فرخ سلیم


کیا مسلم لیگ کی لگی بندھی معاشی حکمت عملی ۲۰۲۴ء میں بھی کارگر ہو سکے گی؟ دراصل روایتی طور پر ’ن‘ لیگ کی معاشی منصوبہ بندی کا دارومدار انفراسٹرکچر کی ترقی اورشرح تبادلہ کے کنٹرول پر رہا ہے۔ گذشتہ تین عشروں میں اس پارٹی کی مختلف حکومتوں کے دوران مذکورہ حکمت عملی کے ملتے جلتے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں اس جماعت کی پہلی حکومت اسی حکمت عملی کے ساتھ ۷ء۷فی صد کی حیرت انگیز شرح نمو حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی، جب کہ ۱۹۹۷ء میں یہی شرح نمو گھٹ کر ایک فی صد پر آگئی ہے۔ مسلم لیگ کے آخری دور حکومت (۱۸-۲۰۱۳ء) میں معیشت اوسطاً ۵ فی صد سالانہ کی شرح نمو پر چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ۲۰۲۲ء تا ۲۰۲۳ء کے مختصر دور میں شرح نمو کافی کمی کے بعد ۰ء۲۹ فی صد پر آگئی تھی۔

تاہم، یہ معاشی ماڈل ۲۰۲۴ء میں دو عوامل کے سبب کامیاب نہیں ہو سکتا: اوّل، اس سال بجٹ خسارہ بہت زیادہ یعنی ساڑھے آٹھ کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے،نتیجہ یہ کہ ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کے لیے رقم موجود ہی نہیں ہے۔ دوم، اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرِ مبادلہ کے ذخائر اتنے نہیں ہیں کہ انھیں استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جاسکے۔ ان مشکلات کے سبب اس ماڈل کا کامیاب ہونا خاصا مشکل ہے۔

پاکستان شدید اور گہری معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک طرف ادائیگیوں میں عدم توازن کا بحران درپیش ہے تو دوسری طرف مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور قرض کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ مسائل کے حل کے لیے دو خوبیاں درکار ہیں: ایک، وژن اور دوسرا فیصلہ کن اقدامات کی صلاحیت اور حوصلہ۔

  • ادائیگیوں میں عدم توازن: پاکستان کی تمام معاشی مشکلات ادائیگیوں کے بحران سے جنم لیتی ہیں کیونکہ مستقل زرمبادلہ کی کمی درپیش رہتی ہے۔ گذشتہ آٹھ مہینوں میں مجموعی طور پر تجارتی خسارہ۱۴ء۸۷ ؍بلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس میں پہلے کی نسبت ۳۰ فی صد کمی ہوئی ہے، لیکن بیرونی دنیا میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے نپٹنے کی ان ذخائر میں صلاحیت کم ہے۔ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور مجموعی طور پر معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
  • بڑھتی ہوئی مہنگائی: جنوری میں Sensitive Price Indexکے حوالےسے مہنگائی کی سال بہ سال شرح ۳۶ فی صد تک جا پہنچی ہے۔ گیس کی قیمت میں ۵۲۰ فی صد، بجلی ۷۱ فی صد، ٹماٹر ۱۵۴ فی صد، تازہ سبزیاں ۸۰ فی صد، چینی ۵۵ فی صد اور آٹے کی قیمت میں ۴۱ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ عام شہریوں کی قوتِ خرید میں واضح کمی آئی ہے اور غربت بڑھ گئی ہے۔ اشیائے خوردونوش اور بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کے لیے اخراجات پورے کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

فوری طور پر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقتصادی نظم و ضبط، رسد میں اضافہ، اور معاشرے کے مخصوص طبقوں کے لیے سماجی تحفظ کے اقدامات کرنے ضروری ہیں، تا کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات سے بچایا جا سکے۔

  • شدید معاشی خسارہ: ۸ہزار ۵سو بلین روپے کا شدید معاشی خسارہ بھی ایک بڑا دردسر ثابت ہو گا۔ کئی برسوں سے جاری شاہ خرچیوں اور نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں پر اٹھنے والے بے تحاشا اخراجات نے پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں کر رکھی ہے۔ سرکاری آمدن اور اخراجات کا فرق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اور اس سے حکومت کی اہم ترقیاتی منصوبوں اور سماجی خدمات پر خرچ کرنے کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔ اس عدم توازن سے نکلنے کے لیے ایک نئے وژن کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کئی مشکل فیصلے مثلاً اخراجات میں کمی، بنیادی نوعیت کی اصلاحات اور بڑے پیمانے پر نجکاری کی ضرورت ہے۔
  • قرضوں کا بوجھ :پاکستان کا کل بیرونی و اندرونی قرضہ ۸۰ ٹریلین روپے یعنی ۲۸۵؍بلین ڈالر تک پہنچنے والا ہے۔ قرضے کا یہ ہر دم بڑھتا ہوا حجم ہماری معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اور طویل مدتی استحکام میں رکاوٹ ہے۔ آیندہ ایک سال میں ہمیں کل ملا کر ۲۵ بلین ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی نے پاکستان کو بیرونی سہاروں کا محتاج کر رکھا ہے۔

اس لیے سب سے پہلے قرضوں کے انتظام اور تنظیم نو پر دھیان دینا ہو گا تا کہ ان کا ایک پائیدار بندوبست تلاش کیا جا سکے۔ قرضوں میں چھوٹ اور قرض خواہوں کے ساتھ بہتر شرائط کے حصول کے لیے بات چیت کرنی ہو گی۔انھیں قرض کے بندوبست اور معاشی پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے ایک بالکل نئے زاویۂ نظر کی ضرورت ہو گی۔

نئی حکومت کو کئی خوفناک مسائل کا سامنا ہے۔ ’ن‘لیگ کے روایتی معاشی ماڈل پر کاربند رہتے ہوئے ان مسائل سے نپٹنا ناممکن ہے۔ چنانچہ نئے وزیر خزانہ کو ماضی کے تجربات کے بجائے حقیقی معنوں میں پائیدار اصلاحات کی ضرورت ہو گی اور پاکستان کے معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کئی مشکل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

فرسودہ معاشی نظام اور پرانے تجربات پر گزارا کرنے کے دن جاچکے ہیں، اب ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو ماضی کی زنجیروں سے آزاد ہو۔ پاکستان کو روایتی حربوں سے جان چھڑوانا ہوگی، اور غیر روایتی حل تلاش کرنا ہوں گے۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر بے چون و چرا سر تسلیم خم کرنے کے بجائے پاکستان کی خودمختاری کا احساس کرتے ہوئے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کرنا ضروری ہوگا۔ وژن، تجربے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک نیا وژن ضروری ہے۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پرانے معاشی ماڈلوں کی باقیات سے پیچھا چھڑوانا ہو گا۔ ’ن‘لیگ کی معاشی حکمت عملی متروک ہو چکی ہے اور موجودہ مسائل کا حل اس کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس لیے ماضی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جدت، پائیداری اور نئے تجربات کا رُخ کیا جائے، جن کی ضرورت آج سے پہلے کبھی اتنی نہ تھی۔ عمل کی گھڑی آن پہنچی ہے!