شورش کاشمیری


’تحریک ِ راست اقدام‘ کاعظیم المیہ یہ تھا کہ مولاناابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا کے تحت خودساختہ جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ ۲۷فروری ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل کے مقتدر راہنما کراچی میں گرفتار کیے گئے۔ انھیں سندھ کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ۔ ادھر حکومت نے عوام کے جوشِ ایمان سے بے بس ہوکر لاہور میں ۶مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لا نافذ کردیا۔ اس کے بائیس روز بعد ۲۸مارچ کو حکومت کے لادین عناصر نے پُخت و پز کرکے مولانا مودودی کو فوج کی معرفت مارشل لا کے تحت گرفتار کرلیا اورلاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا۔ وہاں مولانا سے تحریک ِ ختم نبوت کی داستان پوچھی۔مولانا فرماتے ہیں کہ ’’پوچھ گچھ دو روز رہی، مجموعی طور پر تین گھنٹے صرف ہوئے۔ اس کے بعد ۳۵ روز تک قلعہ میں رہا۔ جب ایک مقدمہ تصنیف کرلیا گیا تو مجھے سنٹرل جیل لاہور بھیج دیا‘‘۔

ملک غلام محمد گورنر جنرل پاکستان ۳مئی کو لاہور آئے۔ ان کے ساتھ اسکندر مرزا بھی تھا۔ یہاں انھوں نے اس وقت کے بعض اعلیٰ فوجی افسروں سے بات چیت کی۔ پھر ۵ مئی کو واپس چلے گئے اور ۹مئی کو اس امر کا آرڈی ننس جاری کیا کہ ’’مارشل لا کی عدالتیں، مارشل لا کے نفاذ سے قبل سرزد ہونے والے جرائم کی بھی سماعت کرسکتی ہیں، اور ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ملک کی کسی عدالت میں کوئی اپیل نہیں ہوسکتی‘‘۔ مولاناکا مقدمہ چار پانچ دن ہی میں ۹مئی کو ختم ہوگیا اور ۱۱مئی کی رات کو اندھے ضابطے کے تحت انھیں سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس فیصلے سے تمام دُنیا میں رنج و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان میں ہرچہرہ مغموم ہوگیا۔ اُدھر حکومت کو دو تین دن ہی میں پتہ چل گیا کہ اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ اور موت ان اربابِ حکومت کے لیے بھی ہے، جن کی ذہنی عیاری اس سزا کا باعث ہوئی ہے۔چنانچہ ۱۴مئی کو موت کی سزاعمرقید میں بدل دی گئی۔

سزا، جس کے لیے کوئی بنیاد نہ تھی

مولانا مودودی کے خلاف مارشل لاکے ضابطہ نمبر۸ اور تعزیرات کی دفعہ ۱۵۳ الف کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ جرم یہ تھا کہ انھوں نے قادیانی مسئلہ نامی پمفلٹ لکھا، جو مارشل لا سے ایک دو روز پہلے چھپ چکا تھا اور مارشل لا کے پورے زمانے میں شائع ہوتا رہا اور کبھی ایک دن کے لیے بھی اس پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی۔اس پمفلٹ کا مضمون یہ تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس بارے میں کوئی سی غلط فہمی نہ رہے اور لوگ کسی طرز کے مصنوعی پراپیگنڈے کاشکار نہ ہوں۔

