رای حنانیا


مذہب و نسل کی بنیاد پر انسان سے نفرت کی تمام شکلیں قابلِ مذمت ہیں لیکن امریکا میں خاص طور پر اکثر یہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے تمام ناقدین کو ’یہود دشمن‘ (Antisemitists) قرار دے کر ان کا محاسبہ ہوتا ہے،جب کہ ’عرب دشمنی‘ کے واقعات کو بڑی آسانی سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پہلی عرب اسرائیل جنگ سے بھی پہلے کا ہے اور ۱۹۳۰ء کے عشرے سے یہود پسند گروہ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ’ارضِ فلسطین سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نکالا جائے‘۔ یہ مذہبی اور نسلی تعصب نہ صرف برداشت کیا گیا بلکہ جب امریکی صدر [۵۴-۱۹۴۵ء] ہیری ٹرومین جیسے سیاست دانوں نے فلسطین کی غیر یہودی اور عرب آبادی کے تحفظات کو مکمل نظر انداز کرنا شروع کیا، تو اُس دن سے لے کر آج تک یہ امریکی خارجہ پالیسی کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

چونکہ اسرائیل اپنی اچھی خاصی غیر یہودی آبادی کے باوجود خود کو یہودی ریاست قرار دیتا ہے، اس لیے اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی سے ’یہود دشمن‘ قرار پاکر مطعون ٹھیرتا ہے۔ اس رویے کا نقصان عربوں کو ہوتا ہے جو اپنے خلاف پائے جانے والے تعصب یا مسئلہ فلسطین پر بات کریں تو فوراً ’یہود دشمن‘ قرار پاتے ہیں کیونکہ اسرائیلی برادری تاریخی طور پر امریکی میڈیا اور تعلقات عامہ کے دیگر اداروں میں اپنے رسوخ کے باعث الفاظ اور بیانیے کی اہمیت سے بہتر طور پر واقف ہے۔ یہ ’عرب دشمنی‘ کی ایک واضح مثال ہے کہ اسرائیلی وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور کئی منتخب نمایندے کھلم کھلا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ’’فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی جانب دھکیل دیا جائے‘‘۔

اسرائیلی حکومت کی جارحیت کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے ’یہود دشمنی‘ کا بطور ہتھیار استعمال نہ صرف اسرائیل غزہ جنگ میں نمایاں ہے بلکہ اس کے اثرات امریکا میں بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، جو اسرائیلی ریاست کا سب سے بڑا سرپرست اوراس بات کا ضامن ہے کہ اسے اپنے جنگی جرائم کی سزا نہ مل سکے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسرائیلی حکومت کے ناقدین کو خاموش کروانے کا فریضہ امریکا نے سنبھال رکھا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکا نے غزہ میں ’انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی‘ کی قرار داد کو ویٹو کردیا تھا جس نے یہ حقیقت مزید آشکارا کر دی کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق جیسے بنیادی معاملات پر بھی طاقت ور ممالک کے سامنے بے بس ہے۔

’یہود دشمنی‘ کا یہ استعمال ہمیں یونی ورسٹیوں میں بھی نظر آتا ہے، جہاں طویل عرصے سے یہودی طلبہ کو فلسطینی ہم مکتبوں کے مقابلے میں بہتر حقوق اور سہولیات حاصل ہیں۔ میں ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یونی ورسٹی آف الینائی (University of Illinois) میں عرب طلبہ کی تنظیم، عرب اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ASO) کی قیادت کر چکا ہوں۔اس عہدے پر مجھے یونی ورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اکثر ہماری تقریبات کے لیے فنڈز دینے سے انکار کر دیا جاتا یا فلسطین پسند سمجھے جانے والے مقررین کو مدعو کرنے کی اجازت نہ ملتی۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کے حق میں ہونے والی تقریبات کو اکثر یونی ورسٹی کی مالی معاونت حاصل ہوتی۔

