زہرا لین اپارڈ


ترکیہ اور شام میں حالیہ زلزلہ ایک ایسا موقع ہے، جس سے بہت کچھ سبق سیکھا جا سکتا ہے۔   بچوں کی تربیت اور خود بڑوں کی تربیت کے ضمن میں بطور مسلمان ہم سب پریہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اس دنیا اور ہماری تخلیق سے متعلق اسلامی نقطۂ نظر بچوں کے سامنے رکھیں۔

ساری دنیا میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ زمین کی اندرونی تہوں کے ہلنے سے سطح ارض پر جو ارتعاش پیدا ہوتا ہےاسے زلزلہ کہتے ہیں۔ قدرتِ حق سے زمین کی یہ تہیں آپس میں ٹکراتی ہیں،  جو سطح زمین پر زلزلے کا باعث بنتی ہیں۔۶ فروری ۲۰۲۳ء کی سحری کے وقت آنے والا زلزلہ، گذشتہ آٹھ عشروں کا شدید ترین زلزلہ تھا۔ شدت کے ساتھ ساتھ اس زلزلے کا وقت بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ دن طلوع ہونے سے قبل زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میںمحو خواب تھے کہ ان کی چھتیں ان کے اُوپر آن پڑیں۔ زلزلے کی نوعیت اور آفات کو دیکھ کر بہت سے غورطلب اور سبق آموز پہلو سامنے آتے ہیں ، ان کے بارے میں چند گزارشات پیش ہیں:

تمام تر دعوئوں کے باوجود انسان ابھی تک اپنی دنیا کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ زلزلے جیسے واقعات ہمیں اپنی کمزوری اور بے بسی کا احساس شدید تر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔  ہم کسی بھی بڑے سے بڑے یا چھوٹے سے واقعے کے بارے میں بھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لیے سزا ہے یا آزمایش۔ یہ علم اسی کی ذات کے پاس ہے جو علیم و خبیر ہے۔

دنیا کی آزمایشوں ، مشکلات یا چھوٹے موٹے مسئلوں کو لے کر انسان کا پریشان ہونا اچنبھے کی بات نہیں، یہ چیزیں تو اَزل سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اس صورتِ حال میں اصل مشکل اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم جتنے بھی با خبر یا سمجھ دار ہو جائیں، بہت سی چیزیں ہمارے علم سے ہمیشہ باہر رہیں گی۔ ایسی ہی ایک مثال سورۂ کہف کے مطالعے سے یاد آ رہی ہے، جسے اکثر مسلمان جمعہ کے روز پڑھتے ہیں۔ اس سورہ میں حضرت موسٰی کی جناب خضر سے ملاقات کا ذکر ہے۔ یہ ملاقات تب ہوتی ہے جب حضرت موسٰی دنیا میں سب سے بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اللہ ان کی جناب خضر سے ملاقات کرواتا ہے جو بعض اُمور میں ان سے بھی زیادہ علم رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اور جو قرآن حکیم میں دیکھا جا سکتی ہے۔

چنانچہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم عاجزی سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہم جتنا بھی علم حاصل کر لیں، جتنے بھی باخبر ہو جائیں، زندگی اور موت کے معاملات ہماری سمجھ سے باہر رہیں گے۔  کائنات کا حتمی علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہم اپنے روزمرہ معاملات میں اس ہدایت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں، جو اللہ کی جانب سے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس میں ہمارے سیکھنے اور اپنے بچوں کو سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔

سیکھنے کے اسباق

ذیل میں وہ اسباق درج ہیں جو قرآن مجید اور ہدایت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم اس تباہ کن آفت سے سیکھ سکتے ہیں ۔

۱- اللہ کی قدرت کا اعتراف:تمام تعریفیں اللہ ہی کے شایانِ شان ہیں۔ اس دنیا کے متعلق جتنے بھی سائنسی حقائق ہم نے دریافت کیے ہیں، وہ اسی لیے کیے ہیں کہ اللہ کی ذات نے ہمیں اس علم سے نوازا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ قدرتی طور پر آنے والے زلزلے بھی اللہ کی قدرت کا اظہار ہیں۔یہ زلزلہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ دنیاوی واقعات کی کمان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان اتنا بے بس ہے کہ نہ ان واقعات کو روک سکتا ہے اور نہ ان کے بعد ہونے والی تباہی کا تدارک اس کے اختیار میں ہے۔قرآنِ عظیم میں فرمایا گیا ہے:

اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۝۰ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۰ۥۙ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ (الطلاق ۶۵: ۱۲) اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی انھی کے مانند۔ اُن کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہرچیز پر محیط ہے۔

۲- ایک سبق جدوجہد کے متعلق:اس دنیا میں جدوجہد اور اس کے مجوزہ مقاصد کی اہمیت ہم جانتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خبر دار کیا ہے :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ۝۴ۭ (البلد۹۰: ۴) درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’اللہ اپنے بندوں کو پریشانیوں کے ذریعے آزماتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندے مشکلات کے خلاف نبرد آزما ہو کر اس کی عبادت کریں، اس لیے ان پر کئی آزمایشیں پڑتی ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ ان کے دلوں سے غرور نکل جائے اور عاجزی ان کی روحوں میں رچ بس جائے۔ انھی مشکلات کے ذریعے اس کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں اور بندوں کو آسان بخشش کا ذریعہ میسرآتا ہے‘۔ (میزان الحکمہ ۲۹۸۰)

۳- مشکلات اور آزمایشوں کا مقصد :اللہ کی طرف سے آنے والے امتحان اور یہ مشکلات ہماری دنیاوی زندگی کا اہم حصہ رہیں گے۔ یہ امتحان ہمیں جذباتی، جسمانی، نفسیاتی اور روحانی طور پر آزمانے کے لیے آئیں گے:

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۘ يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۙ (البقرہ۲:۲۶) جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انھی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے ربّ ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں،و ہ انھیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اُس سے گمراہی میں وہ انھی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔

ان تمام آزمایشوں کے جواب میں ہمارے پاس صرف صبر اور شکر ہے: 

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ ( البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔

۴-موت سے متعلق  سبق: حالیہ حادثے کے بعد سامنے آنے والی خبروں اور ویڈیوز میں ہم نے زندگی اور موت کو باہم دست و گریباں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک ہی گھر کے بچے اور جوان ملبے تلے دبے تو ان میں سے کچھ کو خراش تک نہ آئی، کچھ زخمی ہوئے، کچھ اپنے ربّ کے حضور پیش ہو گئے اور کچھ کی اب تک کوئی خبر نہیں ہے۔ کس کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس کا علم صرف اللہ  کی ذات بابرکات کو ہے، جو تمام دنیا کا خالق و وارث ہے:

اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝۰ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ۝۰ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام۝۰ِۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا۝۰ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۝۳۴ۧ (لقمان۳۱: ۳۴) اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝۰ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ۝۱۴۵

(اٰل عمرٰن۳: ۱۴۵) کوئی ذی روح، اللہ کے اِذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جو شخص ثوابِ دُنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دُنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطا کریں گے۔

اور جو اس حادثے میں فوت ہوچکے ہیں، ان کی موت رحیم و خبیر اللہ نے اسی لمحے اور اسی طرح مقرر کر رکھی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے کاموں میں کوئی ضُعف اور کمزوری نہیں۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

پانچ لوگ شہید ہیں: طاعون میں مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے، ڈوب کر یا چھت کے نیچے دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں جان دینے والا۔ (بخاری : حدیث ۲۹۸۹)

ہمیں دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ کریم اس موت کو ان مرحومین کے لیے بخشش کا وسیلہ بنا دے۔ جہاں تک ہماری موت کا تعلق ہے اس کا علم صرف ذاتِ الٰہی کو ہے۔

۵- انسانیت سے متعلق سبق: جب بھی اس آفت سے ہونے والی تباہی کے مناظر نظر آتے ہیں کہ جو اس تکلیف سے گزر رہے ہیں تو ہمارا دل ان لوگوں کے لیے گہرے جذبۂ ہمدردی سے لبریز ہو جاتا ہے۔ ہم سب اس وقت زلزلے کے آفٹر شاکس اور لوگوں کے بچ نکلنے سے متعلق کئی طرح کی خبروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی زلزلے کےہفتہ بھر بعد ایک اٹھارہ ماہ کے بچے کو ملبے سے زندہ نکالا گیا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے جو درد ہم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ تمام مومنین کے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا:

مومن باہمی محبت، ہمدردی اور رحم کے معاملے میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری، حدیث ۵۶۶۵، صحیح المسلم، حدیث ۲۵۸۶)

ہمیں اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے لیے روحانی ترقی اور تقویت کا باعث ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ کریم نے فرمایا:

تم میں سے کوئی تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث ۱۳)