اس پمفلٹ میں ایسی کوئی بات نہ تھی، جو حکومت کی پیشانی کے لیے کسی شکن کا باعث ہوتی، لیکن حکومت ایک ارادہ کرچکی تھی۔ اس کی تکمیل کے لیے اس نے پمفلٹ کی آڑ لی اور مولانا کو سزائے موت سنادی۔ اس کےعلاوہ جماعت اسلامی کے روزنامہ تسنیم  کو ماخوذ کیا اور اس کے ایڈیٹر کواس جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزادی۔ تماشا یہ تھا کہ مولانا مودودی کے جن دوبیانوں کو حکومت نے ’’بغاوت پھیلانے کے مترادف‘‘ قرار دیا،وہ تسنیم  کے علاوہ لاہور وکراچی کے دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوئے تھے۔ پھر جس پمفلٹ کی اشاعت پر مولانا مودودی کو سزائے موت کا مستوجب گردانا گیا، اس کے خلاف نہ مارشل لا کی پوری مدت میں فوجی حکام نے کوئی پابندی لگائی اور نہ مرکزی یا کسی صوبائی حکومت نے قابلِ قدغن سمجھا۔ آج تک وہ پمفلٹ مسلسل فروخت ہورہا ہے اور مئی ۱۹۵۳ءتک اُردو، انگریزی، سندھی، گجراتی اور بنگلہ میں۹۰ہزار سے زائد شائع ہوکر لاکھوں افراد کی نظر سے گزرچکا تھا۔

اصل جرم کچھ اور تھا

مولانا کا ’جرم‘ دراصل یہ تھا کہ ۱۹۵۳ء تک وہ اسلامی دستور کی تحریک کو عامۃ المسلمین کے رگ و ریشے میں اُتارچکے تھے اور یہ لادین مقتدرین کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ انھوں نے قادیانی مسئلہ کے جرم میں مولانا کو سزائے موت سنا کر اس خطرے کا تدارک کرنا چاہا، لیکن سزائے موت دینے کا حوصلہ نہ کرسکے کہ انھیں اپنی موت بھی نظر آرہی تھی، البتہ اس مارشل لا کے بعد ملک سے جمہوری روح ختم ہوگئی۔ مارشل لا نے اس طرح بال و پَر پیدا کیے کہ ملک کا مقدر ہی مارشل لا ہوگیا۔ اگر اس وقت کے سیاسی حکمران مارشل لا کی مشق نہ کرتے تو ملک اس حال کو نہ پہنچتا اور نہ جمہوری سیاست ہی اس طرح پامال ہوتی۔

اس مارشل لا نے دو بڑی خرابیاں پیدا کیں۔ ایک خرابی یہ کہ فوج کے جرنیلوں کو حصولِ اقتدار کا چسکا لگادیا۔ دوسری خرابی یہ کہ سیاست دان پِٹ گئے۔ ملک غلام محمد اور اسکندرمرزا تو جلد ہی انٹاغفیل ہوگئے لیکن جنرل ایوب خاں اور جنرل یحییٰ خاں نے ملک کو جو تحفے دیئے وہ اس کے جمہوری وجود اور قومی سالمیت کے لیے سرطان ہوگئے، ملک دو لخت ہوگیا، جمہوریت میں دم ہی نہ رہا۔ مولانا مودودی ملک میں اسلامی دستور کی تحریک کے بانی تھے اور اس سلسلے میں خان لیاقت علی خاں کے زمانے ہی میں ایک ذہنی فضا پیدا کرچکے تھے۔ اس فضا ہی کا نتیجہ آئین کے سرِآغاز میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا چہرہ نما تھا۔ ان کی مساعی مشکور کی بدولت ۱۹جنوری ۱۹۵۳ء تک یعنی راست اقدام کی تحریک سے ڈیڑھ ماہ پہلے ملک کے ۳۳ سربرآوردہ علما نے کراچی میں جمع ہوکر دستوری سفارشات میں کئی ایک ترامیم منظور کرائی تھیں، انھی میں ایک ترمیم یہ تھی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا جائے۔

مولانا مودودی کا خیال تھا کہ ’’آئین کی بنیادیں طے ہوجائیں تو آئینی سفارشات کی روشنی میں یہ مسئلہ خودبخود طے ہوجائے گا اور اگر اس سلسلے سے راست اقدام کی تحریک چھڑگئی تو نہ صرف صورتِ حال ہی مختلف ہوجائے گی بلکہ ان سفارشات کے تمام و کمال تاراج ہونے کا احتمال ہے۔ اس صورت میں حکومت مسئلہ بھی حل نہ کرے گی بلکہ آئین کو اسلامی بنانے کی تحریک ہی سے فرار کرجائے گی، جو اس وقت تمام حلقہ ہائے خیال کے برگزیدہ علما کی متحدہ کوششوں سے اٹل ہوچکی ہے‘‘۔ لیکن مجلس عمل کے دوسرے زعماء فوری طور پر راست اقدام کے حق میں تھے۔

