جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے قانون کے تحت برطانوی ہند کی ریاستوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہاں کے حکمران پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے وقت ریاستی عوام کی خواہشات کو پیش نظر رکھیں گے۔ ریاست جموں و کشمیر کا حکمران غیرمسلم تھا، جس پر مظلوم، محکوم اور اکثریتی مسلمانوں کا اعتماد نہیں تھا کہ اُس نے ان پر زندگی تنگ کر دی تھی۔ چنانچہ، قیامِ پاکستان سے قبل ہی ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو ریاستی مسلمانوں کی نمایندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے سرینگر میں سردار محمد ابراہیم خان جوکہ ریاستی اسمبلی کے ممبر اور مسلم کانفرنس کے چیف وہپ تھے، اُن کی رہایش گاہ پر اپنے اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد کےذریعے مہاراجا سے الحاقِ پاکستان کا مطالبہ کیا۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قیامِ پاکستان کے بعد مہاراجا نے بظاہر پاکستان سے ’معاہدہ قائمہ‘ کیا، لیکن درونِ خانہ بھارت سے معاہدہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ بیدارمغز کشمیری قیادت نے ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہی مہاراجا کے خلاف راولاکوٹ کے مقام پر ۳۰ہزار نیشنل گارڈز کی موجودگی میںبغاوت کا اعلان کرکے مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کردیا۔ اس طرح پہلے مرحلے میں مختصر علاقے کی آزادی حاصل کرکے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ایک جانشین انقلابی حکومت کے قیام کااعلان کردیا، اور پلندری کو دارالحکومت سے قرار دیا۔
مجاہدین کی یلغار اور ریاستی اقتدار سے محروم ہوتے مہاراجا کی طرف سے سازباز کرتے ہوئے ایک نام نہاد دستاویز ہندستان کے ساتھ الحاق کرکے اور مجاہدین آزادی کی سرکوبی کی غرض سے بھارتی فوج سے مدد کی درخواست کی۔ بھارت نے ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اپنی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں داخل کردیں اور خودمعاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ بھارتی اور پاکستانی نمایندوں کے ساتھ کشمیریوں کے نمایندہ اور انقلابی حکومت کے صدرسردار محمدابراہیم خان کا موقف سننے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ قراردادیں منظور کیں، جن کے ذریعے بھارت سے مہاراجا کے الحاق کو غیرقانونی اور غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استصواب رائے کے لیے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر بھی کردیا۔ فائربندی اور سیزفائر لائن کےتعین کے لیے بھی کمیشن مقرر کیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے عالمی برادری کے سامنے اُن قراردادوں کو تسلیم کیا۔
آزاد علاقوں کے نظم و نسق اور دفاع کے لیے آزادحکومت جموں و کشمیر کو لوکل اتھارٹی تسلیم کرتے ہوئے ’آزاد جموں و کشمیر فورسز‘ (AJKF)کو بحال رکھنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔ بھارت، اقوام متحدہ کے کمیشن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے رائے شماری کے لیے اقدامات سے گریزاں رہا۔ چنانچہ، حکومت ِ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کا نظام بہتر طورپرچلانے اور بقیہ ریاست کی آزادی کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی اختیار کی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تسلیم شدہ ’لوکل اتھارٹی آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر‘ کے تحت ۲۸مارچ ۱۹۴۹ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا، جو ’معاہدۂ کراچی‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی جانب سے مشتاق احمد گورمانی ،صدر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر سردار محمد ابراہیم خان اور صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس چودھری غلام عباس نے دستخط کیے۔ جس کے تحت گلگت بلتستان کی انتظامی نگرانی حکومت پاکستان کے سپرد کردی گئی، جب کہ آزاد جموں و کشمیر میں قائم حکومت کو مستحکم کیاگیا۔ اس وقت سے یہ لوکل اتھارٹی اپنے دارالحکومت مظفرآباد میں ساڑھے چار ہزار مربع میل کے علاقے پر اس صورت میں قائم ہے کہ اس حکومت کا اپنا صدر،وزیراعظم، سپریم کورٹ، آئین، ریاستی پرچم،ریاستی ترانہ اور قانون ساز اسمبلی موجود ہے۔ تاہم، گلگت بلتستان میں معقول، فعال اور عادلانہ نظام تشکیل نہیں دیا جاسکا، جس پر یہاں کے عوام میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔
’معاہدۂ کراچی‘ کے علاوہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان معاملات کو چلانے کے لیے رولز آف بزنس ۱۹۵۰ء، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۸ء ترتیب دیے گئے۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۰ءکے صدارتی انتخاب میں کے ایچ خورشیدصدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں ایک ایکٹ منظور کیا گیا، جسے بعد میں ایکٹ ۱۹۶۸ء میں تبدیل کیا گیا۔ یہ ایکٹ کسی طور پر بھی ایک ریاستی حکومت کے شایانِ شان نہیں تھا۔ پھر اس کو ایکٹ ۱۹۷۰ء کے ذریعے تبدیل کیا گیا اور آزاد ریاست جموں و کشمیر میں ۱۹۷۰ء میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ۲۵رکنی ریاستی اسمبلی اور براہِ راست انتخاب کے ذریعے صدر ریاست نے نظامِ حکومت سنبھالا۔
بھارت نے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب فوجی اور سول پاکستانی بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔ اُس صورتِ حال میں، صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو، شملہ گئے اور جولائی ۱۹۷۲ء میں بھارت کے ساتھ ’معاہدۂ شملہ‘ پردستخط کیے۔ جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں سیزفائرلائن کو کنٹرول لائن تسلیم کرلیا گیا، اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات کو باہم بات چیت کے ذریعے حل کرنا طے پایا۔
۱۰جون ۱۹۷۴ء کو آزاد ریاست جموںو کشمیر میں بھی پارلیمانی طرزِ حکومت کے لیے، کشمیری قیادت نے حکومت پاکستان سے ’معاہدئہ اسلام آباد‘ کیا۔ اس کے تحت آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ۲۴؍اگست ۱۹۷۴ء کو ’عبوری آئین ایکٹ‘ پاس کیا، جو فوری طور پر نافذالعمل ہوا۔ اس ایکٹ میں پہلی بار وزارتِ اُمور کشمیر پاکستان کی موجودگی میں ۱۴رکنی کشمیر کونسل کا وجود تخلیق کیا گیا، جس کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان/چیف ایگزیکٹو کو رکھا گیا، جب کہ چھ ممبران کا انتخاب آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی قانون سازاسمبلی نے کرنا مقرر کیا۔ پھر پانچ ممبران کو چیئرمین کونسل، پاکستان کی پارلیمنٹ سے نامزد کرتا ہے۔ وزیراُمورِ کشمیر کو بربنائے عہدہ ممبرقرار دیتے ہوئے ووٹ کا حق دیا گیا۔ صدر آزاد جموں و کشمیر کو، کشمیر کونسل کا وائس چیئرمین قرار دیا گیا۔ یہ کونسل، ایکٹ ۱۹۷۴ء کی دفعہ ۲۱ کےتحت معرضِ وجودمیں آئی، تاہم مختلف آئینی ترامیم کے ذریعے اس کے اختیارات میں رَد وبدل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ ۱۹۷۴ء میں تیرھویں ترمیم کے بعد کشمیر کونسل کے بیش تر اختیارات حکومت ریاست جموں و کشمیر، قانون ساز اسمبلی اوروزیراعظم پاکستان کو منتقل کر دیے گئے۔ یوں کونسل کی حیثیت محض ایک مشاورتی ادارے کی سی رہ گئی۔اس طرح آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا پارلیمانی نظام بے اختیار ہوکر رہ گیا۔
