ڈاکٹرعارفہ خانم شیروانی


کیمرے کے سامنے منہ لپیٹے درمیانی عمر کے ایک صاحب کہنے لگے: ’’کہنے کو کیا رہ گیا ہے اب، بس زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اللہ مالک ہے، حالات ایسے ہیں کہ کچھ بولتے ہیں تو شام کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بس چل رہا ہے‘‘۔ دوسرے صاحب بتاتے ہیں: ’’اب ہم بالکل بے کار ہوچکے ہیں، ہم دس روپے کمائیں گے، گھر پر ماں باپ بیمار ہیں، ان کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ غریب آدمی ہیں‘‘۔

میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا: ’’وعدہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل۳۷۰ ختم کرنے کے بعد حالات بالکل بہتر ہوجائیں گے؟‘‘بولے: ’’وہ تو آپ دیکھ ہی رہی ہیں۔ حالات خراب ہیں، حالات کہاں ٹھیک ہیں، خراب ہی ہیں‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا:’’شام کو چھے بجے یہاں حالات کرفیو جیسے ہوتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔ وہ حالات نہیں ہیں جب لوگ رات کو ۱۰ بجے تک بازارمیں گھومتے پھرتے تھے۔ کیسے کہیں کہ حالات ٹھیک ہیں‘‘۔

ایک بزرگ نے کہا: ’’حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ لوگ مالی اعتبار سے پیچھے ہوگئے ہیں اور ذہنی لحاظ سے اس سے بھی زیادہ پیچھے ہوگئے ہیں‘‘۔

پختہ عمر کے ایک فرد سے سوال کیا: ’’یہاں کے حالات کیسے ہیں؟‘‘وہ مسکرا کر اور گھبرا کر کہنے لگے:’’ ٹھیک ہی ہیں‘‘۔

قریب کھڑے ایک نوجوان نے غصے سے کہا: ’’سب سنسان پڑا ہے۔مارکیٹ میںکچھ کام دھندا نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہاں کچھ نہیں رکھا‘‘۔

’The Wire ٹی وی‘سے میرا تعلق ہے اور زینہ کدل، سری نگر سے مخاطب ہوں۔ یہ شہر کا پرانا علاقہ ہے۔ میں اور میری ٹیم نے یہاں کئی گھنٹے کوشش کی ہے کہ لوگ حالات کے بارے میں بات کریں اور اگر سیاسی حالات کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تو کم سے کم اپنے ذاتی حالات کے بارے میں ہی کوئی بات کریں۔لیکن لوگ بات کرنے یا کوئی ردعمل دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تاہم، کچھ لوگوں کے تاثرات پیش ہیں:

ایک صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ’’کام مندا ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ سب کام بیٹھے ہوئے ہیں۔ اولڈسٹی کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں زیادہ حالات خراب ہوتے ہیں اور زیادہ سیکورٹی ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ہے، گاہک نہیں ہے‘‘۔ اُن سے پوچھا کہ ’’پچھلے دنوں کے مقابلے میں کاروباری حالات کیا زیادہ خراب ہوئے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ’’ آپ خود دیکھ سکتی ہیں کہ مارکیٹ کی صورتِ حال کیا ہے۔ اگرچہ کرفیو بھی نہیں لگتا اور ہڑتال بھی نہیں ہوتی، مارکیٹ ہفتہ بھر کھلی رہتی ہے، لیکن مارکیٹ بہت مندی ہے‘‘۔

’’کہا جارہا ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہٹ جائے گا تو حالات بہتر ہوجائیں گے‘‘، میں نے ایک اور راہ گیر سے پوچھا۔وہ کہنے لگے: ’’کیا آپ سمجھتی ہیں کہ واقعی حالات بہتر ہوگئے ہیں؟‘‘ اندرونی حالات تو بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ آزادی سے گھوما پھرا نہیں جاسکتا۔ شام کو چھ بجے کرفیو کے سے حالات ہوتے ہیں۔ بازار کا ماحول کرفیو جیسا ہوتا ہے۔ وہ حالات نہیں ہیں کہ جب لوگ رات کو دیر تک گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہیں؟ اگر مارکیٹ رات کو ۱۰بجے کھلی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ حالات ٹھیک ہیں۔ یہاں ڈر کا ماحول ہے۔ سب کے دلوں میں ڈر سا ہے۔ کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ آپ خود دیکھ لیں‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا کہ ’’مودی نے آکر حالات خراب کیے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد پوری وادی میں حالات خراب ہیں۔ غربت بڑھی ہے۔ لوگوں کے پاس کام کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ نوجوانوں کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ اُٹھانے سے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں بلکہ اس سے پہلے کے حالات کچھ بہتر تھے۔

