نک ریمر


اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی موجودہ نسل کشی واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکا و مغرب کی یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ سمیت اکثر عالمی ادارے فلسطینیوں کی نسل کشی کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے سے انکاری ہیں ۔ دوسری طرف یونی ورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر اس نسل کشی اور اس خونریزی سے نظریں پھیر لینے والی ’مغربی اکادمیہ‘ (اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ)پر لازم ہے کہ وہ غزہ میں جاری تباہ کن جارحیت کے خلاف ایک زبردست مذمتی تحریک کھڑی کرے۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ اپنی عقل و شعور، تمام تر علم، تحریک کے اثر کا ادراک، ترقی پسندی، حالات سے واقفیت، اور حقوق کے تحفظ کی بحثیں ملا کر یہ اصحاب علم ودانش ایک پوری کی پوری ریاست کے ملیامیٹ کرنے سے نہیں روک رہے ہیں۔ اس تباہ کاری نے غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے ڈھانچے کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا ہے اور اکا دمیہ اور طالب علموں کی نعشوں کے انبار لگا دیے ہیں، جن میں سے کئی ایک کے بے جان لا شے اب تک ملبے تلے دبے ہیں۔

اس غم زدہ کرنے والے ماحول میں دنیا کی مختلف یونی ورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے لگائے گئے ’غزہ یک جہتی کیمپس‘ میں یہ بات واضح طور پر نمایاں ہے کہ سیاسی شعور، حق کے لیے کھڑے ہونے کا عزم، اور صحیح غلط کی پہچان جیسے بنیادی اوصاف یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات میں، یونی ورسٹیوں کی انتظامیہ کے اہل کاروں اور ان کے اعلیٰ عہدے داروں سے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں ،جو بظاہر ان اصولوں کے مجاور بنے پھرتے ہیں۔ اور اب، جب اساتذہ کو آئینہ دکھایا جا رہا ہے،تو جوابا ً وہی علم و تحقیق کے دیوتا ان نہتے طلبہ پر تشدد کے لیے پولیس کو بلا لیتے ہیں۔

دیکھا جائے تو ان کا یہ رد عمل حیران کن نہیں ہے۔ پورے عالمِ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔یہ اسلحہ اور اس جیسے دیگر موضوعات پر تحقیق کو فروغ دیتے ہیں، جو نہ صرف جنگی جنون کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو بہتربنانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں اسرائیلی اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کے قیام کے ذریعے، اسرائیلی جارحیت کے حق میں کام کرنے والے اداروں کو دنیا بھر سے توثیق دلوانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ متحدہ ریاست ہائے امریکا اور فرانس میں لگائے گئے طلبہ کے احتجاجی کیمپس سے اُبھرنے والے رد عمل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے حکمرانوں کے فیصلوں کے علاوہ ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت اپنے اداروں میں فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز کو دبا رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ اسرائیل کی اپنی یونی ورسٹیوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی ہی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ترقی پسندی کے نام پر اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا بے نقاب ہوچکاہے۔ اس امر میں جس چیز کا کلیدی کردار ہے، وہ نظریے کی آڑ میں ڈالا جانے والا دبائو ہے۔ علاوہ ازیں اختیارات کا نا جائز استعمال اور دبائو کی سیاست بھی اسے بڑھاوا دینے والے عناصر میں شامل ہیں۔

اگرچہ مغرب ہی میں چند ایک تعلیمی اداروں میں اسرائیلی جارحیت پر مزاحمت کی کچھ جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، جیسے کہ ابرڈین، ٹورونٹو جیسی دیگر کئی یونی ورسٹیوں کی جانب سے کی گئی ’سامیت مخالفت‘ (Anti-Semitism )کی تعریف تسلیم کرنے سے انکار ،اسرائیل سے تعلقات جزوی طور پر منقطع کرنا ، جو کہ حال ہی میں یونی ورسٹی آف ٹورن، ناروے کی چار یونی ورسٹیوں ، اور امریکا میں پِٹزر کالج نے نافذ کیا ہے۔ یا پھر کولمبیا اور دیگر امریکی یونی ورسٹیوں کے منتظمین کے فیصلوں کے برعکس، آسٹریلیا کی یونی ورسٹیوں کا غزہ یک جہتی کیمپوں کو بند کرنے سے اب تک انکار۔ تاہم، ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے ’فلسطین یک جہتی کیمپس‘ پر ہونے والے شدید جبر اور مغربی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وائس چانسلروں، ریکٹروں اور صدور کی طرف سے اسرائیلی نسل پرستی کو مسلسل پیش کی جانے والے نظریاتی توثیق کے باوجود طالب علموں میں یہ مخالفت کم نہیں ہوئی۔

