محی الدین القرہ واغی


امام مودودیؒ کے بارے میں گفتگو کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اس لیے کہ ہم علم کے ایک بحرِ ذخّار کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں۔جن کی فکر بہت سے نظریاتی، سیاسی اور سماجی مسائل کا احاطہ کررہی ہے۔میں صرف یہ کوشش کروں گا کہ اس جلیل القدر سیّد مودودی رحمہ اللہ سے وابستہ بہت سے أمور میں سے چندایک کے متعلق اپنی معروضات پیش کروں۔

یہ جلیل القدر امام اور رہنما ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ایک ایسے علمی خانوادے میں انھوں نے جنم لیا جہاں ان کے والد صاحب کی شعوری طور پر کوشش رہی، کہ انھیں تعلیم کے لیے ایسے انگریزی اسکول میں نہ بھیجیں جو قابض استعمار اور انگریزی اقتدار کے زیر انتظام ہیں۔ اس کے برعکس انھوں نے سیّد کو عربی سکھائی، انھیں قرآن کریم کی تعلیم دی، انھیں فقہ، تفسیر اور حدیث کا سبق پڑھایا۔ اس کے بعد مولانا نے گہرائی کے ساتھ اجتماعی، معاشی اور سیاسی علوم پر اس قدر دسترس حاصل کی کہ ان علوم میں امامت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔ حقیقت اور حق یہ ہے کہ امام مودودی رحمہ اللہ گذشتہ صدی کے امام اور مجدد ہیں، خصوصاً وہ میدانِ فکرو نظر اور سماجی و اجتماعی علوم کے امام ہیں۔

انھوں نے دو انتہائی خطرناک اور بے پناہ اثرات کی حامل فکری لہروں کا ڈٹ کر اور پوری قوت سے مقابلہ کیا ہے:

پہلے نمبر پر اس فکر کو چیلنج کیا، جسے ہم جمود اور ماضی پرستی کی فکر کہہ سکتے ہیں۔خصوصاً اس ماضی کی تقدیس کرنے والی جو پسماندہ دور کی علامت اور بدعت اور خرافات پر مبنی تھا۔ بیشتر علما اسی فکر کے حامل اورانھی خیالات کے اسیر تھے۔

دوسری فکری لہر جدیدیت اور تجددپسندی کی تھی۔ یہ مغربی اقدار کی محبت میں بدمست اور زندگی کے ہر میدان میں مغرب کی تقلید کرنا چاہتی تھی۔ اس کی شیرینی میں بھی اور اس کی کڑواہٹوں میں بھی، ہرہرقدم پر مغرب کی اندھی تقلید۔ یہ دراصل تہذیبی خودکشی کی فکر تھی۔ اس فکر کے حاملین اُمت مسلمہ کو مغرب یا مشرق کی بھٹی میں ڈال کر پگھلانا چاہتے تھے۔

ان دونوں فکری تحریکوں کے خلاف امام مودودی ایک طاقت ور قلم اور ایک عملی تحریک کے ذریعے پُراعتماد شان سے معرکہ زن ہوئے۔ انھوں نے فکر اسلامی کی تجدید کی اور ’وسطیۃ‘ اور اعتدال کا راستہ ہموار کیا۔ وسط و اعتدال کا وہ راستہ جو استخلاف فی الارض ،اللہ کی زمین کی آباد کاری کے لیے،اور صالح تہذیب و تمدن کے قیام و بقا کی خاطر اسلام کا حقیقی منشا تھا۔ سید مودودیؒ اُس الٰہی پیغام کو خوب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کو مکلّف ٹھیرا کرفرمایا: اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً اور یہ کہ ہُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیْہَا (ھود ۱۱:۶۱) ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کے نام جو پیغام بھیجا اور اس کے ذمے جو کام لگایا، وہ تھا اللہ کی بندگی اور عبودیت اپنے جامع اور پورے مفہوم کے ساتھ۔ سیّد مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے عبودیت اور مکمل بندگی کے اسی جامع مفہوم کو اپنے سفر کا نقطۂ آغاز بنایا۔ دین و دنیا کے جامع اور دنیا و آخرت کے جامع، علومِ شرعیہ، علومِ کونیہ اور علومِ انسانیۃ کے جامع، اس پیغام کو اپنے فکروعمل کا محور بنایا۔ خالق کے مطلوب و مقصود اسی جامع اور کامل پیغام کو لے کر وہ آگے بڑھے اور انھوں نے دونوں طاقت ور فکری تحریکوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اہل جمود و تقلید کا، علم و فہم اور شرعی استدلال سے،اور سیکولر فکر و نظر رکھنے والے، اسلامی تہذیب و تمدن کے درپے، مغرب زدہ لوگوں کا، علم و حکمت کے ساتھ۔

