں کی بدولت اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن عوام کی طرف سے تائید اور اعتماد اس کو کبھی حاصل نہ ہوگا۔

درحقیقت ڈھاکا پر مسلط موجودہ ٹولے کی بھارت کے حوالے سے محکومانہ خارجہ پالیسی اور بنگلہ دیش کی داخلی سیاست میں بھارتی مداخلت نے یہاں کے عوام کو سخت پریشان کیا ہے جس   کے نتیجے میں بھارت مخالف جذبات میں رفتہ رفتہ شدت آرہی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں  ’نسل پرست برہمنی لہر‘ ، ۲۱ویں صدی میں انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست کی ایک انتہائی کریہہ شکل ہے۔ اس طرح بھارت کی اندرونی سیاست میں تبدیلی نےپورے جنوبی ایشیا کو خطرناک غیریقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