گریکائی چنگو


جون ۲۰۲۲ء افریقا کے مسلمانوں کا سپین ،پرتگال اور جنوبی فرانس پر تقریباً سات سو سالہ دورِ حکمرانی کے اختتام کی یاد دلاتا ہے۔ آج سے تقریباً چار سو سال پہلے سپین کے بادشاہ فلپ نے حکم جاری کیا جو نسلی صفائی کی ابتدائی مثالوں میں سے ایک ہے۔ سپین پر حکمرانی کے دورِ عروج میں فلپ سوم [م: ۳۱مارچ ۱۶۲۱ء] نے تقریباً تین لاکھ بربر مسلمانوں کو سپین سے نکال باہر کرنے کا حکم جاری کیا، جس سے سپین کی تاریخ کے انتہائی ظالمانہ اور المناک دور کا آغاز ہوا۔

روایتی تصور کے برعکس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ قدیم افریقی ہی تھی، جنھوں نے سپین اور یورپ کے بڑے حصے کو تہذیب سے آشنا کیا۔

یورپ کی تہذیب کی بنیاد یونان کے جزیرے ’کریٹ‘ (Crete ) میں ۱۷۰۰قبل مسیح میں رکھی گئی اور یونانیوں کو بنیادی طور پر وادیٔ نیل کے سیاہ فام افریقیوں نے تہذیب یافتہ بنایا۔ پھر یونانیوں نے اس تہذیب کو رومیوں تک منتقل کیا، لیکن بالآخر انھوں نے اسے کھو دیا ۔ اس طرح مغرب کے تاریک دور(Dark Ages)کا آغاز ہوا، جو پانچ صدیوں پر محیط رہا۔ یورپ ایک بار پھر تہذیب سے اس وقت آشنا ہوا، جب سیاہ فام افریقی بربروں نے ’تاریک دور‘کا خاتمہ کیا۔

مغرب میں جب تاریخ پڑھائی جاتی ہے تو تاریخ کا وہ دور جو’ وسطی عہد‘ (Middle Ages) کہلاتا ہے، اسے عموماً ’تاریک دور ‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور اس سے مراد وہ عہد لیا جاتا ہے جب عمومی تہذیب بہ شمول آرٹس اور سائنس نے بنیادی ترقی کی۔ بلاشبہہ یورپیوں کے لیے تو یہ سچ ہے، لیکن افریقیوں کے لیے یہ بات درست نہیں۔

معروف مورٔخ شیخ انتادیوب [۱۹۲۳ء-۱۹۸۶ء]واضح کرتے ہیں کہ وسطی عہد کے دوران دنیا کی عظیم سلطنتیں افریقیوں کی تھیںاور دنیا کے غالب اور ثقافتی مراکز افریقی تھے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں یہ یورپین ہی تھے جو قانون شکن اور وحشی وسفاک تھے۔

سلطنت روم کے زوال کے بعد گاؤرس کے سفید فام جنگجوقبائل کو مغربی یورپ کی طرف ایک جنگجو ایشیائی قوم ’ہنز‘ (Huns)کے ذریعے دھکیل دیا گیا۔ ۷۱۱ء عیسوی میں،سپین کے ساحلوں پر  بربر حملہ آور ہوئے اور افریقا کے مسلمانوں نے کاکس کے وحشی سفیدفام قبائل کو واقعتاً تہذیب سکھائی۔ اس طرح بربر قبائل نے سپین ،پرتگال ، شمالی افریقا اور جنوبی فرانس پر تقریباً سات سو سال حکمرانی کی۔ اگرچہ سپین کے حکمرانوں نے اس عہد کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کے لیے بہت کوشش کی، تا ہم قدامت شناسی [Archaeology]کی جدید ترین تحقیقات اور محققین نے اس حقیقت کو اُجاگر کیا ہے کہ کس طرح بربروں نے ریاضی، فلکیات ، آرٹ اور فلسفہ کو ترقی دی اور یورپ کے لوگوں کو ’تاریک دور‘سے نکالنے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے مدد کی۔

معروف برطانوی مؤرخ باسل ڈیوڈسن [۱۹۱۴ء-۲۰۱۰ء] نے بیان کیا ہے کہ ’’آٹھویں صدی میں کوئی خطہ جس کی تعریف اس کی ہمسائیہ قومیں کرتی تھیں ، یا جو رہنے کے لیے زیادہ آرام دہ تھا، وہ شان دار افریقی تہذیب تھی جس نے سپین میں فروغ پایا۔‘‘یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بربر سیاہ فام افریقی تھے اور سو لھویں صدی کے انگریز ڈرامانویس شیکسپیئر [م: ۱۶۱۶ء]نے ’بربر‘کا لفظ سیاہ فام افریقی کے لیے بطور علامت استعمال کیا تھا۔

مسلم سپین میں تعلیم عام تھی ، جب کہ مسیحی یورپ میں ۹۹ فی صد آبادی ان پڑھ تھی، حتیٰ کہ بادشاہ تک لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے ۔ بربروں نے ماقبل عہد جدید میں نمایاں طور پر بلند شرح خواندگی کو فروغ دیا۔ جس زمانے میں یورپ میں صرف دو یونی ورسٹیاں تھیں ، اس وقت بربروں کے ہاں سترہ یونی ورسٹیاں تھیں۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے بانیوں کو یونی ورسٹی کی تعمیر کے لیے تحریک سپین میں یونی ورسٹیوں کے دورے کے بعد ملی۔ اقوام متحدہ کی ’تعلیمی مقتدرہ‘ کے مطابق آج بھی دنیا کی قدیم ترین فعال یونی ورسٹی، مراکش کی قرہ وین یونی ورسٹی ہے۔ ۸۵۹ء میں، بربر سلطنت کے عروج کے زمانے میں اس یونی ورسٹی کی بنیاد ایک سیاہ فام خاتون فاطمہ الفہیری نے رکھی تھی۔

