ریاض ریاض الدین


کیا ہمارا معاشی اور مالیاتی نظام وفاقی شرعی عدالت کے حکم کے مطابق دسمبر ۲۰۲۷ء تک سود کو ختم کرسکے گا؟ اگر ماضی کی روایت کو پیش نظر رکھا جائے تو اس ٹائم فریم پر عمل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہماری معیشت کو سود سے پاک نظام میں تبدیل کرنے میں کیا چیلنج درپیش ہیں؟ پاکستان میں اب تک بنکوں کی اسلامائزیشن کتنی تیز یا سُست رہی ہے؟ مؤخر الذکر سوال کا جواب دینے کے لیے، بنکاری نظام کو اسلامی بنانے کی پہلی سنجیدہ کوشش ۲۰۰۲ء میں میزان بنک کے قیام کے ساتھ شروع ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی بنکاری کے اثاثے تیزی سے بڑھنے لگے، لیکن کمرشل بنکاری میں اسلامی اثاثوں کا حصہ بہت آہستہ آہستہ بڑھا۔ یہ ۲۰۰۲ء میں صفر فی صد، ۲۰۱۲ء میں ۸ء۲ فی صد، جون ۲۰۲۲ء میں ۱۹ء۵ فی صد تک پہنچ گیا۔ اس طرح یہ حصہ تقریباً ایک فی صد سالانہ کی اوسط رفتار سے بڑھا۔ اگریہ حصہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو اسلامی بنکاری کے اثاثے ۲۰۵۲ء کے آس پاس سود پر مبنی بنکاری اثاثوں کو پیچھے چھوڑ جائیں گے، جب کہ ہمارا نصف بنکنگ نظام اسلامی ہوچکا ہوگا۔

اسلامائزیشن کی اصل رفتار یقینا، اس بات پر منحصر ہوگی کہ ہم کتنی جلد دیگر چیلنجوں پر قابو پالیتے ہیں۔ بنیادی چیلنج سود پر مبنی بنکوں کے شریعت کے مطابق بننے سے متعلق نہیں ہے، بلکہ حکومتی، ملکی اور بیرونی قرضوں کو شریعہ کے مطابق سیکیورٹیز جیسے صکوک میں تبدیل کرنے سے ہے۔ اس تبدیلی کے بعد بنکاری اور مالیاتی شعبے کو سود سے پاک نظام کی طرف بڑھنا آسان ہوجائے گا۔ یہ بات کہنا تو آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے۔

جون ۲۰۲۲ء کے آخر تک وفاقی حکومت پر ملکی اور بیرونی قرض ۴۷ء۸ ٹریلین روپے تھا، جب کہ اس میں عالمی مالیاتی فنڈ کا قرض اور اسٹیٹ بنک کے غیرملکی زرمبادلہ کے واجبات شامل نہیں تھے۔ یہ پہلے ہی ۵۰ ٹریلین روپے کی حد کو عبور کرچکا ہے۔ ملکی قرضوں کی تبدیلی کے بغیر بنکاری اور مالیاتی ادارے شریعت کے مطابق نہیں بن سکتے۔

تبدیلی اگرچہ ناممکن نہیں لیکن ۲۰۲۷ء تک اسے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ سود پر مبنی مالیاتی نظام کے تحت بنکوں سے حکومتی قرض لینے کے لیے وفاقی حکومت سے کسی حقیقی اثاثے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سود سے پاک نظام کے لیے حقیقی اثاثوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بدلے قرض لینے والا صارف، اسلامی بنک سے شریعہ کے مطابق سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام کے تحت تمام مالیاتی سرگرمیاں حقیقی اثاثوں کی مدد سے ہونی چاہییں۔  یہ شریعت کے مطابق اور سود پر مبنی سرگرمی کے درمیان پائے جانے والے بنیادی فرق میں سے ایک ہے۔ مؤخر الذکر کو ایک حقیقی اثاثے سے جوڑنا ایک براہِ راست کوشش ہے، کوئی دورازکار بات نہیں ہے چونکہ مالی سرگرمیاں ، خواہ سود پر مبنی ہوں یا شریعت کے مطابق، بظاہر تو ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ اس لیے یہ لوگوں کو غلطی سے یہ سوچنے میں اُلجھا دیتی ہیں کہ یہ نظام ایک جیسے ہیں۔ مگر امرواقعہ ہے کہ اسلامی مالیاتی سرگرمیاں بظاہر ایک جیسی نظر آنے کے باوجود ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں۔

حکومتی قرض کو شریعت کے مطابق بنانے کے چیلنج کو حکومت نے صکوک، جن کی قیمت جون ۲۰۲۲ء کے آخر میں ۲ء۳ ٹریلین روپے تھی کے کامیاب اجرا کے ذریعے تقریباً ۵ فی صد (۴۷ء۸ ٹریلین روپے) کی حد تک پورا کیا ہے۔ یہ ۵ فی صد تبدیلی دو عشروں میں حاصل کی گئی۔ ہماری وفاقی حکومت اپنے بقیہ ۹۵ فی صد قرضوں کو تبدیل کرنے میں کتنے عشرے لے گی؟ اس کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس بہت بڑی تبدیلی کو شروع کرنے میں اپنی جگہ حکومت کے حقیقی مسائل ہیں۔ اس کے پاس حقیقی اثاثے ۵۰ٹریلین روپے نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر کیونکہ زمین ایک صوبائی موضوع ہے۔ نتیجتاً ہمارے ملک میں زیادہ تر زمین صوبائی حکومتوں ہی کی ملکیت ہے۔

اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی کتنی اراضی ہے، لیکن ایک سادہ انٹرنیٹ سرچ سے پتا چلتاہے کہ امریکا میں ۲۸ فی صد اراضی وفاقی حکومت اور ۷۲ فی صد ریاستی حکومتوں کی ملکیت ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ہماری وفاقی حکومتوں نے ایسی ملکیت کا تخمینہ لگانے کے لیے کبھی اثاثوں کا سروے یا رقبہ شماری نہیں کی ہے۔ پھر اس کا حل کیا ہے؟ کیا ہمارے آئین میں ترمیم کرکے زمین کو وفاق کا حصہ بنایا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں، تو وفاقی حکومت کو مزید وفاقی اجارہ صکوک جاری کرنے کے لیے صوبائی اثاثوں کو استعمال کرنے کے مناسب طریقے وضع کرنے چاہییں۔ اس چیلنج کی نوعیت واضح ہونی چاہیے۔ یہ کاوش بھی بہت وقت لے گی۔

اسی طرح کا چیلنج اسٹیٹ بنک سے متعلق ہے۔ یہ ۱۶۵ بلین روپے کے رئیل اسٹیٹ اثاثوں کے مقابلے میں تقریباً ۶ء۱ ٹریلین روپے کے PIBs کا مالک ہے۔ایک بار جب حکومت اپنے PIBs کو صکوک میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو مرکزی بنک کو شریعت کے مطابق بننے کے لیے سود پر مبنی ضمانتوں کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اس کے کریڈٹ کے لیے اسٹیٹ بنک نے پہلے ہی اسلامی بنکوں میں ضرورت پڑنے پر لیکویڈیٹی داخل کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ آپریشنز کا ایک شریعہ کے مطابق نسخہ وضع کیا ہے۔ اسلامی بنکاری میں داخلے کے لیے مضاربہ کی بنیاد پر پیش کش کی سہولت بھی موجود ہے، حالانکہ موپ اَپ سہولیات یا OMO کا ابھی تک انتظار ہے۔ دونوں سہولیات کے کام کرنےکے بعد اسٹیٹ بنک، اسلامی مالیاتی نظام میں اپنی مانیٹری پالیسی کو نافذ کرنے کے قابل ہوجائےگا۔

شریعت کے مطابق ضمانتوں (securities)کی قیمتوں کا تعین کرنا اب کوئی چیلنج نہیں ہے، لیکن جب یہ ضمانتیں سود پر مبنی ضمانتوں سے آگے نکل جائیں گی تو اس میں ترمیم کرنا ہوگی۔ فی الحال اسلامی مالیاتی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین (منافع کی شرح) شرحِ منافع کے معیارات (جیسے اسٹیٹ بنک کی پالیسی ریٹ یا Kibor)سے منسلک ہے۔ شریعہ ماہرین نے اس کی اجازت دی ہے، غالباً اس لیے کہ اسلامی مالیات کے ابتدائی مرحلے میں، آزاد قیمتوں کے تعین میں غالب سود پر مبنی بنکاری کے شعبے میں مسابقت اور منافع کو مدنظر رکھا جارہا ہے۔ ایک بار جب اسلامی بنکاری کے اثاثے سود پر مبنی اثاثوں سے آگے نکل جائیں گے تو یہ استدلال ختم ہوکر رہ جائے گا اور ایک آزاد اسلامی مالیاتی بنچ مارک منافع کی شرح کی ضرورت ناگزیر ہوجائےگی۔ یہ تصورکرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ کتنا مضحکہ خیز نظر آئے گا اگرغالب اسلامی سیکیورٹیز، شرحِ سود کا بنچ مارک استعمال کرتی رہیں۔ اب بھی، یہ واسطہ اسلامی سیکیورٹیز کے بارے میں بہت زیادہ شکوک پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

اس بینچ مارک کو قائم کرنا اسٹیٹ بنک کی ذمہ داری ہے اور ہوگی۔ یہ ایک مشکل لیکن قابلِ عمل کام ہے۔ رئیل سیکٹر میں موجودہ منافعے کی شرح کا تخمینہ لگانے کے لیےسہ ماہی سروے کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اہم ذیلی شعبوں کا اندازہ کرنا جیسے رئیل اسٹیٹ برائے اجارہ صکوک  جن کی پشت پر زمین یا جائیداد ہو۔ اس کے بعد اسٹیٹ بنک مستقبل کی پالیسی کی شرحوں کے لیے ایک مناسب بنچ مارک منتخب کرسکتا ہے۔

اگرچہ ہمارے ملک میں اسلامی مالیات کی دو عشروں کی پیش رفت سُست رہی ہے لیکن اس صداقت کے بارے میں موجود شکوک و شبہات کے باوجود یہ اب بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ شکوک و شبہات ایک طرف مالیاتی مصنوعات کے درمیان موروثی مماثلت سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسری طرف مالی اعانت کے اسلامی طریقوں کے موجودہ ڈھانچے کی چھان بین کرنے میں ہچکچاہٹ سے ، جو ہرقسم کے لین دین کے لیے مکمل طور پر دستاویزی اور واقعی شفاف ہوں۔(ڈان، ۶جنوری ۲۰۲۳ء)