ڈاکٹر محسن انصاری


ریاستہائے متحدہ امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اگرچہ کئی صدیوں پر محیط ہے، مگر مسلمانوں کے اثرات اوران کے قابل ذکر اداروں کا قیام پچھلے پانچ عشروں میں ہی عمل میں آیا ہے ۔کسی بھی ایسے ملک کی طرح جہاں مسلمان ایک مختصر اقلیت میں ہیں ، امریکا میں رہنے والے مسلمانوں نے ایک طویل اور صبر آ زما جدوجہد کے بعد ایک اجنبی معاشرے میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔ امریکا میں مسلمان کُل آ بادی کا ۲سے ۴ فی صد حصہ ہیں۔

میرے والد محترم ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ امریکا آ ئے تھے،اور وہ بتاتے تھے کہ اس زمانے میں مساجد نہ صرف ناپید تھیں بلکہ حلال کھانے کی تلاش ایک بڑا مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ انھوں نے یہاں چھ مہینے تک قیام کے دوران بمشکل چند مساجد دیکھیں اور گنتی کے چند مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ اسلامک اسکول ، باحجاب خواتین اور حفظ کے مدارس کا تو تصور بھی محال تھا۔

  ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا میں منظم، اسلامی سر گرمیوں کی داغ بیل ڈالی گئی ۔اس طرح جہاں برصغیر پاک و ہند سےتعلق رکھنے والوں نے ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا‘ (ICNA) اور اس کی ذیلی تنظیموں کو اپنے اعتماد سے نوازا، وہاں مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے دُوراندیش مسلمانوں اور قائدین نے ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا‘(ISNA)، ’مسلم امریکن سوسائٹی‘ (MAS)، ’کو نسل آف امریکن ریلیشن‘ ( CAIR) اور دیگر تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور دوام کے لیے منظم جدوجہد کا انتظام کیا۔

 ایک اور انتہائی قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس پورے دورمیں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تنظیموں اور قائدین نے بھی دین کی اشاعت اور ترویج میں بھرپور حصہ لیا ۔ یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ سیاہ فام مسلم تنظیموں کی اپنی تاریخ ڈیڑھ سوسال سے زیادہ پرانی ہے۔ ملک شہباز میلکم ایکس جیسے لیڈروں کے نام نہ صرف امریکا کے سیاہ فام مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے زندہ کردار ہیں اور سول رائٹس کی جدوجہد میں امریکا کی تاریخ کا اَنمٹ حصہ ہیں۔ انفرادی و سماجی مطالعات کے مشہور تحقیقاتی ادارے (PEW)کے مطابق سیاہ فام، امریکا کی آ بادی کا ۱۳ء۴ فی صد ہیں اور ان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب اس کا پانچواں حصہ یا ۲۰ فی صد ہیں۔ سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ ’’مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کی تحریکات کو سیاہ فام مسلمانوں کے اندر زیادہ نفوذ کرنا چاہیے تھا، اور ان کی اسلامی اور سماجی نشوونما اور اُٹھان کے لیے مزید اور ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیے تھے‘‘، جس سے اصولی طور پر کسی کو اختلاف نہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی سراسر نا انصافی ہو گی کہ خود اُن سعادت مند انسانوں کی جدوجہد کو ہلکا بناکر پیش کیا جائے، کہ جنھوں نے پچھلے ۵۰برسوں میں امریکا میں جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے اپنی پوری زندگی امریکا میں اسلام کی بقا اور ترویج کے لیے وقف کردی۔