ریاضی کے میدان میں صفر کا ہندسہ جو کہ عربی ہندسہ ہے، اعداوشمار کا جدید نظام (ڈیسی مل نظام) جس سے یورپ متعارف ہوا، یہ مسلمانوں کے ذریعے ممکن ہوا، اور اس کے ذریعے مسائل کو تیزی سے اور درست طور پر حل کرنا ممکن ہوا اور اس طرح سے سائنسی انقلاب کے لیے بنیاد فراہم ہوئی۔

بربروں کا سائنسی علوم کے لیے تجسس، ذوق پر واز اور کئی علوم پر دسترس رکھنے والے شخص پر منتج ہوا۔ ابن فرناس نے دنیا میں پہلی مرتبہ ۸۷۵ء میں سائنسی انداز میں اُڑان بھرنے کی کوشش کی۔ تاریخی دستاویزات (archives ) بتاتی ہیں کہ اس کی کوشش کامیاب رہی، تاہم اسے زمین پر اترنے میں پوری طرح کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ افریقی مسلمانوں نے آسمان پر پرواز، لیوناڈو ڈاُونچی [م: ۱۵۱۹ء] جس نے لٹکنے والا گلائیڈر بنایا تھا، اس سے چھ صدیاں قبل کر لی تھی۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بربروں نے اہل یورپ کو ’تاریک دور‘ سے نکلنے کے لیے مدد دی اور ان کی نشات ثانیہ کے لیے راہ ہموار کی۔ درحقیقت بہت سی وہ خصوصیات جنھیں مغرب فخر سے اپنا طرۂ امتیاز سمجھتا اور قرار دیتا ہے، ان کی بنیاد مسلم سپین میں رکھی گئی۔ مثال کے طور پر آزاد تجارت، سفارت کاری، کھلی سرحدیں، تہذیب واخلاق، تحقیق کے طریقے اور علم کیمیا میں ترقی کے نمایاں اقدامات اور جہاز سازی کی صنعت میں پیش رفت اس کی نمایاں مثال ہیں۔

جس زمانے میں بربروںنے ۶۰۰ عوامی غسل خانے تعمیر کیے اور ان کے حکمران شان دار محلوں میں رہتے تھے، جرمنی ،فرانس اور برطانیہ کے شہنشاہ اور مذہبی پیشوا، عوام کو اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ ’’صفائی ایک گناہ ہے‘‘، اور یورپی باد شاہ مویشیوں کے بڑے بڑے باڑوں میں رہتے تھے جن میں نہ کھڑکیاں تھیں اور نہ چمنیاں ، اور دھواں نکالنے کے لیے چھتوں میں ایک سوراخ ہوتا تھا۔

دسویں صدی عیسوی میں قرطبہ نہ صرف بربروں کے سپین کا دارالخلافہ تھا بلکہ یورپ میں بہت اہم اور ایک جدید شہر بھی تھا۔ قرطبہ کی آبادی ۵ لاکھ تھی، اس کی گلیوں میں روشنی کا انتظام تھا، ۵۰ ہسپتال تھے جن میں تازہ پانی کی فراہمی کا نظام موجود تھا، ۵۰۰ مسجدیں اور ۷۰ کتب خانے تھے، جن میں سے صرف ایک کتب خانہ میں ۵ لاکھ سے زائد کتب تھیں۔

یہ تمام کامیابیاں اس زمانے میں وقوع پذیر ہوئیں، جب لندن کی ۲۰ ہزار پر مشتمل آبادی بڑے پیمانے پر اَن پڑھ تھی اور رومن نے چھ سو سال قبل جو فنی ترقی کی تھی اس کو فراموش کر چکی تھی۔ گلیوں کو روشن رکھنے کے لیے لیمپ اور پختہ گلیاں لندن یا پیرس میں سیکڑوں سال بعد تک نہیں پائی جاتی تھیں۔ کیتھولک چرچ نے پیسہ لینے دینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جس نے معاشی ترقی میں رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔ قرون وسطیٰ کے مسلم سپین نے نہ صرف قدیم مصری ،یونانی اور رومی تہذیبوں میں علمی وفکری ترقی کو فروغ دیا، بلکہ اس نے تہذیب وتمدن کو بھی فروغ دیا اور اس نے فلکیات، دواسازی کے علم، فن تعمیر، قانون سازی اور جہاز رانی کے میدانوں میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ مغربی محققین کی طرف سے پھیلایا گیا صدیوں پرانا یہ تاثر خلافِ حقیقت ہے کہ افریقا نے تہذیب کے فروغ میں کم یا کوئی کردار ادا نہیں کیااور اس کے باشندے دقیانوسی تھے اور جو غلامی اور نو آبادیاتی کی بنیاد بنے اور افریقا کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئے۔ افریقا کے لوگوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اَزسرِ نو اپنی تاریخ مرتب کریں۔ تا ہم، افریقا کے شان دار مستقبل کی راہ میں اگر کوئی بڑی رکاوٹ ہے، تو وہ خود اس کے لوگوں کی اپنے شان دار ماضی سے لاعلمی اور عصرحاضر میں سُستی وبے عملی ہے۔ (کاؤنٹرپنچ، ۱۰ جون ۲۰۲۲ء)