جب ہم اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے تو ہمیں نہ صرف اساتذہ بلکہ یونی ورسٹی کے اخبار کی جانب سے بھی ’یہود دشمن‘ قراردیا جاتا۔ اسی صورتِ حال کے باعث میں نے میڈیکل کو چھوڑ کر صحافت کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ آج فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے لیے یونی ورسٹیوں کی صورتِ حال اس سے بھی بری ہے۔ اس صورت حال کی تشکیل میں امریکی میڈیا کے تعصبات کا کلیدی کردار ہے۔

۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل میں ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد سے امریکا کی اسرائیل پسند تنظیموں کی پوری کوشش ہے کہ تل ابیب کے رد عمل اور اس کے ناجائز اور ناروا مظالم پر ہونے والی ہر تنقید کو ’یہود دشمنی‘ قرار دے کر دبا دیا جائے۔ ۷؍اکتوبر کو حماس کے حملے کو اسرائیل نے اپنے غصے کا جواز بناتے ہوئے وسیع پیمانے پر بلا امتیاز جنگی کارروائیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں ۲۲ہزار سے زیادہ شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان میں ۸ہزاربچے بھی شامل ہیں۔ ۷؍اکتوبر کے بعد سے اسرائیل غزہ کے تقریباً ۷۰ فی صد گھروں کو مسمار کرچکا ہے۔

اس ضمن میں جو بھی اسرائیلی حکومت کی خونخوار پالیسی کی جانب اشارہ کرتا ہے، اسے ’یہود دشمن‘ قرار دے کر سختی سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ کوئی یونی ورسٹی بھی اس یک طرفہ ظلم سے محفوظ نہیں ہے۔ ہارورڈ جیسی مؤقر یونی ورسٹی کی پہلی سیاہ فام خاتون صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ ڈاکٹر کلاڈین گی پر ان الزامات کے ساتھ حملہ کیا گیا کہ انھوں نے یونی ورسٹی میں ’یہود دشمنی‘ کو جگہ دی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یونی ورسٹی میں پائے جانے والی ’عرب دشمنی‘ کے جذبات یا اسرائیلی مظالم کے حق میںہونے والے مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، پھر ’عرب دشمنی‘ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اس یلغار اور دیگر پروفیسروں، اسرائیل پسند تنظیموں، میڈیااور دائیں بازو کے اراکین کانگریس کی جانب سے یوں ہراساں کیے جانے کے بعد کلاڈین نے مستعفی [۲جنوری ۲۴ء] ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

ڈاکٹر کلاڈین کا جرم کیا تھا؟ دراصل انھوں نے یونی ورسٹی میں ’یہود دشمنی‘ کے الزامات کا ایک متوازن جواب دینے کی کوشش کی اور کہا کہ’ ’یہود دشمنی تشدد پر اُبھارنے والے جذبات کا نام ہے۔ یہ سلامتی کے اصولوں کے خلاف اور ہراسمنٹ سے متعلق ہارورڈ کے قوانین سے متصادم ہے‘‘۔ انھوں نے قبول کیا کہ یونی ورسٹی میں اسرائیل پسند اور فلسطین پسند گروہوں کی جانب سے ’بے جا اور بے سوچا سمجھا بیانیہ‘ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بیانیے میں ہمیں ’عرب دشمنی‘ یا فلسطین مخالف جذبات کا کہیں ذکر نہیں ملتا، جس کی مخصوص سیاسی وجوہ ہیں۔ مزید برآں اس سے عیسائی مذہب رکھنے والے عربوں کے تحفظات کا ازالہ بھی نہیں ہوتا، چنانچہ اصل پالیسی وہی ہونی چاہیے جو ’عرب دشمنی‘ اور ’یہود دشمنی‘ دونوں کا تدارک کر سکے۔

اسرائیلی مظالم کے خاتمے کے لیے اٹھنے والی ہر آواز دبا دی جاتی ہے، جب کہ حماس پر الزامات کی بازگشت امریکا میں ہر سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ اس غیر متوازن صورتِ حال کا باعث یہی ہے کہ ’یہود دشمنی‘ کو ایک ایسا ہتھیار بنا لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسی قدر ہولناک جرائم اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے واقعے سے کہیں زیادہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کی قتل و غارت گری نظر انداز کی جا رہی ہے۔