سیرجی جنات مارکوس


دین اسلام کی جستجو کا میرا سفر بچپن ہی سے شروع ہو گیا تھا، کیوں کہ میں ایک ’بڑے معبود‘ پر یقین رکھتا تھا، اگرچہ میں اس وقت تک اسے کوئی مخصوص نام نہیں دے سکاتھا۔ اس معبود کو جاننے کی راہ میںالحاد اور بے دینی کی تعلیم بھی میری فطرت کے لیے کوئی بہت بڑی رکاوٹ نہیں بن پائی۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہو گیاتھا کہ اس معبود کی اصلیت سے واقفیت حاصل کی جائے۔ چنانچہ اپنے احباب کے توسط سے میرا تعارف پادری ’الیگزینڈر مین‘ سے ہوا، جن کا تعلق ’آرتھوڈوکس چرچ‘ سے تھا۔ اس طرح عیسائیت کے ساتھ میرا سفر شروع ہوگیا۔ لیکن اس زمانے میں میری مذہبی سرگرمیاں غیر قانونی سمجھی گئیں، اس لیے مجھے مذہبی سرگرمیوں سے روک دیا گیا اور ۱۹۸۲ء میں مجھے تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ میں نے قید وبند کے یہ تین سال منگولیا اور چین کی سرحد سے متصل جنوبی سائبیریا میں واقع جمہوریہ توفا میں گزارے۔

۱۹۸۵ء میں ماسکو واپس آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اشتراکی روس کے صدر میخائل گورباچوف [۱۹۳۱ء-۲۰۲۲ء] نے ۱۱مارچ ۱۹۸۵ء میں ملک کی قیادت سنبھالنے کے بعد ’پروسترائیکا‘ یعنی کشادہ روی کی جانب سفر شروع کیا تو بنیادی تبدیلیاں آنے کا آغاز ہوا ،اور مذہبی فرقوں کو کام کرنے کی آزادی دے دی گئی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ۱۹۹۰ء میں مجھے ریڈیو روس میں ایک مذہبی پروگرام کی نگرانی کے لیے بلایا گیا۔ میرا مطمح نظر اس وقت واقع ہونے والی سیاسی تبدیلیاں نہیں تھا، بلکہ یہ تھا کہ اس پروگرام کے دوران مجھے اپنے عقیدے کے متعلق گفتگو کرنے کی کسی حد تک آزادی حاصل ہے۔

ملک میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو گئی تھیں اور کمیونزم کا دور ختم ہو چکا تھا۔ یہ چھوٹا سا ریڈیو اسٹیشن، سرکاری ریڈیو اسٹیشن میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کی نشریات روسی فیڈریشن کے اکثر حصوں تک پہنچتی تھیں۔ چنانچہ مجھ سے کہا گیا کہ اس پروگرام کو وسعت دی جائے اور ریڈیو اسٹیشن کے اندر مذہبی پروگراموں کے لیے ایک مکمل سیٹ اَپ قائم کر دیا گیا۔ اب ہم مجبور تھے کہ ایک ایسا مذہبی پروگرام پیش کریں ، جس میں روس کے اندر پائے جانے والے تمام مذاہب کی نمائندگی ہو۔ سرکاری ریڈیو سے پورے روس میں ایک مذہبی پروگرام نشر کرنے کی بنیاد سب سے پہلے میں نے ہی ڈالی۔

اب میں مذہبی پروگراموں کا چیف ایڈیٹراور عیسائی پروگرام پیش کرنے کا ذمہ دار تھا۔ اس مقصد کے لیے مَیں نے کیتھولک ،پروٹسٹنٹ اور بودھ مذہب سے متعلق پروگرام پیش کرنے والوں کی تلاش شروع کر دی۔ لیکن سب سے بڑی مشکل اسلام سے متعلق مذہبی پروگرام پیش کرنے کے سلسلے میں تھی۔ اس لیے کہ ایسے ماہرین کا فقدان تھا، جو ابلاغیات کے پیشے اور دین اسلام کی معلومات سے لیس ہوں۔ اس کے باوجود ہم نے پروگرام کے آغاز کے چھ سال گزر جانے کے بعد محترمہ لیلیٰ حسینوف کی قیادت میں ایک ایسی ٹیم تیار کر لی، جو روس میں اسلام اور مسلمانوں پر مستقل پروگرام تیار کیا کرتی تھی۔ اس طرح روس کی تاریخ میں پہلی بار ہر جمعہ کو ’صوت الاسلام‘ کے نام سے اسلام کے متعلق پروگرام نشر ہوا کرتا تھا۔یہ پروگرام اسلامی حلقوں کی اہم شخصیات سے جن میں اسلامی مفکرین، علما اور مفتیان کرام شامل تھے، روابط اور روس کے بڑے مذاہب میں سے ایک کو ماننے والوں سے متعارف ہونے کا حقیقی ذریعہ تھا۔