پھر ’آزاد جموںو کشمیر آئین ایکٹ ۱۹۷۴ء‘ میں ۱۳ویں ترمیم ’ایکٹ ۲۰۱۸ء‘ کے نام سے وفاقی کابینہ نےاپنے اجلاس میں منظوری دے کر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی اورکونسل کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے منظور کرا لیا۔ ہائوس میں اسمبلی کے ۴۹ ممبران، کشمیر کونسل کے ۶ممبران اور وزیر اُمورکشمیر ایک ووٹ ڈالتے ہیں۔ یکم جون ۲۰۱۸ء کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے۵۶ میں سے ۳۵ ووٹروں کی اکثریت سے ترمیم منظور کی۔ اس طرح سیکشن ۳۱ ،اور ۳۳ میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئیں۔ حزبِ اختلاف کے ممبران نے سیکشن ۳۱ میں تبدیلیوں پر شدید اعتراض کرتے ہوئے بطورِ احتجاج واک آؤٹ کیا۔
آرٹیکل ۶ میں پہلے صدر ریاست پر عدم اعتماد کے لیے مشترکہ اجلاس بلایا جاتا تھا، مگر اب قانون ساز اسمبلی کی ایک تہائی تعداد یعنی ۱۷ ممبران اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتےہیں۔ آرٹیکل ۱۴ کی شق کے تحت وزرا کی تعداد کل ممبران اسمبلی کا ۳۰فی صد طے کی گئی ہے۔ آرٹیکل ۱۴-اے کے تحت اب وزیراعظم آزاد کشمیر، پانچ پارلیمانی سیکرٹریوں اور دو معاون خصوصی یا مشیر بھی تعینات کرسکتے ہیں۔ آرٹیکل۱۷ کی شق ۳ کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر کی عدم موجودگی میں سینئر وزیر، قائم مقام وزیراعظم ہوتا تھا۔ آرٹیکل ۱۸ کی ایک شق میں ترمیم کے بعدوزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کل ممبران کا ۲۵ فی صد یعنی ۱۳ ممبران پیش کریں گے۔ قبل ازیں ایک ممبر بھی تحریک پیش کرسکتا تھا۔ اسی طرح بہت سی جگہوں پر ’جائنٹ سیشن‘ کے بجائے ’حکومت آزاد کشمیر اور قانون ساز اسمبلی‘ سے تبدیل کر دیا گیا۔ آرٹیکل ۱۹ میں نئی شقیں شامل کی گئیں، جس کے مطابق حکومت پاکستان کی وزارت ڈویژن یا ادارے کے ذریعے ریاست کے اندر قانون کے تحت ہی اقدامات کرسکےگی، اور دوسری شق میں آزاد کشمیر حکومت کو ۱۱مئی ۱۹۷۱ء کے وفاقی کیبنٹ ڈویژن کے مراسلے کے تحت رکھا گیا ہے۔
عبوری آئین ایکٹ ۱۹۷۴ء کے آرٹیکل ۲۱ میں کشمیر کونسل کے اختیارات کا تعین واضح تھا۔ جس میں ترامیم کے بعد ۱۴ میں سے ۷ شقیں نکال دی گئیں اور کونسل کو ایک مشاورتی باڈی بنادیا گیا ہے۔ آرٹیکل ۲۲ میں ترمیم کرکے اسمبلی کی نشستیں ۴۹ سے بڑھا کر ۵۳ کردی گئیں۔ ۴۵ پر براہِ راست، جب کہ پانچ خواتین، ایک علماء مشائخ /ٹکنوکریٹ اور ایک سمندرپار کشمیریوں کے لیے مختص ہے۔ یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ ۴۵ نشستوں میں ۱۲نشستیں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی نمایندگی کے لیے رکھی گئی ہیں، جن پر وادیٔ کشمیر سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین چھ نشستوں پر، جب کہ جموں کے علاقوں سے آنے والے مہاجرین چھ نشستوں پر ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔
آرٹیکل ۲۷ میں بھی ترمیم کی گئی، جس کے مطابق تین ماہ میں ایک دفعہ اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری تھا، جو اَب سال میں ۶۰ دن ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ترمیم کی گئی ہے کہ ’جائنٹ سیشن‘ کے بجائے ’اسمبلی دو تہائی اکثریت سے‘ آئینی ترمیم کرسکتی ہے۔ آرٹیکل۳۷ کو بھی ختم کیا گیا، جس کے تحت کشمیر کونسل اپنے پاس ریونیوجمع کیا کرتی تھی۔ اسی طرح آرٹیکل ۴۲-اے کے تحت سپریم کورٹ رولز بنانے کے لیے اب کشمیر کونسل کے بجائے حکومت آزاد کشمیر سے مشاورت کرے گی۔ آرٹیکل ۴۳ میں نئی شقوں کے تحت صدر آزاد کشمیر، وزیراعظم آزاد کشمیر کی مشاورت سے شریعت بنچ میں عالم جج مقرر کرسکیں گے۔ آرٹیکل ۵۰ میں الیکشن کمشنر کے بجائے اب الیکشن کمیشن ہوگا، جو تین ارکان، چیئرمین اور دو ممبران پر مشتمل ہوگا۔ آرٹیکل۵۱-اے کے تحت کونسل کے جملہ اثاثہ جات اور فنڈز آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کیے گئے ہیں اور آرٹیکل ۵۲-سی کے تحت ریاست کے قدرتی وسائل پر حکومت پاکستان کو اختیارات دیئے گئے ہیں۔
۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے دفعہ ۳۷۰ کو ختم کرتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین ٹیرٹری،(بھارتی مملکت کا حصہ) قرار دیا اور دفعہ ۳۵-اے ختم کرکےغیر ریاستی غیرمسلم افراد کو ریاست جموں و کشمیر میں آباد کرنے اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرکے یہ پیغام دیا کہ اب ہمیں کشمیریوں کی نہیں صرف کشمیر کی ضرورت ہے۔ اس طرح کشمیریوں کی نسل کشی کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے اور انھیں ’ریڈ انڈینز‘ کی طرح اقلیت بنانے کا گیٹ کھول دیا گیا ہے۔ ۷۳برسوں میں ایک طرف بھارت نے متعدد کشمیری لیڈروں کو مراعات دے کر اور شریکِ اقتدار کرکے بھارتی بنانا چاہا، کچھ لوگوں کو خرید کر مرکزی حکومت میں وزارتیں اور ریاستی حکومت میں اہم ذمہ داریاں بھی دیں، مگر دوسری طرف چھ لاکھ کشمیریوں کو شہید کرکے بھی کشمیریوں کو ریاستی دہشت گردی سے بھارتی نہیں بناسکا۔
افسوس کہ بھارت کے اس اقدام کے خلاف کوئی جوابی لائحہ عمل دینے کے بجائے ۱۵ویں ترمیم کے ذریعے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوششوں میں مصروف لوگ یہ بات بھول گئے کہ آج ہم چین کے ساتھ عظیم اور لازوال دوستی کی بات کرتے ہیں اور معاشی ترقی کے لیے ’سی پیک‘ ریڑھ کی ہڈی قراردےرہے ہیں، تو جب ہم نے ۱۹۶۳ء میں ریاست جموں و کشمیر کا ۱۲ہزار مربع میل کا علاقہ ’بائونڈری ٹریٹی‘ کے ذریعے چین کے حوالے کیا تھا، اس وقت بھارت معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان، ریاست کے کسی حصے کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرسکتا۔ اب، جب کہ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا آئینی حصہ قرار دے دیا ہے اور ہم خاموش تماشائی ہیں تو بھارت گلگت کو صوبہ بنانے کے عمل پر کیونکر خاموش رہ سکتا ہے۔ درحقیقت یہ خاموشی دونوں ممالک کے درمیان ریاست جموں و کشمیر کی بندربانٹ کے علاوہ اور کوئی پیغام نہیں دے سکے گی۔
ان حالات میں اس وقت آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے اندر ایک بااختیار حکومت کو پوری دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے بجائے ۱۵ویں ترمیم کے ذریعے ایک بلدیاتی ادارہ بنانے کی کوشش نے آزاد ریاست کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی اور تمام سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اندر متفقہ طور پر ریاستی ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور اختیارات واپس کشمیر کونسل کے حوالے کیے جانے کے لیے ۲۶صفحات پر مشتمل ۱۵ویں ترمیم کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور پوری ریاست کے اندر عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت اسی احتجاج کو پاکستان کے خلاف سفارتی سطح پر استعمال کر رہا ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے کسی بھی مرحلے پر وہ اقوام متحدہ سے رائے شماری کے لیے کہتے ہوئے پوری ریاست پر اپنے ناجائز قبضہ کو جائز قرار دلوانے کی طرف بڑھ سکتا ہے، جب کہ عاقبت نااندیش پاکستانی حکمران محض گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر قناعت کرتے نظر آرہے ہیں۔