عبد الرزاق مقری


سینی گال مغربی افریقہ کا مسلم ملک ہے۔ اس کے مشرق میں مالی، شمال میں موریطانیہ، جنوب میں گنی بسائو ہے۔ اس کے دارالحکومت کا نام ڈاکار ہے۔ سینی گال میں جمہوریت بہت سے  افریقی اور تقریباً سبھی عرب ممالک کی بہ نسبت کافی ترقی یافتہ ہے۔ یہاں کثیرجماعتی نظام پرانا ہے اور سول سوسائٹی آزاد بھی ہے اور فعال بھی۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان پُرامن انتقالِ اقتدار عملاً کئی مرتبہ ہو چکا ہے ۔ البتہ ۲۴ مارچ ۲۰۲۴ء کو ہونے والے آخری صدارتی انتخابات میں جو تبدیلی سامنے آئی ہے، وہ سابقہ تمام ادوار سے مختلف ہے۔انتخابات کے بعد دارالحکومت ڈاکار کے سفر میں میری کوشش تھی کہ عربی بولنے والے سرگرم سیاسی کارکنان سے بھی اور فرانسیسی زبان بولنے والے سرگرم سیاسی لوگوں سے براہِ راست گفتگو اور تبادلۂ خیال کرکے اپنے ہاں، یعنی الجزائر کے جمہوری ماڈل کے لیے اب تک حل نہ ہوسکنے والے سیاسی و سماجی مسائل میں، سینی گال کے موجودہ سیاسی تجربے سے اسباق اخذ کر سکوں ۔  

نوجوانوں کی طوفانی لہر 

سابقہ ادوار میں سینی گال کی سیاست ایک ہی سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی محور کے گرد گھومتی رہی ہے اور وہ تھا فرانسیسی بالادستی کا مغرب نواز محور۔ البتہ آخری صدارتی انتخاب میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے، اسے افریقہ کی اُس عام بیداری سے منسوب کرسکتے ہیں، جو اس بر اعظم نے بحیثیت مجموعی یورپی استعماری طاقتوں کی اندھی تابعداری کے خلاف دکھائی ہے ۔تاہم، اس مقصد کے لیے سینی گال نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ اپنی جمہوری روایت پر اعتماد تھا نہ کہ مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فوجی انقلاب کا راستہ۔

سینی گال میں حالیہ تبدیلی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہ نوجوانوں کے اندر پیدا ہونے والی ایک ایسی لہر کے زور پر آئی ہے، جس نے ملکی سیاست میں پہلے سے قائم ہر توازن کو بالکل اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے اپنے سادہ عوامی انقلابی بیانیے کے ذریعے ،کرپشن کی اُس صورتِ حال کو جو سینی گال کے معاشرے کی نس نس میں سرائیت کیے ہوئے تھی، موضوعِ بحث بنایا۔ ترقی کے سفر کی مسلسل ناکامی اور بیرونی قوتوں کی مسلسل تابعداری کے خلاف محاذ کھڑا کیا۔ سینی گال کی اسلامی شناخت جوملک میں غالب مغربی سیکولر نظام کی وجہ سے مسلسل دبائی جارہی تھی ، کی بحالی کے ضامن اور متبادل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا۔

انتخابات میں کامیاب ہونے والی تبدیلی کی لہر کے قائدین اگرچہ مروجہ معنوں میں دینی جماعتوں اور تحریکوں سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم ان میں سے بہت سے رہنمائوں کی نشوونمااسی عام اسلامی فضا میں ہوئی ہے، جو سینی گال میں روز افزوں ہے۔ یہ قائدین اسی فضا اور ماحول کا ثمرہ شمار ہوتے ہیں۔ان رہنمائوں میں حزبِ اختلاف کے لیڈر عثمان سونکو بھی شامل ہیں، جو طالب علمی کے زمانے میں جمعیت طلبۃ و تلامذۃ المسلمین (مسلمان طالب علموں کی جمعیت) کے سرگرم رکن تھے۔ وہ ہمیشہ مختلف اسلامی جمعیتوں اوراسلامی تنظیموں کے قریب رہے۔

وہ صوفیا کے مریدی طریقے، جماعت عباد الرحمٰن اور اتحاد العلماء والدعا ۃ کے بھی قریب رہے۔ مساجد میں قائم مختلف حلقہ ہائے دروس قرآن، دروس حدیث ، دروس فقہ و ادب میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ بعد ازآں وہ ٹریڈ یونین اور پھر سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں داخل ہوئے۔ اس طرح انھوں نے روایتی اسلامی (دعوتی و تنظیمی اور تحریکی) رستے سے ہٹ کر ایک نیا راستہ اور طریقہ اختیار کیا۔