سیّد رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیبی انحطاط اور اس کے خطرناک نتائج کو پوری قوت کے ساتھ بیان کیا۔ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے مادہ پرستانہ فکر و فلسفہ کے نقائص، تضادات اور انسانیت کےلیے اس میں مضمر خطرات کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ سرمایہ دارانہ نظریات کے حاملین، کمیونسٹ نظریات کے علَم برداروں اور قوم پرستی و نسل پرستی کے پرچارک لوگوں کا مسکت جواب دیا۔ اشتراکی، سرمایہ دارانہ اور جدلی مادیت کے بطلان کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا۔ خصوصاً لادینیت، الحاداور شکوک و شبہات سے لتھڑی اس فکر کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے۔ مولانا نے بے حد کامیابی کے ساتھ ایک ایسے مکتب فکر کی بناڈالی جو وسط و اعتدال پر قائم رہتے ہوئے، تہذیب اسلامی کے احیا کے لیے کامیابی کے ساتھ جامع فکر و نظر کو لے کر آگے بڑھے۔ انھوں نے اپنی قیمتی کتب کے ذریعے راستے کے نشیب و فراز کو واضح کرنا شروع کیا۔ انھوں نے استخلاف فی الارض اور حاکمیت الٰہیہ خصوصاً  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں پر انتہائی باریک بینی اور گہرائی سے لکھا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سید مودودی امام بھی ہیں اور مجدد بھی۔ تاہم، جیسا کہ وہ خود بھی کہتے ہیں، دیگر انسانوں کی مانند وہ بھی ایک انسان ہیں، معصوم عن الخطا  نہیں ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ  وَکُلُّ اِنْسَانٍ یُؤْخَذُ مِنْہُ وَ یُرَدُّ  اِلَا صَاحِبُ  ہٰذَا القَبَر۔ اللہ تعالیٰ سیّد مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے راضی ہوں کہ انھوں نے ہی آغاز کیا تھا اس نقشۂ کار اور اس حکمت عملی کا___فکری، سیاسی اور تہذیب اسلامی کے احیا کی حکمت عملی۔اور یہ تہذیب اور یہ ثقافت ہمیشہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتی ہے اور بہنوں اور بھائیوں کو دعوت دیتی ہے کہ اس شاندار تہذیب و ثقافت کی طرف آؤ  جس میں دُنیا و آخرت، دونوں کی بھلائیاں اور سعادتیں جمع ہیں۔

امام مودودی کا شمار فی الحقیقت مجتہدین میں ہوتا ہے۔ وہ دونوں اُمور کی جامع، ایک ایسی مثال ہیں، جو طبقۂ علما میں شاذ و نادر ہی کہیں یک جا ملتی ہیں۔اکثر علما یا تو صرف مفکر، ’مبدع‘ اور بہت سی کتابیں تالیف کرنے والے مصنف ہوتے ہیں، یا وہ صرف جماعت قائم کرتے اور تحریک اٹھاتے اور لوگوں کے تربیت و تزکیہ جیسے اُمور کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے دونوں طرح کی خیر کو جمع کرلیا۔علمی لحاظ سے دیکھیں تو وہ اجتہادی مرتبے پر فائز ایسے   صاحب ِتصنیف تھے جن کی کتب کی تعداد ۷۰ سے متجاوز ہے۔ اس میں ترجمان القرآن اور ان کی تفسیر تفہیم القرآن بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر مسائل اور ایشوز پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے۔ ایسے عظیم علمی ذخیرے کے ساتھ ساتھ انھوں نے عملی سیاست اور اجتماعی قیادت،کے میدان میں قدم بھی بڑھایا۔اقتصاد و معیشت کے باب میں ان کا شمار ان ابتدائی لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اسلامی معیشت کے بارے میں لکھا ہے۔ فقر و تنگ دستی کا علاج کیسے کیا جائے؟ بے روزگاری پر کیسے قابو پایا جائے؟ ان مسائل پر سلف صالحین عموماً اس انداز میں نہیں لکھا کرتے تھے، جس انداز میں استاد مودودی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔اس عظیم کام کے ساتھ ساتھ، انھوں نے افرادِ کار بھی تیار کیے اور۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے نام سے ایک عظیم جماعت کی تاسیس کی۔