 حکومت کے مرکزی بزرجمہروں نے ۲۷فروری کی شب کو انھیں پکڑ لیا۔ ان کی گرفتاری سے مسلمانوں میں احتجاج کا ایک طوفان اُٹھا۔ اس کے بعد لادین مقتدرین نے جس جس انداز میں گُل کھلائے وہ ڈھکے چھپے نہ رہے۔ پنجاب کو خون میں نہلایا گیا اور ان تمام فدایانِ رسالتؐ کی ذہنی یا جسمانی اہانت، بے دین وزرا و حکام کا لازمہ بن گئی، جو ختم نبوتؐ کے مسئلے میں متفقہ آواز رکھتے تھے۔ مولانا مودودی کا تنہا قصور یہ تھا کہ وہ اس مسئلے میں اپنے قلم سے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی رہنمائی کر رہے تھے اور قادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھ کر انھوں نے مسئلہ کی حقیقی روح کو پیش کیا تھا۔ ان کا اصل جرم، دستور کو اسلامی بنانے کی تحریک کا نشوواستحکام تھا۔

استقامت کی بہترین مثال

 مولانا مودودی ۲۸مارچ کی شب کو گرفتار کیے گئے جس کی جزوی رُوداد اُوپر آچکی ہے۔مولانا نے موت کی سزا سن کر جو بے نظیر استقامت دکھائی، حکومت اس سے لرز گئی۔ آپ نے پہلے ہی دن پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنے لواحقین سے کہا کہ ’’میرے لیے کسی عنوان سے کوئی اپیل نہ کرنا اور نہ حکومت سے کوئی استدعا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب مجھے پھانسی دے دی جائے تو مجھے انھی کپڑوں میں دفنا دینا اور اپنی زندگی اسی مقصود کے تحت بسر کرنا جس کے لیے ہم سب کوشاں ہیں اور جو اسلام کواقتدار میں لانے کا قرآنی نصب العین ہے‘‘۔ بزدلانِ حکومت کو اندازہ ہی نہ تھا کہ جو لوگ اسلام کے لیے جیتے اور اسلام کے لیے مرتے ہیں، ان کی سیرت اس طرز کے سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے اور انھیں کوئی سی دُنیاوی آلائش یا ابتلا زیر نہیں کرسکتے۔

یہ ذکر آچکا ہے کہ حکومت نے تین چار روز ہی میں موت کی سزا منسوخ کردی۔ پھر اس کے بعد پنجاب ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی بناپر مولانا ۱۹۵۵ء میں رہا ہوگئے۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ جسٹس محمد منیر نے مولوی تمیزالدین خاں کے مقدمے میں گورنر جنرل کو شاہی اختیارات کا حامل قرار دے کر فیصلہ کیا کہ ’’مرکزی اسمبلی کے پاس کیے ہوئے وہ تمام قوانین غیرآئینی ہیں جو اس نے دستورساز مجلس کی حیثیت سے وضع کیے اور جن پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں ہوئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ بہت سے قوانین کے ساتھ وہ ’اینڈمنٹی ایکٹ‘ بھی غیرآئینی قرار دیا گیا جس کے تحت مارشل لا کی سزائیں بحال رکھی گئی تھیں۔ اس بناپر پنجاب ہائی کورٹ نے مولانا کی سزا ختم کردی۔

سزائے موت کا اعلان قادیانی مسئلے کو سب کے سامنے لے آیا

ادھر مولانا مودودی صاحب کی سزا کے اعلان سے ختم نبوتؐ کا مسئلہ نہ صرف عرب ریاستوں میں ایک عالم گیر اسلامی ذہن کی شکل اختیار کرگیا بلکہ یورپ کے کئی ایک ملکوں کی علمی اور سیاسی فضا تک پہنچ گیا۔ یعنی ان ملکوں میں مستشرقین کی حد تک یہ بات نمایاں ہوگئی کہ پاکستان میں قادیانی مسئلہ کیا اہمیت رکھتا ہے، اور مسلمان اس جماعت کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا چاہتے ہیں؟

