اس دن قاہرہ کے علاقے رابعہ العدویہ چوک،قاہرہ میں ٹوٹنے والی قیامت کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ عینی شاہدین، تصاویر، ویڈیوز، یہاں تک کہ ایک مکمل دستاویزی فلم بھی (Memories of a Massacre،ایک قتل عام کی یادیں)، جو اگست۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود وہاں موجود متاثرین کا کہنا ہے کہ ایک عشرہ قبل ہونے والے اس قتل عام میں ملوث کسی بھی ایک کردار کو آج تک قرار واقعی سزا نہیں ملی۔
۱۴ ؍اگست ۲۰۱۳ء کو رابعہ العدویہ چوک میں تقریباً ۸۵ ہزار افراد،اپنے وطن عزیز میں فوجی مداخلت سے پیدا شدہ صورتِ حال کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، کہ مصری مسلح افواج نے جنرل سیسی کی قیادت میں انھیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ مظاہرین یہاں اس لیے جمع ہوئے تھے کہ گذشتہ مہینے جولائی (۲۰۱۳ء) میں مصری فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ محمد مرسی اخوان المسلمون میں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اس کارروائی کے بعد ان کے حامی مصر کے مختلف علاقوں میں جمع ہورہے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مصری مسلح افواج نے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیتے ہی ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس دن ۶۰۰ سے ۱۰۰۰ کے درمیان پُرامن اور نہتے شہریوں کو بلا اشتعال موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
مصری فوجی حکومت، انسانی حقوق کے اداروں کی مذکورہ بالا رپورٹوں کو[کمال ڈھٹائی سے] ’جانب دارانہ‘ قرار دیتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رپورٹوں کی تردید کے لیے جنرل سیسی کی حکومت نے کسی درجے میں غیر جانب دارانہ تحقیقات کی ضرورت محسوس کی ہے اور نہ اس ضمن میں کسی سوال کا جواب دیا ہے۔ تاہم، عالمی دبائو بڑھنے پر مصری حکومت نے اس قتل عام کے متعلق اندرونی طور پر تحقیقات کا اعلان کیا تھا، اور ۲۰۱۳ء کے اواخر میں حقائق کی نشاندہی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا،جب کہ ایک دوسری تفتیش انسانی حقوق کی مصری کونسل کے تحت کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں تحقیقات، صدرمرسی کی جبری برطرفی کے خلاف مظاہرین ہی کو قصوروار قرار دیتی ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’’اکثر یت مسلح ہتھیاروں سے لیس تھی‘‘۔ دوسری طرف عینی شاہدین اس دعویٰ کو باطل قرار دیتے ہیں۔ بہرحال دونوں تحقیقاتی رپورٹیں اس بات پر متفق ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کا بلاجواز اور بے حساب استعمال کیا، لیکن قصورواروں کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کرتیں۔
۲۰۱۸ء میں اسی فوجی نظام کے تابع مصری حکومت نے ایک قانون کے ذریعے اعلیٰ فوجی افسروں کو عدالتی استثنا فراہم کر دیا تھا۔اس قانون کی رُو سے ’’۲۰۱۳ء میں آئین کی معطلی سے لے کر پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک فوجی افسران کے تمام اعمال عدالتی مواخذے سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ اس کے بعد ۲۰۲۱ء میں مصری فوجی حکومت نے اپنی ’دستوری سپریم کورٹ‘ سے متعلق قوانین میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔
ان ترامیم کی رُو سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی بھی بین الاقوامی عدالت یا ادارہ مصری سرکار کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب اور سزا کا حق دار قرار دیتا ہے تو اس معاملے کو بھی کارروائی کے لیے مصری سپریم کورٹ کے پاس ہی بھیجا جائے گا، اور یہی مصری سپریم کورٹ حتمی فیصلہ کرے گی کہ بیرونی اداروں کا فیصلہ درست اور قابل عمل ہے یا نہیں۔ انسانی حقوق کی وکیل مے السادانے کہتی ہیں: ’’یہ ترامیم ایک واضح پیغام ہے۔ اپنے شہریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ انسانیت کے مجرم اپنی کارروائیاں اسی طرح قانونی استثنیٰ کے ساتھ جاری رکھیں گے، جب کہ بین الاقوامی برادری کو کھلا پیغام دیا جارہا ہے کہ مصر بین الاقوامی نظام کے تابع نہیں ہے‘‘۔
۲۰۱۴ء میں مصری وکلا اور صدر محمد مرسی کی حریت و انصاف پارٹی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ رابعہ میں ہونے والے قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی جائیں۔ لیکن اس عدالت نے ان کی درخواست کو اس اعتراض کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ’’ درخواست گزار مصری حکومت کے نمایندہ نہیں ہیں‘‘۔