’’کیا انتظار کرنے سے شاید حالات بہتر ہوجائیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تو جواب ملا: ’’ہم تو کھانے پینے کے لیے چاول اور روٹی بھی نہیں کما پارہے ہیں۔ یہ دیکھیں مارکیٹیں سنسان پڑی ہوئی ہیں۔ کوئی کام اور دھندا نہیں ہے۔اگر کوئی دو مرلے یا چار مرلے زمین بیچنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ کاغذ لائو، وہ کاغذ لائو۔ ہم کہاں سے کاغذ لائیں؟‘‘

میں نے حالات خراب ہونے کی وجہ جاننا چاہی تو بتایا گیا: ’’مودی نے حالات خراب کیے ہیں، یہ دفعہ لگائی ہے، وہ دفعہ لگائی ہے، بہت سے ایکٹ لگائے ہیں۔ شام کو چھ بجے کے بعد ہم باہر نہیں نکل سکتے‘‘۔ قریب میں ایک بزرگ کھڑے تھے۔ غصے میں کہنے لگے: ’’خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے ۴۰ سال ہوگئے ہیں۔ اس بازار میں اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ ہم یہاں کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، یہ پرانا بازار ہے‘‘۔

جب میں نے پوچھا کہ ’’آپ مودی جی سے کچھ کہنا چاہیں گے؟ ‘‘تو اس بزرگ نے چلتے ہوئے وی [فتح]کا نشان بناتے ہوئے کہا: ’’آپ سمجھ دار ہیں۔ اس کا مطلب بخوبی سمجھتی ہیں‘‘۔

مایوسی اور غصے میں ڈوبے ایک نوجوان نے کہا: ’’میں آٹوٹرانسپورٹ چلاتا ہوں، انھوں نے وہ بھی ختم کر دی ہے۔ کوئی کام نہیں رہا۔ کہاں سے کمائیں؟‘‘

ایک نوجوان نے کہا کہ ’’جن کے پاس اعلیٰ پروفیشنل ڈگریاں ہیں وہ بھی یہاں بیکار ہیں۔ ہم خالی ہاتھ ہیں، بے روزگار ہیں۔ اب کاروبار نہیں چل رہا ہے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ پہلے حالات بہتر تھے۔ ہم بالکل بے کار ہوچکے ہیں‘‘۔

میں نے کہا: ’’ابھی وہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ لوگوں کے دل میں غصہ ہے‘‘، تو نوجوان نے کہا:’’ہاں، غصہ ہے۔ مودی نے آکر کئی دفعات لگا دی ہیں، بچوں کے لیے، بڑوں کے لیے قانون لگارہے ہیں۔ ہم کیا کریں گے؟ پولیس روکتی ہے۔ شام کو باہر نہیں نکلنے دیتی ہے۔ ہمیں کاروبار سے مطلب ہے۔ لیکن یہاں تو اب وہ دن ہی نہیں رہے کہ پیسے کمائیں‘‘۔

چلتے ہوئے ایک نوجوان کہنے لگا: ’’سرکار جب سے آئی ہے، بہت غربت ہوگئی ہے۔ ہم نے بہت مصیبت دیکھی ہے۔ ہم کاروبار کرنا چاہ رہے تھے اور جب کاروبار ہی بیٹھ گیا تو کیا کریں گے؟ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ ہم جو مال بناتے ہیں وہ گھر پر پڑا رہتا ہے۔ لوگوں کے پاس خریداری کے لیے پیسہ نہیں ہے، لہٰذا ہم بہت مجبور ہیں۔ ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا کاروبار چلنا چاہیے۔ ہم نے غریبی بہت دیکھی ہے، ہم محنت کرنا چاہتے ہیں۔ میرے پاس ایک کمرہ تھا۔ میں نے محنت سے تین کمرے بنائے اور قرض بھی لیا ہے۔ مجھے قرض بھی اُتارنا ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’حکومت کہتی ہے کہ کچھ انتظار کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ابھی آرٹیکل ۳۷۰ ہٹائے ہوئے دو تین سال ہی تو گزرے ہیں ‘‘۔نوجوان نے کہا:’’یہ بات نہیں ہے، گھر بھی تو چلانا ہے، غریبی بھی بہت ہے۔ کشمیر پہلے آگے تھا، اب پیچھے ہوگیا ہے‘‘۔