 ایسا ملک جہاں چند عشرے پہلے حلال کھانا ناپید، ٫ مسجدوں اور عبادت گاہوں کا تصور محال اور مسلمان نسلوں کی اسلامی تعلیمات کا کوئی انتظام نہ تھا۔ آ ج وہاں لگ بھگ ۲۸۰۰مساجد ، سیکڑوں اسلامک اسکول اور قرآن حفظ کرنے کے ادارے، قدم قدم پر حلال کھانے کے مراکز اور یہاں تک کہ اسلامی علوم حاصل کرنے کی یونی ورسٹیاں تک قائم  ہیں۔ امریکی ایوانوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں باحجاب خواتین کی موجودگی ، ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن‘ (MSA) اور ’ینگ مسلمز‘ (YM) سے وابستہ ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، ۶۰ ہزار سے زائد امریکی مسلمان ڈاکٹر ، ہزاروں آئی ٹی ماہرین ، وکلا، ججز اور ماہرین تعلیم نے، اپنی موجودگی اور دعوت سے عام امریکی معاشرے پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ ے ہیں ۔

امریکا میں ہونے والے اسلامک کنونشن اسلامی تہذیب ، دینی علم کے فروغ، مسلم فیملی سسٹم کی مضبوطی اور دین سے وابستگی کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ گذشتہ برس اکنا کے سالانہ مرکزی کنونشن میں ۲۲ ہزار سے زائد افراد اپنے خاندانی یونٹوں کے ساتھ امریکا کے طول و عرض سے شریک ہوئے۔ اکنا کے کنونشن میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے ، امریکی اور افریقی سیاہ فام ، وہائٹ امریکن ، مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ، غرض کے ہر رنگ و نسل اور ہر عمر کے لوگ شریک ہوئے۔ کنونشن شرکا کے بقول جب ۱۵ سے ۲۰ ہزار مسلمان باجماعت نماز پڑھتے ہیں تو حرم میں مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کا بہ یک وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہونے کا منظر تازہ ہوجاتا ہے کہ ان شرکا میں تمام رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔

آ ج امریکا میں پیدا ہونے والے اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے والے چند نوجوان اسکالر مسلمانوں میں مقبول ترین اسکالر اور اسلام کے داعی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح اکنا اور دیگر اسلامی تحریکوں کے تحت چلنے والی سوشل ویلفیئر کی تنظیمیں امریکا کے مسلم اور غیر مسلم دونوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی خدمت خلق کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔

امریکا کی کارفرما اسلامی تحریکوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مقامی افراد کی دعوتِ دین کی جدوجہد میں شرکت کو وسعت دیں۔ واضح رہے کہ مقامی (indigenous)  امریکیوں میں تین اہم اکائیاں شامل ہیں: پہلی غالب اکثریت سفیدفام امریکیوں کی ہے جو مجموعی آبادی کا ۷۶ فی صد ہے۔ دوسری بڑ ی آبادی سیاہ فام باشندوں کی ہے جو امریکا کی آ بادی کا ۱۳ء۴ فی صد ہیں۔ تیسرا بڑا حصہ ہسپانوی نژاد باشندوں پر مشتمل ہے، جو آبادی کا ٪۱۰ فی صد ہے۔

اسلامی تحریک سے وابستہ بالخصوص وہ افراد جو معاشرے میں موجود پسماندہ افراد کا درد رکھتے ہیں ، رول ماڈل بنیں۔ مقامی امریکیوں کی آبادیوں میں اسلامک سنٹر قائم کریں۔ سب سے بڑھ کر ان کی آ بادیوں میں میل جول بڑھائیں۔ ان پہلوئوں پر دردمندی سے نظر رکھنے والے بجا طور پر امریکا کی اسلامی تحریکوں کے لیے کچھ مفید مشورے دے سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ضروری ہے کہ پچھلے پانچ عشروں میں ہونے والے غیرمعمولی کام کو معمولی یا کمزور بنا کر نہ پیش کیا جائے۔

اللّہ سبحانہٗ وتعالیٰ، امریکا میں رہنے، بسنے اور دعوت و تربیت میں مصروف ساتھیوں کو اپنے رب سے کیے وعدے  اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰي۝۰ۚۛ شَہِدْنَا۝۰ۚۛ  (اعراف ۷:۱۷۲) کو ایفا کرنے اور اپنی زندگیوں کو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت اور اطاعت پر گزارنے کی توفیق دے۔(آ مین!)