انھوں نے تنظیم سازی کے بجائے فکری لہر اٹھانےپر توجہ مرکوز رکھی ،براہ راست عوام کے ساتھ رابطہ بنائے رکھا اور جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چھائے رہے ۔ انھوں نے کالموں، مضامین، مقالوں اور بروقت مختلف عملی اقدامات کے ذریعے متبادل حل تجویز اور پیش کیے۔ تعلقات بناکر اور نئے اتحاد قائم کرکے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دی۔ پھر جب انھوں نے اپنی پارٹی Patriots for Action  Ethics and Brotherhood - Bastiste (محب وطن لوگ برائے عمل اخلاق اخوت- باستیف) کی ۲۰۱۴ء میں بنیاد رکھی، تو اسے بھی انھوں نے پارٹی کے بجائے ایک نیٹ ورک کی صورت ہی دی ۔ ہر وہ فرد اس میں حصہ لے سکتا تھا، جو تبدیلی کے ان کے وژن اور اہداف سے اتفاق کرتا تھا۔ انھوں نے ہر سطح کے مقتدر قائدین کے افکار کو منضبط کیا اور انھیں تنظیم میں پرویا اور مقام و عہدہ دیا ۔  

مثبت کردار

تبدیلی کی اس لہر کی قیادت ۵۰سالہ عثمان سونکو نے کی، جو قربانی پیش کیے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر کئی جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں قید رکھا گیا۔ مسلسل یہ ڈراوا دیا جاتا رہا کہ انھیں صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں بننے دیا جائے گا۔ اسی خطرے سے نبٹنے کے لیے انھوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست اور اپنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور معتمد خاص ۴۴ سالہ باسیرو دیومائی فائی کے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا دیئے۔ آخرکار باسیرو دیومائی فائی تبدیلی کی اس لہر کی نمائندگی کرتے ہوئے سینی گال کے حالیہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوگئے۔

باسیر و بھی ذہانت اور شجاعت میں سونکو سے کچھ کم نہیں ہیں۔ برسرِ اقتدار سسٹم پر تنقید کرنے اور متبادل حل پیش کرنے کے حوالے سے ان میں کسی صلاحیت کی کمی نہیں ہے، بلکہ پارٹی سیکرٹری جنرل ہونے کے ناتے انھیں پارٹی امور چلانے کا اضافی اور قابل قدر تجربہ بھی حاصل ہے۔ اسی طرح تبدیلی کا واضح بیانیہ دینے میں بھی ان میں کمال درجے کی صلاحیت موجود ہے ۔ سونکو کی طرح ان کا پس منظر بھی مالی ، اقتصادی اور قانونی ہے۔ ان دونوں کا باہم تعارف بھی محکمہ ٹیکسیشن اینڈ ایکسائز اور ٹیکس لائرز یونین کے اُس پلیٹ فارم پر ہی ہوا تھا، جسے سونکو نے ۲۰۰۵ء میں قائم کیا تھا۔ ٹیکسیشن کے اس پس منظر نے انھیں کرپشن کوہدفِ تنقید بنانے اور کرپٹ لوگوں کو بے نقاب کرنے میں بہت فائدہ دیا۔

دونوں جیل گئے، دونوں نے جیل ہی سے کاغذات نامزدگی داخل کیے، اور جب ان کی پارٹی (باستیف) تحلیل کی گئی تو بطور آزاد امیدوار انھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اورآج باسیرو سینی گال کے منتخب صدر ہیں اور انھوں نے اپنے ساتھی اور اپنے محسن سونکو کو حکومت کا وزیراعظم مقرر کیا ہے، تاکہ دونوں ایک ساتھ نظریے اور افکار کی دنیا سے نکل کر ریاستی اور عملی عہدوں پر متمکن ہوں اوراپنی قوم کی خدمت کے چیلنج سے ایک ساتھ عہدہ برآ ہوسکیں ۔

سابق صدر ’ماکی سال‘ اور سونکو اور باسیرو کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان تعلقات کو معمول پر رکھنے اور بگاڑ سے بچانے میں دینی حلقوں کا کردار بہت مثبت رہا ہے ۔ انھی اسلامی تنظیموں کی ثالثی کی بنا پر دونوں نوجوان رہنماؤں کی جیل سے رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم، یہ امر قابل توجہ ہے کہ ثالثی کرنے والے صوفی سلسلوں کے مشائخ اور دینی جماعتوں کے قائدین کی اکثریت انتخابی گرما گرمی شروع ہونے سے قبل جیسا کہ عموماً اقتدار پسند معتدل موقف رکھنے والی دینی جماعتوں میں ہوا کرتا ہے، سابق صدر ’ماکی سال‘ کے ساتھ کھڑی تھی۔ تاہم، اس بار ان پر کھیل کے نئے قواعد غالب آ گئے، خصوصاً نوجوانوں اور یوتھ کی سطح پر اور خاص طور پر طوبی شہر میں جو مریدیہ سلسلے کا مرکز ہے اور پھر تاریخی انتخابی نتیجہ سامنے آیا۔انتخابات کا پہلا راؤنڈ ہی مقبول عام محب وطن نوجوان صدارتی اُمیدوار کے حق میں فیصلہ کن رہا، جس کی توقع دینی جماعتوں کے قائدین اور اسلامی حلقے بالکل نہیں کررہے تھے ۔