۲۰۱۵ء میں حریت و انصاف پارٹی کے وکلا نے برطانوی پولیس سے درخواست کی تھی کہ جنرل محمود حجازی کو گرفتار کر لیا جائے جو ان دنوں ہتھیاروں کی ایک نمائش میں شرکت کے لیے برطانیہ آ رہے تھے کہ ان پر تشدد اور رابعہ آپریشن میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔ تاہم، پولیس نے اس بنیاد پر یہ درخواست رد کر دی تھی کہ ’’جنرل حجازی کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے‘‘۔
روپرٹ سکل بیک لندن میں ’مداوا‘ (Redress) کے نام سےقائم ایک ادارے کے سربراہ ہیں، جو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’’مصریوں کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات کی درخواست دیں یا قضائے عالمی (Universal Jurisdiction) کے تحت عالمی اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کریں‘‘۔
lکیا قضائے عالمی کا اصول معاون ہوسکتا ہـے ؟ :سکل بیک کا کہنا ہے: ’’اس معاملے کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو قضائے عالمی کا اصول بھی اس قدر معاون نظر نہیں آتا کیونکہ مصر کی جانب سے اپنے اعلیٰ حکام کو ملک بدر کرنے یا کسی اور ملک کے حوالے کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جرمنی میںبھی ، جہاں اس قانون کا استعمال سب سے زیادہ کیاجاتا ہے، یہ مقدمہ چلنا مشکل ہے۔ ‘‘
برلن میں قائم ’یورپی ادارہ برائے انسانی و دستوری حقوق‘ کے ڈائریکٹر،اینڈریاس شلر کا کہنا ہے:’’سب سے پہلے تو آپ کو قانون میں مقررہ تعریف کے مطابق یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ واقعی انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیاگیا ہے؟‘‘ حال ہی میں شام کے جنگی مجرموں کے خلاف جرمنی میں جو مقدمے چلائے گئے ہیں، ان کا بنیادی محرک یہی تنظیم تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’عدالت یا ادارے کی جانب سے اس واقعے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کے لیے بہت محنت درکار ہے‘‘۔
اس قانون کے تحت شامی مجرمان کے خلاف مقدمہ کی کئی وجوہ تھیں۔مثلاً گواہان، شواہد اور مجرمان کی جرمنی میں موجودگی اور جرمنی کا سیاسی عزم۔ اینڈریاس کا کہنا ہے: ’’یہ معاملہ شام کی صورتِ حال سے مختلف ہے۔ شامی حکومت کے ساتھ جرمنی کے سفارتی تعلقات نہیں تھے،جب کہ مصری حکومت کو بین الاقوامی طور پر اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔ مزیدبرآں مصری حکومت نے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کے متعلقہ چارٹر پر بھی دستخظ نہیں کیے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی ملک ان کی شنوائی کے لیے تیار نہیں ہے۔
سکل بیک کا کہنا ہے: ’’انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے یہ مشکل اکثر پیش آتی ہے کہ کچھ مغربی ممالک سیاسی مصلحتوں کے باعث دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے مسائل کو لے کر واضح مؤقف اختیار نہیں کرتے ‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ سے تعلق رکھنے والے سینئر محقق امر مگدی بھی اسی موقف کے طرف دار ہیں: ’’خطے کی سیاسی صورتِ حال کے باعث مصر میں ہونے والی انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں نظر انداز ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں یمن، لیبیا، شام سمیت سارا خطہ انھی مسائل سے دوچار تھا۔ مصری حکومت نے بین الاقوامی برادری کے مفادات کا بڑی مہارت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ موجودہ حکومت نقل مکانی، دفاع اور معاش جیسے معاملات میں مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور بدلے میں یہ ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے میں مصری حکومت کے جرائم کو نظرانداز کر دیتے ہیں‘‘۔
تاہم، پچھلے ایک عشرے میں صورتِ حال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت اپنے آمرانہ طرز عمل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے باعث تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ سکل بیک کا کہنا ہے: ’’یہ ایک اچھا نکتہ ہے۔ یہ ساری کاروائی واقعے کے فوراً بعد کی گئی تھی۔ جب معاملہ گرم ہو تو لوگ ردعمل میں محتاط رہتے ہیں۔ ایسے واقعات میں عموماً شواہد اکٹھے کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں طویل عرصے سے جاری روانڈا، کمبوڈیا، سابقہ یوگوسلاویہ اور جنگ عظیم دوم کے مقدموں کی مثال بھی موجود ہے، اور ایک عام قتل کے مقدمے کو بھی کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے ان مقدمات میں بھی وقت صرف ہوسکتا ہے۔ تاہم، ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔(انگریزی سے ترجمہ:اطہر رسول حیدر)