اگرچہ ’منیر انکوائری کمیشن‘ اپنی طبعی افتاد کے باعث ایک غلط نہاد کھڑاگ تھا، جماعت اسلامی نے اپنے اندازِ فکر کے مطابق جسٹس منیر کی اُڑان گھائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر جب منیر رپورٹ چھپ کر سامنے آئی تو اس کا اس طرح پوسٹ مارٹم کیا کہ وہ رپورٹ دینی اور علمی حلقوں میں ایک فحش کتاب ہوکر رہ گئی۔ اس کتاب کا بنیادی نقص یہ تھا کہ جسٹس منیر نے اپنے قلم کے اللّے تللوں سے ایک ایسی داستان مرتب کردی تھی، جس کو خلافِ اسلام طاقتوں ، مثلاً امریکا و یورپ کے عیسائیوں اور یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے دانش وروں اور حاکموں اورہندستان کے سنگھٹیوں اور مہاسبھائیوں نے خوب خوب استعمال کیا۔ قادیانی، مغربی ممالک کے علاوہ افریقی ریاستوں میں اس کا چرچا کرتے رہے۔ اس رپورٹ میں مسلمان کی تعریف کے تحت اسلام کا مذاق اُڑایا گیا اور علما کے استخفاف کی آڑ میں قادیانیت کا جواز قائم کیا گیا۔تاہم، مولانا مودودی نے تبصرے کے زیرعنوان رپورٹ کا تجزیہ کرکے اس کے مندرجات کا رَد کیا اور بیرونی ممالک کے جن حلقوں میں اس کی مضرتیں پھیل گئی تھیں، وہاں ان مضرتوں کو ہمیشہ کے لیے زائل کردیا۔

منیر رپورٹ کا رَد

پہلے سال یہ تبصرہ اُردو میں نکلا، پھر چند ماہ کے وقفے سے عربی میں ضروری تلخیصات مرتب کی گئیں اور اس طرح ایک کتابچہ مدوّن ہوگیا۔ اگلے سال تبصرے کا انگریزی ترجمہ [از:پروفیسرخورشیداحمد] ہوکر امریکا، افریقہ اور یورپ کے ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔ تمام نامور مستشرقین اور خاص خاص اساتذہ کے علاوہ انگریزی ترجمے کی بے شمار کاپیاں یورپی و امریکی جرائد و صحائف کو پہنچائی گئیں ۔ اس کے علاوہ مغربی ملکوں کی تمام یونی ورسٹیوں اور لائبریریوں میں اس کے نسخے ارسال کیے گئے۔ اس کا بنیادی فائدہ یہ ہوا کہ امریکا،یورپ اور افریقہ میں کسی غیرمسلم مصنف و مقرر نے پھر کبھی ’منیر رپورٹ‘ کا حوالہ نہ دیا۔ گویا اس اعتبار سے رپورٹ ساقط الاعتبار ہوگئی۔

قادیانیت کی اصل تکنیک کیا تھی؟

پاکستان میں اس انداز کے سیاسی حالات تھے کہ پرانی نسلوں کے تعلیم یافتہ بہ وجوہ اس مسئلے ہی سے ناواقف تھے، یا واقف نہیں ہونا چاہتے تھے، یا پھر دین کے مقتضیات کو سیاست کی ضروریات کے تحت دیکھتے اور جو نسلیں تحریک ِ پاکستان میں جوان ہوئی تھیں، یعنی جن کی آنکھیں قومی سیاست کے ہنگاموں میں کھلی تھیں، ان کے ذہنوں میں یہ مسئلہ اُتر نہیں رہا تھا۔ مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ  میں تعلیم یافتہ طبقات کو اس سے آگاہ کیا تو خانہ نشین قسم کے عبقری و نابغہ بھی مسئلے کے اور چھور سے واقف ہوگئے۔ اس کتابچے کا بنگلہ اور انگریزی میں فی الفور ترجمہ کیا گیا، جس سے پورے ملک کو مسئلے کے تمام پہلو معلوم ہوگئے اور حکومت کا پہلودار پراپیگنڈا باطل ہوکر رہ گیا، حتیٰ کہ منیر انکوائری رپورٹ   بالاخانہ کے قہقہوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکی۔

