محمد صادق کھوکھر


یورپ میں سب سے زیادہ ہندو برطانیہ کے شہر لیسٹر میں مقیم ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۲ء۴ فی صد عیسائی، ۱۸ء۶ فی صد مسلمان، ۱۵ء۲ فی صد ہندو، ۴ء۴ فی صد سکھ، لیسٹر میں رہتے ہیں۔ باقی دیگر مذاہب یا لامذہبیت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، معاشی اور تعلیمی  لحاظ سے ہندو اس شہر میں کافی منظم اور متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیسٹر سٹی کونسل کی بلدیہ کے منتخب اراکین میں ان کی تعداد اچھی خاصی ہے، اور اسی لحاظ سے کافی اثر و رسوخ بھی ہے۔ یورپ میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر بھی لیسٹر میں ہے۔ جیساکہ بتایا گیا ہے، یہاں پر مسلمان بھی کافی ہیں، جن کا تعلق بھارتی صوبہ گجرات سے ہے۔ پھر پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دیگر کمیونٹی کے باشندے بھی یہاں بستے ہیں، لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اس شہر میں اس سے قبل کبھی ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے تھے۔

جون ۲۰۲۲ء میں جب بھارت میں نبی اکرمؐ کی شان میں حکومتی شخصیت نوپور شرما نے گستاخانہ کلمات کہے تھے، تو فطری طور پر لیسٹر کے مسلمانوں میں بھی اضطراب پایا گیا۔ کچھ دردمند مسلمانوں نے سوچا کہ موقعے کی مناسبت سے انتہا پسند ہندوؤں کی منفی سرگرمیوں کو برطانوی معاشرے کے سامنے لایا جائے۔ عین انھی دنوں بھارت کے ایک بڑے عالمِ دین برطانیہ آئے ہوئے تھے۔ جو جگہ جگہ مساجد میں جا کر بھارتی مسلمانوں کو تلقین کر رہے تھے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جن سے ہندو مسلم تعلقات خراب ہوں، کیونکہ اس کے اثرات بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر پڑتےہیں۔ نتیجتاً مسلمانوں نے انتہا پسند ہندوؤں کی ہرزہ سرائی کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔

ستمبر۲۰۲۲ء کے دوران لیسٹر میں ہندو مسلم کشیدگی عروج پر رہی ہے۔ اگرچہ اس کشیدگی کی جڑیں تین ماہ گہری پائی جاتی ہیں، مگر پھر یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اسے کرکٹ میچ سے منسلک کر رہے ہیں، لیکن ممتاز محقق اور یونی ورسٹی میں استاد ریاض خاں کے مطابق: ’’اس تنائو کا آغاز تقریباً تین چار ماہ قبل ہو گیا تھا، جب انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروہ نے ایک مسلمان لڑکے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، مگر مقامی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا‘‘۔

لیکن یہ کشیدگی اس وقت بہت بڑھ گی جب ۲۸؍ اگست کو دوبئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والےمیچ  میں پاکستان کو بھارتی ٹیم کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس وقت بہت سے ہندوؤں نے جیت کی خوشی میں بھارتی جھنڈے لہراتے ہوئے ’پاکستان مُردہ باد‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے تھے۔ اپنی ٹیم کی جیت پر خوشی میں نعرے بلند کرنے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن مخالف ٹیم کے خلاف نعرے بازی کا مقصد اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے پاکستان مخالف نعروں سے کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی۔

اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ میچ کے شائقین اپنی ٹیم کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں، لیکن مخالفانہ نعروں سے گریز کیا جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ پاکستان مخالف نعروں کے ردِ عمل میں پاکستانیوں کے ایک گروپ نے بھی ہندوؤں کے علاقے میں ایک مظاہرہ کیا اور پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے بازی کی۔ چونکہ پولیس بڑی تعداد میں موجود تھی، اس لیے حالات کنٹرول میں رہے۔ مگر حالات اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گئے، جب ۱۷ ستمبر کو۳۰۰  ہندوانتہاپسندوں پر مشتمل ایک منظم جلوس مختلف راستوں کے چکر لگاتا ہوا، مسلمانوں کے علاقے گرین لین روڈ پر آگیا۔ ان مشتعل نوجوانوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، اور یہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی دکانوں کے سامنے سے گزر رہے تھے، اور مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے۔ ان مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس بلائی گئی۔

