محمد صلاح الدین


اُمت مسلمہ کے المیے سے نجات کے لیے پہلی ضرورت ایسے نوجوان تیار کرنے کی ہے، جو قرآن عظیم، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک ہوںاور ہم عصر علوم پر بھی دسترس رکھتے ہوں، نیز اہل مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت و قابلیت رکھتے ہوں۔ اگر ہم نے ایسے نوجوان پیدا نہیں کیے تو ایک لاکھ حفاظ اور قاری بنالینے سے وہ قوت پیدا نہیں ہوگی جو مطلوب ہے۔

دُنیا میں کمیونٹیز کلب بنائےجاتے ہیں۔ یہودیوں نے ایجوکیشنل کلب بنایا ہے جس کا یہ کام ہے کہ پوری یہودی دُنیا سے دس ایسے نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے، جو ذہین ترین بچّے ہوں اور پھر پوری یہودی کمیونٹی ان کی تعلیم پر خرچ کی ذمہ دار ہے۔ جب یہ دس نوجوان آگے بڑھتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایٹم بم بنانے والا نکلتا ہے اور کوئی ان میں سے چاندکی تسخیر کرنے والا نکلتا ہے۔ وہ کمیونٹی اپنے بچوں کو اس طرح تیار کرتی ہے کہ ’’یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ماہرِفن بن گیا تو پوری دُنیا پر حکومت کرے گا‘‘۔

کیا کبھی ہم نے اپنے معاشرے میں ذہین ترین مسلمان بچوں کی تعلیم کے بارے میں کچھ سوچا ہے؟ کیا ہم نے اجتماعی طور پر یہ ذمہ داری قبول کی ہے؟آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ علم ان کو دیا جن کا آپؐ سے دُور پرے تک کوئی رشتہ ناتا نہ تھا۔ مسجد نبویؐ میں صفہ کا چبوترہ قائم کیاگیا تو وہاں کون پڑھ رہے ہیں؟ سلمان فارسیؓ، بلال حبشیؓ اور صہیب رومیؓ وہاں پڑھ رہے ہیں۔ گویا وہ لوگ وہاں پڑھ رہے تھے، جن کا آپؐ سے کوئی خون، برادری، قبیلے کا رشتہ ناتا نہ تھا، جو مفلوک الحال تھے، جو اسلام لانے سے پہلے یہودیوں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے، مگر علم سب سے زیادہ ان کے حصے میں آیا۔ اس لیے کہ اجتماعی نظام ان کی تعلیم و تربیت کے لیے سرپرستی کر رہا تھا۔

آج میری اور آپ کی سوچ تعلیم کے سلسلے میں گھر کی ڈیوڑھی پہ آکر رُک جاتی ہے۔ مجھے اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینیربناناہے۔ یہ میرے مقاصد ہیں، اس کے لیے میں دن رات ایک کردیتا ہوں کہ میرا بچہ ڈاکٹر یا انجینیر بن جائے۔ لیکن جو بچہ میرے اور آپ کے پڑوس میں ہے اور جو آپ کے بچّے سے زیادہ ذہین ہے، اس کی تعلیم کی کوئی ذمہ داری ہم نے اپنے سر نہیں لی ہوئی ہے۔ اس کے لیے اس کا باپ جانے یا اس کی ماں جانے۔ اگر اس کے باپ کے پاس تعلیم کے لیے پیسے نہیں ہیں تو یہ ہمارے مسلم معاشرے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کومٹ جانا یا برباد ہوجانا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ اس ذمہ داری کے لیے میں اور آپ کیا تعاون کرتے ہیں؟ ہم نے کتنے بچوں کی تعلیم کے لیے کبھی سوچا یا غور کیا ہے؟

ہماری اتنی محدود سوچ ہے کہ میرا بچہ وہ ہے جو میرے گھر میں پیدا ہوا ہے۔ یہ جو میرے پڑوس میں رہتا ہے، یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ اگر میرے پاس دولت ہے تو میرا بچہ کسی اعلیٰ اسکول یا گرامر اسکول میں جائے گا۔ اگر پڑوس میں کوئی ڈرائیور رہتا ہے اور اس کا بچہ ذہین ترین بچہ ہے، تو اس کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ وہ بوٹ پالش کرے گا یا گاڑیوں وغیرہ کی صفائی کرے گا۔ اس لیے کہ وہ اُمت کا بچہ نہیں ہے۔ یہ تو ڈرائیور کا بچّہ ہے، وہ جانے اور اس کا کام۔