سیکولر ریاست نے ملکی سیاست میں عشروں تک ایک ایسا نظام مسلط کیے رکھا، جس میں اقتدار کے لیے باہم مقابلہ صرف سیکولر پارٹیوں اور سیکولر اشرافیہ کے درمیان رہے۔ دینی سوچ کی حامل اوراسلامی فکری قیادت بھی مشترکہ اجتماعی وژن تشکیل دینے میں ناکام رہی کہ وسیع عوامی پذیرائی کے باوجود ، صوفیانہ طریقوں ،دعوتی فاؤنڈیشنوں اور اپنے اپنے ثقافتی و سماجی پلیٹ فارمز کے ذریعے ، جمہوری طریقوں اور راستوں سے ریاستی نظام پر اثر انداز ہوکر اسلامی ایجنڈے کے نفاذ کو آگے بڑھا پاتی۔ اسی طرح ’اصلاح پارٹی برائے سماجی ترقی‘ بنانے کا بعض افراد کا تجربہ بھی کامیاب نہیں رہا تھا۔

مغربی تابعداری سے چھٹکارا  

تاہم، یہ دین پسند قائدین ہی کے افکار و نظریات ہیں اور انھی کی اُمنگیں ہیں، جنھیں اس وسیع و عریض قومی لہر نے اپنا لیا ہے۔اس لہر کی قیادت اب ایسے مقتدر قائدین کررہے ہیں جو انھی کے افکار ونظریات سے متاثر ہیں ۔ اب یہ ان کے افکار کی نمایندگی تو کرتے ہیں لیکن ان کی پارٹیوں، سلسلوں اور اداروں کی نمایندگی نہیں کرتے ۔انھی کے افکار تھے جنھیں نومنتخب صدر باسیرو، وزیراعظم سونکو اور ان دونوں کے حامیوں نے انتخامی مہم کے دوران زبان دی۔اسلام کا دفاع کرنا، عربی زبان کی خدمت اور اس کا فروغ ،ملک کے اقتدار اعلیٰ کی بحالی ،استعماری طاقتوں کی اقتصادی اور ثقافتی تابع داری سے گلو خلاصی ،خصوصاً فرانسیسی تسلط سے چھٹکارہ ،کرپشن کا خاتمہ، آزادیوں کا تحفظ، ترقی کو فروغ دینا اور عام سینی گالی کی زندگی میں بہتری لانا،قضیۂ فلسطین کے لیےکام کرنا___ ان کے منشور کے عنوان رہے۔

آج باسیرو اور سونکو کے سامنے بڑے چیلنج کھڑے ہیں اور کامیابی کے لیے ان میں سے چھ بڑے بڑے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ضروری ہے:اسلام،اقتدار اعلیٰ، آزادیاں، کرپشن کا خاتمہ، ترقی اورقضیۂ فلسطین۔اسی طرح سینی گال کی دینی جماعتوں اور اسلامی تنظیموں کے سامنے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح مذکورہ خواب کو واقعی حقیقت بنانے کے لیے اپنے آپ کو ایک مشترکہ وژن کے گرد اکٹھا اور منظم کرتے ہیں؟ اور ایک ایسے نئے نظام کے ساتھ کیسے اچھی ریلیشن شپ قائم کرتے ہیں جو وژن میں ان کے قریب تر ہے؟برسراقتدار پارٹی میں موجود نوجوانوں کے ساتھ اور آئینی اداروں کے ساتھ کس طرح تعلقاتِ کار قائم کرتے ہیں؟

عین ممکن ہے کہ نیا نظام سینی گال میں پہلے سے موجود اسلام پسندی کی لہر کو نئے آفاق سے ہم کنار کرسکے۔ ایک ایسا مسلم عرب ملک جو لمبے عرصے سے استبدادی جبر کا شکار رہا ہے اور جہاں اسلام ایک سوچ اور ایک نظریے سے آگے بڑھ کر ریاست کے ایوانوں میں پہلے کبھی داخل نہیں ہوسکا تھا، ایک ایسا ملک جس کی قوتیں اور جس کی پارٹیاں اسی کش مکش اور استبدادی نظام کے پیدا کردہ استیصالی نظام کی قیدی رہیں، کبھی بالادست قوتوں کی تابع دار اور ان میں انضمام کا شکارہوتی رہیں یا پھر غیر مؤثر اور غیر فعال رہیں۔ سینی گال اب آزادی کی حقیقی شاہراہ پر گام زن ہے۔ بہت سے خطرات، بہت سے چیلنج اور بہت سے امکانات کا ایک وسیع سلسلہ اس کے سامنے ہے۔