ہمارے عہد کے دو عظیم اسلامی مفکرین، مجتہدین اور عملی رہنمائوں حسن البنا شہید اور سیّدمودودی نے ایک دوسرے سے اثر لیا۔ سیّد کے افکارِ عظیم سے امت کے کثیر علما متاثر ہوئے۔ سیّد قطب رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ کبار علمااور مفکرین کی ایک بڑی تعداد سید مودودی رحمہ اللہ اور ان کے کام کے بارے میں رطب اللسان ہے۔ سید قطبؒ اپنے کئی مضامین میں انھیں عظیم مسلمان، عظیم مفکر،اور عظیم مجتہد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان کی تعریف ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے کی ہے۔۱۹۷۹ء میں، جس سال امام مودودی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی الاعتصام میگزین [یمن]کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں: میں نے اس صدی میں کوئی اور ایسا فرد نہیں دیکھا جس نے اپنے علم، اپنی فکر اور اپنی ثقافت سے نوجوان نسل کو اتنا متاثر کیا ہو، جتنا امام مودودی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔انھوں نے مذکورہ انٹرویو میں سید مودودی رحمہ اللہ کی بہت تحسین کی ہے۔ اسی طرح علامہ یوسف القرضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سیّدمودودی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں امام مجدد اور مفکر عظیم کے لقب سے یاد کیا ہے۔ وہ انھیں اسلامی تہذیب کو جاننے والا اور شریعت کے نفاذ اور اس کے امکانات کا یقینی علم رکھنے والا، اسلامی نظام کو اس کے مکمل اصول و فروع کے ساتھ جاننے والا کہتے ہیں۔علمائے اُمت کی یہ گواہیاں اس امام کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں اور اسلام کی خدمت اور اسلام کی تجدید کے باب میں ان کے عظیم الشان کردار پر شاہد ہیں۔

اس عظیم امام کی کہ جنھوں نے تجدید بھی کی اور فکر سازی بھی،کتب بھی تالیف کیں اور افرادِ کار بھی تیار کیے۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم تجدید کے میدان میں ان کے طریقۂ کار و منہج کی پیروی کریں۔ تجدید واحیا کے معاملے میں ان کے افکار کی پیروی کریں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم مقلد ِمحض نہ بنیں بلکہ سیّد مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے منہجِ تجدید پر چلنے والے بنیں۔ جہاں اُس میں کمی رہ گئی ہے، اس کمی کو پورا کریں، اور جو انھوں نے کہا ہے اسے تسلیم بھی کریں اور کھلی آنکھوں سے اس کا تجزیہ بھی کریں اور اپنا جائزہ بھی لیں۔سب میدانوں میں، خاص طور پر سیاست اور معیشت اور سماجی ترقی کے میدان میں نئے راستے تراشیں، تاکہ ہم ان کی چھوڑی ہوئی میراث میں نیا اضافہ کرسکیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو فرد یا جو جماعت کسی مقام پر جا کر ٹھیراؤ اور جمود کا شکار ہوجاتی ہے، رُک جاتی ہے،آگے نہیں بڑھتی پھر وہ پیچھے کی طرف ہی جاتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

لِمَنْ شَآءَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ  (المدثر ۷۴:۳۷) ’’تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے ڈراوا جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے‘‘۔ اللہ رب العالمین نے یہاں او یتوقف نہیں کہا اس لیے کہ توقف  ، تاخر ہی کا حصہ ہے۔اللہ تعالی اُمت مسلمہ کو بھی آزماتا ہے اور جماعت اسلامی کو بھی آزمارہا ہے۔مفکرین اور علماء کو بھی آزماتا ہے کہ کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ تمھارا امتحان لیتا ہے کہ کائنات کی تعمیر و ترقی میں،انسان کی اصلاح میں اور ہرہرمیدان میں اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ، بہتر کام کرنے والا کون ہے۔اَحْسَنُ عَمَلًا  کے باب میں علما نے کہا ہے کہ اس میں کسی جگہ اور کسی مقام پر پہنچ کر ٹھیرجانا بھی شامل ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ساری اسلامی تحریکوں کے لیے بلکہ پوری اُمت کے لیے بھی یہی طرزِ عمل مناسب ہوگا کہ ان کا آج ان کے کل سے بہتر ہو اور آنے والا کل ان کے آج سے بہتر ہو فکر کے لحاظ سے، تجدید کے  لحاظ سے، عمل کے لحاظ سے، تطبیق کے لحاظ سے، تربیت کے لحاظ سے، تزکیۂ نفس کے لحاظ سے۔ اگر ہم یہ اہداف پورے کر لیتے ہیں اور اس نہج پر چلتے چلے جاتے ہیں، جو سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا منہج ہے تو افکار میں بھی تازگی آئے گی، اُمت بھی ترقی کرے گی اور جماعت بھی ترقی کرے گی اور اس قابل ہو گی کہ ترقی کے اس سفر کی قیادت کرسکے۔

میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے دعاگو ہوں۔ اسی طرح پاکستان کے لیے بھی دعاگو ہوں کہ یہ ہمارا سرمایۂ فخر ہے۔ آپ میں ہم خیر اور بھلائی پاتے ہیں بلکہ پورے پاکستان میں خیر ہی خیر ہے۔ یہ وطن عزیز تو بنیادی طور پر انھی مفکرین کی جدوجہد سے قیام پذیر ہوا تھا، اور اس لیے قائم ہوا تھا کہ ایک ترقی یافتہ اور اسلامی ریاست کی صورت میں ہمیشہ قائم رہے۔ ایک ایسی ریاست کی صورت میں قائم رہے جو تجدید اور جدت و اختراع پر قادر ہو۔