  • قسمت نے دست گیری کی! واقعی قسمت نے مجھے اس راستے پر ڈالا تھا۔ میں اپنے پروگرام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے متعلق اور خاص طور سے اسلام سے متعلق پروگرام کو توجہ سے سنتے ہوئے یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ اسلام براہِ راست مجھے متاثر کر رہا ہے۔ اس کے بعد ایک واقعے کی وجہ سے معاملہ بالکل تلپٹ ہو گیا۔ ہوا یہ کہ لیلیٰ حسینوف نے پروگرام کی نشریات سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ’’مسلسل چھ سال تک اس پروگرام کو پیش کرتے کرتے اُکتا گئی ہوں‘‘۔ اس طرح اسلامی نشریات کا سلسلہ اچانک رُک گیا۔

اس وقت روس کے وزیر اعظم [۹۸-۱۹۹۲ء] وکٹر چرنو میردین نے ریڈیو نشریات کے مدیر سیرجی ڈیوڈ سے رابطہ کر کے ہدایت کی کہ ’اسلامی نشریات‘ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ ان کا حکم اس بنیاد پر تھا کہ اس پروگرام کے رُک جانے سے روس کی داخلی سیاست پر اس کا منفی اثر پڑسکتا تھا، کیوں کہ روس میں تقریباً ۲کروڑ  مسلمان رہتے تھے [اب ڈھائی کروڑ ہیں]۔ فوری حل  نہ ملا تو مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنی آواز بدل کر کسی مجہول نام سے پروگرام پیش کروں۔ فوری طور پر تو میں نے اس پر اعتراض بھی کیا، کہ میں آرتھوڈوکس عیسائیوں کے یہاں اچھی طرح معروف تھا۔ مگر آخرکار تیار ہوگیا اور پروگرام شروع کردیا۔ انڈری حسانوف کے متبادل نام سے میرا اس پروگرام کے شعبے میں تبادلہ ہوگیا۔ میرے لیے اس نام کے انتخاب کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ میرے لیے تو اہم یہ تھا کہ میں ایک طرف اسلام اور دوسری طرف روسی تہذیب کے درمیان پُل کا کام کروں۔

اس مقصد کے لیے مجھے اسلامی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بہت زیادہ چھان بین کرنی پڑتی تھی اور پروگرام میں پیش کرنے کے لیے عربی اور اسلامی فنونِ لطیفہ سے بھی واقفیت حاصل کرنی پڑتی تھی۔ اس وسیلے سے اسلامی شخصیات سے مجھے زیادہ سے زیادہ تعارف حاصل ہوا، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح میں اسلامی ثقافت کے کسی ماہر کی طرح ہو گیا۔ لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ تمام لوگوں سے آواز کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ گاہے گاہے میرے دوستوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے‘‘۔ میں نے قطعی طور پر اس بات سے انکار کیا، کیوں کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ میں تو اس طرح اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہوں جس طرح تاریخ کا کوئی ماہر کیا کرتا ہے۔ لیکن پھر مذہب کی یہ تبدیلی عملی طور پر ۲۰۰۰ء میں اس وقت ہو ہی گئی، جب ایک روز رات کے وقت میرے ذہن میں گھومنے والے افکار کی وجہ سے میرا سر چکرانے لگا۔ اس وقت جو سوال میرے ذہن پر بار بار مسلط ہو رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ’’کیا میں واقعی اسلام قبول کر لوں گا؟‘‘

  • اسلام اور عیسائیت کے بارے کش مکش:جیساکہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں مجھے دین اسلام کا مطالعہ ایک طرح سے گہرائی کے ساتھ کرنا پڑتا تھا۔ اسی مطالعے کے دوران مجھے بہت سے ایسے سوالات کے جوابات مل گئے، جو عیسائیت کے سلسلے میں مجھے پریشان کرتے تھے۔ مثلاً ربّ اور بندے کے درمیان تعلق کی نوعیت، تثلیث کا نظریہ اورحضرت عیسٰی علیہ السلام سے متعلق بہت سے سوالات۔ چنانچہ حضرت عیسٰیؑ سے محبت کے باوجود میں یہ نہیں سمجھ پاتا تھا کہ لوگ انھیں معبود کیوں خیال کرتے ہیں؟

مسئلۂ توحید اور حضرت عیسٰیؑ سے اس کے تعلق نے بھی اُسی طرح میری نیند اُڑا دی تھی، جس طرح یہ مسئلہ دوسرے بہت سے عیسائیوں کی نیند حرام کیے رہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اسلام کے اندر یہ تمام مسائل انتہائی ہلکے پھلکے اور قابلِ فہم انداز سے بیان کیے گئے ہیں اور ان کے بیان میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ مجھے ان تمام سوالوں کا واضح جواب مل گیا تھا۔ اسلام کی دوسری بات جو مجھے بہت اچھی لگی، وہ اس کا طریقۂ عبادت اور خاص طور سے حالت ِسجدہ ہے۔ سجدے کے بارے میں میرا تصور پہلے سے ہی یہ تھا کہ سجدہ، اللہ کے سامنے اپنی بندگی کے اظہار کی معراج ہے۔ جس وقت آپ اللہ کے سامنے اپنی پیشانی ٹیکنے کے لیے گھٹنوں کے بل زمین پر سر جھکاتے ہیں اور اپنے وجود کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں، وہ بڑا شاندار تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے۔