ایک اور صاحب سے پوچھا: ’’ماحول کیسا ہے؟‘‘ مفلر سے منہ لپیٹے کہنے لگے کہ’’ سب ٹھیک ہے لیکن کاروبار بیٹھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ مہنگائی ہے اور یہ پچھلے ایک دو سال سے بڑھی ہے‘‘۔

’’ماحول کے بارے میں کچھ بتائیں کہ لوگ کیوں خوف زدہ ہیں؟‘‘ وہ بتانے لگے: ’’یہاں انھوں نے ماحول ہی ایسا بنایا ہے اور ایسی فضا بنا دی ہے‘‘۔

’’پوچھا: وعدہ تو یہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے؟‘‘ وہ بولے:’’حالات کہاں ٹھیک ہوئے ہیں بلکہ خراب ہی ہوئے ہیں‘‘۔

ایک تاجر سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا:’’ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ ہٹانے کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوئے ہیں یا خراب ہوئے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ’’حالات پہلے سے بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ آرٹیکل ۳۷۰ ہٹانے کے بعد اور پھر کووڈ میں کشمیر بند رہا تو اس کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔ ان دو برسوں میں لوگوں کے پاس جو پیسہ تھا، بچت تھی، اور اگر سونا رکھا تھا تو اسے بیچ کر کھایا، اُدھار لے کر کھایا۔ اُوپر سے حکومت کے نئے نئے قوانین پریشانی کا باعث ہیں۔ اب تجاوزات ہٹانے کے نام پر مارنے کچلنے کی مہم چل رہی ہے۔ لیز پر دکانیں بھی گرائی جارہی ہیں اور مکانات بھی۔ لوگ ذہنی صحت کے اعتبار سے بہت پیچھے ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آئی اور اس نے ہمارے ساتھ وعدے کیے، مگر ہمیں دھوکا ہی دیا۔ ۱۹۴۷ء سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم سے لوگوں نے جو وعدے کیے وہ کبھی سچ نہیں ہوئے۔رہی مودی صاحب کی بات تو انھوں نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں، جس سے سرکاری محکموں میں رشوت تو کم ہوگئی ہے لیکن تجارت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں میں تجارتی سطح پر جو نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ نہیں ہوپارہا۔ زیادہ تر تاجر بنکوں کے نادہندہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آمدن کم ہے‘‘۔

’’کیا ماحول میں خوف کی کیفیت ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ان کا جواب تھا: نہیں، خوف تو نہیں ہے لیکن ایک ڈر اور خدشہ ہے کہ حکومت ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ صاف شفاف نہیں ہے۔ حکومت جس طرح دہلی اور دوسری ریاستوں سے معاملہ کرتی ہے، ہمارے ساتھ اس کا الگ رویہ ہے۔ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا بلکہ زیادتی ہورہی ہے‘‘۔

ایک اور صاحب سے پوچھا: ’’یہاں کے حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’ٹھیک ہی ہیں‘‘۔اور جب پوچھا: ’’کچھ بتانا چاہیں گے؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’نہیں‘‘۔

جب کاروباری حالات کے بارے میں ایک صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے: ’’میں پھل کی تجارت سے وابستہ ہوں، اسی کے متعلق بات کروں گا۔ اس سال سیب کی پیداوار دوگنی ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کشمیر سے ہرسال سیب کی پیداوار ۱۰کروڑ پیٹیاں ہوتی ہیں تو اس سال تقریباً دگنا ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت نے اس سال ایران سے جو پھل درآمد کیا جاتا تھا اس پر امپورٹ ڈیوٹی کم کردی ہے، جس سے ہماری مارکیٹ دبائو میں آگئی ہے‘‘۔