اگلے روز ہندوؤں نے دوبارہ ایک مظاہرہ بلگریوو روڈ پر کیا، اس کی اطلاع پولیس کو نہیں تھی، مگر جب پولیس وہاں پہنچی تو مظاہرین نے ان پر بوتلیں پھینکیں۔ ان مظاہروں میں پولیس کے ۲۵ آفیسر اور پولیس کا ایک کتا بھی زخمی ہوا۔ پولیس نے اس ہنگامہ آرائی کے جرم میں ۴۷؍ افراد کو حراست میں لے لیا۔ تب انکشاف ہوا کہ ان میں نصف سے زیادہ تعداد دوسرے شہروں سے آئے ہوئے انتہا پسندوں کی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نسل پرست بھارتی طلبہ جو آر ایس ایس سے منسلک ہیں، وہی ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ یہ مختلف شہروں سے لیسٹر پہنچے تھے اور منظم ہو کر مسلمانوں کو ہراساں کررہے تھے۔ گرین لین روڈ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ’’لوگ خوف زدہ ہیں، کیونکہ جب انتہا پسند گزر رہے تھے تو وہ مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے، جس کے نتیجے میں اکثر لوگوں نے گھروں کی روشنیاں بند کیں اور پردے وغیرہ گرا دئیے تھے‘‘۔

ممتاز امریکی صحافی سلیل ترپاٹھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’جن لوگوں نے اپنے چہرے ڈھانپ کر مسلمانوں کی دکانوں پر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ وہ بھارتی نسل پرست سیاست کو برطانیہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’برطانوی سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کا احساس نہیں۔ حکومت کو آر ایس ایس جیسے سخت گیر نظریات کو پروان چڑھنے سے روکنا چاہیے‘‘۔ بی بی سی کی نامہ نگار گگن سبروال کا کہنا ہے کہ ’’لیسٹر کے ہندوؤں کی اکثریت امن پسند تھی، لیکن کچھ عرصے سے مغربی انڈیا کے جزیرے دمن اور دیپ سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آنے والے ہندو جو نظریاتی طور پر آر ایس ایس سے وابستہ ہیں، انھوں نے برطانیہ میں بھی انتہاپسندی شروع کر دی ہے‘‘۔

اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے ہندو انتہا پسند کافی متحرک ہوگئے ہیں۔ ۱۵؍ اگست بھارت کا یومِ آزادی ہے۔ کشمیری اور سکھ اسے ہر سال یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ کشمیری اور سکھ اس روز بھارتی ہائی کمشنر اور کونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال ۱۵؍ اگست کو جب برمنگھم میں کشمیریوں اور سکھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا تو اسے منتشر کرنے کے لیے کچھ ہندو انتہا پسند بھی آگے تھے،جنھیں سکھوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور بھاگنے پر مجبور کیا۔

بظاہر یہ ایک برطانوی شہر میں رُونما ہونے والا بدنما اور افسوس ناک واقعہ ہے، لیکن اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برہمنیت کے علَم بردار اور ’ہندوتوا‘ کے فسطائیت نواز طائفے نے  اب یورپ و مغرب کو اپنی نئی چراگاہ بنانے کے لیے قدم اُٹھایا ہے۔ اگر یہاں کے حکام نے اس کا بروقت تدارک نہیں کیا تو یہ چیز یہاں کی عام شہری زندگی کے لیے ایک مستقل کینسر بن جائے گی۔ اس فسطائیت کے جواب میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جوابی کارروائی کرنے اور سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے یہاں کے قانون کو حرکت میں آنے دیں، اور اپنی جانب سے کوئی منفی قدم نہ اُٹھائیں۔