میرے اندر برپا شعوری کش مکش کے باوجود اسلام قبول کرنے کا سوال میرے اُوپر بار بار مسلط ہو رہا تھا، کہ اسی دوران مجھے نیند آگئی۔ نیند کی حالت میں کسی پکارنے والے کی آواز سنائی دی جو کہہ رہا تھا: ’’ تیرا یہ سوال غلط ہے، کیوں کہ تیرے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ تواسلام قبول کر سکے، وہ تو اسلام ہے جس نے تجھے قبول کر لیا ہے اور اپنا بنا لیا ہے‘‘۔ اتنی بات سننے کے بعد ہی میری آنکھ کھل گئی، اور میری زبان سے نکلا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔میری سمجھ میں آگیا کہ وہ صرف اللہ ہی ہے، جو کسی کے دل کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔

  • سفر جاری تھا: ایسا نہیں کہ معاملہ یہیں پر ختم ہو گیا ہو۔ کیوں کہ معاشرے کی طرف سے اس پر جو ردعمل آسکتا تھا، میں اس سے ڈرا ہوا تھا۔ آرتھوڈوکس عیسائی حلقے میں میری حیثیت ایک معروف شخصیت کی تھی۔ روس کے پیٹریارک ’الیکسی دوم‘ سے میرے براہِ راست تعلقات تھے، بلکہ میں نے مذہبی پروگرام کا آغاز بھی انھی کی محترم شخصیت کو مدعو کر کے کیا تھا۔ اس طرح اُوپر تلے بہت سے سوالات مجھے پریشان کرنے لگے۔ لیکن میںنے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ زندگی کا روحانی پہلو قابل ترجیح ہے۔ رہے دوسرے مسائل ، تو میں انھیں زمانے اور دنیا کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ علی بلوسین سے مشورہ کیا جائے، جو کہ مجھ سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے۔ وہ خود ایک معروف مذہبی شخصیت تھے، آرتھوڈوکس چرچ میں پادری رہ چکے تھے اور ایک مفکر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی اور میری صورت حال یکساں تھی۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنے قبول اسلام کا اعلان نہ کروں اور اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کروں۔

 اس دوران میں نے اپنے دینی فرائض کی ادائیگی شروع کر دی۔ باوجود اس کے کہ میرے اکثر دوستوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا، میرے اندر تبدیلی کا عمل مسلسل جاری رہا۔ البتہ سفر حج، جس کا پروگرام میں نے پہلے سے نہیں بنا رکھا تھا، اس نے میری نفسیات پر گہرا اثر ڈالا، کیوں کہ وہاں مجھے متعدد شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے، جنھوں نے اسلام قبول کررکھا تھا۔ اور یہ اللہ کی توفیق اور اس بات کا پیغام تھا کہ میں اس راہ کا تنہا راہی نہیں ہوں۔

  • راہ کٹھن تھی:حقیقت میں انفرادی اور اجتماعی، دونوں پہلو سے اسلام قبول کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ کیوں کہ میں نسلی اعتبار سے روسی ہوں، شاعر بھی ہوں، روسی زبان سے مجھے محبت ہے، اسی زبان میں لکھتا اور اپنے وطن سے بھی محبت کرتا ہوں۔ نفسیاتی اعتبار سے یہ میرے لیے مشکل تھا کہ ایک ہی لمحے میں ان تمام چیزوں کو خیرباد کہہ دوں اور ایک ایسی تہذیب سے وابستہ ہوجائوں، جو اُس تہذیب کے بالمقابل ہے کہ جو تہذیب میری جانی پہچانی اور جس سے مجھے محبت ہے۔

اگر درست ترتیب قائم کروں تو وہ یہ ہے کہ میں نے اسلا م قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسلام نے مجھے قبول کیا تھا۔ اس بات سے میں نے یہ سمجھا کہ مجھ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ میں دونوں تہذیبوں کے درمیان موازنہ کروں۔ میں مسلمان ہوں، لیکن بیک وقت قومیت، مزاج اور تہذیب کے اعتبار سے روسی بھی ہوں۔ میرا دل اس بات پر مطمئن ہو گیا کہ مجھ سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ میں اپنی اُس تہذیب سے دست کش ہو جائوں، جس میں رہ کر میری پرورش ہو ئی ہے۔ کیوں کہ اسلام قبول کرنے والوں میں اگر عرب کے رہنے والے صحابہ کرامؓ تھے تو دوسری طرف فارس کے سلمانؓ، حبشہ کے بلالؓ اور روم کے صہیبؓ بھی تھے۔ ان میں سے ہر شخص الگ الگ تہذیب سے آیا تھا۔ مسلمان سے تو صرف یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے دین میں گم ہو جائے تاکہ اپنی قوم کے درمیان اسلام کو اس کی اسی زبان میں پیش کر سکے، جسے اس کی قوم کے افراد سمجھتے ہیں۔(المجتمع)