مولانا نے اس مسئلے کو علما کی طرح محض مذہبی حیثیت ہی سے پیش نہ کیا بلکہ قادیانیت کے عمرانی، سیاسی اور معاشی پہلو بیان کیے، جس سے دینی اور سیاسی دوائر کا ہرگوشہ چوکنا ہوگیا۔ جو لوگ اب تک مسئلہ کو مُلائیت کی شعبدہ بازی گردانتے تھے، ان کی اکثریت چند بیمار ذہنوں کے سوا، اس حقیقت سے آگاہ ہوگئی کہ قادیانی پاکستان کے لیے ایک مہیب مسئلہ ہیں اور اُن سے ملت اسلامیہ کی وحدت مجروح و مسلوب ہوتی ہے۔ اب تک علما قادیانیت کے جواب میں مذہبی نوعیت کے مباحث اُٹھاتے تھے، اور ان کا تمام تر لٹریچر اس طرز پر تھا کہ خاتم کے کیا معنی ہیں؟ حیات و ممات مسیح کا مبحث کیا ہے؟ وغیرہ۔ خود قادیانی، علما کو حیات و ممات مسیح میں اُلجھاتے رہے کہ وہ اصل مسئلہ کی طرف نہ آسکیں،یا پھر خاتم النبیینؐ کے معانی میں لسانی اشقلے چھوڑتے رہے۔ اس میں قادیانی اُمت کا یہ فائدہ تھا کہ وہ مغربی تعلیم کی پیداوار نسلوں اور ملک کے سیاسی فرزندوں کو مغالطہ دے سکتے تھے۔

انگریزوں نے ہندستان میں مذہب کے خلاف مذہب کی معرفت کچھ اس قسم کے شوشے چھوڑے یا قلم لگائے تھے کہ تکفیر کا مسئلہ مخصوص دینی فضا سے باہر خواص میں بالخصوص اور عوام میں بالعموم کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا۔ غرض مذہبی فضا کے اس انتشار سے قادیانی اپنےتئیں مسلمانوں میں عمرانی طور پر ملّت کا جزو بن کر رہ رہے تھے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے اس کتابچے نے مرزائیت کی ان بنیادوں کو ہلا ڈالا اور جو لوگ لادینی فضا میں زندگی بسر کر رہے تھے ، انھوں نے محسوس کیا بلکہ انھیں یقین ہوگیا کہ مرزائیت نظرانداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس زمانے میں مولانا مودودی کا متذکرہ پمفلٹ تقریباً ہرفوجی افسر نے مطالعہ کیا کیونکہ حکومت نے مولانا کو سزا دے کر اس خواہش کو پیدا کردیا تھا کہ آخر یہ مسئلہ کیا ہے؟

علّامہ محمد اقبالؒ نے اس مسئلے پر ایک مفکر کی حیثیت سے قلم اُٹھایا اور عالمانہ سطح سے فلسفہ کی زبان میں گفتگو کی تھی۔ علّامہ کی موت کے بعد ان کے سجادہ نشینوں اور ان کی تعلیمات پر قلم اُٹھانے والوں نے علّامہ کی ان تحریروں سے اعتنا ہی نہ کیا بلکہ خلیفہ عبدالحکیم جیسے بزرگوں نے حکومت کی منشا کے مطابق اقبال اور مُلّا  لکھ کر ہرزہ سرائی کی۔ جو لوگ ان تحریروں کی اشاعت کے وقت عالم طفلی میں تھے اور نہ اس مسئلہ کا شعور رکھتے تھے، ان کے لیے علّامہ اقبالؒ کی محولہ تحریریں بے وجود تھیں، اور وہ نہیں جانتے تھے کہ مصورِ پاکستان نے قادیانیت کے بارے میں کیا کہا ہے اور اس سلسلہ میں علّامہ کیا چاہتے تھے؟ ادھر علمائے کرام قادیانیت کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے تھے، وہ عوام کی زبان نہ تھی، ان کی تلمیحات و اصلاحات عوام کے دماغ سے کہیں زیادہ بلند تھیں۔

مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ  میں سلیس و شگفتہ اور سہل و شُستہ زبان استعمال کرکے نہ صرف وقت کی اہم ضرورت کو پورا کیا بلکہ ان دماغوں میں یہ مسئلہ اُتار دیا، جن دماغوں کے دروازے اس مسئلے کی طرف سے بند تھے۔ بلاشبہہ علما نے اس سلسلے میں حیرت انگیز کام کیا اور منبرومحراب نے مرزائیت کو عوام کے اذہان میں ثمرآور نہ ہونے دیا، لیکن پاکستان میں اس مسئلے کی پہچان کے لیے مولانا مودودی کے قلم نے ایک ایسی خدمت انجام دی کہ قادیانیت کی حیثیت محلاتی سازشوں کے استعماری گماشتے کی رہ گئی۔ وہ ملک کی سیاسی و عمرانی فضا میں کجلا گئی۔

حکومت کے جبر و تشدد سے ’تحریک راست اقدام‘ کا احتجاج ضرور ختم ہوگیا۔ اُدھر بعض افراد کی کمزوریوں اور کئی علما کی غداریوں سے اس کا زور بھی ٹوٹ گیا، اور من حیث الجماعت وہی آثار پیدا ہوگئے جو حکومت سے ٹکرائو میں عوامی تحریک کے ضُعف و اختلال کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن ایک چیز بہرحال قائم رہی کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاشرے میں مرزائیت کے لیے کسی موڑ یا مرحلے میں کوئی سی جگہ پیدا نہ ہوسکی۔ ایک طرف مجلس احرار کے راہنمائوں نے ’مجلس تحفظ ختم نبوت‘ قائم کرکے اپنے محاذ کو سرد نہ ہونے دیا، دوسری طرف مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے عالمِ اسلام میں مرزائیت کے اعمال و افکار پر نگاہ رکھی۔ اُدھر پاکستان میں جمہوریت کی ویرانی کا آغاز ہوچکا تھا۔ ملک غلام محمد نے آئینی روایات کو ذبح کردیا تھا۔اِدھر حکومت بیوروکریسی کی معرفت استعماری طاقتوں کی دست پناہ ہورہی تھی اور ان طاقتوں کی پاکستان میں آلۂ کار جماعت کا نام قادیانی اُمت تھا۔

ایک بھیانک سازش کس طرح بے نقاب ہوئی؟

قادیانی اُمت نے ملک غلام محمد کے زمانے ہی سے فوج میں اپنی طاقت پیدا کرنے کا ارادہ کیا۔ اسکندر مرزا کے عہد میں اس ارادے کو بال و پَر لگے۔ جنرل ایوب خاں کے زمانے میں قادیانیت نے عسکری طاقت کے علاوہ سیاسی رسوخ پیدا کیا۔ مرزا غلام احمد کے پوتے اور بشیرالدین محمود کے چچیرے مسٹر ایم ایم احمد نے اوّلاً سیکرٹری مالیات کا عہدہ سنبھال کر، ثانیاً اقتصادی منصوبہ بندی کا مختار ہوکر مرزائیت کے لیے معاشی استحکام کی راہیں پیدا کیں۔ ایوب خان کے دور میں خلافت ربوہ نے ملک کی فوجی اور اقتصادی زندگی پر اس طریق سے قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ بالواسطہ سیاسی زندگی اسی کی زندگی میں ہو۔

