روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کے روحانی اثرات سے ہم سب واقف ہیں۔ آخرت میں ملنے والے نتائج، برکات و ثمرات ہم سب کے ذہن نشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں روزہ رکھے۔ رمضان کے احکامات صحت مندوںکے لیے ہیں، اورمریضوںکو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میںایک حد تک رخصت دی ہے، مگرمریضوںکی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں روزے کا اہتمام کریں۔ اﷲ رب العالمین نے رمضان میں روزے، سحری، افطار، تراویح، قیام اللیل اور اعتکاف کے جو احکامات دیے ہیں ان کے نہ صرف روحانی اثرات ہیں بلکہ ان کے طبی اثرات بھی ہیں۔ میڈیکل سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ روزے کے طبی اثرات بھی عظیم الشان ہیں۔
سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ پتا چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں کیا تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں، اور یہ تبدیلیاں جسم، دماغ، صحت، قوتِ مدافعت اور اس کی بیماری پرکون سے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ۲۴گھنٹے کے دوران میں انسانی جسم کی ضروریات کیا ہوتی ہیں، اس کو کتنی غذا،کتنا پانی اور کتنی توانائی درکار ہوتی ہے۔ جب ہم یہ جان لیں گے تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں۔
انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میںکیلوریز (حراروں) کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطاً دو سے تین ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا انحصار انسان کی فعالیت پر ہے۔ بہت زیادہ فعّال لوگوں کو یومیہ ۳ سے ۴ ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات ۲ ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگر ۲۴گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
اسی طرح انسانی جسم کو یومیہ ڈیڑھ سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا بھی انحصار اس بات پر ہے کہ انسان کتنا فعّال ہے، اور بیرونِ خانہ سرگرمیوں میں کتنا مصروف ہے۔ بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت ڈیڑھ سے دو لیٹر ہوتی ہے۔ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے فرد کی ضرورت تین سے چار لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی ۲۴ گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، لیکن جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے، اور علی الصبح سے بھوکا رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاںکرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (hormones) جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کے لیے خارج اور استعمال ہوتے ہیں۔ جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں، اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کا جسم اس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کر سکے۔
انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں، جسم کے اندر خون کی گردش کو فعّال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سحری میں لی گئی غذا جزو ِبدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔
پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہو جاتی ہے، یا اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں، یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے، توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ درحقیقت روزہ رکھنا انسانی جسم کے لیے توانائی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریقۂ علاج استعمال کیا جا رہا ہے جن میں لوگ کمزور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوںکی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریقۂ علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میںگلوکوز کی سطح گر جاتی ہے۔ جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر از خود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل (metabolism) شروع ہو جاتا ہے۔جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوںکے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیے ہوتا ہے۔ جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آ جاتا ہے۔ دنیا میں یہ مستند طریقۂ علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو، ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہو رہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میںآ جاتا ہے، جسم کے اندر ازالۂ سمیّت (detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس سے جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادّوںسے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعّال ہو جاتا ہے۔ اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دُور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل ۲۴، ۳۶ یا ۴۰ گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ۱۵ سے ۱۸ گھنٹے ہونا چاہیے۔ روزہ اسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہو تو اس کے نتیجے میں پٹھے (muscles) کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔اﷲ رب العالمین نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں اور یورپ اور امریکا میں بھی روزے پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔
میڈیکل سائنس نے پچھلے ۲۰،۲۵ سال میں انسانی جسم پر روزے کے اثرات اور اس کے فوائد و ثمرات پر خاصی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق سے روزے کے جو ثمرات ثابت ہوئے ہیں ان میں ۱۵ چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ روزہ زہر کو بے اثر بنانے کا عمل کرتا ہے۔ میٹا بولزم کے نتیجے میں انسانی جسم میںجو زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں، روزہ ان کو بے اثر بنا دیتا ہے اور خارج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے کا یہ ایک بڑا طبی فائدہ ہے۔
