امتیاز رفیع بٹ


ریاست ہائے متحدہ امریکا کو آج غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ جو کبھی دنیا کی بڑی طاقت اور مغربی لبرل ازم کا سرپرست ہوا کرتا تھا، آج اس کی گرفت تمام ہی محاذوں پر کمزور پڑرہی ہے۔ امریکا کی عالمی حیثیت پر جغرافیائی و سیاسی ماہرین کئی برس سے سوال اٹھا رہے تھے، تاہم اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ نے یہ آشکار کیا کہ امریکا کی پیداواری استعداد، جو عالمی استعداد کا کبھی ۴۰ فی صد ہوتی تھی، ۲۰۲۲ء میں گر کر صرف ۲۵ فی صد رہ گئی ہے۔

اقوام کے عالمی طاقت کے اشاریے (Global Power Index) کے مطابق کسی قوم کی طاقت کو ناپنے کے کئی پیمانے ہیں، جیسے عسکری برتری، اقتصادی ترقی، سماجی توازن، ثفافتی فوقیت، جغرافیائی و سیاسی روابط، مستقبل کے امکانات اور ٹکنالوجی میں پیش رفت۔ ان تمام معاملات میں امریکا کو مختلف ممالک پیچھے چھوڑ رہے ہیں، اور سب سے بڑھ کر چین جو دنیا کی بڑی طاقت بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات ہرگز حیران کن نہیں ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں امریکا کی طاقت گھٹتی جا رہی ہے اور اس کا ثبوت محض رقیبانہ خیالات، نظریات اور تصورات نہیں بلکہ حقیقی اعدادوشمار ہیں۔ دوسری طرف تازہ دم عالمی طاقت کے طور پر چین کا عروج ایک حقیقت ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے اور بہت سے ممالک اپنی خارجہ پالیسیوں کی سمت بدلیں تاکہ  مستقبل کے امکانات سے بہتر طور پر مستفید ہوسکیں۔

فوج کو امریکا کی طاقت و قوت کا سب سے بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ ترازو پر امریکا کا فوجی بجٹ ایک طرف اور پوری دنیا کا فوجی بجٹ دوسری طرف رکھا جائے تو اول الذکر ہی کا پلڑا جھکے گا۔ تاہم، گذشتہ چند برسوں نے یہ بات ثابت کی ہے کہ محض اعدادوشمار ہی سب کچھ نہیں ہوتے، کچھ اور وجوہات بھی ہوتی ہیں جو طاقت ور کو طاقت ور بناتی ہیں۔ امریکی فوج کو افغانستان اور عراق میں ملنے والی ہزیمت واضح ثبوت ہے کہ محض کروڑوں ڈالر لٹانے سے جنگیں نہیں جیتی جا سکتیں بلکہ اس کے لیے حکمتِ عملی، خارجہ پالیسی، سیاسی طاقت اور تسلسل کے پائے دار طریقے بھی درکار ہوتے ہیں، اور ان تمام شعبوں میں امریکی حکومت ناکام ثابت ہوئی ہے۔

تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں اپنی ناکام مہموں پر امریکی حکومت نے تقریباً ۴ء۴ ٹریلین ڈالر گنوا دیے۔ مزید یہ کہ امریکی فوج کا رعب و دبدبہ بھی ناکام مہموں میں اُن طالبان کے ہاتھوں زائل اور ذلیل ہوکر رہ گیا، جن کا اسلحہ نہایت محدود، فضائی طاقت صفر اور ٹینک نہ ہونے کے برابر تھے۔ انجامِ کار امریکی فوج اپنے اُن اتحادیوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر کابل سے چل دی، جنھوں نے پندرہ سال تک اس کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔

دوسری طرف چینی فوج نے تحمل (restraint) سے کام لیا ہے اور جب کبھی اس نے جنگ لڑی ہے تو اچھے نتائج حاصل کیے ہیں۔ بھارتی فوج کے ساتھ اس کی سرحدی جھڑپیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں، جن میں بھارتی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا،جب کہ چین کو اپنی فضائیہ استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ چینی فوج اپنی سفاکی (ferocity) اور تزویراتی اندازِ فکر کے لیے مشہور ہے۔ اُدھر امریکی فوج نے خود کو فضول خرچ اور غیر مؤثر ثابت کیا ہے، اس نے ویت نام سے لے کر عراق تک تمام جنگوں میں نقصانات اٹھائے ہیں۔

اقتصادی محاذ پر دیکھا جائے تو امریکا کے غلبے کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔ وہاں پر طبقاتی اور معاشی تفریق واضح ہے۔ امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔ امریکا کی معیشت دوسرے ملکوں خصوصاً چین کے دیے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ بہت سی امریکی کمپنیاں پیداوار کے مراکز ایشیا میں اُبھرتے ہوئے دیگر ملکوں میں منتقل کر چکی ہیں۔ امریکی کمپنیاں عرب امارات، سعودی عرب، چین اور حتیٰ کہ برازیل میں کاروبار کرنے کے مواقع تلاش کر رہی ہیں اور اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے وہاں دفاتر کھول رہی ہیں۔ چند ماہ قبل ’سلیکون ویلی بنک‘ کا واقعہ امریکا کے مالی نظام کی اُمڈتی تباہی (meltdown) کی تازہ جھلک پیش کرتا ہے۔ جوبائیڈن کو کمزور اقتصادی اصلاحات والا صدر سمجھا جا رہا ہے اور ان کے اقدامات معیشت پر ایک بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکا ہی واحد ملک ہے جہاں صحتِ عامہ کا نظام مفقود ہے، اور سماجی تفریق ہر گزرتے دن کے ساتھ نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کا بجٹ خسارے میں ہے یعنی اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ، جب کہ امریکی منڈی میں قرض ہی حکمت ِ عملی، طرزِ فکر اور سکّہ رائج الوقت ہے۔ امریکی معیشت نہایت تغیرپذیر اور غیر مستحکم ہے، اور بلند خطرۂ قرض (high credit risks) اس کی بنیاد ہے، جب کہ اس کی پشت پر معیشت کو بچانے کا واحد راستہ ڈالر کی طباعت ہے۔

حالیہ بحرانوں میں امریکی حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی بھی عیاں ہو چکی ہے۔ ۲۰۲۲ء  کے اوائل میں شروع ہونے والی یوکرین کی جنگ سے ثابت ہوا ہے کہ اگرچہ ناٹو (NATO)کو امریکی فوج کی حمایت حاصل ہے، تاہم روس جیسی طاقت سے بِھڑ جانے کی اس میں صلاحیت نہیں۔ ایک بات یہ بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ جب کبھی ایٹمی طاقت کے حامل کسی ملک سے واسطہ پڑے تو امریکی بے دست و پا ثابت ہوتے ہیں، یعنی تب ان کی ساری طاقت و جبروت کافور ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یوکرین کی جنگ میں امریکا کی شرکت کا واحد طریقہ امریکی اسلحے کی فروخت ہے۔ یوکرین کے بحران نے یورپ کی بھی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