’’آپ ان مسائل کو اُٹھا نہیں پاتے ہوں گے کیونکہ آپ کے انتخابی نمایندے موجود نہیں اور بہت برسوں سے الیکشن بھی نہیں ہوئے ہیں‘‘، میں نے کہاتو وہ صاحب کہنے لگے: ’’میں تو ایک چھوٹا سا کاروباری ہوں، اس لیے میں سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ ہم بہت مشکلات میں ہیں‘‘۔

یہاں پر لوگوں میں ایک جھجک تو ہے ہی اور بات کرنے کے لیے بہت کم لوگ تیار ہیں۔ سیاست پر بات کرنے کے لیے تو بالکل تیار نہیں ہیں۔ اگر کاروباری مسائل پر بات کرتے بھی ہیں تو سیاست پر بات کرنے سے بچتے ہیں۔ آج کا یہ بہت الگ کشمیر ہے۔ وہ کشمیر جو میں نے ۲۰۱۹ء سے پہلے دیکھا اور جو کشمیر آج کا ہے،اس میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

ایک بزرگ سے پوچھا کہ ’’حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’حالات پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں…کچھ کہہ نہیں سکتے ،بس چل رہے ہیں‘‘۔جب میں نے کہا کہ ’’اگر کچھ کہیں گے تو کیا مشکل ہوگی؟‘‘ اس پر کہنے لگے: ’’اب کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ بس دن کاٹ رہے ہیں بیٹا!‘‘

سری نگر کے اس پرانے شہر میں، کئی گھنٹے گزارنے کے بعد مَیں نے لگ بھگ پوری دوپہر اور شام یہاں پر گزاری ہے۔ درجنوں لوگوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ صرف چند لوگوں نے اپنی کاروباری مشکلات کا تذکرہ کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دُکھ اور افسوس ہوا کہ سری نگر اور کشمیر کو سیاسی طور پر دبانے کی ہمیشہ ہی کوشش کی گئی، اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد تو ایک کشمیری کی اُمنگ ہی کو کچل دیا گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں نے دیکھا تھا کہ یہاں لوگ منہ پر کھڑے ہوکر بولتے رہے۔پہلی بار یہ احساس ہوا کہ یہ بدلا ہوا کشمیر ہے۔ یہ وہ کشمیر نہیں ہے جو ۲۰۱۹ء سے پہلے مَیں نے دیکھا تھا، جہاں تمام طرح کی حکمران طاقتیں کبھی کشمیری شہری کا دل نہیں توڑ پائی تھیں۔ یہاں آج آپ جس کسی سے پوچھیں کہ کیسے حالات ہیں تو اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی بھی ہوتی ہے: ’’کیا کہیں؟ سارے حالات آپ کے سامنے ہیں‘‘۔ اگر حالات کے بارے میں بات کریں گے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ’’یہ حالات بھی نہیں بچیں گے‘‘۔ یوں سمجھیے کہ پچھلے تین برسوں سے آرٹیکل ۳۷۰ کے ہٹنے کے بعد یہاں یہ کہانی ہرشخص جانتا ہے کہ ’’بولنے کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘ کشمیر ہمیشہ مسائل سے دوچار رہا ہے، مشکلات کا گڑھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ایک کشمیری میں کم از کم اتنی آزادی اور ہمت ہواکرتی تھی کہ وہ سینہ تان کر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا اظہار کیا کرتا تھا، لیکن اب پہلی بار ایسا ہوا کہ یہاں کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، رکشہ چلانے والا ہو، ٹھیلہ لگانے والا ہو، کوئی پروفیسر ہو یا طالب علم، کوئی صحافی ہو، کوئی بڑا یا چھوٹا کاروباری ہو، کوئی بھی فرد ہو، یہاں اس کی زندگانی سیاسی ہوچکی ہے، وہ کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔

مَیں امید کرتی ہوں کہ اُونچے پائیدانوں پر بیٹھے وہ سیاست دان جنھوں نے کشمیریوں سے کسی قسم کی بات چیت اور مشورہ کیے بغیر کشمیر کے لیے بڑے بڑے فیصلے کر دیئے۔ اس نئے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کران کا دل ضرور دُکھے گا کہ کیا وہ کشمیر کے لیے یہی چاہتے تھے؟