اگر یونی ورسٹیوں کے ان اعلیٰ عہدے داروں میں سے چند (یا بہت سے) یقینا صہیونی ہیں، یا صہیونیت نواز ہیں تو باقی اکثریت بھی واضح طور پر فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز دبانے کو محض ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے اور سمجھتے ہیں، جو ادارے کے سرپرست ہونے کی بدولت وہ خود پر خودبخود عائد سمجھتے ہیں۔فلسطینی موقف کے حامی مظاہرین کی خاموشی کو تنظیمی استحکام، صہیونی مخیر حضرات کوناراض نہ کرنے کی خواہش، یا تہذیب کے تصورات جیسے الفاظ کا ملمع پہنا کر اسے قابلِ قبول حقیقت کی شکل دے دی گئی ہے۔ ایسے جواز جو سینئر تعلیمی منتظمین کے ضمیر کو کسی بھی قسم کی اخلاقی ذمہ داری کو نظرانداز کرنے کا جواز دیتے ہیں، جسے بصورت دیگر اگر وہ محسوس کرتے تو یقینا خود کو تاریخ کے اوراق میں باطل کی فہرست میں موجود پاتے۔ اور تو اور، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنے عملے کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

تحفظ کی آڑ میں نسل کشی

 یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے داروں میں اپنے اداروں کے تحفظ کی بحث اب تحریک یک جہتی فلسطین کے خلاف کسی بھی حد تک تشدد کی پیمائش کے لیے گھڑا گیا جواز بن چکی ہے۔ یہ مطالبہ کہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کو صہیونیوں کے ’تحفظ‘ کے لیے دبایا جائے، اسی استدلال کی ایک مثال ہے، جو اسرائیلی ’تحفظ‘ کی ضرورت کے ذریعے غزہ کوملیا میٹ کرنے کا جواز پیش کرتی ہے۔ اسرائیلی یونی ورسٹیوں میں یہودی طلبہ کی حفاظت کے نام پر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جب کولمبیا یونی ورسٹی کی مصری نژاد صدر منوشے شفیق نے قانون نافذ کرنے والی فورس کو اپنے طلبہ کے خلاف بلایا، تو اس کا جواز بھی صرف تحفظ تھا۔آسٹریلیا میں، صہیونی تنظیمیں اس بنیاد پر ایک مشترکہ مہم چلا رہی ہیں کہ ’کیمپس یہودی طلبہ کے لیے غیر محفوظ ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ فلسطینیوں کے خلاف ’دوسرے نکبہ‘ کا جواز بھی پیش کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونیوں اور ان کے ہمدردوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے نکات میں سے ایک مغربی فلسطین کے حامیوں، خاص طور پر ہم جنس پسندوں کو غزہ جانے کی دعوت دینا ہے، جہاں ان کے خیال میں، حماس کی طرف سے انھیں تیزی سے نکالا جائے گا۔

ان دعوؤں میں موجود خطرات کے تصور کی جانچ کی جانی چاہیے۔اسرائیلی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے، نیو لبرل یونی ورسٹی میں صہیونی اور ان کے اتحادی ’اسرائیلی یا یہودی تحفظ‘ کا ایک خود ساختہ تصور مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ’تحفظ کا تصور‘ ایک احساس کے طور پر — ایک ایسا جذبہ ہے جسے ایک علم کا پرستار تعلیمی اداروں سے حاصل کرنے کاپابند ہےبشمول ان دیگر مصنوعات کے جو وہ تعلیم کے نام پر خرید رہا ہے ۔ اس تصور کے مطابق تحفظ ، یونی ورسٹی کے برانڈ کے لیے ایک اور سیلنگ پوائنٹ بن جاتا ہے، جو کہ طالب علم صارف اور خریدار کو مطمئن کرنے کے لیے ایک پیداوار کی مانند ہے جو کہ کیمپس میں دن کے دوران ایک شاپر میں مفت آئس کریم اور کافی کے ساتھ دی جاتی ہے۔

کسی فرد کی شناخت صرف اسی صورت میں برقرار رہتی ہے، جب کہ شناخت دہندہ کسی ایسے معاشرے کا رکن ہو جس میں قوانین کی عمل داری کی شرائط وضع شدہ ہوں ۔ گویا ، تحفظ مکمل طور پر انفرادی احساس کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی طور پر یہ ان شرائط اور قوانین پر مبنی ہونا چاہیے، جن کے ذریعے لوگ اجتماعی طور پر محفوظ رہ سکتے ہوں۔ وہ حالات کہ جن میں ایک معاشرہ زندہ اور خوشحال ہو سکے۔ سیاسی جبر، فرعونیت ، بہتان اور جبری گرفتاری کا ’تحفظ کے نظریے‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی ایک ایسا معاشرہ جس میں نسل کشی کو غلط قرار دینےکی جرأت ایک جرم ہو جس کے لیے اسے نشانہ بنایا جاتا ہو، اور اس کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جاتا ہو ،وہ ترقی کی منازل کبھی طے نہیں کر سکتا۔