رضاکار مستعد ہیں، غذائی اجناس، کپڑے، دوائیاں اور دیگر ضروری اشیا عطیہ کی جا رہی ہیں۔ امدادی کاموں کے لیے دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر مادی وسائل بھی جمع کیے جا رہے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق یہ سب کرنا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے:

بے شک مسلمان ایک دیوار کی مانند ہیں جس کا ہر حصہ دوسرے کو سہارا دیتا ہے(پھر رسولؐ اللہ نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر دکھائیں)۔(صحیح بخاری)

۶- ہماری زندگیوں کے لیے سبق:انسان اپنی موت سے بے خبر ہیں۔ حالیہ زلزلے میں شہید ہونے والوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ اگلے دن کا سورج نہیں دیکھ پائیں گے۔ ان آفتوں اور ان کی بڑھتی ہوئی شدت کودیکھ کر ہمیں بھی موت کا تصور فکرمند رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے میں ہمارے بھائیوں یا بہنوں پر جو مشکل پڑتی ہے وہ ہمارے لیے یاددہانی کا کام کر سکتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اگر آج کا دن ہمارا آخری دن ہو تو ہم اسے کیسے گزاریں گے؟

۷- ایک سبق قیامت سے متعلق: سورۃ الزلزال میں اللہ تعالیٰ نے روز قیامت پیش آنے والی تباہی کا ذکر فرمایا ہے:

يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝۰ۥۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَہُمْ۝۶ۭ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ۝۸ۧ (الزلزال ۹۹: ۶ تا ۸)اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

قرآن میں بیان کی گئیں تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں، لیکن ان کا حالیہ زلزلے سے کیا تعلق ہے؟ ہمیں بتایا گیا ہے کہ قیامت تب تک نمودار نہیں ہو گی جب تک ہم کچھ نشانیاں نہ دیکھ لیں۔ ان میں سے کئی نشانیاں آج ہمارے سامنے ہیں:

  • علما کی وفات کے ساتھ ساتھ دنیا سے علم بھی اٹھتا جا رہا ہے۔
  • زلزلوں کی تعداد اور شدت بڑھتی جا رہی ہے۔
  • وقت سے برکت اُٹھ گئی ہے۔
  • قتل و غارت بڑھ رہی ہے۔ قاتل اور مقتول دونوں بے خبر ہیں کہ وہ کیوں قتل کر یا ہو رہے ہیں؟
  • دولت لالچ کے ذریعے بڑھائی جارہی ہے۔
  • بدعنوانی دنیا میں عام ہے۔

مشکلات کا نشانہ بننے والوں پر انفرادی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے ہمیں اجتماعی طور پر یہ سوچنا ہو گا کہ ہم سب مل کر کس طرح دنیا میں فتنہ کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں؟ کیا یہ آفتیں اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ زمین پر گناہ اور ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے؟ ایسے میں ہمارے انفرادی گناہ کون سے ہیں، جن کے باعث ہم بھی اس ظلم اور گناہ کا حصہ بنے ہوئے ہیں؟

۸- اللہ  کی ذات پر بھروسے اور توکّل کا سبق:اگر ہمارا ایمان یہ ہے کہ اللہ کی ذات ہی سب سے بڑی، سب سے طاقت ور اور سب سے عظیم ہے، تو ہمیں اس کے فیصلوں اور صرف اسی کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ ہمارا دین ہمیں ایک خوب صورت دعا سکھاتا ہے جو پریشانی اور امتحان کے مرحلے میں ہمارے لیے سکون کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ دعا اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سکھائی ہے:

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ۝۰ۤۡۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۱۲۹ۧ ( التوبہ۹: ۱۲۹) اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے تو بس، اللہ ہی کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا۔

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ خود کو اور بچوں کو، اس دنیا اور اس میں آنے والی آزمایشوں کے بارے میں بتائیں۔ گھر اور گھر کے باہر بھی پیش آنے والے واقعات سبق آموز ہوسکتے ہیں۔ ہمیں روزمرہ زندگی میں جو بھی پریشانی یا مشکل دیکھنی پڑے ہم بچوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا مقصد اور نتیجہ سمجھا سکیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہمارے اندر ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی چیز ہم اپنے بچوں کے لیے بھی پسند کرتے ہیں۔ اور اللہ نے مومنین کے ساتھ انعام کا وعدہ کیا ہے:

مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوش حالی ملے توشکر کرتا ہے،اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے، یہ(بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ‘‘۔(صحیح مسلم: حدیث ۲۹۹۹)