مفتی سیّد امین الحسینی


ایھا الاخوان فی الاسلام

اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰)،یعنی تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ باہمی محبت اور آفت کے اعتبار سے تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب جسم کے ایک حصے کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کے لیے پشتی بان کا کام دیتا ہے۔ تمام اکنافِ عالم کے مسلمان، بھائی بھائی ہیں، نہ جغرافی حدود انھیں جدا کرسکتے ہیں اور نہ زبان اور رنگ کا اختلاف ان میں تفرقہ ڈال سکتا ہے۔پس تمام عالمِ اسلام ایک عمارت ہے یا ایک جسم کی مانند ہے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

 جس طرح اہلِ اسلام ایک ربّ کی عبادت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان کا شعور اور ان کا احساس بھی ایک ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲)،یعنی نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دو۔

اے بھائیو! ہم فلسطین کی ارضِ مقدسہ سے آئے ہیں، جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور جو مسلمانوں کا قدیم قبلہ ہے۔ اسی سرزمین میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسریٰ اور معراج کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اس میں بہت سے مقدس مقامات اور اسلامی آثار موجود ہیں اور بڑے بڑے انبیاؑ، صحابہؓ ، شہدا اور اولیا کی متبرک یادگاریں واقع ہیں۔ ہم [آپ کے] اس ملک میں اس غرض سے آئے ہیں کہ اپنے ہندی مسلمان بھائیوں کو ان کا دینی فرض یاد دلائیں، تاکہ جس کام کا ہم نے بیڑا اُٹھایا ہے،اس میں وہ دل کھول کر ہماری مدد فرمائیں۔

یہ امر کسی مسلمان پر مخفی نہیں کہ فلسطین کی ارضِ مقدسہ صرف اہلِ فلسطین کے لیے مبارک نہیں بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر باعث ِ برکت ہے۔ فلسطین کے مسلمان تو محض اس کےپاسبان ہیں اور اس بارے میں ان کا فرض ان کی تعداد کی مناسبت سے ہے۔ تعداد میں وہ صرف آٹھ لاکھ ہیں۔ درآں حالیکہ [غیرمنقسم] ہندستان کے مسلمان آٹھ کروڑ ہیں۔ اسی لیے اس سلسلے میں ان کی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے اور اس معاملے میں وہ اللہ تعالیٰ ، دُنیائے اسلام اور آیندہ نسلوں کے حضور میں جواب دہ ہوں گے۔ چنانچہ ان مقاماتِ مقدسہ کی امداد میں انھیں ایک دوسرے پر سبقت کرنا چاہیے۔

فلسطین کی مقدس سرزمین تیرہ سو برس سے اسلام کی آغوش میں پرورش پارہی ہے اور اس کے لیے قدیم زمانے سے مسلمانوں نے نہایت شان دار قربانیاں دی ہیں۔ فلسطین کا ملک نہ صرف دُنیائے اسلام کےمرکز میں واقع ہے بلکہ حجازِ مقدس کے قریب بھی ہے۔ اگر فلسطین پر کوئی آنچ آئی تو اس کا اثر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس شہروں پر بھی ضرور پڑے گا۔ اس لیے اے برادرانِ اسلام، آپ پر واجب ہے کہ آپ ایک دوسرے کی مدد کریں جیساکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے معاملات کی تنظیم کریں اور ایک واحد جسم کی مثل ہوجائیں، جیساکہ نبی علیہ السلام کا حکم ہے۔ مسلمانوں نے ایک دوسرے کی امداد کرنا چھوڑ دیا، اور اللہ کے احکام کی پیروی میں کوتاہی کی، اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے دُور جاپڑے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی جسم کے جوڑ ہل گئے، اور اس کے اعضا شل ہوگئے اور اسلامی عمارت کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ ا ب اسلامی اقوام و ممالک اس قدر کمزور ہوگئے ہیں کہ دُنیا کی کمزور ترین قومیں بھی اسلامی ملکوں کو اپنے قبضے میں لے آنے کی ہوس رکھتی ہیں، اور ان کے مقدس مقامات میں بھی ان کے مقابلے پر اُتر آنے کی جرأت کرنے لگی ہیں۔

اگر مسلمانوں نے ایک دوسرے کی امداد میں کوتاہی کی تو ان کے تمام ممالک یکے بعد دیگرے اندلس کی طرح ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے، اور اس وقت مسلمانوں کو عدل کا استحقاق ہوگا اور نہ رحم کا: سُـنَّۃَ اللہِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۲۳  (الفتح۴۸:۲۳) ’’یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے‘‘۔ہمیں اس بات کی قوی اُمید ہے کہ ہمارے ہندی مسلمان بھائی، جن کی دینی حمیت اور اسلامی احساس شہرئہ آفاق ہیں، اس مقصد کے حصول میں جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں ہماری اعانت میں سبقت کریں گے اور تمام دُنیائے اسلام کے لیے نمونہ ثابت ہوں گے۔ ہرایک مسلمان پر لازم ہے کہ ان بلادِ مقدسہ کی جو کہ اس وقت دُنیائے اسلام کی امداد کے محتاج ہیں، اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرے۔