اس سے پہلے جب ۱۹۵۶ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور مصر نے ہزیمت اُٹھائی تو اس سے عرب ریاستوں کے عسکری وقار کو سخت صدمہ پہنچا۔ ان کی پسپائی کو تمام دُنیائے اسلام میں ایک جاںگداز المیہ کی طرح محسوس کیا گیا۔اس جنگ کے فوراً بعد ۱۹۵۷ء اور ۱۹۵۸ء میں عرب ریاستوں نے پاکستان سے فنی ماہرین طلب کیے۔ پاکستان سے ایک زبردست کھیپ مختلف شعبوں کے بڑے بڑے عہدوں پر روانہ کی گئی۔ اس کھیپ میں زیادہ تر فوجی ماہرین تھے، لیکن جو لوگ یہاں سے گئے، ان میں زیادہ تر قادیانی اُمت کے افراد تھے۔ انھوں نے سعودی عرب کو ترجیح دی اور وہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوگئے۔ سب سے خطرناک پہلو یہ تھاکہ سعودی عرب میں قادیانی العقیدہ فوجی افسروں نے اہم جگہیں حاصل کیں۔اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں میں مدینہ منورہ کو فتح کرنے کا پلان بھی تھا اور ہے۔ اس پلان کو پروان چڑھانے کے لیے قادیانی افسر آلۂ کار ہوسکتے تھے۔ سعودی عرب کے حکمران انتہائی پریشان تھے کہ ان کی فوجی خبریں اسرائیل کے ہاتھ کیونکر لگتی ہیں۔ معاملہ بالکل واضح تھا، لیکن سعودی حکومت کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہورہا تھا۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے سعودی حکومت کو اس طرف توجہ دلائی تو ان پر راز کھلااور حجازو نجد سے قادیانی اُمت کا اخراج شروع ہوگیا۔ جن حکومتی شعبوں میں قادیانی گھس آئے تھے، انھیں وہاں سے نکال کر پاکستان رخصت کردیا گیا۔بعض اہم محکموں میں قادیانی چھپ چھپا کر رہنا چاہتے تھے، لیکن مولانا مودودی کی حسب ِ ہدایت واقفانِ حال نے ان سب کے حدود اربعہ کا پتا لگاکر سعودی حکومت کو مطلع کیا، تو انھیں سبکدوش کرکے پاکستان لوٹا دیا گیا اور اس طرح حرمین شریفین قادیانیوں کے اسرائیلی منصوبے سے محفوظ ہوگئے۔

سامراجی ایجنٹ بـے نقاب ہونـے کے بعد

انھی دنوں سعودی عرب حکومت نےمولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی سے درخواست کی کہ وہ قادیانیت پر ایک کتاب لکھیں، جس سے عرب دُنیا کو معلوم ہو کہ قادیانیت کیا ہے اور اس کا وجود کن عناصر کا مرکب ہے؟ مولانا نے ما ھتی قادیانیۃ  لکھی، جو کویت میں چھپی اور تمام عرب ریاستوں میں بڑے پیمانے پر پھیلا دی گئی۔ مولانا نے فروری ۱۹۶۲ءمیں ختم نبوت کے نام سے مسئلے کی دینی بنیادوں پر قلم اُٹھایا اور ایک رسالہ لکھا جو عربی میں ترجمہ ہوکر تمام عرب دُنیا میں پھیلا دیا گیا۔ ان دونوں رسالوں کا بنیادی فائدہ یہ ہوا کہ عرب ریاستوں میں یہ تصورختم ہوگیا کہ قادیانی پاکستان کی ملّت اسلامیہ کا فرقہ یا گروہ ہیں۔