ہم ان قوموں کا کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں جو پورے قومی وسائل خرچ کرکے ایک ایک بچّے کو اعلیٰ ترین سطح تک تعلیم دلواتے ہیں؟ یہی نظام ہمارے ہاں اسماعیلیوں اور بوہریوں کے اندر چل رہا ہے۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی کمیونیٹیز ہیں، یہ سال میں دس دس بچوں کا انتخاب کرتی ہیں اور انھیں آگے لے جارہی ہیں، اور جو ہمارے ہاں بھیڑ ہے، اس کی بنیاد پر ہم انگلیوں پر صرف تعداد گنتے رہتے ہیں کہ ہم ۹۰ فی صد ہیں یا ۱۰ فی صد ہیں۔ شام میں ۳ فی صد، دروزی ۹۷ فی صد آبادی پر حکومت کر رہے ہیں۔ وہ ۹۷ فی صد ریت کا ڈھیر ہیں یا ریت کے ذرّات کی مانند ہیں۔ وہ کیوں حکومت کر رہے ہیں؟اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس لیے بہترین چیز جو آپ اُمت کو دے سکتے ہیں، وہ اُمت کے ذہین ترین بچوں کی تعلیم کی ضمانت ہے، براہِ کرم انھیں تعلیم کی اعلیٰ سطح پر لے جایئے۔ اگر ان میں سے ایک بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نکل آیا تو وہ ملک کو کہاں لے جاسکتا ہے۔ وہ ایٹمی پروگرام کے ساتھ سامنے آیا، اور ساری دُنیا اس کو تلاش کرتی رہی کہ اس کو اغوا کیسے کیا جائے؟ اس کو گولی کیسے ماری جائے اور اس کو کہاں سے اُٹھایا جائے؟ کبھی فرانسیسی سفیر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، اور کبھی کوئی دوسرا جاسوس۔ ان کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح اس اُمت سے یہ ایک ڈاکٹر عبدالقدیر چھین لیا جائے۔ اگر یہ اُمت دس عبدالقدیر خان پیدا کردے تو پھر اندازہ کیجیے اس کی قوت کا!

ہم دینی تعلیم میں تخصص اور کمال (ایکسی لینس) کی نفی نہیں کر رہے۔ہم نے دین اور دُنیا میں اپنے نظامِ تعلیم کو تقسیم کردیا ہے۔ ہمیں تو دس نہیں پچاس عبدالقدیر خان کی ضرورت ہے۔جب تک یہ لوگ میسر نہیں آئیں گے، ہم ایک قوت نہیں بن سکتے۔ پھر یہ وہ لوگ ہیں جو دین کا شعور بھی رکھتے ہوں اور تربیت بھی اور ملک و ملّت  کا درد بھی رکھتے ہوں۔ روحانی اور مادی وسائل کی یکجائی کے بعد ہی ہمیں سربلندی حاصل ہوسکتی ہے۔

یہ کس قدر بدبختی اور بدنصیبی کی بات ہے کہ ہم ایک دن میں ۲۰۰ روپے کی آئس کریم کھاجاتے ہیں، ۱۰۰ روپے کے سگریٹ پی جاتی ہیں لیکن اگر کسی چیز پر ہم رقم صرف نہیں کرتے تو وہ قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کا مسئلہ ہے جس پر ہم رقم صرف نہیں کرتے۔ ہمیں کتاب مہنگی نظر آتی ہے، رسالے مہنگے نظر آتے ہیں، اخبار کا بل بہت بھاری دکھائی دیتا ہے، جب کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک ہی محفل کے اندر کتنے ہی روپے کی کولڈ ڈرنک پی جاتے ہیں اور یہ سارے پیسے یہودیوں کی جیب میں ڈال دیتے ہیں اور ہم کو اس کا کوئی صدمہ نہیں ہوتا۔ صدمہ صرف علم کے نام پر خرچ ہونے والی رقم کا ہوتا ہے۔

یہ زوالِ علم ہے جو ہماری بربادی کا سبب ہے۔ جب علم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس ’علم‘ میں دینی علوم اور ہم عصر علوم، سب کے سب شامل ہیں۔ علم ان دونوں پر محیط ہے۔ خدا کرے کہ یہ شعور عام ہو اور اُمت مسلمہ سربلند ہو۔