غزہ کے باسیوں کی نسل کشی پر خوش ہوتے صہیونی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ درحقیقت ان کی کمیونٹی محفوظ نہیں ہے۔ فلسطین کے حامی کیمپ کی عالمگیریت کے خلاف صہیونی چاہتے ہیں کہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ اُن کی یک طرفہ یلغار کا جواز اور ان کے تحفظ کا انحصار ہماری خاموشی پر ہے۔

فلسطین کی آزادی کے حامیوں کو ’سامیت دشمن‘ اور دہشت گردوں کے حامی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا میں شعور بڑھنے کی وجہ سے صہیونیت نواز اب اپنی سرگرمیاں کھلے عام نہیں انجام دے سکتے ۔لہٰذا فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کی سیاست پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے، صہیونی عوامی طور پر دلیل اور جواب کے میدان سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ چونکہ جذبات کی بحث کوئی نہیں جیت سکتا، اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ فلسطین کے حق کے علَم برداروں پر 'غیرمحفوظ ہونے کا الزام لگا دینے سے ان کے لیے اپنے سیاسی موقف کا دفاع کرنا آسان ہو جائے گا۔

ایک ایسی شناخت جس کو نسل کشی کی مخالفت سے خطرہ لاحق ہو، اس کا انصاف کے ساتھ تعلق ہرگز کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ’تحفظ ‘کو اپنے فیصلہ کن کارڈ کے طور پرلہرانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صہیونیت نہ صرف ایک تشدد پر مبنی نسل پرست اور قتلِ عام کرنے والا نظریہ ہے، بلکہ فکری طور پر بھی ایک جاہلانہ تصورہے۔

صہیونیت کے ہاںمضبوط دلائل کی تو کمی ہو سکتی ہے، لیکن جھوٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ البتہ ہمیشہ یہ شور و غل ضرور سنائی دیتا ہے کہ ’’فلسطین کے حامی سام دشمن ہیں، غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ نسل کشی نہیں ہے، اور اسرائیل نسل پرستی پر یقین نہیں رکھتا‘‘۔ لیکن جب اختلاف کیا جاتا ہے، تو گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے عہدے داروں کو برطرف کر دیا جاتا ہے اور طلبہ کو اداروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مکوئیر ی (Macquarie) کے دلیر اور ذہین فلسطینی وکیل عبدالفتاح، اور سڈنی یونی ورسٹی کے علومِ سیاسیات کے ممتاز پروفیسر جان کین، اس وقت انھی وجوہ کی بناپر شدید حملے کی زد میں ہیں۔ کیمپس تو امن کے شہر ہیں مگر وہ طالب علموں اور مایہ ناز استادوں کے لیے کتنے محفوظ رہ گئے ہیں ؟ کیا سامیت نوازوں نے کبھی اس پہلو پر سوچا ہے؟

بائیکاٹ بطور تحفظِ جان

ایک طرف تو مغربی یونی ورسٹیوں کے مدبرانہ، آزادانہ، عقلیت، لبرل، ترقی پسندی اور کثیرجہتی بحثوں جیسے تصورات ہیں۔ اور دوسری طرف ہتھیار بنانے والوں، اسرائیلی لابی کے مہروں اور فلسطین دشمن تجزیہ کاروں کے ساتھ تعلقات کی استواری ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے لیے مغرب میں پائی جانے والی حمایت کے حوالے سے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مغربی یونی ورسٹیوں کے یہ تصورات کوئی خاص فیصلہ کن کردار نہیں ادا کر تے۔یہ حقیقت تو بالکل واضح ہے کہ مغرب کی تاریخ خونریز نوآبادیاتی نظام اوردیگر جنگوں ، نسل کشی، حراستی کیمپ، تشدد، بے لگام ماحول ، انسانی تذلیل اور استحصال سے بھری پڑی ہے۔لوگوں کے درمیان تعلقات کے کسی بھی منصفانہ یا معقول تصور میں  بار بار مداخلت ہمیشہ سے مغرب کا خاصہ رہا ہے۔البتہ جزوی طور پر مغرب اور اسرائیل میں یکساں طور پر یونی ورسٹیوں میں ہونے والی نظریاتی سرگرمیوں کی بدولت لبرل معاشرے کے نظریاتی تصورات کی فضا میں مغرب کی نگرانی میں بنایا گیا 'قوانین پر مبنی ضابطہ ' پھر سے اُڑان بھر رہا ہے۔

مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کی مزاحمت کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے اداروں کو ان یونی ورسٹیوں سے دور کیا جائے جوجبری قبضے، نسل پرستی اور نسل کشی کے نظام کی آلہ کار ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فلسطین کمیٹی برائے اکیڈمک اینڈ کلچرل بائیکاٹ آف اسرائیل (PACBI) کے تحت ۲۰۰۴ء سے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کو ادارہ جاتی تعلیمی بائیکاٹ میں شامل کیا جائے ، جیسا کہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔جو دیگر سول سوسائٹی ایسوسی ایشنز اور اکیڈمک ٹریڈ یونینوں کی طرف سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۱۸ء سے مسلسل شائع ہونے والے اسرائیلی اخبار ہاریٹز (Haaretz) کے تازہ شمارے میں بائیکاٹ کے اقدامات پر اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے خوف و ہراس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، اور بہت سے مضبوط شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ یہ بائیکاٹ اسرائیل میں اعلیٰ تعلیمی اداروں پر فی الواقع دباؤ ڈال رہے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے پھیلنے والی وحشت کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے بائیکاٹ کی اپیل غیر مؤثر معلوم ہوتی ہو۔ ایسی صورتِ حال میں تعلیمی بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دینا، جب کہ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اعلیٰ تعلیم کی یہ بحث بے سود لگنے اور اپنی سیاسی نااہلی کا ملبہ اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ کے سر پر لادا جائے۔ جب ایک خونریز نسل کشی جاری ہو ، تو ایسی صورت میں یقیناً مزید ٹھوس مزاحمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ادارہ جاتی اکادمی بائیکاٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود، اب بھی مغربی ماہرینِ تعلیم کی اکثریت کے سامنے یہ تعداد ایک اقلیت ہی سمجھی جارہی ہے۔ ماہرین تعلیم کے بائیکاٹ سے انکار کو کسی حد تک متوسط ​​طبقے کی پیشہ ورانہ مہارت کو برقرار رکھنے کی روش کے شاندار فتنوں کے صرف ایک نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں حد سے زیادہ احتیاط، سیاسی خاموشی و موافقت شامل ہیں۔ تاہم، بعض اوقات یہ ماہرین تعلیم کے پیشہ وری کی وجہ سے پیداہو جانے والی بدگمانی کا نتیجہ بھی ہوتا ہے، جو پرولتاری مقبولیت اور ادارہ جاتی احترام و خودمختاری میں کمی کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے۔ معاصر یونی ورسٹیوں میں ماہرین تعلیم کو بطور غیر ضروری استعمال کے تدریسی یا تحقیقی پرزے گرداننے کا سلوک، اس بات پر کم ہی حیران کرتا ہے کہ وہ ماہرین اپنے اداروں پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی صلاحیت کو کم تر سمجھتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ تباہی اس المناک نتیجے کو نمایاں کرتی ہے۔ مغربی یونی ورسٹیوں کے عملے میں فلسطین کے لیے حمایت میں معمولی اضافہ ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے مقابلے میں کوئی بہت باوزن چیز نہیں ہے، تاہم قابلِ قدر ضرور ہے۔

اکادمی بائیکاٹ نہ صرف اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور اسرائیلی معاشرے پر دباؤ ڈالنے کا ایک ضروری قدم ہے، بلکہ یہ خود مغربی یونی ورسٹیوں کی اسرائیلائزیشن کے خلاف مزاحمت اور اس خوش فہمی کو چیلنج کرنے کا بھی ایک موقع ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہمیشہ اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔ لیکن جب بھوک، بیماری، بے سر و سامانی اور گرتے ہوئے بموں کی دہشت غزہ کے باشندوں کو اپنے مرنے والوں کا سوگ منانے تک سے بھی روک رہی ہو، تو ایسے میں علمی تجزیے کو ترجیح دینا بہت معیوب ہے ۔ یہ کام اور بھی زیادہ معیوب ہے کہ جب زیر بحث تعلیمی سرگرمی اسرائیلی یونی ورسٹیوں کی سرپرستی میں یا ان کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جا رہی ہو۔

اگر اور کچھ نہیں تو، اکادمی بائیکاٹ کی قانونی شرائط کے مطابق، اسرائیلی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعلقات کی معطلی اس دکھاوے کو چیلنج کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ دنیا کی غلطیاں سرکاری طور پر منظور شدہ کسی لبرل منصوبے کے تحت ٹھیک کی جا سکتی ہیں ۔اس میں مغرب اور اسرائیلی یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ عہدے دار، ادارے کے رکن ہونے کے ناتے یکساں پابند ہیں۔ مغرب میں یہ امر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی سے زیادہ کسی بھی ایسے فرد کے لیے خود کو بچانے کے لیے بھی ایک نا گزیر عمل ہے، جو یونی ورسٹیوں کو ریاستی جبر سے آزاد، حقیقی سیاسی تنقید کے مراکز سمجھتا ہو۔

(ماخذ: Overland Magazine، آسٹریلیا)