اُمِ ہانیہ


بھارت کی طرف سے اہل کشمیر سے وعدوں میں مسلسل خیانت اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو واضح طور پر نظر انداز کرنے کے نتیجے میں خطے میں جبر اور خوف کی کیفیت ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے ایک اہم پہلو کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر پر خصوصی اجلاس کا انعقاد خطے میں دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور یو این سیکورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے اقوام متحدہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے بھی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں بلدیاتی انتخابات کی بحالی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری کشمیر میں احتساب اور انصاف کے لیے دباؤ ڈالے تاکہ خطے کے تمام افراد کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

امریکی حکومت اور یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس قضیے کا واحد پُرامن حل یہ ہے کہ تنازعۂ کشمیر میں شامل تمام فریق انسانی حقوق اور تمام متاثرہ افراد کے حقِ خود ارادیت کو ترجیح دیں۔

خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سفارت کاری، بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پاسداری اور مذاکرات اور سمجھوتہ کے لیے مخلصانہ عزم ضروری ہے۔ ایک متوازن اور حقیقت پر مبنی نقطۂ نظر ہی مؤثر پیش رفت کا باعث بنے گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک اور اہل دانش مل کر کام کریں، تاکہ کشمیر کے لوگ آخرکار اس امن اور آزادی کا تجربہ کر سکیں، جس کے وہ حق دار ہیں۔

عالمی برادری کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور نقطۂ نظر کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انسانی حقوق کی کسی بھی درجے کی خلاف ورزی یا بنیادی آزادیوں سے انکار ناقابلِ قبول ہے۔ ایسی صورتِ حال کا مناسب قانونی اور سفارتی ذرائع سے ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی علَم بردار بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے لیکن ان کے خدشات پر کان دھرے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ کشمیر کی صورت حال کی پیچیدگیوں کو اس کے متنوع نقطۂ نظر اور تاریخی شکایات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے اس کو تمام متعلقہ افراد کی بہتری کے لیے حل کرنا چاہیے۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن (UNHRC) کی جون ۲۰۱۸ءاور جولائی ۲۰۱۹ء کی رپورٹوں میں کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور اس کے تمام متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی ایک جامع، آزاد اور بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن آف انکوائری کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

۲۴مارچ ۲۰۲۲ءکو ہیومن رائٹس واچ نے کشمیری عوام پر عائد سخت پابندیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے واشگاف طور پر کہا کہ ان کی آزادیٔ اظہار اور پُرامن اجتماع کو محدود کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی جابرانہ پالیسیوں سے کشمیریوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم نے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کی خصوصی قانونی دفعات کی بھرپور مذمت کی، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اسے فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

۲ ستمبر ۲۰۲۲ء کو، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے  بیوروکریٹس، سیاستدان، دانش ور اور میڈیا کے لوگ بھارتی حکومت کی جانب تشویش بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی پریشان کن تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ’جینوسائیڈ واچ‘ (Genocide Watch)کے بانی صدر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق، بھارت مبینہ طور پر ۲۰۰ملین مسلمانوں کی ’نسل کشی اور قتل عام‘ کی تیاری کر رہا ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم مبینہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں درخواست کی گئی ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ مذہبی اقلیتوں پر جاری حملوں کی وجہ سے ہندستان کو ’خاص تشویش کا حامل ملک‘ قرار دے۔ ہندستانی حکومت پر بغاوت کے قانون جیسے قوانین کے ذریعے تنقیدی آوازوں، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی آوازوں کو دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

یہ اعداد و شمار واقعی تشویشناک ہیں، جن میں جنوری ۱۹۸۹ء سے اپریل ۲۰۲۴ء تک  ۹۶ہزار۳ سو سے زیادہ اموات ہوئیں، جن میں ۷ہزار ۳سو ۳۳ حراستی اموات بھی شامل ہیں۔ شہری گرفتاریوں کی تعداد ایک لاکھ ۷۰ ہزار ۳ سو۵۴ تک پہنچ گئی ہے۔ ایک لاکھ ۱۰ہزار ۵سو۱۰ سے زیادہ گھر اور دکانیں تباہ ہوچکی ہیں۔ خواتین اور بچوں پر اس ظلم و زیادتی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ تقریباً۲۳ ہزار خواتین بیوہ، ایک لاکھ ۷ہزار سے زیادہ بچّے یتیم اور ۱۱ہزار سے زیادہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ رپورٹ ہندستان میں تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت کی واضح یاد دہانی کے طور پر کام کرنے کے لیے خبردار کرتی ہے، چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔

۲۰۲۳ء میں ہندستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی تشدد کے واقعات میں ۲۴۸؍ اموات ہوئیں۔ ان میں ۸۲ آزادی پسند، ۶۶ شہری اور ۱۰۰ بھارتی قابض افواج کے اہلکار شامل تھے۔ ہندستانی فوج صنفی بنیاد پر تشدد کو ہتھیار کے طور پر برت رہی ہے۔ اس طرح کشمیری عوام کی ہندستان کے قبضے سے آزادی کی خواہش کو ڈرانے اور دبانے کے ذریعے دبایا جارہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں ایک ہولناک واقعہ میں، کنان پوش پورہ میں تقریباً ۱۰۰ خواتین پر بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا، اور بٹوٹ میں ایک خاتون کو اس کے بچے کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

انسدادِ بغاوت کے لیے بنائے گئے قوانین نے بھارتی قابض افواج کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیے ہیں، جو ممکنہ طور پر معصوم کشمیریوں کے خلاف 'مظالم کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ۲۶۰ ’کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘ (CASOs) اور ’کورڈن اینڈ ڈسٹرائے آپریشنز‘ (CADOs) کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہندستانی افواج اور کشمیر کے آزادی پسندوں کے درمیان ۷۰ مقابلے ہوئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً ۱۳۸ شہری املاک کی توڑ پھوڑ اور تباہی ہوئی۔

مزید برآں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنوری سے دسمبر ۲۰۲۳ء تک انٹرنیٹ کی بندش کی متواتر مثالیں ہیں۔ اس طرح خطے میں مواصلات اور معلومات کے بہاؤ پر لگائی گئی سخت پابندیوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے لوگ انصاف کے حصول کے ساتھ تشدد اور جبر کے خوف سے آزادی کے حق کے مستحق ہیں۔

کشمیر میں نوجوانوں کو بلاجواز تفتیشی مراکز میں لے جایا جا رہا ہے اور شہریوں کو بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا سامنا ہے۔ کشمیری باشندوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک انتقامی کارروائی،  سزا اور کنٹرول کا طریقہ ہے، جسے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک منظم حربہ ہے، جو سول آبادی میں خوف پیدا کرنے اور قبضے کے خلاف مزاحمت کے جذبے کو کمزور کرنے کے لیے آزمایا جارہا ہے۔ کشمیریوں کو جھوٹے الزامات کے ساتھ نشانہ بنانے اور اجتماعی سزا دینے کے لیے ’نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی‘ (NIA) کا ظالمانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ غیر منصفانہ مہم، خوف اور ناانصافی کا ماحول پیدا کرتی ہے، حقِ خود ارادیت، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کو خاموش کر دیتی ہے۔ کشمیر کو آہستہ آہستہ ’روانڈا‘ جیسے انسانیت کُش خونیں ماحول کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہرباضمیر انسان پر لازم ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔آیئے، سب اس انصاف اور برابری کے مطالبے میں ایک ساتھ کھڑے ہوں۔