جب قادیانی فتنہ واضح و آشکار ہوگیا تو سعودی عرب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کی تحریک پر اپنی مملکت میں قادیانیوں کا داخلہ بند کردیا۔ ان کی آمدورفت پر پابندی لگادی اور جس کے متعلق یہ شبہہ ہوا کہ وہ قادیانی ہے، اس کے بارے میں مقامی شہادت فراہم نہ ہونے کی صورت میں مولانا کے نائبین سے استفسار کیا جاتا رہا کہ وہ اس کے بارے میں حقیقت ِ حال سے مطلع کریں۔ اس صورتِ حال سے تل ابیب اور ربوہ دونوں پریشان ہوگئے کیونکہ عرب ریاستوں کی اطلاعات حاصل کرنے کے لیے ’عجمی اسرائیل‘کے جن باشندوں سے کام لیا جارہا تھا، وہ عرب ریاستوں سے نکالے جارہے تھے۔ مولانا کے متذکرہ بالا ہر دو کتابچوں کا عربی کے علاوہ کئی ایک افریقی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس طرح قادیانی اُمت کی حقیقت مختلف افریقی ریاستوں پر آشکار ہوگئی، اور اس کا پیدا کردہ طلسم ٹوٹ گیا کہ وہ پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی مملکت کے حکمرانوں میں سرخیل ہے اوراس کا مذہب پاکستان کی سب سے بڑی دینی طاقت ہے۔

اس کے بعد مئی ۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی نے قادیانی مسئلہ کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلو کے نام سے ۴۲۵صفحات کی ایک کتاب شائع کی، جس میں اس مسئلے کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس کتاب کے پانچ باب ہیں اور آخر میں کئی ایک ضمیمے ہیں۔ پہلا باب قادیانی مسئلہ ہے۔ دوسرے باب میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے مقدمے کی رُوداد ہے۔ تیسرے باب میں مولانا کے اس بیان کی نقل ہے، جو آپ نے جسٹس منیر کی عدالت میں تحریراً پیش کیا۔چوتھے باب میں تحقیقاتی عدالت میں داخل شدہ دوسرے بیان کا متن ہے۔ پانچواں باب عدالت میں پیش کردہ تیسرا بیان ہے۔ ان تین بیانوں کے بعد ضمیمہ ایک میں عیسیٰؑ ابن مریم ؑ کے نزول کی احادیث کا بیان ہے۔ ضمیمہ۲ میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق احادیث ہیں۔ ضمیمہ ۳ میں فقہا، محدثین اور مفسرین کی نزولِ عیسٰیؑ سے متعلق ان تصریحات کا ذکر ہے جو ان کے قلم سے مختلف کتابوں میں نکل ہوچکی ہیں۔ ضمیمہ ۴ ختم نبوت سے متعلق احادیث کا مجموعہ ہے۔ ضمیمہ ۵ میں تیسری صدی ہجری سے تیرھویں صدی ہجری تک کے اکابر مفسرین کے خاتم النبیینؐ سے متعلق اقوال ہیں۔ ضمیمہ ۶ میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور حضورؐ کے بعد دعویدارانِ نبوت کی تکفیر پر علمائے اُمت کے اقوال ہیں۔ ضمیمہ ۷ میں مرزا غلام احمد کی تحریک کے مختلف مراحل اور مختلف دعاویٰ کا تذکرہ ہے۔ اس ضمیمہ کے الف میں بنیادی اصولوں سے متعلق علما کی پیش کردہ ترامیم کا خاکہ ہے۔ ضمیمہ ۹ میں قادیانیت سے متعلق علّامہ اقبال کی تحریر کے اقتباس ہیں۔ روزنامہ اسٹیٹس مین کے نام اسی مسئلے سے متعلق علّامہ کا خط نقل کیا گیا ہے، نیز پنڈت نہرو کے سوالات کا جواب ہے۔ ضمیمہ۱۰ میں ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر اور ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی کے دو فیصلوں کی تلخیصات ہیں، جن میں قادیانی اُمت کو دائرۂ اسلام سے خارج کیا گیا ہے۔

مختصر یہ کہ مولانا مودودی نے قادیانیت اُمت کے متعلق اس حقیقت کو تمام دُنیائے اسلام کے ذہنوں میں راسخ کردیا کہ مرزا غلام احمد کی استعماری نبوت کے پیروکار مسلمانوں سے الگ ایک دوسری اُمت ہیں اور ان کا وجود پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام دُنیائے اسلام کے لیے موجبِ خسران ہے۔