روزے کا دوسرا طبی فائدہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں قوت مدافعت بہتر ہو جاتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مدافعتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ جسم کی قوت مدافعت بیماریوں سے بچا کر اسے صحت مند رکھتی ہے۔ اس قوت مدافعت کو بہترکرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ روزہ رکھنا بھی ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے جسم کے اندر وہ خلیے متحرک ہوجاتے ہیں جو اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر اس کو طرح طرح کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اگر بیماری جسم میں پہلے سے موجود ہو تو روزہ اس کے صحت یاب ہونے کے عمل میں اضافہ کر دیتا ہے۔
روزے کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ روزہ اینٹی الرجی (anti-allergy) عمل کو فعّال کرتا ہے۔ جسم میں اس چیز کی گنجایش ہوتی ہے کہ اس میں الرجی کے اثرات ہوں، چاہے وہ غذا کی الرجی ہو، ہوا کی ہو یا مختلف الرجی پیدا کرنے والی بیماریاں ہوں۔ روزے سے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو الرجی کے عمل کو کنٹرول کر لیتے ہیں، چنانچہ الرجی کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔
روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے، یعنی معمول پر لاتا ہے۔ انسانی جسم میں شوگر کی ریگولیشن بہت اہم چیز ہے کیونکہ دماغ کے تمام افعّال کا تعلق شوگر کی سطح سے ہوتا ہے۔ جسم کے اندر شوگر کی سطح بڑھ جائے تو انسان کو شوگر کی بیماری ہو جاتی ہے۔ اگر شوگر کم ہوجائے تو ہائپو گلے سیمیا (Hypoglycemia) ہوجاتا ہے جس سے کمزوری ہو جاتی ہے اور فرد بے ہوش بھی ہو سکتا ہے اور یہ اس کی صحت اور حیات کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میںآ جاتی ہے۔
سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ بلڈ پریشر دنیا میں بہت عام بیماری ہے۔ خود پاکستان میں ۴۵سال سے زائد عمر کے ایک تہائی افراد کو بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔ روزہ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مفید اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمون جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہو جاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوںکو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقۂ علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور ۲۸سے ۲۹گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
روزے سے جسم کو ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہاضمے کے نظام کو آرام ملتا ہے اور ہاضمہ درست کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لوگوں میں معدے اور آنتوں کی بیماریاں بہت عام ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بیماریوںکا سبب غذا کا ضرورت سے زیادہ اور بار بار استعمال ہے، یا ایسی غذائوں کا استعمال ہے جو صحت کے لیے مفید نہیں۔ روزہ آنتوں اور معدے کو ۱۴ سے ۱۶ گھنٹے آرام دیتا ہے۔ اس آرام کے نتیجے میں آنتوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اپنے نظام کو درست کر سکیں۔
روزے کا ایک اور طبی فائدہ سوجن کم کرنے کے (anti inflammatory) اثرات ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جو ہارمون جسم میں خارج ہوتے ہیں ان میں بالخصوص کورٹی سول (cortisol) ہارمون ہے جس سے جسم میں ورم کم ہو جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور گٹھیا (arthritis) کے مریضوں کی تکلیف روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے پیروں پر یا جسم میں کسی اور جگہ ورم ہوتا ہے، یاfluid جمع ہوجاتا ہے انھیں روزے کے نتیجے میں افاقہ ہوتا ہے۔
دماغ کو روزے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ روزہ انسانی دماغ کے اندر ایک سیلف کنٹرول اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے، یاسیت (ڈپریشن) سے نجات ملتی ہے۔ روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ جن لوگوں کو مستقل درد سرکی بیماری ، گھبراہٹ اور ڈ پریشن رہتا ہو ان کی تمام تکالیف روزے کی وجہ سے دُور ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ نیند کو بہتر بناتا ہے۔ نیند نہ آنے کی بیماری عام ہے۔ اکثر لوگ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان کی نیند بہتر ہوجاتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste buds ہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رُونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔
روزے کو ایک اور فائدے کے لیے پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی وزن کم کرنے میں۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ روزے کا عمل جسمانی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کو کم کرتا ہے، لیکن وزن میں کمی اس وقت ہو گی جب انسان اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک انٹیک) کو ایک حد کے اندر رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں غذائوںکا استعمال زیادہ کرے، چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم کرنے کا فائدہ اُسے حاصل نہیں ہوگا۔ آج پوری دنیا میں وزن کم کرنے کے لیے لوگ مکمل فاقہ (fasting) کرتے ہیں، یا انھیں مختلف غذائوں کی fasting کرائی جاتی ہے۔
ماہرِ دندان (ڈینٹسٹ) بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے والوں میں دانت اور مسوڑھوں کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں عام ہیں، ان کا تعلق بھی غذائوںکے استعمال سے ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل دانت اور مجموعی صحت کو بہتر کر دیتا ہے۔روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا، آنکھوںکوروشن کرتا اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔
روزے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کی قوتِ ارادی (motivation ) کو بڑھاتا ہے۔ جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں، روزہ ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