یہ جو آپ محلات کے محلات بناتے چلے جارہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مدائن صالح کے محلات کی طرف جو اشارہ کیا ہے، مجھے تو یہ وہی نقشہ نظر آتا ہے۔ یہ محلات آپ کی قوت نہیں بلکہ آپ کی کمزوریاں ہیں۔ جب آپ ایک عالیشان عمارت بنا لیتے ہیں تو وہ آپ کو قوت بہم نہیں پہنچاتی بلکہ وہ آپ کو کمزور کردیتی ہے۔ یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر جنگ چھڑگئی اور ایک گولہ بھی اسے آکر لگ گیا تو یہ عالیشان عمارت ملبے کا ڈھیر ثابت ہوگی اور برباد ہوجائے گی۔ یہ عمارات اور یہ سارا سازوسامان قوموں کے زوال کی علامت ہے، ان کی ترقی کی علامت نہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ پیدل چل رہے ہوں اور آپ کے کندھے پر ایک چھوٹا سا تھیلا رکھ دیا جائے تو آپ کی رفتار اگر پانچ کلومیٹر ہوگی توو ہ ڈھائی کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جائےگی۔ اگر  آپ کے ہاتھ میں دو تھیلے تھما دیئے جائیں تو آپ کی رفتار اور بھی کم رہ جائے گی۔ اسی طرح جب کسی قوم پر تمدن کا بوجھ بڑھتا ہے، تو اس میں ٹھیرائو آجاتا ہے۔ وہ سمٹنے لگتی ہے، غالیچے بچھنے لگتے ہیں اور بالآخر قومیں ختم ہوجاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیں بدویت اور سادگی مگر وقار کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔

ترقی کیا ہے؟ ہم نے اتنی عمارتیں بنالی ہیں، پچھلے سال اتنی تھیں___ عمارتیں، کاریں، فریج یا ٹیلی ویژن وغیرہ یہ کوئی قوت نہیں ہیں۔ یہ سب زوال کے اسباب ہیں۔ اگر آپ کے ملک میں چپل تیار کرنے والا کارخانہ لگ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترقی ہے۔ اگر ایک سوئی بنانے والا کارخانہ لگ گیایا پلاسٹک کا کھلونا بنانے والا کارخانہ لگ گیا تو یہ ترقی ہے۔لیکن اگر صنعتی پیداوار اور سائنسی ترقی نہیں ہے اور دُنیا بھر کے کھلونے آجائیں یا کاریں آجائیں تو یہ قوت نہیں کمزوری ہے۔ طاقت جس چیز کا نام ہے وہ ان عمارتوں میں ہے، نہ سازوسامان میں بلکہ اخلاقی قوت کی معراج اور مادی پیداوار میں عادلانہ، منصفانہ اور انسانیت دوست ترقی کو بڑھانے میں ہے۔ خدا کرے کہ ہم بحیثیت اُمت اس ذمہ داری کو پورا کرسکیں۔

اس وقت ہم ڈکیتی، لُوٹ مار ، جعل سازی، دھوکا دہی اور ٹیکس چوری وغیرہ کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بدنصیبی دیکھیے کہ جب امریکا سے بہت زیادہ ناراض ہوئے تو کہتے رہے کہ اس سے رسّہ تڑوائو، یہ ہمارا استحصال کررہا ہے اور روس کی طرف چلنے لگے۔ جب روس کے کمبل نے بہت زیادہ پریشان کیا تو اُسے اُتارنے کی کوشش میں امریکا کی طرف چلے گئے۔ مصر کا المیہ کیا ہے؟ ناصر کے دور میں ماسکو کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزرا، لیکن جب سادات آئے تو کہا کہ ہم تو مارے گئے، برباد ہوگئے اور ہمارا ملک بھی چلا گیا۔بڑا زور لگایا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ امریکا میں سجدئہ سہو ہوا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوگیا۔ مراد یہ ہے کہ ایک لعنت سے بچتے ہیں تو دوسری لعنت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کے نشے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ہم کسی کے سہارے کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ جب تک ہم ان بیساکھیوں کو ترک نہیں کریں گے، ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ سوال پیدا ہوگا کہ گاڑی اور پٹرول کہاں سے آئے گا؟ دشمن ملک سے لڑنے کے لیے اسلحہ کہاں سے آئے گا؟اپنی حفاظت کے لیے سازوسامان کہاں سے مہیا ہوگا؟ موجودہ صورتِ حال میں بہرحال ہمیں بھکاری ہی بن کر رہنا پڑے گا۔ کشکول لیے کبھی ایک کے دروازے پر اور کبھی دوسرے کے دروازے پر۔ جب تک یہ کشکول نہیں چھوٹے گا اور جب تک ہمارے ہاتھوں میں یہ قوت پیدا نہیں ہوگی کہ ہم ان چیزوں کو خود تیار کرسکیں جو ہم دُنیا سے مانگتے ہیں۔ اُس وقت تک ہمارے پاس قوت نہیں آئے گی اور عزّت کے ساتھ زندہ رہنے کا طریقہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے دینی ذوق اور فہم میں ترقی کے ساتھ جدید تعلیمی میدان میں شان دار پیش رفت ضروری ہے، جس کے لیے ہمارے معاشرے کو آگے بڑھ کر سرپرستی کرنا ہوگی۔